’’اس عورت نے تمہاری بیٹی کو کہاں دیکھا؟‘‘ اللہ یار نے تنک کر سوال کیا۔ سکینہ اس سوال کا جواب تیار کرنا بھول گئی تھی۔ خوشی میں اسے کچھ یا دہی نہیں رہا تھا کہ اس کا مجازی خدا سب سے پہلے اسی بارے میں سوال کرے گا۔ صرف وہی نہیں کاظم بھی لال انگارہ آنکھوں سے بہ زبان خاموشی یہی سوال کررہا تھا۔ سکینہ کو اللہ یار کے ساتھ ساتھ بیٹے کی آنکھوں سے بھی خوف آرہا تھا جسے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر اس نے جنم دیا تھا۔ اس کی آنکھیں اور تاثرات کسی نو عمر لڑکے والے نہیں تھے۔ وہ چیخ چیخ کر آنکھوں میں بتارہا تھا کہ میں بھی مرد ہوں۔ مکمل ، جوان بالغ مرد۔
’’تو بھی بیٹی کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ یہ عاشقی معشوقی کے چکر میں ناک کے راستے باہر نکالوں گا۔ تب ہی وہ کل کا لونڈا ماسٹرمیرے بچوں کی فیس جمع کروا رہا تھا۔ ماں کے ساتھ بیٹی بھی برابر کی شریک ہے۔ اس ماسٹر نوید کو تو میں دیکھ لوں گا۔ پہلے تم دونوں ماں بیٹی کی خبر لے لوں۔ برادری میں میری ناک کٹوانی ہے۔ میری عزت کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تم ماں بیٹی نے۔‘‘ اللہ یار سکینہ کو کھری کھری سنا رہا تھا اور اِدھر کاظم دھڑا دھڑ سامی کو مار رہا تھا۔ ایک ناکردہ گناہ کی سزا اسے خوب ملی تھی۔
مستقبل کے سہانے خواب تعبیر ملنے سے پہلے ہی مٹی میں مل گئے۔ تین دن بعد کاظم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سر نوید کو سنسان جگہ لے جاکر خوب مارا۔ ’’غیرت مند بھائی‘‘ نے اپنی بہن کے ساتھ چکر چلانے اور رشتہ بھیجنے کے جرم کی سزا دل کھول کر دی تھی۔
اپنی اہانت کے شدید احساس نے نوید کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اُدھر سامی پر مزید تعلیم حاصل کرنے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔ وہ گھر میں ایک طرح کی قیدی بن گئی۔ اسے دروازے تک بھی آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس گھر میں وہ ایک نجس اور پلید چیز تھی۔ اللہ یار اور کاظم کے گھر آنے کے بعد وہ اکلوتے کمرے کے ایک کونے میں سکڑ کر لیٹ جاتی۔ سکینہ کا یہی حکم تھا۔ وہ اب لمبی لمبی نمازیں ادا کرنے لگی تھی۔ اس کی دعائیں اور سجدے طویل ہوتے جارہے تھے۔ سکینہ نے ساری عمر نماز ادا نہ کی تھی اور اب پنج وقتہ نمازی بن گئی تھی۔
اسے اپنا ریڈیو، فرمائشی گانے، فلمیں سب بھول گیا تھا۔ وہ اپنے رب سے رو رو کر ایک ہی سوال کرتی۔ ایک ہی چیز مانگتی۔
وہ ایک سوال، وہ ایک دعا سامی کے نصیب کے لیے گوہر نایاب تھا۔
٭…٭…٭
میں نے زندگی میں اگر اپنے لیے کسی کی آنکھوں میں شدید محبت دیکھی اور محسوس کی وہ ان دو دھندلی، کمزور نظر والی آنکھوں میں تھی۔ ان آنکھوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے اٹھا کر دل میں رکھ لیں۔ میری بلائیں لیتے لیتے وہ آنکھیں تھک نہیں رہی تھیں۔
میں سولہ سال کا ان آنکھوں کی محبت سے اتنا ہی انجان اور ناشناس تھا جتنا کوئی بچہ ہوسکتا ہے۔
