ناتمام — نبیلہ ابر راجہ

کاش کاش! کوئی اسے مل جاتا۔
کاش ابا اور کاظم گھر سے باہر نہ جاتے۔ کاش وہ ہوش میں رہ کر سوچ سکتی کہ سر نوید نے ایک بار بھی اسے خط کے ذریعے جواب کیوں نہ دیا۔ مولوی صاحب جو کہتے گئے وہ آنکھیں بند کیے یقین کرتی گئی۔ مولوی صاحب کے حجرے میں ٹیلی فون کی سہولت موجود تھی۔ ابا نے کتنی بار اس سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا۔ جب بھی اندرون پنجاب انہیں اپنے کسی رشتہ دار سے رابطہ کرنا ہوتا، تو وہ مولوی صاحب کا فون استعمال کرتے تھے۔ کاش وہ صرف ایک بار سرنوید سے بات کرنے کی ضد کرتی تو سب کہانی کھل جاتی۔ لیکن گھر سے نفرت کی آگ اتنی شدید تھی کہ اس نے سامی کی عقل کو بھی بھسم کر دیا تھا۔
وہ سر نوید کے لیے جو خط لکھ کر مولوی صاحب کو دیتی رہی ان میں سے ایک بھی ان تک نہیں پہنچا تھا۔ مولوی صاحب خود پڑھ کر جواب دے دیتے وہ بھی زبانی اور وہ کتنی بے وقوف کہ ہر بات پر اعتبار کرتی گئی۔
ان خطوط میں ماسٹر نوید کے لیے جو محبت تھی اس محبت نے مولوی صاحب جیسے کج رو مرد کو نفرت و حسد کی تیز جلتی آگ میں پھینک دیا تھا۔ سامی کو ان کا ہاتھ لگانا، پیار سے تکنا کتنا برا لگتا تھا اور اپنے اسکول ماسٹر کے لیے وہ پاگل ہوئی جارہی تھی۔ اسے شادی کی خاطر گھر سے بھاگ رہی تھی۔ حالانکہ وہ ذرا بھی عقل رکھتے تو انہیں سمجھ آجاتی کہ جن باتوں کو وہ محبت سمجھ رہے تھے وہ سامی جیسی گھٹن زدہ ماحول میں پرورش پانے والی نو عمر لڑکی کا نوحہ تھا جو صرف تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ گھر کے سامنے خالی پڑے جھاڑ جھنکاڑ میدان میں سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے۔ ڈھیر سارا پڑھنا چاہتی ہے۔ اسے کیا خبر محبت کیا ہوتی ہے شادی کیا ہوتی ہے۔
سامی جیسی کچی عمر کی لڑکی جو باپ اور بھائی کی محبت اور ان کے اعتبار کی متلاشی تھی۔ اسے باقی محبتوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اسے اپنی چھوٹی سی آزادی والی دنیا پسند تھی۔ اس دنیا کو پانے کی خاطر اس نے مولوی صاحب سے رابطہ کیا تھا۔ آزادی کا خواب چھناکے سے ٹوٹا تھا۔ ساتھ ہی اس کی نسوانیت کا پندار بھی۔
بیٹی ذات سے محبت کا درس دینے والے، مظلوموں کا ساتھ دینے کی باتیں کرنے والے، دینی تعلیم و شعور کو عام کرنے کے دعوے کرنے والے مولوی صاحب نے سامی کی عزت تار تار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی نفسیات پر بھی گہرے زخم لگائے تھے۔
٭…٭…٭





سکینہ ماں تھی۔ گھبرا کر سامی کو دیکھنے دروازے پر آئی تو سامنے اس کی پڑوسن کوثر کھڑی تھی۔ وہ ٹھیلے والے سے سبزی خرید رہی تھی۔ سکینہ کو دیکھا تو حال احوال پوچھنے لگی۔
