میں جس بات سے ڈرتا تھا وہ ہوکر رہی۔عسل نے جب مجھے اپنے اُمید سے ہونے کی خوشخبری سنائی تو ایسا لگا جیسے میرے کانوں کے قریب کوئی بم پھٹا ہو۔ میں تو ڈھنگ سے مسکرا بھی نہیں پایا۔ وہ تو اپنے خوش کن خیالوں میں مگن تھی۔ میرے تاثرات نہ جان سکی۔
جوں جوں عسل کے ہاں ولادت کے دن قریب آرہے تھے توں توں میری بے کلی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ ڈراؤنے خواب مجھے سونے نہ دیتے۔ میں خواب میں دیکھتا عسل میرے ننھے منے معصوم بچے پر بہیمانہ تشدد کررہی ہے۔ اسے باندھ کر میری بیلٹ سے مار رہی ہے۔ کھانے کو نہیں دے رہی۔ اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر گھومنے پھرنے نکل گئی ہے۔ میں خوابوں میں عسل کو مختلف مردوں کے ساتھ دیکھتا۔ میرا ذہن بے پناہ اذیت کا شکار تھا۔
عسل کی ڈلیوری کا آخری مہینا چل رہا تھا۔ میں گھر واپس آیا، تو وہ فون پر کسی سے بات کررہی تھی۔ میں دروازے کی آڑ میں ہوگیا تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس سے اور کیا بات کررہی ہے۔ وہ میری مما سے بات کررہی تھی۔ ان سے آنے والے بچے کے لیے ہدایات لے رہی تھی۔ میرا دماغ گھوما میں اچانک دروازے کے پیچھے سے نکل کر عسل کے فون پر جھپٹا۔ ’’خبردار۔ اپنی نصیحتیں اپنے پاس رکھیں اور میری بیوی کو بہکانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آیندہ فون مت کیجیے گا عسل کے نمبر پر۔‘‘ میں نے تین جملے بول کر فون دیکھے بغیر اُچھال دیا۔
عسل کو میرا مما کے ساتھ یہ انداز گفتگو بہت برا لگا تھا۔ وہ ہرٹ ہوئی اور رو رہی تھی۔ پر میں نے معذرت نہیں کی۔
٭…٭…٭
نرس نے ننھا منا سفید چادر میں لپٹا وجود میری طرف بڑھایا۔ جب میں نے اسے ہاتھوں میں لیا، تو میرا پورا وجود لرز گیا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں نے خود کو اٹھایا ہو۔ چند ثانیے کے لیے میں سب بھول گیا۔ میں رو رہا تھا باقاعدہ ہچکیوں کے ساتھ۔ میں نے اپنے نونو کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میرے نونو کا سب ناک نقشہ میری ماما جیسا تھا۔ ویسی ہی گلابی اور سفید رنگت، ویسے ہی کھڑی ناک، وہی موٹی موٹی آنکھیں۔ قدرت نے مجھ سے خوب انتقام لیا تھا۔ دنیا میں، میں جس عورت سے سب سے زیادہ نفرت کرتا تھا میرے نونو نے اس کا سب رنگ روپ چرا لیا تھا۔
مما میری غیر موجودگی میں کھڑے کھڑے نونو کو دیکھنے آئیں ۔ مجھے توشی نے یہ اطلاع دی تھی۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا، تو میں بول پڑتا لیکن اس وقت نونو کی وجہ سے خاموش رہا۔
نونو میرا امتحان بن کے آیا تھا۔ میں اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے حوائج ضروریہ میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا۔ساتھ ہی عسل پر میں خواہ مخواہ زیادہ نظر رکھنے لگا تھا۔ نونو پاؤں پاؤں چلنے کے قابل ہوا، تو میں چھپ چھپ کر اپنے اپارٹمنٹ کے دو چکر لگاتا۔ اب میں رات کو نونو کو اپنے ساتھ سلانے لگا تھا۔ عسل اسے اپنے دائیں طرف سلاتی تھی۔ میں اسے اٹھاکر اپنے قریب کرلیتا۔ میں اچانک دبے قدموں گھر میں داخل ہوتا کہ کہیں عسل میرے نونو پر تشدد تو نہیں کررہی۔ میں خود دودھ بناکر اسے پلاتا۔ اس کا ڈائپر چیک کرتا۔ اس کے لیے مہنگے کپڑے خریدتا۔ اس کے باوجودمیری ذہنی اذیت بڑھتی جارہی تھی۔ میرے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوتا جارہا تھا کہ نونو کے لیے عسل کی محبت سب ڈراما اور شوبازی ہے۔ ایک دن موقع پاتے ہی وہ میرے نونو کو مار دے گی۔
