وہم — حنا اشرف

”بھائی آپ حوصلہ رکھیں آئیں میں آپ کو پرنسپل کے پاس لے چلتی ہوں… آپ ان سے کنفرم کرلیں۔”
”ارمغان صاحب آپ کے بچے خیریت سے ہیں انہیں بس معمولی چوٹیں آئی ہیں… ابھی میں بچوں کو دیکھ کر آرہا ہوں۔ آپ پلیز کچھ دیر تک انتظار کرلیں فی الحال سب کاٹریٹمنٹ چل رہا ہے۔” ارمغان اثبات میں سرہلاتے گہری سانس بھر کر رہ گیا…
مناہل کو اپنے ساتھ لیے وہ گاڑی میں آبیٹھا…
٭…٭…٭




”مما سر میں بہت درد ہورہا ہے!”
”شونو… ڈاکٹر انکل نے جو انجکشن لگایا تھا اس سے درد ختم ہوجائے گا۔ آپ بس یہ سوپ پی لو ابھی…”
وہ کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس آئے تھے۔
زیان کے ماتھے پر زخم آیا تھا، جس کی وجہ سے سر میں بھی درد ہورہا تھا۔
زیان کے بازو اور ٹانگ پر چوٹ لگی تھی… ڈاکٹر نے نیند کا انجکشن لگا دیا…
جب سے ہسپتال کا منظر مناہل اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئی تھی تب سے اس پر ایک عجیب سی وحشت سوار تھی۔ معصوم بچوں کے خون سے لت پت وجود دیکھتے ہی اس کے ذہن میں یہی سوچ آئی تھی اگر اس کے بچوں کا یہ حال ہوتا تو اس پر کیا گزرتی۔
اگر میرے بچے مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتے تب کیا ہوتا؟
اسی سوچ نے اس کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ اسے ساری رات نیند نہ آئی وہ دونوں کے پاس بیٹھی بار بار انہیں چھو کر دیکھتی رہتی۔
ایک ہفتے کے آرام کے بعد بھی اس نے انہیں سکول نہ جانے دیا تھا…
”مناہل اب تو یہ ٹھیک ہوگئے ہیں۔ پرنسپل کی کال آئی تھی انہیں اب اسکول بھیجا جائے…”
”میری بات سُنیں… میں اب کوئی رسک نہیں لینا چاہتی… جو ہوچکا ہے اس سے شدت سے مجھے احساس ہوا ہے میں اپنے بچوں کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتی… اگر اسی طرح کا دوبارہ کوئی حادثہ ہوا میرے بچوں کو کوئی نقصان پہنچا تو…؟؟
یہ اب سکول نہیں جائیں گے… نہ اس سکول نہ ہی کسی اور…! یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں ہمیشہ کے لیے اس گھر سے چلی جاؤں گی کبھی نہ آنے کے لیے…” اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی… ارمغان حیرت سے اسے دیکھتا رہا…
”مناہل تم بچوں کے لیے بہت حساس ہورہی ہو۔ ان کے دلوں میں خوف کو مزید جگہ دے رہی ہو، اس طرح تو ان کی شخصیت مسخ ہوجائے گی۔”
”مجھے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی… ان کے لیے ٹیوٹر کا انتظام کریں، جو انہیں گھر پر پڑھا کر جائے گا۔”
ارمغان کے سمجھانے کا اس پہ کوئی اثر نہ ہوا تھا۔




