میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

زمین کی کوکھ میں سب جب دکھ پنپ جائیں تو ہر فصل کے بیچ میں سیاہی مائل رنگوں کا بسیرا ہوتا ہے جو پھر نسل در نسل زمین کی کوکھ سے فصلوں کی کوکھ تک میں جا اترتا ہے۔
وہ بھی ایسے ہی اک فصل کا بیچ تھی…
حاکمیت کے عنصر کی مٹی کے غو سے بیچ پاتا وہ سانس لیتا وجود یوں زندہ تھا کہ چلتے ہوئے زمین پہ رکھتے جوتوں کی آواز تو کیا سانس کی ”آہ” تک بھی ہوا میں جذب ہوجاتی تھی۔
سرخ پٹوں والی اس کھڑکی کے سامنے بیٹھے وجود پر کسی مٹی کے پتلے کا ساگمان ہوتا ہے…
جس میں ”اذن” کا تصور اک خیال ہی ثابت ہوتا اگر جو روشنی کی نگاہ حیرت کا منبع بن کر نہ تکتی اسے…جو جھکے سر کے ساتھ سفید کورے کاغذ پر اپنی پوری ہمت و طاقت کے ساتھ نبرد آزما تھا… ہمت و طاقت … جو اک خواب و خیال سے بھی کہیں بڑھ کر تھی … کوئی سیات…
کورے کاغذ پر بکھرتے وہ الفاظ …اک انجانی دنیا کو بیان کرتے تھے… ایسی دنیا، جس کی زمین بھی سرخ تھی اور آسمان بھی احمریں… اور یہ احمری رنگ بھی بوجھ تھا جیسے … مگر ہر بوجھ کا سہار بھی ہوتا ہے دنیا میں… اس کا بھی تھا… ایک رازداں… ایک نگہباں…
جہاں کسی کی نظر نہ جاسکی تھی۔
ترچھی ہوئی روشنی نے رُک بدلا تو پتلے نے جنبش کی تھی۔
وہ اٹھا اور کمرے کی دہلیز کو پار کر گیا ۔ مگر سیڑھیاں اترنے سے بھی پہلے اک آواز اس کے قدموں کو روکنے کا جواز بن گئی۔
”میں نے سنا ہے کہ کل تم باغ کے عقبی حصے کی طرف گئیں تھیں۔”
خالی گھر کے اندر گونجتا وہ اک آسیب زدہ آواز تھی۔
تھرتھرائی پلکوں نے اس بے حد لمبے بیک والے صوفے کی نشست پر بیٹھے وجود کو دیکھا۔
”میں نے وہاں مانو کو جاتے دیکھا تھا اسی لئے …” نرم آواز میں خشکی کی تہہ تھی براؤن لب بھینچے تھے۔
”مانو۔” لمحے بھر جھکی سرد آنکھیں دوبارہ اٹھیں۔
”وہ ایک جانور ہے… اور جانوروں کی پیروی انسانوں کے لائق نہیں ہے نادان لڑکی، دوبارہ ایسا عذر اور ایسا بے وقوف قدم میں برداشت نہیں کرسکتی۔”
سرد آنکھیں …لکڑی کا سا سخت وجود… اور پتھرکے قدم…
وہ وہیں کھڑی رہ گئی… اس نے وہاں بے انت پھیلی خاموشی اور کہر ماحول کی یاسیت کو دیکھا… جسے بیان کرنے کی سعی لاحاصل تھی۔
مگر اس نے اس لاحاصل کا ایک ”معبد” دریافت کررکھا تھا۔
ہاں… وہی … اک رازداں… ایک نگہباں…!
