توشی پھر گھر سے غائب تھی۔ میں اس کی طرف سے پریشان رہتا تھا۔ وہ جتنی بے وقوف تھی اتنی معصوم بھی۔ میں نے سب سے پوچھا توشی کہاں ہے سوائے موسیٰ کے کسی کو معلوم نہ تھا۔ ’’وہ نواف کے گھر ہوگی۔ اسے غائب کرنے والا جادو سیکھنا تھا۔‘‘ موسیٰ نے انتہائی بھولپن سے بتایا، تو جانے مجھے کیا ہوا میں بھاگتا ہوا لفٹ کے ذریعے سترہویں منزل پر پہنچا اور پاگلوں کی طرح نواف کے گھر کی ڈور بیل بجانے لگا۔
لیکن دروازہ کھلنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ تب میں نے دروازے پر مکے مارنے شروع کردیے۔ میں زور زور سے چیخ بھی رہا تھا۔ اتنے اندر سے بھی چیخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ میری بہن توشی کی آوازیں تھیں۔ یہاں نواف کے فلور پر چار گھر تھے۔ شور شرابا سن کر سب نکل آئے۔ تب نواف کو دروازہ کھولنا ہی پڑا۔
میری بہن توشی دگرگوں حالت میں نواف کے لاؤنج میں پڑی تھی۔ تب آخری آواز جو میں نے سنی وہ میرے پڑوسی نامقس کے والد کی تھی۔ وہ میرے بابا کو فون کرنے کا کہہ رہے تھے۔
میں توشی کے پاس نڈھال انداز میں گرپڑا۔
شکر ہے وہ نواف کی حیوانیت سے بچ گئی تھی۔
رات ہونے سے پہلے شرطے کی گاڑی آئی اور نواف کو ساتھ لے گئی۔ وہ یمنی تھا۔ بعد میں سزا پوری ہونے کے بعد اسے ڈی پورٹ کردیا گیا۔
میرے بابا فوراً گھر آگئے تھے۔ مما کا کچھ پتا نہ تھا۔ نہ انہیں اس واقعے کی خبر تھی۔ بابا اپنا سر ہاتھوں میں پکڑے رو رہے تھے۔ اس رات پہلی بار ہمیں یوں محسوس ہوا کہ ہمارے بابا بھی ہیں۔ ہم جیتے جی یتیم نہیں ہیں۔
٭…٭…٭
’’تم سامی کے بیٹے ہو نا؟‘‘ جوان مرد نے سوالیہ نگاہوں سے فادی کی طرف دیکھا۔
’’جی۔‘‘ بے اختیار اس کا سراثبات میں ہلا۔ اگلے ہی لمحے اس مرد نے فادی کو اپنے سینے سے لگالیا۔ ’’میں پاکستان سے آیا ہوں۔ تمہارا سب سے بڑا ماموں سلیمان ہوں۔‘‘ مرد کے تعارف کا مرحلہ طے ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
ماموں سلیمان چار سال سے سعودی عرب میں ملازمت کررہے تھے۔ پہلے وہ ریاض میں ایک کمپنی میں تھے۔ پچھلے ماہ انہوں نے وہ کمپنی چھوڑ کر یہاں جدہ میں ملازمت کرلی اور بابا کو بھی ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان سے ایڈرس لے کر وہ مما سے ملنے آئے تھے۔ مما کا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ میں نے کبھی مما کے منہ سے کسی رشتہ دار کا ذکر نہیں سنا تھا۔ اب مجھے خوشگوار سی حیرت ہورہی تھی کہ ہمارے ماموں بھی ہیں اور لمبا چوڑا خاندان ہے۔ سب پاکستان میں ہیں۔ میں نے اپنے علاقے کے لوگوں سے پاکستان کا ذکر سنا تھا، لیکن کبھی سوچا نہ تھا کہ میرا بھی پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ جب سے سلیمان ماموں ملے تھے۔ میرا دل پاکستان جانے کے لیے مچل رہا تھا۔ وہ چھٹی پر واپس جارہے تھے۔ میں نے ان سے کہا میں بھی پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا تھا مما اس کی مخالفت کریں گی اور وہی ہوا۔ وہ کسی صورت بھی مجھے پاکستان بھیجنے کے حق میں نہیں تھیں اور تب ہی نواف والا واقعہ ہوا جس نے ہمارے پورے گھر کا نقشہ بدل دیا۔