’’کیسی ہو سکینہ بہن آتی ہی نہیں ہو میرے گھر اور یہ سامی نظر نہیں آرہی ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سکینہ جواب دیتی کوثر خود ہی بول پڑی۔ ’’میری بیٹی نے بھی تمہاری سامی کی طرح مدرسے جانا شروع کردیا ہے۔ اللہ مولوی صاحب کا بھلا کرے۔ انہوں نے بڑا نیکی کا کام کیا ہے۔ ہاں آج تو انہوں نے سب بچیوں کو شام تین بجے کا وقت دیا ہے۔ طبیعت خراب ہے استانی صاحبہ کی۔ مولوی صاحب نے کل ہی بتادیا تھا۔‘‘ کوثر مدرسے، مولوی صاحب کے حوالے سے کچھ اور بھی بول رہی تھی، لیکن سکینہ ایک جملے پر اٹک گئی تھی۔ ’’مولوی صاحب نے تین بجے کا وقت دیا ہے۔ وہ تیزی سے اندر کمرے میں آئی کھونٹی پر لٹکا برقع افراتفری میں اُتارا۔ اتنے میں باہر کا دروازہ کھلنے کی چرچراہٹ اُبھری اس نے پریشانی میں کنڈی ہی نہیں لگائی تھی۔ برقع اس کے ہاتھ میں تھا۔ جب سامی لڑکھڑاتے قدموں سے اندر فرش پر گری۔
سکینہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ گئی کہ کون سی قیامت گزر گئی ہے۔ سامی کی حالت خود گواہی دے رہی تھی۔ شکر تھا کہ اللہ یار اور سامی کے بھائی گھر نہیں تھے۔
زندگی میں اس دن پہلی اور آخری بار سامی ماں کے گلے لگ کر روئی۔ سکینہ کی پیار بھری تسلیوں نے اسے سب راز کھولنے پر مجبور کردیا۔ وہ سب کچھ بتاتی چلی گئی اور تب ماں کے گلے لگ کر سامی نے روتے ہوئے سوچا کہ کاش اتنا پیار اماں نے پہلے کیا ہوتا……‘‘
٭…٭…٭
’’سنبھالو نونو کو۔ میں تھک گئی ہوں، اب سوؤں گی۔ بے غیرت نے ساری رات سونے نہیں دیا۔‘‘ ماں نے ڈیڑھ سال چھوٹے بھائی کو اس کی گود میں پٹخا۔ فادی کی گود میں آتے ہی وہ گلا پھاڑ کر رونے لگا۔ نو سالہ فادی گزشتہ دو سال کے دوران چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنے میں کافی ہوشیار ہوچکا تھا۔ وہ گھر کی دیکھ بھال صفائی، برتن دھونے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرتا تھا۔ صبح و شام ویکیوم کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔ نونو روتا، تو اسے دودھ بناکر دینا اور کچھ کھلانا اس کی ذمہ داری تھی۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ چھے نونوؤں کو پال چکا تھا۔ اس کی ماں ہر نئے پیدا ہونے والے اس کے بھائی یا بہن کو نونو ہی کہتی تھی۔ آخری نونو اس کا سب سے زیادہ لاڈلا تھاکیوں کہ جب وہ پیدا ہوا، تو بہت کمزور تھا۔ اس میں قوت معدافت نہ ہونے کے برابر تھی۔ کتنے دن تو وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہا۔ ہاسپٹل سے گھر آتے ہی مما نے نونو اس کے حوالے کردیا۔ یہ ان کے مابین خاموش سمجھوتہ تھا۔
بچوں کو نہلانے دھلانے، پوٹیاں دھونے، ڈائپر بدلنے، دودھ بنانے اور سری لیک کھلانے سے لے کر انہیں سلانے تک وہ ہر کام میں طاق ہوچکا تھا۔ اب مما کو کسی کام کے لیے اسے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن ان سب کے بعد بھی وہ خوش نہیں ہوتی تھیں۔ ابھی بھی ان سب کو ویسے ہی مار پڑتی تھی اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ ابھی پرسوں ہی نونو سے چھوٹے چھے سالہ موسیٰ کو مما کے ہاتھوں بابا کی بیلٹ سے مارپڑی۔
موسیٰ کے سارے جسم پر نیل تھے۔ پوری رات مارے درد کے وہ سو نہیں پایا اور اس کے ساتھ فادی بھی۔ موسیٰ روتا، تو فادی بھی روتا۔ اسے سینے سے لگائے، سلانے کی کوشش کرتے اس نے ساری رات کاٹ دی تھی۔