اور پھر وہ دن آگیا۔ وہ قیامت میرے سر پر آگئی جس کے ٹلنے کی میں دعا مانگا کرتا تھا۔
٭…٭…٭
حسب معمول میں اپنے گھر کے قریب چھپ کر عسل کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ نونو کو ساتھ لیے اکیلی پارک آئی تھی۔ وہاں اسے دو اور عورتیں مل گئیں۔ انہوں نے نونو کو پیار کیا۔ میں سرسبز باڑکے دوسری طرف تھا۔ میری گاڑی پارکنگ میں تھی۔ میں اب واپس جانے کا سوچ رہا تھا کیوں کہ مجھے سب نارمل لگ رہا تھا۔ عسل اُن عورتوں کے ساتھ باغیچے میں بیٹھ گئی۔ نونو سرسبز گھاس پر کھیلتی بلیوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ باغیچے سے پار قریب ہی سعودی لڑکے فٹبال کھیل رہے تھے۔ نونو بلیوں کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ وہ ڈیڑھ سال کا تھا اور بھاگنے دوڑنے سے تھکتا نہیں تھا۔ پھر وہ اپنی دھن میں اس باؤنڈری کے قریب آیا جو باغیچے اور گراؤنڈ کو الگ کرتی تھی۔ عسل عورتوں سے ہنستے ہوئے باتیں کررہی تھی۔ اسے نونو کی بالکل خبر نہیں تھی۔ پھر وہی سب حقیقت بن کر میرے سامنے آگیا جو میں خوابوں میں دیکھا کرتا تھا۔ ایک لڑکے نے فٹ بال کو زور دار کک لگائی۔ وہ اُڑتی ہوئی باؤنڈری کی طرف آئی اور سیدھی نونو کے سر میں آلگی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے نونو پختہ باؤنڈری وال کی پتلی منڈیر پر گرا جو مشکل سے ایک فٹ کی بھی نہیں تھی۔
نونو کے سر سے خون بہ رہا تھا۔ میں باڑ کے پیچھے سے دیوانہ وار نونو کی طرف بھاگا۔ کچھ اور لوگ بھی نونو کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ میرے حلق سے ہذیانی چیخیں نکل رہی تھیں۔ تب عسل کو پتا چلا کہ نونو کے ساتھ حادثہ ہوگیا ہے۔ یہ چند سیکنڈز میں وقوع پزیر ہوا تھا۔ قیامت آتے ہوئے کون سا دیر لگتی ہے اور میری قیامت میرے سر پر کھڑی تھی۔
میں نے نونو کو کسی ننھے چوزے کے مانند سینے سے لگالیا۔ اس کے سر کے علاوہ گھٹنے اور بازوؤں پر بھی چوٹ آئی تھی۔ میرے کپڑے خون سے بھر گئے تھے۔ ایک پڑوسی نے بروقت اپنی گاڑی میں ہمیں ہاسپٹل پہنچایا۔
نونو کو فی الفور ایڈمٹ کرلیا گیا۔ ایمرجنسی وارڈ میں اس کی حالت تشویش ناک تھی۔ میرا دل نہ جانے کیوں گواہی دے رہا تھا کہ میرا نونو بچنے والا نہیں ہے۔ بالآخر عسل نے میرے نونو کو موت کے منہ میں پہنچادیا تھا۔ میں اسے جان سے ماردینا چاہتا تھا۔ میں نے جھپٹ کر اس کی گردن پکڑ لی اور دباتا چلا گیا۔
لیکن اس کی قسمت اچھی تھی۔ شور سن کر وہاں لوگ جمع ہوگئے اور اسے چھڑالیا، لیکن اپنی ماں کی طرح میں اسے زندہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے میرے نونو کے ساتھ بہت برا کیا تھا۔
٭…٭…٭
’’امی وہ پاگل ہے نفسیاتی مریض ہے۔ اس نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔ کیا نونو میرا بیٹا نہیں ہے۔ میں بھی ماں ہوں اس کی دشمن نہیں جو اس نے میرے ساتھ سب کے سامنے یہ سلوک کیا۔‘‘ عسل زاروقطار روتی ماں کے سامنے فواد کے پول کھول رہی تھی۔
