وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

کسی روز جب وہ خود میں مگن جھولے پہ بیٹھے ہوئے بے اختیار دھیرے سے مسکاتی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اس کے مسکرانے کی کیا وجہ ہو گی؟
یہ قدرتی بات ہے کہ اپنے پسندیدہ شخص کے بارے میں سب کچھ جاننے کو جی چاہتا ہے۔ اسے لے کر میں سراپائے سوال بن گیا ہوں۔
’’وہ کیا سنتی رہتی ہے؟وہ کیا سوچتی ہے؟وہ کیا چاہتی ہے؟ وہ کسے چاہتی ہے؟وہ کیوں مسکراتی ہے؟وہ کیوں اداس ہو جاتی ہے؟کیا اس نے اپنے دل کے موسم سے کبھی کسی کو روشناس کیا ہو گا؟‘‘
پتا نہیں ان سوالوں کے کیا جوابات ہیں اور پتا نہیں میں کبھی جان بھی پاؤں گا یا نہیں مگر ایک اٹل حقیقت یہ ہے کہ میں روز اسے دیکھتا ہوں اور جب میں اسے دیکھتا ہوں تو کسی اور کو دیکھنے کو من نہیں کرتا۔
بعض اوقات وہ گھنٹہ بھر اپنے آپ میں مگن جھولا جھولتی رہتی ہے۔
کمر سیدھی رکھے سر اوپر اٹھائے جب آنکھیں بند کیے وہ تیز جھولا جھولتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی مغرور شہزادی ہو اور اپنے سر پہ نادیدہ تاج سجائے ہواؤں میں اڑ رہی ہے۔ تب اس کے چہرے پہ اطمینان اور خوشی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ سر اٹھانے سے واضح ہوتا اس کی تھوڑی کا خم مجھے بہت خوبصورت لگتا ہے۔
اس کی پرتجسس نگاہیں ہر سو بھٹکتی رہتی ہیں۔ مجھے تو وہ خود بھی کوئی بھٹکی ہوئی روح لگتی ہے جو اپنے اصل کی تلاش میں صدیوں سے ماری ماری پھر رہی ہے۔
اور کسی دن جب وہ سر گرائے آہستہ آہستہ جھولا جھولتے ہوئے ہاتھ گود میں رکھے پتھر کی مورت بنی بیٹھی ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے دل سمیت سب بازیاں ہار آئی ہے۔ تب ہر سو یاسیت اور دبیز خاموشی کا پہرہ ہوتا ہے۔ اس کی گہری آنکھوں میں کہر کی طرح چھائی ویرانی مجھے اتنی تکلیف دیتی ہے کہ میرا دل اس کی خاطر کٹ کے رہ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی بجھی ہوئی جوت، سپاٹ چہرہ اور پورے وجود میں رواں خون کے ساتھ بہتی اداسی انہونی داستانیں سناتی ہے۔ اس کا ہر رنگ اور انداز نرالا ہے۔ کبھی اتنی شوخ و چنچل اور زندگی سے بھرپور اور کبھی دکھ بھری ادھوری داستان۔
بعض اوقات وہ مجھے ایک کھلی کتاب کی مانند دکھتی ہے، روزِ روشن کی طرح ایک ایک ورق عیاں ہوتا ہے اور کبھی بے انتہا پراسرار، ایک گہرے راز کی طرح پوشیدہ۔
ساری دنیا کے راز اور پہیلیاں ایک طرف اور حضرت انسان ایک طرف۔
خدا جانے اس کے کتنے روپ ہیں۔ لیکن اس کے جتنے بھی روپ میں نے دیکھے ہیں، وہ سب مجھے ازبر ہو چکے ہیں اور آپ سے کیا چھپانا کہ مجھے اس کا ہر روپ ہی سہانا اور دل کے انتہائی قریب محسوس ہوتا ہے۔
٭…٭…٭

