وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

ہفتے میں دو بار عصر کے قریب بچوں کے ساتھ باوردی کوچوان والے تانگے میں سوار ہو کے وہ شاید کلب جاتی ہے۔ کبھی اس نے بال کھلے چھوڑ رکھے ہوتے ہیں تو کبھی انھیں نفاست سے جوڑے میں باندھا ہوتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ وہ معمول سے ہٹ کے اچھے سے تیار ہوئی ہوتی ہے۔
اس کی غیر موجودگی میں شام کا روپ کملا جاتا ہے اور ویرانی کا راج ہوتا ہے۔ رات گہری ہونے سے پہلے تانگے میں جتے خچر کے ٹاپوں کی سکوت کو چیرتی آواز ان کی واپسی کی نوید سناتی ہے۔
وہ جس طرح ہلا گلا کرتی جاتی ہیں، اسی طرح ہلا گلا کرتی واپس آ جاتی ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسی ڈھلتی شام میں زندگی لوٹ آئی ہو۔
اسے گھوڑے بہت پسند ہیں اور ان کے ساتھ وقت بِتانا بھی۔ جب بھی وہ واک کے لیے نکلتی ہے تو سیدھی گھوڑوں کے پاس جا کھڑی ہوتی ہے۔ اسے اپنے قریب آتا دیکھ ایک ایک کر کے وہ سب اس کے قریب آ کھڑے ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آپس میں راز و نیاز کر رہے ہیں۔
اس طرح دار کو بلاشبہ سب کچھ پسند ہے اور ہمیں سر تا پا صرف وہ۔
٭…٭…٭





نیلے آسمان کو ہلکے سرمئی بادلوں نے خوبصورتی سے ڈھانپ رکھا ہے اور تا حد نگاہ اک کہر سی چھائی ہوئی ہے۔ موسم دیکھ کر وہ کِھل اٹھی اور آن کی آن میں جھولے پہ آبیٹھی۔
اس کے گیلے کالے بال کھلے ہیں جنہیںں اس نے بائیں کندھے سے گزار کے سامنے ڈال رکھا ہے۔ بال ہوا سے اڑ رہے ہیں۔ وہ بھی حسین شام کا ہی حصہ لگ رہی ہے بلکہ مجھے کہنے دیں کہ اس کے آنے سے سرمئی شام کی دلکشی میں چار چاند لگ گئے ہیں۔
پتا نہیں اس کے دل میں کیا سمائی اور وہ جھولے سے چھلانگ لگا کے نیچے اتر آئی۔ اس کے قدم میری طرف اٹھ رہے رہیں اور میں ورطۂ حیرت ہوں۔
’’کاش وہ میرے پاس آئے۔‘‘ بے ساختہ خواہش میرے دل میں جاگی۔
دور سے دکھنے والے پیارے جب قریب آتے ہیں تو کیا تماشا ہوتا ہے، آج میں سمجھ گیا ہوں۔ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر میری چھاؤں میں وہ کیا آ کھڑی ہوئی، میری تو دنیا ہی تھم گئی۔ دور سے وہ جتنی دلکش لگتی ہے، قریب سے اس سے بھی زیادہ دلکش معلوم ہوتی یا شاید جب کوئی نگاہوں میں سما جاتا ہے تو اس کے سوا کوئی اور بھاتا ہی نہیں۔
اس نے پر شوق نگاہوں سے بغور میرا جائزہ لیا۔ میری چھاؤں میں کھڑی وہ گراؤنڈ نما اصطبل میں دوڑتے بھاگتے مستیاں کرتے گھوڑوں کو بہت فرصت سے بغور دیکھتی رہی ہے اور میں بس اسے۔
یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے آج میری تپسیا مکمل ہو گئی ہے۔
٭…٭…٭
آج موسم بے حد حسین ہے۔ سردیوں کی پہلی بارش نے موسم بدلنے کی نوید سنا دی ہے۔ گرجتے بادل، ٹھنڈی ہوا، بارش کی برستی بوندیں، مٹی کی سوندھی خوشبو، اٹکھیلیاں کرتے گھوڑے اور جھولا جھولتی وہ… یہ ایک مکمل منظر ہے۔