اسے لگ رہا تھا موسیٰ کے بعد نونو کا نمبر ہے۔
نونو سے تو وہ سب سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ اسے ذرا سی بھی تکلیف میں مبتلا دیکھنا اس کے بس سے باہر تھا۔ جب سے اس کی چھوٹی بہن نمونیے کا شکار ہوکر فوت ہوئی تھی تب سے وہ نونو کو نہلاتا بھی خود تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ نونو بھی اذیت ناک موت سے ہمکنار ہو۔ نونو میں اس کی جان تھی۔
٭…٭…٭
اس کا شوہر طارق اس سے آدھی عمر بڑا تھا۔ اس کی لال ڈوروں والی آنکھوں سے سامی کو بہت ڈر لگتا تھا، مگر اس کا یہ ڈر عارضی تھا کیونکہ طارق ایک مرنجاں مرنج قسم کا انسان تھا۔ شادی کے صرف چار ماہ بعد سامی سعودیہ آگئی۔
ٹھیک نو ماہ بعد اس کا پہلا بچہ اس کی گود میں تھا۔ چار کمروں کا گھر تھا جس میں اس کے ساس، سسر سمیت اس کے دو کنوارے دیور بھی تھے۔ دو نندوں نے اسی سال اپنی اپنی پسند سے شادی کی کیوں کہ انہیں ایسا لگتا تھا جیسے ماں باپ کبھی بھی ان کی شادی نہیں کریں گے۔ شادی ہونے سے پہلے انہوں نے ہر طرح کی زیادتی سامی کے ساتھ روا رکھی۔ کیوں کہ وہ عزیب گھر سے بیاہ کر آئی تھی۔ خود انہیں یہاں رہتے ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ سعودی معاشرت میں پوری طرح رچ بس کر خود کو ماڈرن، روشن خیال، ترقی یافتہ اور سامی کو جاہل گنوار تصور کرتی تھیں۔ اس معاملے میں پھوپھی عائشہ ہمیشہ خاموش رہتی۔ طارق کے دونوں بھائیوں نے بھی اپنی اپنی پسند سے شادی کی اور بیویوں کے ساتھ الگ گھر میں شفٹ ہوگئے۔
طارق کو روپے کمانے کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی۔ سامی کی اس کی زندگی میں صرف اتنی اہمیت تھی کہ وہ اس کی فطری ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ تھی۔ سامی اور طارق کی شادی کے چھٹے سال ساس ، سسر بھی یکے بعد دیگرے ملک عدم سدھار گئے۔
طارق نے اپنی بچت سے پہلی بار بوفیا کھولا۔ خدا اس پر مہربان تھا جس چیزیں میں بھی ہاتھ ڈالتا کامیاب ٹھہرتا۔ بوفیا اس کے لیے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ طارق نے اگلے سال ایک اور بوفیا بنالیا۔ ایک میں دو ملازمین کے ساتھ وہ خود ہوتا اور دوسرے میں اپنے ایک بااعتماد بندے کو چھوڑ رکھا تھا۔ پیسہ بارش کی طرح برس رہا تھا۔ گھر سے وہ مکمل طور پہ بے پروا تھا۔
سامی اپنے ہر معاملے میں مکمل طور پر خود مختار تھی جس آزادی کی وہ متمنی تھی وہ اسے مل چکی تھی۔ کیوں کہ طارق کو بیوی سمیت بچوں سے بھی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ وہ رات کے آخری پہر گھر آتا، کھانا کھا کر سوجاتا ۔ دن گیارہ ، بارہ بجے اٹھ کر کام پر چلا جاتا۔ سامی گھر کیسے چلاتی ہے، بچوں کی تربیت کیسے کررہی ہے، بچے تعلیمی میدان میں کیسے ہیں، اسے چنداں خبر نہیں تھی۔
طارق اگر اُسے شوہر والا اعتبار اور محبت دیتا، تو ممکن تھا کہ سامی وہ نہ بنتی جو آنے والے وقت میں بنی۔ پر طارق کے پاس بیوی بچوں کے لیے وقت ہی کہاں تھا۔ شادی کے بعد کتنے سال اس نے عالم بے خبری میں گزارے۔
