میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

تو باخبر ہے ناں میرے احوال کا…
کیسے جی گئی ہوں میں یہ زندگی… جوز تو خالی ہے اور نہ ہی پوری بھری ہوئی… ایسی جیسے کہ سمندر کنارے کھڑی کوئی کانچ کی عمارت … جو بپھرتی لہروں کی بدولت سر تک پانی میں شرابور نظر آئے۔
مگر اندر سے … ساکن …
مجھے بھی تو اس ساکن سمندر سے پرے کی آگاہی چاہیے… مگر کیسے… تو بتا جانا ں مجھے… کہ کیسے سورج نکلے تو راستہ مل جاتا ہے…!!
کیا سورج کو زمین پر لانے کے لئے جان کی بازی دینی ہوگی۔
کیاواقعی سورج کی کوئی اک کرن اس کے لئے بھی ہوگی…!”
سرخ پتھروں کے اس محل میں سناٹا تھا… بے حد گہرا سما…
سو وہ وہاں تھی اپنے ”روزن” کی طرف …
ساتھ وہ سرمئی آنکھوں والی سی اک معصوم سی لمبی ۔
جو اس کے کندھوں تک آتی اس دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئی تھی…
جہاں جسم کے دوسرے حصے کی مانند… جلد سے چمٹا ہوا… وہ بے بہا حد تک پھیلا ہوا درخت تھا۔ جس کی نہ اونچائی کی کوئی حد تھی۔ نہ لمبائی کی… اور وہ اسی درخت کا تنا تھا۔ جس میں چھ سات فٹ چوڑا سوراخ تھا۔ جس کی طر ف منہ کئے کھڑی وہ آج بول رہی تھی تو بالکل نہیں جانتی تھی۔
کہ اس کی آواز کی گونج کسی بانسری سے چھیڑے گئے ساز کی مانند بکھری جارہی تھی… اور کوئی دم سادھے اس فاصلے کے ”سمٹ” جانے پر دم بخود تھا…
”مجھے نجات نہیں چاہیے… مجھے سانس بھی نہیں چاہیے بس سورج چائے … تم … جو کثافتیں دھوکر روشنی کر ڈالتے ہو… یہ لو… اور جاؤ اسے ضرور دے دینا… تاکہ وہ رستہ نہ بھولے…”
اس سفید براق کرتے میں جنبش ہوئی… اس نے اس موٹے تنے کے سوراخ میں ہاتھ ڈالا… اور وہ پیلا کاغذ اور سرخ الفاظ اس کی کوہ میں بہتے چلے گئے… سفیدبراق کرتے پر آج جھک کر اترتے وقت مٹی کی تہہ لگ گئی تھی۔ جس وقت وہ دیوار سے نیچے اتری… ٹھیک اسی وقت کسی طلسم میں بندھے اس نے وہ دیوار پار کی تھی… اور دیکھنے والے نے دیکھا کہ جنگل کی اس مٹی کی تہہ میں وہ سرسے پاؤں تک غرق تھا…
اور ان زندہ نفوسوں سے پیچھے وہ گھنے درختوں اور جنگلی پھولوں سے اٹا باغ رہ گیا… جو اک قدیمی صورت کی یادگار تھا۔
ویسے ہی جیسے آج کا دن ۔
جو تاریخ کے اوراق پر تازیست یاد گار ہی رہا…
٭…٭…٭