ایک ایسا ”روزن” جسے دریافت کرنے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب ہم اپنوں کو ہی اپنا یقین دلانے میں بے حد دوجہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
قدم بہ قدم چلتے وہ اس بے انت پھیلے سخت دیواروں کے ہجوم سے باہر نکلی تو سر پہ ٹھہری ان نیلی گہری آنکھوں نے اسے دیکھ کر ایک دفعہ جھپکی لی اور پانی کا دھارا نکل گیا۔ وہ بے بسی سے ۔ رستی اُن آنکھوں کا قہر دیکھتی رہی جو پانی کی صورت زمین پہ بہہ رہا تھا۔
اور وہ … اس کا ”روزن” … پانی اس کا رستہ روکے ہوئے تھا۔
تبھی ایک نرم سی چمک میں ڈوبی ان گہری سرمئی آنکھوں نے اسے دیکھا تو بے ساختہ ہی اس کی مٹھی سے کاغذ پھسلا… اور اس نے وہ کاغذ اپنے اس روزون کی طرف بڑھتے دیکھا۔
کسی کی ذات کا آخری سہارا … آخری پناہ گاہ…
٭…٭…٭





اس کی سانس پھولی ہوئی تھی… دونوں ہاتھ سر پر رکھے۔
”زندیگ بھی عذات ہوگئی ہے میرے لئے۔” غم غم و غصہ زیادہ تھا چہرے پر یا غصہ و خفگی فیصلہ کرنا ذرا مشکل تھا۔
”میں چاہوں بھی تو خود کو ”ان” پر ثابت نہیں کرسکتا… کہ یہ ایک ناکام راہ ثابت ہوگی ہر لحاظ سے۔”
”ہوں بڑے آئے… بڑے بڑے فیصلے کرنے والے، ہوگیا ناں نقصان ، آگیا ناں سات دکانوں سے مال واپس…یہ مانگ بڑھے گی ہماری،یہ کوالٹی دنیا پر ثابت ہوگی…ہاں…”
بڑے چچا کا آخری کا ہنکارا ذلت آمیز تھا۔
اس کے ماتھے کی رگ پھڑکی۔
”میں گھاٹے کا سودا ہر گز برداشت نہیں کروں گا… کل ہی محترم جناب کے اکاؤنٹ سے رقم آجانی چاہیے… میرے نقصان کی بھرپائی مجھے ہر صورت چاہیے۔”
اس نے زور سے آنکھیں میچیں تھیں۔
اصل فساد کی جڑ… زمینوں سے آتا وہ پیسہ تھا جو بہت ایماندار سے اس کے اکاؤنٹ میں آتا… جسے وہ سوچ سوچ کر اور بہت مناسب طریقے سے خرچ کرتا تھا …مگر بڑ ے چچا…وہاب انصاری۔
”ایک اکلوتے وارث کی حیثیت ہم سے زیادہ نہیں ہوسکتی، خون و جگر سے سینچا زمینوں کو ہمارے باپ دادا نے اور باقی کسر پوری کی ہم نے… مگر نکال باہر کیا۔
ہمیں ہر چیزسے کہ ہم دوستوں کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں زندگی میں… مگر حق، حق ہوتا ہے کبھی سیاہ نہیں پڑتا…ہم پائی پائی کا حساب بھی رکھ سکتے ہیں اور منہ میں رکھے نوالے بھی گن سکتے تھے، نہیں چھوڑا ہم نے سب کچھ اس دو ٹکے لڑکے پر… زندہ ہیںہم چاہے کوئی کچھ بھی بولے۔”
چھوٹے چچا کی طنزیہ دبنگ آواز نے اسے اٹھنے پر مجبور کردیا…کہ وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جارہے تھے۔
”اس دو ٹکے کے لڑکے نے آپ کی اسپیئر پارٹس کی دکان کو دکانوں میں بدل ڈالا چچا جی…” سنجیدہ سی نرم مگر دو ٹوک آواز نے اس کو مضبوط کیا تھا…
ہاں… زندگی میں اب بھی اس کے لئے جگہ تھی کوئی تھا جو اس کے لئے کھڑ اہوسکتا تھا۔
ضبط کی بکھری طنا بیں سمٹی تھیں۔
”تم خامو ش رہو نیہا ، یہ بڑوں کی باتیں ہیں۔” بڑی چچی کی خفگی پر وہ آگے بڑھ آئی۔
”نہیں امی… بات اصول کی بھی ہے اور بہت صاف بھی… تایا ابا و تائی امی کے جانے کے بعد وہ اس گھر کا فرد نہیں ہے کیا…!” اس نے جمعہ حاضرین کو دیکھا۔
