پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

”’اپنے کہیں بہت اندر میں جانتا ہوں
کہ میں دنیا کا بدقسمت ترین انسان نہیں ہوں! میری
رگوں میں جوانی بہتی ہے ا ور میں ہزاروں دفعہ سب
کچھ دوبارہ سے شروع کر سکتا ہوں!“
دوسری بارتین ماہ سے زیادہ دنوں پر محیط یہ قید بالآخر اس کے ہسپتال سے بھاگ جانے پر اختتام پذیر ہوئی۔ کچھ دن اِدھر اُدھر کی دھول چاٹ اور فاقے کاٹ کر جب پائلو گھر لوٹتا ہے تو پیڈرو اور لیگیا کو سرنگوں پاتا ہے۔بیٹے کی گم شدگی کی اذیت ان کی بوڑھی ہڈیوں سے ضد کو نچوڑ چکی ہوتی ہے۔اس جدائی نے ان کو مجبور کر دیا کہ وہ بیٹے کی کامیابی کو اس کی زندگی پر قربان کریں۔ پائلو کی مرضی کو تسلیم کرتے ہوئے وہ گھریلو زندگی کے سخت رویوں کو نرمی میں بدل دیتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے پائلو کی زندگی کی ایک مشکل آسان ہو کر اسے پُرسکون اور مطمئن زندگی بخشتے ہیں۔ وہ دوبارہ پوری توجہ سے لکھنے لکھانے کی کوشش اور تھیٹرکی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
لکھاری بن جانے کاخواب ابھی تعبیر سے دور تھا مگر تھیٹر کی دنیا اپنے در پائلو پر وا کر چکی تھی۔ پائلو بچوں کے ڈراموں سے مقبول ہو کر باقاعدہ تھیٹر کا رائٹر ، ایکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بننے کا سفر اکیس سال کی عمر تک مکمل کرتا ہے اور کچھ عرصے میں SBAT (Brazilian Society of Theatre Writers) کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔
پائلو کا اترتا چڑھتا کیرئیر دھکے کھاتے کھاتے نشیب و فراز کو پار کر جاتا ہے۔پائلو کی انسٹھ سالہ زندگی کا مختصر جائزہ لیا جاے تو بیس سال کی عمر اُن گھمبیر مشکلات اور بہترین کامیابیوں کے لیے خاصی کم تھی اور ان کامیابیو ں کی دستک اس کی زندگی کے دروازے پر سنائی دینے لگی تھی۔مگر بیس سال کی عمر میں جب جذبات اور خواب اپنے عروج پر ہوں، آس پاس کے ہم عمر لوگ ڈاکٹر انجینئر بن کر خود کفیل ہو چکے ہوں وہ اپنی ذاتی ضرورتوں کا بوجھ بھی بہت مشکل سے پورا کر پاتا تھا۔ایسی تیز رفتاری سے چلنے کی جنونی عمر میں زندگی میں ملنے والی کامیابیاں اسے ناکامیوں کی صورت دکھائی دیتی تھیں اور وہ اپنی حالت بہتر سے بہتر بنانے کے خواب دیکھتا تھا۔ اس کے خوابوں کی اڑان زندگی کے حقائق سے بہت اونچی تھی اور یہ بھی سچ تھاکہ کامیابی کے پلڑے میں شوق اور جنون جتنا بھی انمول ہو کمائی کے بغیر بے مول ہی رہتا ہے۔
پائلو کی زندگی میں صرف کیرئیر کی ناکامیاں ہی نہ تھیں بلکہ صنفِ مخالف میں مقبول رہنے کی خواہش اس کی بچپن کی بدصورتیوں کی وجہ سے خود کو منوانے کی ایک لاشعوری کوشش اور ماں کے اندیشوں کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کی ایک شعوری کوشش بھی۔ اس کے مطالعہ کا دیا ہوا اعتماد اسے صنف مخالف میں مقبول بنانے لگا تھا اگرچہ ان میں سے اکثر کے سمجھدار والدین اس بدصورت اور ناکام ایکٹر کو پسند نہ کرتے تھے۔ نوجوانی کے معاملات اور گرل فرینڈز کے دئیے ہوئے دکھ بھی اس کی زندگی کی بڑی اُداسیوں اور غموں کی ایک وجہ تھے۔