ٹیوٹر روزانہ انہیں گھر آکر پڑھانے لگا… ہر شے کا علاج ہوتا مگر وہم کا کوئی علاج نہیں ہوتا… جب تک کہ انسان خود نہ چاہے… مناہل کے ذہن میں اپنے بچوں کے چلے جانے کا وہم بیٹھ گیا تھا…
اللہ پاک نے ہر انسان کی زندگی و موت کا وقت پہلے سے مقرر کررکھا ہے۔ وقت، جگہ ہر شے مقرر شدہ ہے، موت چھوٹے بڑے کو نہیں دیکھتی، نہ ہی خوب صورت بدصورت کو، بس جب کسی کا وقت آتا ہے اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے…
مناہل کم عقل تھی… وہ جان کر بھی انجان بن رہی تھی، اس کے بچوں کو موت گھر میں بھی تو آسکتی تھی۔ کہتے ہیں سمندر کی تہ میں بھی جا ٹھہرو، اگر تمہاری زندگی باقی ہے تو زندہ رہو گے اور اگر بیڈ روم میں بیٹھے ہوئے بھی موت آجائے تو آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا…!!
٭…٭…٭
ریان کو موسمی بخارنے اپنی لپیٹ میں لے لیا، ڈاکٹر کو گھر پر بلایا گیا بخار نے شدت اختیار کرلی، جو جان لیوا ثابت ہوا…
وہ معصوم بچہ جس نے آنکھوں میں بہت سے خواب سجا رکھے تھے۔
”مما میں بڑا ہوکر افسر بنوں گا، ملک میں خوش حالی لے کر آؤں گا، برُے لوگوں سے ملک کو پاک کروں گا، ہمیشہ سب کی مدد کروں گا۔” ایسے ہی بہت سے خوش نما خواب پلکوں تلے سجائے، ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند گیا تھا۔
صدمے سے مناہل کی حالت خراب ہوگئی سکتہ طاری ہوگیا۔
برین ہیمرج کی وجہ سے وہ کئی دن ہسپتال میں رہی، پھر اسے ایک چُپ سی لگ گئی۔
کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا۔ لامحدود سوچیں اس کے پاس تھیں…
ڈاکٹر نے ٹینشن فری ہونے کو کہا تھا مگر اس کی حالت مزید بگڑتی جارہی تھی۔ اسے کچھ بہتر ہونے میں ایک ماہ لگا۔ وہ اب بھی بیٹھے بیٹھے رونے لگتی… ایک پل کا چین بھی نصیب نہ ہورہا تھا۔
ریان سے اسے زیادہ محبت تھی… اس کی باتیں، شرارتیں، یادیں اسے بے قرار کیے رکھتیں…
”مناہل بیٹا خود کو سنبھالو میری بچی تمہاری اس حالت سے زیان نظر انداز ہو رہا ہے۔ اسے تمہاری توجہ کی بہت ضرورت ہے… اگر تم نے اپنا بیٹا کھویا تو اس کا بھائی اور بہترین دوست بھی اس سے جدا ہوا ہے… بہت اپ سیٹ ہے وہ۔”
وہ اپنی امی کی طرف آئی ہوئی تھی… ارمغان نے اسے کچھ دنوں کے لیے یہاں بھیج دیا تھا شاید اپنوں میں رہتے اس کی طبیعت پر کچھ اچھا اثر پڑے… ”امی…! کیا میرا بچہ اس لائق تھا کہ منوں مٹی تلے جا سوتا… مجھے اس کے بغیر نہیں جینا… مجھے اپنا بچہ چاہئیے… امی میں مر جاؤں گی… موت اتنی ظالم کیوں ہوتی ہے۔ کیوں وہ ہمارے پیاروں کو ہم سے جدا کرلیتی ہے… میرا ریان… میری زندگی تھا… وہ تھا تو میں تھی… وہ نہیں تو پھر میں کیوں ہوں… میں کیا کروں امی… بتائیں مجھے کہاں جاؤں؟ مناہل مٹھیوں میں اپنے بال دبوچے اونچی آواز میں رو دی…!
”میری بچی نماز پڑھو قرآن پڑھو… اللہ سے دعا کرو…” اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ تمہارے اس طرح کرنے سے زیان واپس نہیں آجائے گا۔ تم نے اپنے بچوں کو گھر تک محدود کرلیا تھا، تمہیں ڈر اور خوف لاحق ہوگیا تھا کہ اگر اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا تو وہ مرجائے گا۔ اللہ نے تمہیں دکھا دیا کہ جہاں موت لکھی ہو وہاں آکر رہتی ہے۔ ایک ذرا سے بخار سے وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ بے شک اللہ پاک ہر شے پہ قادر ہے… زیان تمہارے پاس اللہ کی امانت تھا، جو اس پاک ذات نے واپس لے لی۔ تم گھر پہ توجہ دو میری بچی… ارمغان اور زیان کو تمہاری ضرورت ہے۔ دیکھو تو سہی کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی۔”
وہ کافی دیر تک اسے محبت سے سمجھاتی رہیں… ان کے محبت بھرے انداز اور دلاسے پر اسے صبر آیا تھا۔ نماز کا وقت تھا اس نے اُٹھ کر وضو کیا نماز پڑھنے لگی… نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک سے اسے دلی سکون محسوس ہوا۔ ریان کے جانے کے بعد تو وہ سب بھلا بیٹھی تھی۔
”امی… میں نے ارمغان کو کال کر دی ہے وہ مجھے لینے آرہے ہیں۔”
ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس نے جانے کا بتایا… ”اتنی جلدی کیوں ابھی تو کچھ دن اور رہنا تھا…”
”جی امی مگر ابھی میں جانا چاہتی ہوں زیان مجھے بہت مس کررہا ہوگا۔ ویسے بھی پھر واپس جاکر اس کا دوبارہ ایڈمیشن بھی کروانا ہے۔”
”جیتی رہو میری بچی سدا خوش رہو، اللہ پاک تمہاری تمام پریشانیاں دور فرمائے۔” مناہل کو گلے سے لگا کر انہوں نے دعاؤں سے نوازا۔
مناہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی…!!
اس نے سیل اٹھا کر دوبارہ ارمغان کا نمبر ڈائل کیا۔
”غنی آتے ہوئے زیان کو بھی لے آئیے گا۔ وہ کافی عرصے سے یہاں نہیں آیا سب اسے بہت مس کررہے ہیں…!!!”
”اوکے جناب جو آپ کا حکم…!!”
دوسری طرف ارمغان کے چہرے پہ آسودہ مسکراہٹ نمودار ہوئی…!!
کافی دنوں بعد اس کے دل میں بھی اطمینان اور سکون درآیا تھا۔!!
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۱

Read Next

یہ شادیاں آخر کیسے چلیں گی — لعل خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!