”آپ مانیں، نہ مانیں مگر داداجان نے اپنے لاڈلے اکلوتے پوتے کو سرپرست رکھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آگے کے حالات کیا ہوتے، وہ حق کا کام کرتا ہے۔ اگر اس کے اکاؤنٹ میں پیسہ آتا ہے تو وہ آ پ کو بھی ملتا ہے، اگر زمینوں پر سے پرانٹ آتا ہے تو وہ بھی آ پ کو ملتا ہے… اب اگر زمین پہ فصل کم ہونے لگی ہے تو نقصان بھی تو سب کو پورا کرنا ہے۔ اس میں کوئی دوغلی بات نہیں ہے۔”
کندھے اچکاتے ، اس نے سب کو ٹھنڈا کیا تھا۔ اور برف کا کرنے کے لئے…
”اور ابو رہی بات مارکیٹ میں نام خراب ہونے کی تو یہ آپ کی اپنی وجہ سے ہوا ہے کہ آپ نے زیادہ پرافٹ کے لئے ناقص میٹریل استعمال کرنے کی خود ہدایت دی تھی اپنے اسسٹنٹ سلمان کو…”
نیہا کا ایک ایک لفظ مضبو ط بھی تھا اور سچا بھی…
اور جو اسے ہلکا کر گیا تھا۔
بے شک زمین پر گری ریت کو ہوا بکھیر سکتی ہے۔
مگر مٹھی میں بھری جانے والی ریت بھی وزن بھی رکھتی ہے۔
بے انمو ل تو کچھ بھی نہیں…
٭…٭…٭
چاند نکلتے وقت ہو یا سورج کے غروب ہونے کا… ان دونوں میں فطرت سے زیادہ قدرت کے حکم کا اثر ہے… لیکن انسان کے اعمال میں تو خداوند کریم کے حکم کی بدولت خود اس کا ہاتھ ہے… پھر اسے کیوں محروم رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی ”فطرت” کے برخلاف جملے…
زمین کے لب خشک تھے کہیں اک قطرہ بے رنگ پانی کا نہ تھا ۔ لگتا نہیں تھا کہ ا س نے کبھی پانی پیابھی تھا… یاوہ سیراب بھی ہوئی تھی۔
فقط ایک دن میں ہی وہ اپنی ظاہری حالت میں آگئی تھی جو قدرت کی طرف سے اس کی فطرت میں ودیعت کردی گئی تھی…یہ تھا اس کا رنگ …
سوکھے کتھے جیسا…
اور خود اس کی فطرت میں جو سرخ خون اس کے اندر دوڑتا تھا ابھرتا لاوہ تھا۔ شدت سے بھرا ہوا… چھلکنے کو بے تاب… اس سرخ خون سے بنا وہ چہرہ یوں تھا جیسے سفید گنبد کسی پر شکوہ عمارت کا ”خاموش، چپ چاپ… آنکھیں، ناک، کان، ہونٹ، زبان ، دل و دماغ ہر چیز بس اک ابروئے جنبش کی منظر۔
لبوں سے نکلتے لفظوں کی محتاج…
”خود کو اس موسم میں کمرے تک ہی محدود رکھنا، خاص ٹھنڈبرھ جاتی ہے۔ سرما کی بارش میں، میں نہیں دیکھوں، سنوں تمہیں کہیں کھڑکی سے لٹکتے یا یا باہر برآمدے و لان میں گھومتے۔” سرجھک گیا۔
حکم عدولی کی گنجائش ناپید تھی… اس میں کہ اس بڑے سے گھر میں فقط وہ دو ہی سانس لیتے وجود تھے… باقی جو تھے وہ شاید دیکھے، سنے، بولنے کی حس سے محروم تھے فقط کام کے پجاری… کام ختم … بات ختم۔
سادہ پلین سے آسمانی رنگ میں ملبوس وہ دھیرے دھیرے خاموشی سے گردن ہلاتیرہی…ادب کا تقاضہ خاصا اہم تھا اس وقت ”باقی میں ذرا قاسم خان کے ساتھ جارہی ہوں… واپسی میں تمہاری لسٹ، جسے میں نے دوبارہ ترتیب دیا ہے… لیتی آؤں گی…”
”اب”… خاموشی کا تقاضہ ادب سے بھی زیادہ مقدم تھا۔ وہ گردن ہلانا بھی چھوڑدیا۔
جاتے قدموں کی آواز پر دروازے کے مودب کھلنے کی آوازپر، پھر گاڑی کے باہر نکل جانے کی آواز پر…
سراٹھا…نگاہ اٹھی۔
اف … سنہری سکوں کا پانی… جو گالوں پر پھیلتا تھوڑی تک جاتا تھا… کچھ کہنا تھا شاید…
ساکن درو دیوار نے سمجھنا چاہامگر وہ پلٹ گئی… وہی سیڑھیوں کو جاتا اوپر کا راستہ وہی کمرہ… وہی کھڑکی اور وہی کورا کاغذ۔
مگر اب وہاں وہ روشنی کی لکیرنہیں جھانکتی تھی… نہ جانے آج اسے اتنی جلدی کیوں تھی جانے کی…!!