’’تم فکر مت کرو۔ میں اور تمہارے ابو جائیں گے فواد کے والدین کے پاس پوچھیں گے اسے۔ ویسے تم ٹینشن مت لو۔ اولاد کے معاملے میں ماں باپ ٹچی ہوتے ہیں۔ ویسے کتنا خیال رکھتا ہے وہ تمہاراور نونو کا۔ کبھی کسی چیز کی تکلیف نہیں ہونے دی فواد نے۔‘‘ عسل کی امی نے اسے دلاسا دینے کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایا، تو اس کے بہتے آنسو کچھ ہی دیر میں تھم گئے۔وہ دل ہی دل میں فواد سے بے حد خفا اور کبیدہ خاطر تھی۔ پر امی کے سمجھانے کے بعد اسے قدرے قرار آگیا۔
٭…٭…٭
نونو کو نئی زندگی ملی تھی۔ وہ چار دن ہاسپٹل میں رہا۔ اس دوران میں پاگلوں کی طرح آئی سی یو اور بعد میں وارڈ کے سامنے ٹہلتا رہتا۔ عسل مجھ سے ناراض تھی۔ اس کے والدین بابا کے پاس آئے۔ شکوے شکایتوں کا لمبادور چلا تھا۔ بابا نے پہلی بار قدرے سخت اور درشت انداز میں مجھ سے بات کی اور مجھے ڈانٹا بھی تھا۔
نونو صحت یاب ہوکر گھر آیا، تو میں عسل کو بھی منا کر گھر لے آیا۔ نونو کے معاملے میں، میں پہلے سے زیادہ حساس اور محتاط ہوگیا تھا۔ مما نونو کو دیکھنے گھر آئیں، تو میں نے ان سے سلام کے علاوہ بات ہی نہیں کی۔ عسل نے ان کی گھر آمد پر کھانے پینے کا خاصا اہتمام کیا تھا، لیکن وہ کھائے پیے بغیر ہی چلی گئیں۔
عسل کا موڈ آف تھا پر اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ میرے گزشتہ رویے کی وجہ سے وہ ’’مجھ سے گھبرانے لگی تھی اور بہت سی باتوں میں محتاط ہوگئی تھی۔ مجھے علم تھا کہ اپنی سگی ماں کے ساتھ اسے میرا یہ اجنبی اور سرد رویہ بہت چبھتا ہے پر وہ اس کا اظہار نہیں کرپائی تھی۔
میں بھی کیا کرتا، مجبور تھا۔ میں جب بھی سب کچھ بھولنے کی کوشش کرتا، ماضی کی اذیت پرست ماں میرے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی۔ میں چاہنے کے باوجود بھی اپنے رویہ درست نہ کرپاتا۔ لیکن ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا اس دن سے پہلے میں جادو کے زور پر سورہا تھا۔ بہت عرصے بعد میری آنکھ کھلی تھی۔
٭…٭…٭
او لیول کے بعد میرا سب سے چھوٹا بھائی بھی بڑے بھائیوں کی طرح مزید تعلیم حاصل کرنے کینیڈا جارہا تھا۔ میں اسے ملنے مما کی طرف جارہا تھا۔ اس کی فلائٹ میں چند گھنٹے باقی تھے۔ میں گھر پہنچا، تو وہ فون پر دوستوں کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے فون بند کردیا۔ گھر پر ہمیشہ کی طرح سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مما کے بارے میں پوچھا۔ ’’وہ ماموں سلیمان انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے ہیں۔ ’’کیوں؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے۔ ماموں چھے سات دنوں سے انہیں روزانہ ہاسپٹل لے جارہے ہیں۔‘‘ بھائی عام سے انداز میں بتارہا تھا۔ ’’لیکن انہیں ہوا کیا ہے؟‘‘ پتا نہیں کیوں اس وقت میں نے اپنے اندر عجیب سی بے چینی محسوس کی۔
’’میں نے نہیں پوچھا۔‘‘ اس کا سابقہ انداز برقرار تھا۔