جیسے جیسے بارش کی بوندیں تیز ہو رہی ہیں، اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ تیز ہوتی بارش کی بوندیں بھی اسے جھولا چھوڑنے پہ مجبور نہیں کر سکیں۔
خالی ویران آنکھوں سے دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے وہ کسی اور جہاں میں ہے۔ خاموشی کی زبان جب سنائی دیتی ہے تو سب پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس کی خاموشی، اس کا خالی پن، اس کا کرب اب مجھے چیر رہا ہے۔
’’کاش میں اس کی خوشی، اس کا سکون ڈھونڈ کے لا سکتا۔‘‘
بارش کی تیز بوندیں اسے بھگو رہی ہیں، ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے اسے پڑ رہے ہیں مگر وہ ہر شے سے بے نیاز مجسمہ بنی کالی ڈائری کو گود میں رکھے آسمان کو گھورتے ہوئے جھولا جھولتی رہی ہے۔
مجھے یوں لگا ہے جیسے اس کی آنکھوں کے کٹورے نمکین پانیوں سے بھر گئے ہیں۔
ایک کرب کے عالم میں اس نے آنکھیں میچ لیں ہیں اور بڑی دیر بعد جب کھولیں تو اپنی کھلی ہتھیلیوں کو دعا کے انداز میں پھیلا کر لکیروں کے جال میں الجھ گئی۔
میں سوچتا ہوں کہ پتا نہیں جس لکیر کی اسے تلاش ہے وہ اس کے ہاتھ میں ہے بھی کہ نہیں اور یہ کیسی بات ہے کہ جو ہمیں شدت سے چاہیے ہوتا ہے، جسے ہم جا بجا ڈھونڈتے ہیں، جو ہمارے دل اور دھیان میں بستا ہے وہ اکثر اوقات ہماری لکیروں میں ہوتا ہی نہیں۔
٭…٭…٭
اسے دیکھتے ہی دیکھتے موسم بدل گیا۔ اندر کا بھی اور باہر کا بھی۔ ہوا کے بہاؤ میں تیزی اور خنکی آ گئی ہے۔ اس کے نازک وجود کے گرد دوپٹے کی جگہ گرم شال اور بچیوں کے یونیفارم کے اوپر ہرے سویٹر کا اضافہ ہوگیا ہے۔
آج میں نے اسے کئی دنوں بعد سفید یونیفارم میں ملبوس بچیوں کو لیے منہ اندھیرے باہر آتے دیکھا ہے۔ ٹھنڈی ہوا، درختوں پہ ادھر سے ادھر اڑتی چمگاڈروں کی کانوں میں چبھتی آوازیں اور ان سب کے بیچ چاندنی کی مورت بنی وہ۔
تانگہ چلتے ہی وہ غڑاپ سے گھر کے اندر گم ہو گئی ہے اور میرے اندر ڈھیروں سکون اتر گیا کہ بچیوں کی غیرموجودگی میں کاموں سے فارغ ہو کرڈھلتی دوپہر میں وہ آرام سے اپنا فارغ وقت جھولا جھولتے ہوئے ہمارے نام کرے گی۔ جتنا وقت وہ کانوں میں ہینڈز فری لگائے اپنی ڈائری پہ کچھ لکھے گی، اتنا وقت ہم اس کے دیدار سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔
سردی دبے پاؤں دروازے پہ آکھڑی ہوئی ہے۔ سورج کو تو بادلوں نے کب کا ڈھانپا ہوا ہے۔ میرے حساب کے عین مطابق موسم کی رنگینی میں اضافہ کرتی وہ جھولے پہ آبیٹھی ہے۔ اس کے پاؤں میں سنیکرز کے ساتھ سوکس اور کندھوں پہ اورنج فان کلر کی گرم شال ہے۔
آگے پیچھے ہوتے جھولے کے ساتھ وہ بے فکری سے مست ہوا کے سنگ ڈول رہی ہے اور اس کا سکون اور خوشی دیکھ کر میرا من بھی اس کے لیے ہچکولے کھا رہا ہے۔
٭…٭…٭