لیکن سولہ سال کے بعد میں نے وہ محبت محسوس کی اور بار بار دیکھنے کی خواہش بھی کی۔ ان کمزور دھندلی آنکھوں والی نے بہت پیار سے میرے لیے ناشتا بنایا تھا۔ اس ناشتے کا ذائقہ میں سات سال تک اپنی نوک زباں پر محسوس کرتا رہا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ سولہ سال کی عمر میں پہلی بار میں نے انڈے پراٹھے کا ناشتا پیٹ بھر کر کیا تھا۔ ایسا ناشتا آنے والے کتنے سالوں تک مجھے نصیب نہیں ہوا۔
سولہ سال کے بعد جانے پھر کب مجھے ایسا ناشتا ملے گا؟ میں نے یہ سوال کتنی بار خود سے کیا تھا۔
٭…٭…٭
جاذب نظر کالی گھنی ڈاڑھی والا مرد مما کے گلے لگ کر رو رہا تھا۔ مما بھی رو رہی تھی۔ بچوں نے پہلی بار ماں کو ایسے روتے دیکھا تھا اور اسے دیکھ کر بچے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی ماں جیسی عورت بھی رو سکتی ہے۔ جو اِن ننھے معصوموں کو خون کے آنسو رلاتی رہی ہے آج نرم دلی کی مثال بنی رو رہی تھی۔
اس جوان مرد کو انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ان کی ماں سے دو تین سال بڑا لگ رہا تھا۔ کالی گھنی ڈاڑھی اس پر خوب جچ رہی تھی، لیکن وہ کون تھا؟ اچانک کہاں سے آیا۔ وہ سب اسکول سے آئے تو اجنبی صورت مرد گھر میں موجود تھا۔ انہیں دیکھتے ہی ماما نے سخت لہجے میں سب کو اپنے اپنے کمروں میں جانے کا حکم دیا۔ وہ مما سے کسی اجنبی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ زبان ان کے لیے مانوس نہیں تھی کیونکہ انہیں عربی آتی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں اور کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ اسکول میں بھی عربی زبان میں تعلیم دی جاتی۔ کیونکہ وہ سب عربی اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔ تجسس نے انہیں بند دروازوں کے پیچھے سے بھی باہر جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔ سب نے ایک ہی منظر دیکھا۔ مما اس مرد کے گلے لگی زارو قطار رو رہی ہے۔ مرد کی موٹی موٹی آنکھیں شدت ضبط سے لال ہورہی تھیں۔ وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر کچھ کہنے کی کوشش کررہا تھا، لیکن مما اسے ہر بار خاموش کروا رہی تھی۔ پھر وہ تھک ہار کر خاموش ہوگیا۔ صرف مما بولتی رہی۔
جب وہ جانے کے لیے اُٹھا، تو مما کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اب مما کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ وہ پہلے کی طرح بے حس اور پتھر تھی۔ ایسا پتھر جس میں سے پانی کا چشمہ نہیں پھوٹتا۔
وہ سب مما سے بہت سے سوال پوچھنا چاہتے تھے، لیکن اس اجنبی کے جانے کے بعد وہ ایک ایک کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ خوف نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ لیکن فادی نے ہمت دکھائی۔ اس نے ناقابل یقین کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ اس کارنامے نے اسے ایک اجنبی دیس میں پہنچادیا۔
٭…٭…٭