ایسے ہی ناکامی کے ایک جذباتی اور کمزور لمحے میں پائلو افسردگی اورمایوسی کے عالم میں اپنے کمرے میں توڑ پھوڑ کربیٹھتا ہے اور نتیجے میں زبردستی پکڑ کر تیسری بار نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس کئے گئے اس کے پہلے معائنے سے اس کی فائل میں لکھی گئی یہ رپورٹ ”شیزوفیزینیا کی گنجائش ہے۔“ اس کی ہر حرکت اسے بار بار گھیر کر اسائلم کے دروازے پر لے آتی ہے۔ جہاں سے پائلو کو ایک بار پھر فرار ہو کر ہی واپس اپنی دنیا میں آنا پڑتا ہے۔بالآخر قسمت کی ایک مہربانی سے چوتھی بار اس کے خراب روئیے اور غصے کا پالا ایک نئے شفیق ڈاکٹر سے پڑتا ہے، جو پائلو کو ہسپتال داخل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور یوں آخرکار نفسیاتی ہسپتال کی راہداریوں سے مستقل رہائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ اگرچہ نوجوانی کے فوبیاز کی وجہ سے نفسیاتی ڈاکٹرز سے اس کا تعلق ساری عمر چلتا رہا ۔
1969 میں اپنی گرل فرینڈ ویرا(Vera) کے ساتھ مل کے کر پائلو نے بالغوں کے لیے اپنا پہلا ڈرامہ O APOCALYPSE ایک ڈرامہ نگار اور ڈائریکٹر کے طور پر پیش کیا، جو نہ صرف ان کی سب رقم ڈبو بیٹھا بلکہ اگلے دن کے اخبارات پر یہ ڈرامہ اک سیاہی بن کر اترا۔ہر جگہ تنقید کا نشانہ بننے والا یہ ڈرامہ کچھ ہی دنوں میں سٹیج سے اتر کر پائلو اور ویرا کونہ صرف خاصے مالی نقصان میں چھوڑ گیا بلکہ ایک ایسی چیز بھی دے گیا، جو آنے والی کامیاب زندگی میں بھی وفا نبھانے والی تھی ۔ یہ تھی نقاد کی سنگدل اور ظالمانہ تنقید جس نے اس کا پیچھا کامیابی کی انتہاﺅں پر بھی نہ چھوڑا۔ویرا کے مجبور کرنے پر پائلو لاءپڑھنے کے لیے داخلہ لیتا ہے مگر اپنی متزلزل عادت کی بنا پر یہ سفر بھی رستے میں ہی چھوڑ دیتا ہے۔
غیر مناسب حالات، والدین کی حوصلہ شکنی اور مدوجزر کا شکار زندگی کسی بھی شخص کو گھیرگھار کرمنشیات کے دروازے پر لا سکتی ہے۔ناکامی ¿ قسمت سے لڑتا بھڑتا پائلو بھی اس زہر تک جا پہنچتا ہے ۔ منشیات کے دھویں میں غم دوراں اور غم جاناں بھلانے کی خواہش بھی اس سے اس کے لکھاری بننے کے خواب کو جدا نہ کرسکی اور مشہور مصنف بننے کا شوقین پائلو نشہ کے اثرات تک درج کیے جاتا ہے۔ منشیات اس کے الجھے دماغ کے لیے تریاق ثابت ہوتی ہے اور وہ عام حالات سے بڑھ کر لکھنے لکھانے پر توجہ دیتا ہے۔ وہ 1970ءمیں سٹیج کے لیے کچھ ڈرامے لکھتا اور پروڈیوس کرتا ہے۔تھیٹر ورکشاپس میں حصہ لیتا ہے ، شاعری اور لٹریچر کے مقابلوں میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ایک ڈرامہ A Revolta da chibata۔۔ نے خاصی کامیابی بھی حاصل کی۔اخباروں اور رسالوں میں پائلو کا تذکرہ اچھے الفاظ میں آیا اور برازیل کے بڑے بڑے نقادوں نے اس ڈرامے کو سراہا ۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!