اس رات میں نے پہلی بار بابا کو مما پر ہاتھ اٹھاتے دیکھا۔ جس بیلٹ سے وہ ہمیں مارتی تھیں وہی بیلٹ بابا ان پر برسا رہے تھے۔ وہ آگے سے بالکل شور نہیں کررہی تھیں۔ میں چاہتا تھا وہ شور کریں، روئیں، چیخیں، چلائیں، لیکن میری یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔
’’مجھے تجھ جیسی عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے میرا گھر، میرے بچے تباہ کردیے ہیں۔ کس بات کا بدلہ لیا ہے ان سے۔ میں نے کسی چیز کی کمی نہیں کی تمہارے لیے۔ جتنا پیسہ تم نے کہا اتنا تمہارے ہاتھ پر رکھا لیکن میرے بچوں کے ساتھ کیا کیا تم نے۔ توشی کے ساتھ کچھ برا ہوتا، تو میں تمہیں اپنے ہاتھ سے مار دیتا۔ سب تمہاری شکایتیں کرتے رہے، لیکن میں نے نوٹس نہیں لیا۔ تم نے میری عزت، غیرت اور خاندان کا جنازہ نکال دیا۔ میری آنکھوں پر اتنے سال کیوں پٹی بندھی رہی… بابا رو رہے تھے۔
اس رات ہم سب بابا کے پاس سوئے۔ توشی بہت خوفزدہ تھی۔
بابا نے سلیمان ماموں کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے مجھے پاکستان بھیج دیا۔
وہاں پہلی بار میں نے نانی کو دیکھا۔ ’’میری سامی کا بیٹا۔‘‘ وہ بار بار مجھے چومتی اور روتی۔ ’’میری سامی کیسی ہے سلیمان۔ تم نے دیکھا اسے۔ اسے بھی ساتھ لے آتے۔ اللہ یار اسے دیکھنے اور ملنے کی چاہ میں پچھلے سال فوت ہوگیا۔ اسے بتاتے ناں تیرا ابا اس دنیا میں نہیں رہا۔ شاید وہ آجاتی۔ اس کا دل ایسا پتھر تو نہیں تھا۔ میری سامی تو بہت کمزور دل کی مالک تھی۔‘‘ نانی رو رہی تھی۔ ماموں سلیمان نے چپکے سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
پاکستان جاکر مجھے پتا چلا کہ مما جب سے بیاہ کر سعودیہ آئی ہیں اس کے بعد کبھی لوٹ کرپاکستان گئیں نہ کسی سے رابطہ کیا۔ بابا بہت مصروف آدمی تھے۔ ان کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا۔ مما کی فیملی سے کہاں رابطہ کرتے۔ مما نے جب خود ہی سب رابطے توڑ لیے تھے۔ ایسے میں بابا کو کیا پڑی تھی کہ ہر ہفتے یا مہینے بعد نانا، نانی کو فون کرتے یا پاکستان جاتے۔
پاکستان کا دورہ یادگار تھا۔ میری خوشگوار ترین یادوں میں سے ایک یاد۔
٭…٭…٭
میں سعودیہ واپس آچکا تھا۔
مجھے اپنی زندگی کا ایک اور تکلیف دہ جھٹکا برداشت کرنا پڑا۔ بابا نے دوسری شادی کرلی۔ انہوں نے پاکستانی خاندان میں ایک طلاق یافتہ خاتون سے شادی کی تھی۔ ہم جس گھر میں رہ رہے تھے۔ بابا نے وہ گھر تبدیل کرلیا تھا۔ بابا نے آمنے سامنے دو گھر لییتھے۔ ایک گھر میں وہ خود اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہتے تھے اور دوسرے میں ہم بہن بھائی مما کے ساتھ۔
بابا اب ہمارا پورا پورا خیال رکھتے۔ انہیں شک تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں مما ہمارے ساتھ پہلے کی طرح تو نہیں کرتیں۔ اس لیے ہر روز وہ ہم سب سے الگ الگ یہ سوال کرتے۔
ہمارا جواب نفی میں ہوتا۔
مما اب بالکل بدل گئی تھیں۔ وہ اب شور نہیں کرتی تھیں نہ پہلے کی طرح باہر جاتی تھیں۔ وہ ہمارے ساتھ بات بھی نہیں کرتی تھیں۔ بس خاموش بیٹھی رہتیں۔