سامی کو گھر میں بند ہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا۔ ابا اور کاظم نے مکمل طور پر اس سے بات چیت بند کی ہوئی تھی، لیکن سلیمان اس سے بات کرتا۔ وہ ممکن حد تک اس کا دکھ بانٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ سامی کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
لیکن اپنی کمزور پوزیشن کی وجہ سے وہ ابا کے سامنے بول نہیں پاتا تھا۔ ہاں کاظم کا رتبہ اور عزت گھر میں بڑھ گئی تھی۔ کیوں کہ سر نوید والے واقعے کے بعد اس نے اسکول چھوڑ کر ائیرکنڈیشن اور فریج مرمت کرنے کی دکان پر ملازمت کرلی تھی۔ ساتھ ہی رب نواز کے پاس بھی جاتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بجلی کا چھوٹا موٹا کام بھی سیکھنے لگا۔ ٹیکنیکل کاموں میں اس کا دماغ بہت تیز تھا۔ سوتینوں جگہوں سے کچھ نہ کچھ پیسے مل رہے تھے۔
اللہ یار کاظم سے بہت خوش تھا۔ وہ اس کی آنکھوں کا تارہ بن گیا تھا۔ سو بڑا بیٹا ہونے کے باوجود سلیمان کی خاص قدر نہیں تھی۔
سامی اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔ بے بسی اور اہانت کے شدید احساس نے اسے گھلادیا تھا، مگر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سکینہ اس کے غم میں خود رنج و الم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
سامی، نوید کو لگنے والی چوٹوں کا سن کر تڑپ گئی۔ کاش کسی طرح وہ اس تک پہنچ سکتی۔ کاظم کی بدسلوکی کی معافی مانگ سکتی لیکن وہ تو پنجرے میں بند بے بس پنچھی تھی جس کے پر ہی کاٹ دیے گئے تھے۔ اب وہ کھلے آسمان میں اڑان بھی نہیں بھرسکتی تھی۔
٭…٭…٭
ایک روز سکینہ قریبی مارکیٹ گئی اسے گھر کے لیے ضروری سودا سلف لینا تھا۔ کاظم نے اسے کچھ پیسے دیے تھے۔ سامی گھر میں اکیلی تھی۔ وہ بے چین روح کے مانند اندر باہر چکر کاٹ رہی تھی۔ جب دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا۔ ’’بہن جی میں ہوں۔‘‘ باہر سے دروازے کو دھڑ دھڑانے کے ساتھ ساتھ آواز بھی آئی۔ یہ تو مولوی صاحب کی آواز تھی۔ سامی نے بھاگ کر سوچے سمجھے بغیر دروازہ کھول دیا۔ باہر مولوی صاحب حیرت سے کھڑے اسے تک رہے تھے۔ کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے سامی نے ان کے سامنے آنا چھوڑ دیا تھا۔ اللہ یار کی زبانی ان تک اس گھر کے سب حالات بخوبی پہنچ جاتے تھے۔ وہ اپنی پریشانیاں، دکھ تکلیفیں انہیں بیان کرکے سمجھتا تھا کہ وہ بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ چھڑی گھماتے ہی سب بدل جائے گا۔
سرنوید کے رشتے سے لے کر سامی کے اسکول چھوٹنے تک انہیں ایک ایک بات کی خبر تھی۔ ابھی وہ کسی کام سے ان کے گھر آئے تھے لیکن سامی کے چہرے کے تاثرات اور اس کی دگرگوں حالت نے انہیں وقتی طور پر سب بھلا دیا تھا۔ پھر جس طرح اس نے دروازہ کھول کر مولوی صاحب کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا۔ اس انداز نے انہیں خوش فہمیوں کے بلند و بالا آسمانی جھولے پر بیٹھنے پہ مجبور کردیا تھا۔