وہ حیرت سے ان دو پھولوں کو دیکھ رہا تھا…
جو زمین کی ہی بنی کسی خاک سے اٹھا کر بنائے گئے تھے۔
تحفہ الٰہی تھے وہ اس کی زندگی میں… جسے نیہا انصاری نے خالی کردیا تھا۔
مگر نعمت، رحمت جس کا نصیب ہوں ، وہ اس تک پہنچ ہی جاتی ہے…
جیسے روید انصاری کی زندگی میں ان کی موجودگی…
حیرت سے بھری نگاہ نے تشکر کا سانس لیتے اوپر لکھا تو… تو نگاہوں میں روشنی کا احساس بھرا…
یہ وہ چہرہ تھا جو دوپہر شام کے بیچ کے پہر میں اسے آن ملا تھا…
جسے اس نے خوش بخت کے پنجوں سے چھڑایا تھا…
”بس کردیں…”
روید انصاری کا پانی سے بھی گہرا ہوتا دل…
کنوئیں میں جاگرا تھا…
”یہ ہی … یہ ہی خون تھا اس کی بھی رگوں میں … جو وہ میری نسلیں تباہ کرگئی… اب تو یہاں کھڑا ہے… اسی کے طفیل …”
غصہ ، نفرت، انتقام و جنون … یہ سب کچھ اس ادھیڑ عمر عورت کے سخت چہرے پر نقش تھا…کہ سامنے زمین پر سرخ سیال میں بھیگی وہ بڑکی ان کی پوتی نہیں…بیٹی رانیہ تھی… جو ان کے جوان بچے کھا گئی تھی، اور اب … پوری طاقت نے سرخ سیال بکھیرتے کندھے پر ٹھوکر ماری… تو روید انصاری کسی تیر کی طرح آگے بڑھا۔
”یہ ہی تو تھی آپ کی وہ آخری اُمید… جسے گھوٹ ڈالا آپ نے۔ آپ نے خوداپنے بیٹے کا خون ارازاں کردیا… ورنہ چاہتیں تو حکم خدا کے سبب اپنے بیٹے کی نسل کو آگے بڑھتا دیکھ لیتیں … اس کے طفیل …” اک جواں مرد کا دھکا کھا کر خوش بخت سنبھل گئیں تھیں… مگر لفظوں کا… پہاڑوں کا سا بوجھ۔
اور وہ … رنم داد خان… اونچی آواز میں روتی رہی…
”مرد کی ”کوکھ” اگر ہوتی تو مرد کی کوکھ سے آنے کا ”زعم ” ایک مرد کو فرعون سے بھی بڑھ کر درجہ مل جاتا… مگر یہ عورت کا نصیب ہے… اور اس نسل انسانی کے درجہ کے لئے عورت کو ہی چنا گیا ہے… مگر وہ آپ جیسی ہی عورتیں ہوتی ہیں جن کے قدموں سے جنت ہٹالی جاتی ہے نسلیں مٹا کر…”
یہ آگ اگلتا لاوہ بھی تھا… اور بے آوا ز گرتے پتھروں کی بار ش تھی…
مطلب… سانس بھی تھی… اور آہ بھی…
”اور در حقیقت جس عورت نے آپ کی نسلوں کو ختم کیا ہے… وہ عورت آپ ہیں… جس کا ”زعم” اس کے قدموں سے اس کی جنت کو چھین کر لے گیا۔”
اونچی ہوتی آواز میں رونے کی آواز دب گئی تھی۔
وہ خاموش ہونے لگی تھی اور خوش بخت … جامہ …
اور اگر وہ ”جامہ” نہ ہوتی تو وہ اس سنہری روشنی سے پیراہن سی زندگی کبھی نہ پاتا…جس نے ایسا اجالا کیا جو اس کے اندر باہر کو روشن کرتا چلا گیا اور یہ طلسم باندھی آواز تیری زندگی کے سارے ستارے تم نے ٹانکے ہیں۔”
سنہری کرن سے بنا وہ گھیر دار فراک کا کنارہ اس کے پاؤں پر آن گرا تو وہ گردن موڑ گیا…
”جس نے میری بکھری سانسوں کو جوڑا تھا اس کا اتنا تو بدلہ تھا کہ میں اسے خود ہی سونپ دوں…” ہلکا سا ترچھا ہوتے روید نے نرم ہاتھوں پر گرفٹ مضبوط کی تھی۔
وہ سانس روک گئی …
جسے فقط انسانوں کے ساتھ کی خواہش تھی۔
سانس کھل کر لینے کی خواہش تھی… ایسی ہی بہت سی خواہشوں میں یہ محبت و چاہت سے لبریز دل کی خواہش حیران کن تھی۔
ایسی بن مانگی دعا جو قبولیت کے پیالے میں رکھ دی گئی تھی… رنم داد خان کا دل تشکر سے لبریز ہوا کہ اس شخص کی محبت کیا تھی…
ساکن سمندر سے پرے کی آگاہی…
”مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا… کہ آ پنے خود کو مجھے کیوں سونپا …”
سیاہ چمکدار پلکوں نے اس کی طرف رُخ کیا تو روید انصاری نے اسے روح تک محسوس کرنا چاہاتھا۔