بابا آتے، خود ہی ان سے بات کرتے، مگر وہ جواب نہ دیتیں۔
اگلے سال بابا نے رشتہ ڈھونڈ کر توشی کی شادی کردی۔
اپنی رخصتی پر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی لیکن مما تب بھی چپ بے حس بیٹھی رہیں۔
بابا نے بیک وقت تین مختلف کاموں میں ہاتھ ڈال رکھا تھا اور تینوں میں کامیاب تھے۔ پیسے کی کبھی کمی نہیں رہی تھی۔
توشی اپنے گھر کی ہوگئی اور ہم بھائیوں کی اپنی دلچسپیاں تھیں۔ میں بابا کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کاروبار میں لگالیا۔ میں سیکھنے میں بہت تیز تھا بابامجھ سے بہت خوش تھے۔
اب وہ میری شادی کرنا چاہتے تھے۔ انہیں ابھی بھی مما پر اعتبار نہیں تھا۔ روز گھر آکر پہلے کی طرح سوال جواب کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی مما کی عزت نہیں کرتا تھا۔
ویسے بھی جو بچپن ہم نے گزارا تھا اس کی تلخیاں اتنی آسانی سے مٹنے والی نہیں تھیں۔ مما ہم سب کے لیے قابل رحم نہیں قابل نفرت تھیں۔ یہی وجہ تھی کوئی انہیں اہمیت نہیں دیتا تھا۔ وہ گھر کے فالتو سامان کی طرح ایک کونے میں پڑی تھیں۔ بابا نے بھی انہیں مکمل طور پر نظرانداز کررکھا تھا۔
لیکن سلیمان ماموں کا رویہ حیرت انگیز تھا۔ وہ مہینے میں ایک آدھ چکر لازمی لگاتے اور جب بھی آتے مما کے پاس بیٹھے رہتے۔ وہ اس دوران جو باتیں کرتے میں انہیں بخوبی سمجھنے لگا تھا۔ کیونکہ پاکستان سے آنے کے بعد میں نے اُردو سیکھی تھی۔ ماموں بار بار ایک ہی جملہ دہراتے۔ سامی پاکستان چلو۔ وہاں ماں تمہارا انتظار کررہی ہے۔ ان کی بوڑھی آنکھیں تمہیں دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں۔ مما ہمیشہ انکار میں سرہلاتیں۔ میں جیتے جی پاکستان نہیں جاؤں گی۔ میں جب وہاں سے نکلی تھی تو خود سے عہد کیا تھا کہ واپس تم لوگوں کے درمیان کبھی نہیں جاؤں گی۔‘‘ مما ضدی ہوجاتیں۔ ایسے میں وہ ننھی سی بچی لگتیں۔ ’’دیکھو ابا بھی تمہاری راہ تکتے تکتے دنیا سے چلے گئے۔ اب تم باقی جو بچ گئے ہیں اُنہیں تو سزا مت دو۔‘‘
’’مجھے کس جرم کی سزا ملی؟ کیوں جیتے جی مجھے زندہ مرنے پر مجبور کیا۔ میں اندر سے مرچکی ہوں۔ صرف ظاہری جسم دفنانا باقی ہے۔‘‘ مما ٹھنڈے ٹھار بے حس لہجے میں گویا ہوتیں، تو ماموں سلیمان خاموش ہوجاتے۔ واپسی پر ان کے قدم مایوس انداز میں اٹھتے، لیکن اگلے ماہ وہ پھر سے نئی امیدوں کے ساتھ آجاتے۔ مما کا جواب انکار میں ہوتا۔ وہ کسی صورت بھی اپنی فیملی اپنے بھائیوں اور نانی سے ملنے پر راضی نہیں تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ فون پر بھی ان سے بات نہیں کرتی تھیں۔
مجھے اپنی ماں دنیا کی خودغرض اور بے حس ترین عورت نظر آتی۔ میرا جی چاہتا ماموں سلیمان کا ہاتھ پکڑ اٹھادوں انہیں منع کردوں کہ آپ اس سنگ دل عورت کی منتیں مت کیا کریں۔ کبھی کبھی تو میرا خون کھولنے لگتا جس عورت نے اپنی سگی اولاد پر رحم نہیں کھایا۔ وہ بھلا اپنے والدین اور بہن بھائیوں پر کیسے رحم کھاسکتی تھی۔ ماموں پاگل تھے جو ہر بار آجاتے سراپا سوالی بن کر۔