میں آدھ گھنٹے بعد واپس آگیا اور میکانکی انداز میں سلیمان ماموں کو فون کیا۔ ’’السلام علیکم‘‘ ان کا لہجہ تھکا تھکا سا تھا۔ ’’ماموں آپ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے انجان بن کر پوچھا۔ ’’میں سامی کے ساتھ ہاسپٹل میں تھا، اب گھر واپس آرہا ہوں۔‘‘ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے ماموں کا لہجہ بھیگا بھیگا سا ہے۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ میں ان کے بھیگے لہجے کا سبب جاننے کے لیے بے چین تھا۔’’ سامی ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ہاسپٹل میں ہی ہے میں نے سوچا گھر آکر اس کے کھانے کے لیے کچھ لے جاؤں۔‘‘
’’مما کو کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے بہت تیزی میں سوال کیا۔ اس کے تمام ٹیسٹ ہوئے ہیں، رپورٹس کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ کل ڈاکٹرز بتائیں گے کہ سامی کو کیا مسئلہ ہے۔‘‘
’’تو آپ نے اور مما نے کسی کو کچھ بتایا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے شکوہ کیا۔ ’’سامی کس کو بتاتی؟‘‘ ماموں نے عجیب سے لہجے میں سوال کیا۔ ’’کیوں ہم سب ہیں نا، بابا بھی ہیں۔‘‘ میں نے جیسے صفائی پیش کی۔ ’’سامی کا کوئی بھی نہیں ہے، وہ اکیلی ہے۔ اس نے منع کر دیا ہے کہ میرے بارے میں کسی کو بھی بتاکر پریشان نہیں کرنا۔‘‘ ماموں نے آخر میں خود پر قابو پاکر قدرے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
’’ماموں آپ کون سے ہاسپٹل ہیں، مجھے بتائیں میں ابھی آرہا ہوں۔‘‘ میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
’’میں آپ سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا۔ مسز طارق کو بلڈ کینسر ہے۔ انہوں نے نہ جانے کیوں ڈاکٹرز کو بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ روٹس نے پوری باڈی پر اٹیک کرکے جگہ بنالی ہے۔ میں اس صورتِ حال میں آپ کو کوئی اُمید نہیں دلانا چاہتا۔ ہم مریضہ کو زندگی تو نہیں دے سکتے، لیکن ان کے آخری وقت کو ادویہکے ذریعے کچھ آسان کرسکتے ہیں۔‘‘
ٹیبل کے اس طرف بیٹھے ڈاکٹر نے باری باری مجھے اور ماموں کو دیکھا۔ اس کا لہجہ کسی بھی احساس سے عاری تھا، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ میرے سب احساسات زندہ تھے، یا زندہ ہوگئے تھے۔ میں اب مما کی سب تکلیف اذیت دکھ درد محسوس کرسکتا تھا۔
لیکن اب بہت دیر ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
بلڈ کینسر تشخیص ہونے کے بعد مما صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ ان کا یہ وقت ہاسپٹل میں سفید براق چادر والے بیڈ پر گزرا۔ کیمو تھراپی کے مرحلے سے گزرنے کے باعث ان کے سر کے تمام بال گرچکے تھے۔ سرخ و سفید رنگت زردی مائل ہو گئی تھی اور جسم تو جیسے ہڈیوں کا پنجر بن گیا تھا۔
اب وہ لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف جا رہیتھیں۔ اس دوران ماموں نے ان کی کتنی منتیں کیں کہ آؤ سامی پاکستان چلتے ہیں، وہاں کینسر جیسی بیماری کا جدید ترین علاج اور ترقی یافتہ ماڈرن ہاسپٹل ہے۔ تم بالکل صحت یاب ہوجاؤگی لیکن کمزور انداز میں ان کا سرنفی میں ہلتا۔ ماموں، مما کو نانو کے پاس لے جانا چاہتے تھے، اس لیے وہ علاج کا بہلاوا دیتے تھے، لیکن مما اپنی بات پر قائم تھیں۔ اب تو بابا بھی ان کی منتیں کرتے تھے کہ سامی آؤ ایک بار پاکستان چلتے ہیں۔ وہ بالکل بدل گئے تھے۔ مما کی زندگی کے آخری تین مہینوں میں وہ کتنا روئے ، کتنا شرمندہ ہوئے ، کتنی دعائیں کی تھیں۔ کتنی بار مما سے انہوں نے اپنے نامناسب رویے، اپنی کوتاہیوں، اپنی بے پروائیوں، اپنی غلط فہمیوں، اپنی بڑھائی گئی دوریوں کی معافی مانگی تھی، اس کا صحیح ادراک انہیں بھی نہیں تھا۔ وہ بس مما کی پٹی سے لگے بیٹھے رہتے۔