٭…٭…٭
میں فادی ہوں۔ اپنی مما اور بابا کا سب سے بڑا بیٹا۔ میں نے سنا تھا کہ پہلے بچے کے ماں باپ بہت لاڈ اٹھاتے ہیں۔ پر میرے لاڈ تو کسی نے بھی نہیں اُٹھائے۔
سات سال کی عمر میں، مما نے چھوٹے بھائی کو سنبھالنے کے لیے میرے حوالے کردیا۔ مجھے اسکول جانے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میری مما کو بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ یہ مجھے بہت بعد میں پتا چلا لیکن میری پڑھائی سے مما کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری صبح اسکول جانے کے وقت آنکھ کھلتی، تو میں مما کو جگانے جاتا تاکہ وہ مجھے اسکول کے لیے ناشتا بنادے۔ جواباً وہ مجھے تھپڑ مار کر گالی دیتی اور اپنے بیڈروم کا دروازہ بند کرلیتی۔ میرے بعد جو باقی بہن بھائی داخل ہوئے ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ ہم میں سے کوئی بھی سات آٹھ سال کی عمر سے پہلے اسکول نہیں گیا۔ ہم سب باقی بچوں کی نسبت بہت پیچھے اور کند ذہن تھے، ہر کوئی ہمارا مذاق اُڑاتا۔ ہمارے یونیفارم ہمیشہ گندے اور موزے بدبودار ہوتے۔ ایک دن میرے استاد نے مجھے کلاس سے باہر بلا کر کہا کہ تمہارا باپ اچھا خاصا پیسے والا آدمی ہے پھر تمہارے یونیفارم کا یہ حال کیوں ہے۔ تمہاری کتابیں پرانی خستہ حال اور نوٹ بکس پھٹی ہوئی ابتر حالت میں کیوں ہیں؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں اس وقت نو سال کا تھا۔ مجھے سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔
میری آنکھوں میں شدت توہین سے آنسو آگئے۔ پھر آنے والے چند سالوں میں یہ توہین ہم سب بہن بھائیوں کا مقدر بن گئی۔
مما نے ہمیں قرآن بھی نہیں پڑھوایا۔ میرے گنے چنے دوست تھے وہ سب قرآن پاک مکمل پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے عربی اساتذہ سے پڑھا تھا۔ ان کا تلفظ بہت اچھا تھا، لیکن میری مما کو ہماری دینی تعلیم سے بھی دلچسپی نہیں تھی۔ ہم جس علاقے میں بعد میں شفٹ ہوئے وہ قدرے مہنگا تھا۔ ایک کمپاؤنڈ کے اندر سب رہائشی اپارٹمنٹس تھے۔ یہاں پارک، پلے گراؤنڈ اور سوئمنگ پول بھی تھا۔ یہاں شفٹ ہونے کے بعد مما کی دلچسپی بدل گئی۔ اس نے یہاں اچھی خاصی سہیلیاں بنالی تھیں۔ وہ کھلے دل سے ان پر پیسہ لٹاتی، مہنگے تحائف لے کر دیتی۔ ان کے گھر پارٹیز میں جاتی۔ روز شام کو تیار ہوکر نکل جاتی پھر عشا کے بعد گھر آتی۔ اس دوران سب بچے میرے پاس ہوتے۔ مما کبھی کبھی عشا کے بعد بھی گھر سے جاتی تھی۔ پھر وہ رات گیارہ بجے کے بعد لوٹتی۔
توشی کا سر جوؤں سے بھرا ہوا تھا۔ توشی کا ہی نہیں ہم سب بھائیوں کے سر میں بھی جوئیں تھیں۔ اسکول میں لڑکے میرے ساتھ کھیلنا، بیٹھنا یا بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہیں مجھ سے کراہت آتی تھی کیوں کہ اکثر جوئیں میرے کپڑوں پر رینگتی پائی جاتی تھیں۔