آج کی ساری شام اس نے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر گزاری۔ ان کے قہقہے، بھاگنے دوڑنے، جوش سے چیخنے چلانے کی تیز آوازیں ماحول کا سکوت تار تار کرتی رہی ہیں۔ کون تھا جو ان بے فکری سے ہنستے مسکراتے چہروں کی طرف متوجہ نا تھا۔
پہلے کرکٹ، پھر بیڈمنٹن، اس کے بعد تھوڑی سی سائیکلنگ، پھر پٹھو گول گرم، سارے کھیل انھوں نے آج شام ہی کھیل ڈالے ہیں۔ اسے یوں زندہ دلی سے اچھلتے گودتے دیکھ کون کہے گا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو کل کی ساری شام یاسیت سے چپ سادھے جھولے پہ بیٹھی رہی تھی۔
اس کی نگاہ حسبِ معمول مجھ پہ ٹھہری تھی۔ ٹکٹکی باندھے وہ مجھے دیکھتی رہی، ہر شاخ، ہر پتہ، ڈالیوں پہ بیٹھے پرندے مگر ان نگاہوں میں اداسی کا کڑا پہرہ تھا اور ان کی چمک یکسر مفقود تھی۔ وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس کے ہونٹوں پہ بھولے سے بھی مسکان نہیں آئی تھی۔
ہاں! وہ وہاں ہو کر، میرے عین سامنے ہو کر بھی وہاں نہیں تھی۔ اس کا وجود تو وہاں تھا پر دل، سوچیں اور دھیان کہیں اور ہی تھا۔ میری پہنچ سے کہیں دور اور میرے گمان سے کہیں باہر۔
میں اب بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ انسانوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی۔ ان کے دل پہ کتنی قیامتیں ٹوٹتی ہوں گی جب ان کا کوئی عزیز از جان پاس ہو کر بھی پاس نہیں ہوتا۔ انہیں دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا، چاہتا بھی نہیں اور نا ہی محسوس کرتا ہے۔
٭…٭…٭
صبح کا آغاز ایسا ہو گا، میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ صبح سویرے ہی وہ بچوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی سفید گاڑی میں آبیٹھی۔ ڈرائیور نے گاڑی میں ایک بیگ اور چیزوں سے پھولے ہوئے کچھ شاپنگ بیگز رکھے ہیں۔
کیا وہ جا رہی ہے؟ میں ورطہ حیرت ہوں۔
لیکن یہ وہ گاڑی تو نہیں جسے چلا کر وہ یہاں آئی تھی۔ وہ گاڑی تو ابھی بھی میرے سامنے شیڈ کے نیچے کھڑی ہے۔
آہ! جب ہم کسی سے مانوس ہوتے ہیں تو ان سے جڑی چیزیں بھی اپنی اپنی لگنے اور یاد رہنے لگتی ہیں۔ گاڑی چل پڑی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ مجھے گم صم چھوڑ کے وہ چلی گئی۔
دو دن میں نے انتظار کی سولی پہ اس کی واپسی کی راہ تکتے گزارے۔ اس کی غیر موجودگی میں تنہائی کا احساس شدت اختیار کر گیا اور پھر گہری ہوتی رات میں گاڑی کی تیز ہیڈ لائٹس دیکھتے ہی میں کِھل اٹھا۔
موبائل کان سے لگائے وہ گاڑی سے اتری۔ وہ تھکی ہوئی لگ رہی ہے اور نجانے کس سے فون پہ بات کر رہی ہے۔ ایک اچٹتی نگاہ بھی اس نے ہماری طرف نہیں اچھالی اور اگر دیکھتی بھی تو اسے گھپ اندھیرے کے سوا اور دکھتا بھی کیا؟
میرے سکون کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہم میں واپس آ گئی ہے۔ اس کا آس پاس ہونا میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ جب تک وہ یہاں ہے، میں اس کے ساتھ ہر پل جینا، مسکرانا اور اداس ہونا چاہتا ہوں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

وادان — خدیجہ شہوار

Read Next

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!