مولوی صاحب کے اندر آتے ہی سامی نے نتائج سے بے خبر ہوکر دروازہ فوراً بند کردیا۔ ’’مولوی صاحب میری مدد کرو اللہ کا واسطہ ہے میری مدد کرو۔‘‘ سامی نے برستی آنکھوں سے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے تو مولوی صاحب کے اندر کا مرد یک دم بیدار ہوگیا جو ہر پل اپنے فائدے اور نقصان کی سوچتا ہے پھر داؤ لگاتا ہے۔ ’’کیا ہوا ہے سامی کچھ بتاؤ تو سہی۔ ایسے کیوں رو رہی ہو۔‘‘ انہوں نے سامی کے نرم و ملائم گداز ہاتھ تھامے۔ ’’میرا پیغام سر نوید تک پہنچادیں آپ کو رب کا واسطہ ہے۔‘‘ سامی کے آنسو رکنے میں نہیں آرہے تھے اور پھر پاس ہی تاک میں کھڑے شیطان نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ’’میں ابھی چلتا ہوں۔ تم نے دروازہ بند کردیا ہے۔ کوئی آگیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں کرتا ہوں کچھ۔‘‘ مولوی صاحب جہاندیدہ انسان تھے سامی بے وقوف تھی پر انہوں نے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا تھا۔
’’مولوی صاحب نہیں۔ میں آپ کو ایسے نہیں جانے دوں گی۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔ آپ کے سوا کوئی میری مدد نہیں کرسکتا۔‘‘ سامی نے مضبوطی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’میں پھر آؤں گا وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
وہ سامی کی وحشت خیزی سے ڈر گئے تھے ورنہ کبھی ان لمحات کی تو انہوں نے بارہا آرزو کی تھی۔
’’آپ پکا وعدہ کریں۔‘‘
’’ہاں میں وعدہ کرتا ہوں۔ اچھا میں اب چلتا ہوں پھر آؤں گا۔‘‘ مولوی صاحب کنڈی کھول کر باہر نکلے، تو مختصر سی گلی سنسان پڑی تھی۔ انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ گلی کا موڑ مڑتے ہی ان کی بے ہنگم دھڑکن بھی نارمل ہوگئی۔
سامی کو وہ بچپن ہی سے پڑھا رہے تھے اور شروع ہی سے سامی پر ان کی بد نظر تھی، لیکن جب بھی وہ اسے چھونے یا قریب ہونے کی کوشش کرتے، تو وہ گھبرا جاتی، اس کا رنگ اڑ جاتا۔ وہ واضح طور پر اپنی نفرت کا اظہار نہیں کرسکتی تھی، لیکن اس کے جسم کے تمام اعضا اس بات کی گواہی دیتے کہ اسے مولوی صاحب کی یہ جسارت پسند نہیں ہے۔ اوپر سے وہ جس گھٹن زدہ ماحول کی پروردہ تھی اس نے مولوی صاحب کو شیر بنادیا تھا۔ انہیں سوفی صد یقین تھا کہ سامی ان کی ناپاک ناآسودہ جسارتوں کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتی اور ان کا یقین درست ثابت ہوا۔ اس محلے کی بیشتر بچیوں کو انہوں نے ہی قرآن پاک پڑھایا تھا۔ انہیں ہر گھر کا تجربہ تھا۔ محبت اعتماد، اعتبار اور خلوص کے فقدان نے بچیوں کو کمزور اور دبی دبائی شخصیت کا مالک بنادیا تھا۔ سامی والا تجربہ اور جسارت تقریباً انہوں نے ہر گھر میں دہرائی تھی اور کہیں سے بھی ان کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔ آج وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے لیکن ابھی سامی کے گھر سے نکلنے اور گلی کا موڑ مڑنے کے بعد انہیں جانے کیوں یقین ہوگیا تھا کہ انہیں ان کی مراد ملنے والی ہے۔ سامی تمام بچیوں میں سب سے زیادہ معصوم اور خوبصورت تھی اور وہ اس کی معصومیت سے کھیلنے کا پورا منصوبہ بناچکے تھے۔