گھٹن حد سے بڑح جائے تو راستہ مانگ لیتی ہے … لیکن میں نے تو اس میں محبت نہیں مانگی تھی…”
”زندگی کی زادہِ راہ کے لئے محبت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے… وہ مل جائے تو زمانے کے سارے غم نایاب ہوجاتے ہیں…”
وہ دم سادھے روید انصاری کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ جس کے چہرے پر پھیلی اس کی محبت اسے دیکھنے نہیں دیتی تھی… مگر آج…
وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔
‘میں نے بھی اسے کھو ج لیا تھا … تم تک آنے سے پہلے… چاہا بھی … پا بھی لیتا… مگر محبت دکھ دیئے بغیر بھی نہیں ملتی کبھی… جسے محبت سمجھا وہ خسارہ نکلی۔ حالانکہ میں نے تو کمی یا زیادتی کے ناپ تول میں کمی رکھی ہی نہیں… اور یہی میری سب سے بڑی غلطی نکلی…” روید نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”محبت میں تو کمی یا زیادتی کبھی ہوتی ہی نہیں ہے … یہ تو حساب کتاب سے مبرا … روح کا اسم ہوتی ہے…
حسابی کتابی تو دکھ ہوتے ہیں… جو وقت کے ساتھ بڑھتے ہیں… گھٹتے ہیں۔ میں نے بھی درد سہا… جو جان نکال دینے سے بھی بڑھ کر نکلا… تاریک ہوگیا تھا میں مگر کتنا … اور کس حد تک …یہ جاننے کے لئے مجھے تم ملیں… تب میں نے جانا کہ میں نے کتنا درد سہاپاکستان کو جھیلا۔”
کوئی سخت کہر سی تھی جو چھٹ رہی تھی…
اور اس کے تنا سب کے لئے بس میں نے ایک ترازو رکھا جس کے ایک پلڑے میں تمہارا سارا دکھ اور اپنا سارا درد لکھا… اور یقین جانو…جان نکال دینے والا… دنیا تاریک کردینے والا میرا درد…تہہارے دکھ سے کم نکل…تمہارا پلڑا بھاری رہا…” وہ دم سادھے اسے سن رہی تھی… جو تیرہ ماہ بعد اسے کہہ رہا تھا کہ اس کا دکھ بڑا تھا۔
وہ شخص جس نے زندگی کے ہر اک سُکھ کو اپنی پوروں پر محسوس کیا تھا۔ خوش نصیب پھر جس نے اسی زندگی سے کی جانے والی نفرت، کراہیت کا اک اک رخ بھی دیکھا۔ بدنصیب اور ایک وہ خود …
جس کی زندگی کا ہر اک لمحہ…ہر اک لمحہ سادہ رکورا رہا… ہر احساس و جذبات سے… پھر کیا فرق پڑتا کہ اُسے کچھ ملتا بھی … یا نہیں…
اور یہ شخص کہہ رہا تھا کہ اس کا دکھ بڑا… تھا… یا حیرت…! اس کی آنکھیں بھیگ گئیں …
تو اک مضبوط ہاتھ کندھے پر آن ٹہرا… نرمی، محبت… خواہش، خواب اور زندگی جس کے لئے زمین میں کوئی ایسا گڑھا بھی نہیں تھا جہاں اسے ڈال کر مٹی ڈالی جاتی…آج وہی زمین اس کے لئے اک آسمان بن گئی تھی۔
معلوم نہیں کہاں چلی گئی… تم نے دیکھی ہے اُسے…”معصوم لہجہ…پریشان سا چہرہ…نہ میرے ہاتھوں کی پشت پر ہے نہ ہتھیلی پر… نہ پاؤں کے اوپر ہے نہ نیچے… کیا تم نے دیکھی ہے…” کھچڑی عازدہ بے رونق کے ساتھ کھچڑی زدہ بالوں کے ساتھ… کبھی اپنی بوڑھی ہتھیلیاں پھیلاتیں ، کبھی پاؤں کے تلوؤں کو جانچ کر دیکھتی وہ عورت … خوش بخت تھیں…
”نہ جانے کہاں چلی گئی ہے… میری جنت…” الجھے بالوں کی اک اک لٹ کو ٹٹولتیں وہ اپنے جھریوں زدہ چہرے کے نقوشوں کو نوچنے ہی ولای تھیں کہ روید انصاری نے آگے بڑھ کر اپنی جنت کے دونوں پھول ان کی جھولی میں ڈال دیئے…اور خوش بخت جامہ ہوگئیں…
اور کاش کہ اپنے اعمال کے لئے اک ترازو وہ بھی اپنے سامنے رکھتیں تو آج ان کی زندگی یوں برف سی نہ ہوتی…




Loading

Read Previous

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Read Next

نبھانا — نعمان اسحاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!