میرے چاروں بھائی کینیڈا سے آگئے تھے۔ توشی روز ہاسپٹل آتی اور رات گئے واپس جاتی۔ اس کے دو بچے تھے۔ وہ نہ ہوتے، تو توشی ہاسپٹل میں ہی ڈیرا ڈال لیتی۔
٭…٭…٭
وہ نومبر کا آخری ہفتہ تھا۔
ماموں صبح سے ہاسپٹل میں نہیں تھے۔
انہیں گئے ہوئے چھے گھنٹے سے زائد ہوگئے تھے۔ وہ زیادہ تر مما کے پاس ہاسپٹل ہی میں رہتے تھے، کیوں کہ انہوں نے کمپنی چھوڑ کر پاکستان واپس جانا تھا۔ اگلے مہینے کمپنی نے ان کے واجبات ادا کرنے تھے۔ اس لیے وہ اس طرف سے بے فکر تھے۔
ماموں واپسی پر جس بوڑھی عورت کے ساتھ ہاسپٹل میں داخل ہوئے وہ نانو کے سوا کوئی اور نہیں تھی۔ وہ بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ انہوں نے پورے ستائیس سال بعد اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔ اس بیٹی کو جو لمحہ بہ لمحہ کے قریب ہوتی جارہی تھی۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ بابا اور ماموں نے مشترکہ فیصلے کے بعد نانی کو وزٹ ویزے پر یہاں بلوایا تھا، کیوں کہ مما پاکستان جانے پر راضی نہیں تھیں اور ان کی حالت ویسے بھی سفر کے قابل نہیں تھی۔
نانی، مما کے پورے چہرے، ہاتھوں، بالوں پر بوسے دے رہی تھیں۔ ان کے آنسو موتیوں کی طرح مما کے چہرے پر گر رہے تھے۔
’’سامی تم نے ہمیں معاف ہی نہیں کیا۔ دیکھو میں خود تمہارے پاس آگئی ہوں۔ تم اپنی بات کی پکی نکلی۔ میں تو سمجھی تھی تم نے وہ باتیں اپنے بھولپن میں کی تھیں کہ میں اب کبھی بھی آپ کے گھر نہیں آؤں گی۔ سب رشتے ختم کرکے جارہی ہوں۔ پگلی کوئی ایسے بھی کرتا ہے۔ رشتے تو مرکے بھی ختم نہیں ہوتے اور تیرا میرا رشتہ تو قیامت کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا۔‘‘ بوڑھی ماں ہچکیاں لے رہی تھی۔
’’سامی! تیرا ابا تجھے پکارتے پکارتے مٹی اوڑھ کے سوگیا اور تیری یہ ماں تیری واپسی کی آس میں زندگی کاٹتی رہی۔‘‘ نانی خود بھی رو رہی تھی اور مما کو بھی رُلارہی تھی۔ میں ایک کونے میں اسٹول پر بیٹھا تھا۔ باقی سب باہر تھے۔
’’اماں! ابا کو بتادیا تھا نا تم نے،کہ سرنوید نے خود رشتہ بھیجا تھا اپنا اور مولوی صاحب، مولوی صاحب نے…… کھو کھو کھو۔‘‘ مما کو کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔ ان سے بات ہی مکمل نہ کی گئی۔ خرخراتی آواز کے ساتھ ان کے گلے سے خون کا چھوٹا سا فوارہ پھوٹا۔ یہ دیکھ کر نانی دہشت زدہ ہوگئی۔ ’’ہائے میری سامی اللہ تیری تکلیف مجھے دے دے۔ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔‘‘
’’اماں میں نے اتنے سال جو تکلیف کاٹی ہے وہ اس ذرا سی تکلیف کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔‘‘ مما نے خود اپنا منہ صاف کیا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’مجھے بتاؤ۔ ابا کو سب پتا چل گیا تھا نا۔‘‘ ’’ہاں ہاں اللہ یار پر سب حقیقت کھل گئی تھی۔‘‘ نانی زارو قطار رو رہی تھی۔