٭…٭…٭
عائشہ پھوپھی کی اچانک آمد ان کے گھر طوفان کے مانند ہوئی تھی۔ پھوپھی کا پورے خاندان میں اثرورسوخ تھا۔ جب بھی وہ پاکستان آتیں پورے خاندان میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ خیر سے وہ چار جوان لڑکوں کی ماں تھی۔ ایک بیٹے کی دو سال پہلے شادی کرچکی تھیں، لیکن تین ابھی بھی باقی تھے۔ ان کے شوہر پچیس سال پہلے روزگار کی خاطر سعودی عرب گئے تھے۔ سیٹ ہونے کے بعد انہوں نے بیوی بچوں کو بھی وہیں بلوالیا۔ ان کے بیٹے کبھی کبھار پاکستان آتے تھے، لیکن پھوپھی ہر سال دو سال بعد پاکستان لازمی آتی کیوں کہ اُن کی بوڑھی ماں ابھی حیات تھی۔ وہ سب سے بڑے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہائش پزیر تھی۔ پھوپھی عائشہ سعودیہ جانے سے پہلے اسی محلے میں رہتی تھیں۔ ان کا گھر خالی تھا۔ پاکستان آکر وہ اسی گھر میں قیام کرتیں۔ دو منزلہ مکان کا پچھلا حصہ انہوں نے کرائے پر دے رکھا تھا۔
پاکستان آمد پر کرایہ دار اکٹھا کرایہ ان کے ہاتھ پر رکھتا۔ پھوپھی عائشہ سب رشتہ داروں کے گھر خوب دعوتیں اڑاتیں۔ بیٹیوں والے سب گھرانے آس لگائے بیٹھے تھے۔ بڑے بیٹے نے اپنی پسند کی شادی کی تھی اور شادی کے چھے ماہ بعد بیوی کو بھی سعودی عرب اپنے پاس بلوا لیا تھا۔ پھوپھی عائشہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے باقی بیٹوں کی شادی اپنی مرضی سے اپنے خاندان میں کریں گی۔ اس لیے اس بار سب ہی آس لگائے بیٹھے تھے۔
پھوپھی عائشہ کی ماں یعنی سامی کی دادی نے کہا تھا کہ اپنے چھوٹے بھائی کے گھر بھی جھانک لے۔ اس کی جوان بیٹی ہے۔ بھائی کا بوجھ بٹا۔ دادی کو اپنے بیٹے کی غیر ذمہ داری کا سارا علم تھا۔ وہ اس کے سلوک سے نالاں تھی۔ اس لیے عائشہ نے کہا کہ وہ طارق اور امین کے لیے لڑکی ڈھونڈنے آئی ہے، تو دادی نے جھٹ سامی کا نام لے دیا۔
سامی خوبصورت اور معصوم تھی اور طارق سے پورے پندرہ سال چھوٹی۔ طارق کوئی کم سن بچہ نہ تھا تیس سال کا پورا ہوکر اکتیسویں میں لگا تھا۔ وہ کل نو بہن بھائی تھے۔ سب جوان اور بالغ تھے لیکن ابھی تک شادی صرف ایک کی ہوئی تھی وہ بھی لڑجھگڑ کر اس نے اپنی مرضی سے کی تھی۔ کیونکہ عائشہ کے مجازی خدا کو صرف اور صرف بیٹوں کی کمائی سے غرض تھی۔
ان کے جذباتی تقاضوں سے انہیں چنداں مطلب نہ تھا۔ پھوپھی عائشہ ڈر گئی تھیں کہ چھوٹے بھائی کہیں بڑے کے نقشِ قدم پر نہ چل پڑیں۔ اس لیے وہ پاکستان خاص مقصد لے کر آئی تھیں۔
سامی انہیں شروع سے پسند تھی، لیکن اس نظر سے انہوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب اماں نے یہ خیال ان کے ذہن میں پختہ کردیا تھا۔ انہوں نے کھل کر بھائی اور بھابی سے اپنی خواہش بیان کردی۔
سکینہ بہت خوش ہوئی۔ طارق کی عمر زیادہ تھی تو کیا ہوا۔ کھاتا کماتا مرد تھا۔ شادی کے بعد وہ بیاہ کر سعودیہ چلی جاتی تو اس کی ٹور ہی نرالی ہوتی۔ اللہ یار کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں تھا۔
ہاں اگر اعتراض تھا تو سامی کو۔
٭…٭…٭