ایسا دلفریب منظر میں نے پہلے بھلا کہاں دیکھا ہے۔ دوپہر ڈھلتے ہی وہ تینوں بچیوں کے ساتھ بھاگتی ہوئی گھر سے نکلی ہے۔ خوشی کرنوں کی صورت ان کے چہروں سے پھوٹ رہی ہے۔
ایک بچی کے ہاتھ میں دو ریکٹ اور ایک شٹل ہے اور ایک کے ہاتھ میں چار پانچ سکولز کی نوٹ بکس ہیں۔ وہ یقینا کھیلنے کے لیے لان میں آئی ہیں۔ ارے واہ! وہ تو ہمیشہ کی طرح قلانچیں بھرتی سب سے پہلے دھپ سے جھولے پہ آ بیٹھی ہے، ساتھ میں ایک بچی بیٹھ گئی ہے اور باقی دونوں پلاسٹک کی کرسیاں اٹھا کر لان میں جھولے کے عین سامنے مناسب فاصلہ رکھ کے بیٹھ گئی ہیں اور سب کے ہاتھوں میں ہری نوٹ بکس آ گئی ہیں۔
’’وہ کیا کرنے والی ہیں؟ مجھے بہت تجسس ہو رہا ہے۔ ‘‘
ان کے چہکنے کی آوازیں یک دم تھم گئی ہیں اور کاپیوں پہ جھکے سر اور کچھ لکھتے ہاتھ دکھ رہے ہیں۔ سٹاپ کی تیز آواز پہ کچھ ہل چل مچی ہے۔
’’اوہ خدایا! یہ لڑکی کیا ہے۔‘‘ بچوں کے ساتھ ننھی بچی بنی وہ name, place, thingوالی گیم کھیل رہی ہے۔ یہ مشغلہ بڑی دیر تک چلتا رہا۔
ایک دم سکوت چھا جاتا ہے اور چند لمحوں کے بعد رنگ برنگی آوازیں اور قہقہے گونجنے لگے ہیں۔ اسی دوران جھولے پہ کئی شفٹس بدلی جا چکی ہیں۔
یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا اور اب بیڈمنٹن کھیلنے کی باری ہے۔ ذرا سا سانس لینے کو وہ رکی اور پھر سائیکل کھینچ کے اس پہ سوار ہو کے سڑک پہ دوڑاتی چلی گئی۔ اس سے فارغ ہو کے وہ پھر جھولے پہ آ بیٹھی ہیں۔ نجانے اسے کس بات کی جلدی ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ سب کچھ آج ہی، اسی وقت ہی کر لینا چاہتی ہے۔
ارے یہ کیا!میں کیا دیکھ رہا ہوں بلکہ میں کیا سن رہا ہوں۔
وہ بیٹھی انتاکشری کھیل رہی ہیں۔ بس ایک یہ ہی رہ گیا تھا اور آج میں نے اس حسین مورت کی میٹھی آواز بھی سن لی۔ دل کی گہرائیوں میں سرایت کرتی مدھم آواز میں ٹھہر ٹھہر کے وہ گانے گاتی رہی ہے اور میرا تن من جھومتا رہا ۔
یہ سلسہ تب تک چلتا رہا ہے جب تک مغرب کی آذان کا وقت نہیں ہو گیا۔
سورج غروب ہونے سے پہلے اپنی اپنی چیزیں تھام کر وہ اندر چل دی ہیں اور مجھ سمیت ہر سو ویرانی اور اندھیرا چھانے لگا ہے۔
٭…٭…٭
اس گھر کے مکینوں سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ ان کے ملنے جلنے والے بے شمار ہیں۔ کوئی نہ کوئی ملنے کے لیے آیا ہی رہتا ہے لیکن کوئی بھی ایک ہفتے سے ذیادہ قیام نہیں کرتا اور نا ہی خود سے کوئی اتنا قریب محسوس ہوا ہے جتنی کہ وہ۔ اس کا اس گھر کے مکینوں سے کیا رشتہ ہے میں بخوبی جان گیا ہوں۔ بچے اسے پھپھو کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس بے خبر سے لگاوٹ کی بدولت مجھے پھپھو کے رشتے سے بھی انسیت محسوس ہونے لگی ہے۔
یہ سوچ مجھے اداس کر دیتی ہے کہ وہ مہمان ہے، ایک دن شاداں و فرحاں واپس چلی جائے گی اور اپنی زندگی میں مگن ہو جائے گی۔