میں نونو کے سر میں برش پھیرتا، تو برش کے تاروں کے ساتھ جوئیں آتی۔ توشی ہر وقت سرکھجاتی۔ یہاں کوئی بھی اس کی سہیلی نہیں تھی۔ وہ شام کو پارک جاتی تو کوئی لڑکی بھی اس کے ساتھ نہ کھیلتی۔ اس کی طرف اشارے کرکر کے سب ہنستیں۔ وہ بقالے پر چیزیں خریدنے جاتی تو دکاندار اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتے۔
مما شام کو گھر سے نکلنے سے پہلے پیسے رکھ جاتی۔ میں بقالے سے اندوحی لے کر آتا اور سب کو بنا کر کھلاتا۔ ہمیں گھر کا کھانا شاذونادر ہی نصیب ہوتا۔ نونو کے لیے میں بطاطس لے آتا۔ وہ مطبغ بھی شوق سے کھاتا تھا۔ باقی ہم صبح ناشتے کے وقت ڈبل روٹی پر چیز، یوک لگا کر سینڈوچ بنالیتے۔ میری دیکھا دیکھی باقی بھی یہ سب سیکھ گئے تھے۔ میں شام کو انہیں میکرونا بنادیتا۔ رات کو شامی روٹی کے ساتھ انڈے تل لیتا اور یوں سب پیٹ بھر لیتے۔ بابا رات گئے گھر آتے تھے۔ وہ بھی اپنا کھانا باہر سے لاتے تھے۔ ان کا بچایا ہوا کھانا کبھی فریج اور کبھی کچن شیلف پہ پڑا ہوتا۔ ہم اس کھانے پر پاگلوں کی طرح ٹوٹتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو ہم سب ننگی اور غلیظ گالیاں دیتے کیوں کہ ہم نے مما کے منہ سے گالی کے بغیر بات ہی نہیں سنی تھی۔ میرے دونوں چچا اور پھوپھیاں میری مما کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ کوئی ہمارے گھر آتا ہی نہیں تھا۔ مما بھی ہمیں کسی کے گھر لے کر نہیں جاتی تھیں۔
میں نے اپنے گھر میں کبھی کسی مہمان کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔
ہاں اس دن میں نے پہلی بار اس اجنبی صورت جاذب نظر ڈاڑھی والے نوجوان مرد کو دیکھا۔ میں نہیں جانتا تھا وہ کون ہے۔ مما اس کے سامنے رو رہی تھی۔
جب وہ گھر سے رخصت ہوا، تو میں بھی چھپ کر اس کے پیچھے نکلا۔ اپنے تعاقب کا اسے فوراً ہی احساس ہوگیا۔ وہ بلڈنگ سے باہر نکلتے نکلتے پیچھے مڑا، تو میں ستون کی آڑ سے نکل کر سامنے آگیا۔ وہ ایسے اچھلا جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔
٭…٭…٭
مما شام کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ سج سنور کر گاڑی میں جاچکی تھی۔ توشی موقع کی تلاش میں تھی۔ وہ اپنے فلور سے سیدھی نواف کے فلور پر پہنچی۔ آج وہ یہ راز ہر قیمت پر جان لینا چاہتی تھی کہ نواف بچوں کو غائب کیسے کرتا ہے۔ وہ اسے التجا کرنا چاہتی تھی کہ نواف اسے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب کردے تاکہ وہ مما جیسی ظالم عورت سے چھٹکارا پاسکے۔ اس نے اِدھر اُدھر چور نظروں سے دیکھتے ہوئے نواف کے گھر کی بیل بجائی۔چند سیکنڈ میں ہی نواف موجود تھا۔ وہ اسے سیدھا اندر لے گیا۔ اس کے گھر سے کھانے کی زبردست خوشبو آرہی تھی۔ توشی کی آنکھوں سے ندیدہ پن جھانک رہا تھا۔ نواف اس کے لیے بیشامیل لے آیا۔ وہ بے تابی سے موٹے موٹے نوالے کھانے لگی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Read Next

قرض — وقاص اسلم کمبوہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!