”تم جانتے ہو کہ مجھے کی کے بھی بارے میں سخٹ و غلط سننا پسند نہیں ہے۔” سرخ اسٹابری کو منہ میں رکھتی وہ اسے دیکھنے لگی جس کی نگاہ کی مسکراتی روشنی اس کے وجود کو تابناک کررہی تھی۔
”اور تم تمہیں تو میں نے ایک خاص جگہ دی ہے اپنی زندگی میں تو پھر کیسے سنتی تمہارے بارے میں کچھ۔” اک گہری سانس لیتے روید نے مسکراتی نگاہ کو لبوں تک لاتے سرجھٹکا۔
”جانتا ہوں سب کچھ نیہا مگر پھر بھی وہ ہمارے بڑے ہیں اور خاص کر تمہارے ماں ، باپ… چھوٹے چچا ، چچی کی خیر ہے مگر تمہیں بڑے چچا سے نہیں الجھنا چاہیے، چاہے وہ تمہیں اکلوتی ہونے کا بہت زیادہ مارجن کیوں نہ دیں۔”
”ہر رشتہ بعد میں رویہ،پہلے انسانیت ، سچائی اور سیدھی بات … پھر کچھ اور روید… یہ مت سمجھو کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں تو ہی ایسا کررہی ہوں۔”
”اچھا میں سمجھا کہ شاید۔” اس کی سنجیدہ پر شوخ بات پر نیہا نے اسے گھورا ۔
”تم۔”
”مذاق تھا یار… کیا میں تمہیں جانتا نہیں۔” اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ اس شفاف لڑکی کو خود اپنا دل دکھانا چاہ رہا تھا اپنی آنکھوں کے ذریعے، جو اس کی محبت میں بھی ویسا ہی صاف و شفاف تھا۔
”اور محبت مسکرا دے تو مار ہی دیتی ہے۔” روید نے نیہا انصاری کی مسکراہٹ پر محسوس کیا تو کہا۔
”نیہا یونہی مسکراتی شفاف پانی کے باؤل سے اسٹابری نکال نکال کر کھاتی رہی ۔
”اور تمہارے بزنس کرنے کے خواب کی تکمیل نے تو روید انصاری کی نیندیں اڑا دی ہیں محترمہ… رکھ تو خیال کرلو، پہلے ہی تھرڈ پرسن سمجھا جاتا ہوں…”
”کیا ہوا۔” کوئی جواب، رد ِ عمل پاکر روید نے اسے دیکھا۔
”نہیں کچھ خاص نہیں۔”
”تو پھر خاموش کیوں ہوگئی ہو۔”
”تمہیں یونہی محسوس ہوا۔ میں اب چلتی ہوں ماما۔
وہ اٹھی اور ساتھ ہی بچی ہوئی چند اسٹرابریز اس کے ہاتھ پر رکھتی خالی باؤ ل اٹھانے لگی تھی کہ روید نے اسے روک دیا…
مضبوط ہاتھ کے دباؤ پر وہ نظر نہ چراسکی۔
”کیا بات ہے نیہا۔ مجھے نہیں بتاؤگی جو تمہارا سب سے ”قریبی” رشتہ ہے…” اسے بالکل ساتھ بٹھاتے ہوئے دوستانہ انداز میں کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ بے جان سی لگی اسے ۔
”مجھے میرا لون ”پاس” نہیں ہوا روید۔”
”اوہ لیکن کیوں… لون کے پاس ہونے کی ایک ریکوائرمنٹ پراپرٹی کسی جائیداد وغیرہ کامالک ہونا بھی ہوتا … یا پھر کیش وغیرہ… میرے پاس اس حد تک ریکوائرمنٹ نہیں ہے۔”
”تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔” وہ خاموش ہوئی تو اس کے اعصاب بھی ڈھیلے پڑے اور وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”مسئلہ نہیں ہے یہ…”
”بالکل نہیں۔” مطمئن ہونے کے انداز میں کہتے اس کے منہ کی طرف اسٹرابری بڑھائی لیکن وہ یونہی اسے دیکھتی رہی… سب کچھ تو جانتا تھا وہ… ماما، پاپا کی مخالفت… چچا، چچی کا استہزائیہ انداز…تو پھر … وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی… جہاں ایک وہ تھی اور خود اس کی اپنی ذات کے ہونے کا غرور… ”اوہ…”
اس کی آنکھوں میں خفگی اُتری۔
”ایسا نہیں ہوسکتا روید… جو تم چاہ رہے ہو۔” قطعی انداز میں کہتے وہ وہاں سے اٹھی… اور اس کا جالینے والا محبوب انداز…
روید انصاری کو اجازت نہیں تھی کہ وہ فدا ہوتا مگر سرشارہونا بنتا تھا۔
”چاہنے کو تو سب ہوسکتا ہے کہ بات تو صرف ”چاہنے” کی ہے۔
اس کے برابر سے اٹھتا وہ پرسکون تھا اور وہ بے چین…
”یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔”
”یہ ٹھیک ہی ہوگا، اس سے کہیں زیادہ جب میں اور تم یوں ساتھ نہ ہوں گے۔”
اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ اپنی بات کہہ کر اسے چپ کرا گیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Read Next

نبھانا — نعمان اسحاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!