میں نے کئی دہائیوں سے ان گنت لوگوں کو یہاں آکر رہتے اور آتے جاتے دیکھا ہے مگر اب اس سے ملنے، اسے دیکھنے کے بعد یہ احساس شدت اختیار کر گیا ہے کہ اس کے چلے جانے کے بعد کیا اتنے پیار اور توجہ سے کوئی اور مجھے دیکھا کرے گا۔ میں کیا کروں گا اس کے بغیر؟
ہمارا ہونا تو یہاں آنے جانے والے لوگوں کے لیے بس اتنا معنی رکھتا ہے کہ ہم زمانوں سے زمین میں ایستادہ ہیں۔ وقت کے تھپیڑے، موسموں کی شدت سہتے ہیں۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں، دھوپ، چھائوں سے دوچار ہوتے اپنے ہونے کا قرض ادا کرتے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭
بالآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا مجھے انتظار بھی نہیں تھا۔ ان پینتیس دنوں میں دل نے بارہا خواہش کی کہ کاش وہ کبھی نظروں سے اوجھل نا ہو۔ ہمیں حسین یادیں تھما کر اور یہاں کی ڈھیر ساری یادیں لیے وہ جیسے ہنستی مسکراتی یہاں آئی تھی، ویسے ہی خوشیاں لوٹاتی وہ یہاں سے جا رہی ہے۔
اس کی گاڑی کل ہی ملازم نے دھو کے چمکا دی تھی۔ بنگلے کی اینٹرنس کے عین سامنے بنی روش پہ اس کی سلور گرے رنگ کی گاڑی کھڑی ہے۔ کبھی وہ گاڑی میں آکے کچھ رکھ رہی ہے کبھی ملازم۔ ہم سب بس دم سادھے اس کی حرکات و سکنات دیکھ رہے ہیں۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک دن جدا ہو جانا ہے تو بچھڑنے کی گھڑی دل و جاں پہ اتنی گِراں کیوں گزرتی ہے؟
میں اسے بہت یاد کروں گا۔ اس کی غیر موجودگی میں اسے جھولے پہ، سڑک پہ، گھوڑوں کے پاس، لاشعوری طور پہ ہر جگہ تلاش کرتا پھروں گا۔ اس کے کھلکھلانے کی آوازیں میری سماعتوں میں ہمیشہ گونجتی رہیں گی۔
کیا وہ مجھے یاد کرے گی؟
’’ہاں! میں اس کی یادوں کا حصہ بن کے ہمیشہ زندہ رہوں گا۔‘‘ اور یہ یقین اس کی الوداعی نظر نے مجھ تک پہنچایا جو بہ یک وقت خوشی اور اداسی کا تاثر دے رہی ہے۔
وہ سب گھر والوں سے مل چکی ہے۔ بچوں کو اس نے بارہا گلے سے لگا کر اپنی لگاوٹ کا اظہار اور دور ہو جانے کی اداسی مٹانے کی کوشش کی ہے۔
اپنی جاندار آنکھوں کے ملے جلے تاثرات کو بلیک سن شیڈز سے ڈھانپ کر سبک روی سے وہ گاڑی چلاتی ہوئی نظروں سے اوجھل اور میری پہنچ سے ہمیشہ کے لیے دور چلی گئی ہے۔
بے لوث محبت کرنے والوں کے دل اور ظرف بہت وسیع ہوتے ہیں۔
’’میں چاہتا ہوں کہ اس کی زندگی میں سچا پیار آئے۔ لازوال خوشیاں آئیں، وہ زندگی میں آگے بڑھے، کامیابیاں سمیٹے اور پھلے پھولے۔‘‘
بے شک اس کا ظاہری وجود اب یہاں نہیں ہے لیکن میری آنکھوں اور دل میں نقش ہو چکی اس کی شبیہ جب تک میں ہوں، تب تک قائم و دائم رہے گی اور اس کے لیے میری بے غرض محبت بھی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

وادان — خدیجہ شہوار

Read Next

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!