آنے والے سالوں میں ہم سب بہن بھائیوں کے دلوں میں مما کے لیے نفرت و حقارت اور بیگانگی کے تیور بڑھتے گئے۔ توشی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے سب سے پہلے بابا اور پھر مجھے فون کیا۔ مما کو اس نے بتایا ہی نہیں۔ بابا نے دونوں چھوٹے بھائیوں کو تعلیم کے لیے کینیڈا بھیجا، تو وہ مما سے مل کر بھی نہیں گئے نہ انہوں نے مما کو بتایا۔
بابا اب صرف اور صرف دوسری مما تک محدود ہوگئے تھے۔ انہوں نے مما کے پاس آنا تقریباً چھوڑ ہی دیا تھا۔
پھر بابا نے میری زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا۔ میں تئیس سال کا ہوچکا تھا۔ تعلیم مکمل کرکے کاروباری سوجھ بوجھ بھی آگئی تھی۔ بابا نے سعودیہ میں مقیم پاکستانی فیملی میں میرے رشتہ کی بات چلائی۔
اس دن میرے اپنے اندر پھر ماضی کے زخم ہرے ہوگئے۔ مما سے پرانی نفرت پھر سے زندہ ہوگئی۔ مجھے عورت ذات سے ڈر لگنے لگا تھا۔
میں با با کو اس رشتے کے لیے منع کرنا چاہتا تھا۔ میں نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کا اٹل فیصلہ کرلیا تھا۔ پر بابا نے میرا رشتہ سرسری طور پر مجھے بتا کر عسل کے ساتھ پکا کردیا۔ شادی سے پہلے بابا مجھے ان کے گھر لے گئے تاکہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ سکوں۔ عسل پرکشش لڑکی تھی۔ پر میرا دل شادی کے لیے آمادہ نہیں تھا۔
عسل کے گھر رشتے کے لیے میری مما ساتھ نہیں گئیں بلکہ دوسری مما نے سب تیاریاں کی۔ میں بہت چپ اور اداس تھا۔ بابا نے الگ لے جاکر مجھ سے سبب پوچھا، تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شادی سے انکار کردیا۔ ’’تمہیں کوئی اور لڑکی پسند ہے؟‘‘ بابا نے بغور میرے چہرے کے تاثرات جانچنے چاہے۔ ’’بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ دل مضبوط کرکے میں نے کہہ ہی دیا۔ ’’کیوں؟‘‘ بابا کا یہ سوال بہت سخت تھا۔ پر وہ میری طرف منتظر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ’’بابا مما نے ہم سب کے ساتھ جو کچھ کیا میں کوشش کے باوجود بھلا نہیں پایا۔ ہر عورت میں مجھے مما کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے بابا۔‘‘ میں نے صاف گوئی سے کہا۔
’’سب سے پہلی بات عسل بہت اچھے سلجھے ہوئے خاندان سے ہے۔ تمہاری ماں کی طرح بھوکے ننگوں کی بیٹی نہیں ہے۔ نیچ ذات سے بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور عسل کے پورے خاندان کو میں شروع سے جانتا ہوں۔ شادی کے بعد تم مجھے دعائیں دوگے۔‘‘ بابا نے مما کے خاندان کا ذکر بہت حقارت سے کیا تھا۔ مجھے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں عجیب سا محسوس ہوا۔ ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے بارہا بابا کو مما کے سامنے انہیں یہ طعنہ دیتے سنا تھا کہ تم غریب، بھوکے ننگے خاندان سے ہو۔ تمہاری غربت کی وجہ سے کوئی رشتہ نہیں آتا تھا تمہارے گھر۔ یہ تو میری ماں نے ترس کھا کر میری شادی تمہارے ساتھ کروائی۔ باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر منایا تھا مجھے کہ تم سے شادی کرلوں۔ یہاں آکر تمہاری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ تم نے خواب میں بھی ایسے گھر میں رہنے کا تصور تک نہ کیا ہوگا۔ جہاں شادی کے بعد میرے ساتھ رہ رہی ہو۔ وہ تمہارا ایک کمرے والا ٹوٹا پھوٹا غلیظ گھر، گندا محلہ… وہاں تمہاری کسی سے شادی ہوجاتی تو ایسے عیش نہ کررہی ہوتی۔ پانچ پانچ سو ریال کا ایک سوٹ پہنتی ہو تم… ایک سے ایک کھانا کھاتی ہو اور پھر بھی شکر ادا نہیں کرتی۔‘‘ ایسے موقع پر مما نے کبھی بابا کو جواب نہیں دیا۔ وہ سامنے سے غائب ہوجاتیں۔ مجھے لگتا انہوں نے ہار مان لی ہے۔ مجھے عجیب سی خوشی ہوتی جس دن بابا جلد گھر آجاتے۔ اس دن یہ سب باتیں نئے سرے سے کسی او ررنگ میں دہرائی جاتیں۔ جب سے انہوں نے دوسری شادی کی تھی تب سے یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اب تو وہ مما کو اپنی دوسری بیوی کی مثالیں بھی دیتے تھے کہ وہ تم سے سوگنا اچھی ہے۔ اچھے خاندان سے ہے۔ تب میں سوچتا کہ ضرور مما کا تعلق کسی ایسے ویسے خاندان سے ہے تب ہی تو وہ بابا کو جواب نہیں دے پاتیں اور ان کے سامنے سے ہٹ جاتی ہیں۔
خیر ایسے کتنے ہی اسرار تھے جو مما کی دھند میں لپٹی ذات کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ اسرار ایسے وقت میں کھلے جب بہت دیر ہوچکی تھی۔
٭…٭…٭
بابا کے زور دینے پر میں نے عسل سے شادی کرلی۔ یہ الگ بات کہ شادی کے بعد بھی میرے دل سے خوف دور نہیں ہوا۔ وہ اچھی بیوی ثابت ہوئی کبھی میرے ساتھ لڑائی جھگڑا یا بحث نہیں کی۔ وہ میرے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی حالاں کہ گھر میں دو دو شغالہ (ملازمائیں) تھیں، لیکن کھانا وہ ہمیشہ خود بناتی۔
میں عورت کے ہاتھ کے کھانے کو ترسا ہوا تھا۔ تین تین روٹیاں کھا جاتا۔ وہ مجھے کھلا کر خوش ہوتی لیکن ا س کے باوجود، بھی وہم و خدشات مجھے گھیرے ہوئے تھے۔ مجھے عسل پر اعتماد نہیں تھا۔
دوسری طرف میں پوری کوشش کررہا تھا کہ عسل ماں نہ بننے پائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچوں کا حال ہم بہن بھائیوں جیسا ہو۔
جیسا قابل رحم روتا سسکتا اذیت سے بھرا بچپن میں نے گزارا ہے۔ ویسے ہی حالات کا سامنا میرے بچے بھی کریں۔ میرے بچے جو ابھی عدم سے وجود میں نہیں آئے تھے۔ میں ان کے لیے اتنا فکر مند تھا کہ اگر کسی کو میرے خیالات کی خبر ہوجاتی، تو میرے پاگل پن اور میری سوچوں پر ہنستا۔
عسل کی ذات ابھی تک میرے لیے شک کے آئینے میں لپٹی ہوئی تھی۔ میں چھپ چھپ کر اس کا تعاقب کرتا۔ اس کا موبائل فون چیک کرتا۔ اس کے سب ملنے جلنے والوں کا ریکارڈ رکھتا۔ یہ سب کام میں نامحسوس انداز میں کرتا تھا۔ مجھے شک نہیں پورا یقین تھا کہ عسل بھی میری ماں جیسی نکلے گی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔ میرے بچپن نے میری نفسیات پر ناقابلِ یقین اثرات مرتب کیے تھے میں کسی صورت بھی نارمل سوچ رکھنے والا انسان نہیں رہا تھا۔ اس کی قصور وار میری ماں تھی۔ صرف اور صرف میری ماں۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ کیا میں جو سوچتا تھا وہ سب درست تھا؟ ان سب سوالوں کے جواب مجھے آنے والے سالوں میں ملے۔ ہائے میرے خسارے۔ ہائے میرا نقصان۔
٭…٭…٭