میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

”معذوری ” زندگی سے بڑھ کر انسان کو شاید ہی کوئی دکھ ہوتا ہو تو ہو… وہ بھی ایسے ہی ”دکھ” میں مبتلاتھی…”معذوری” بھی ایسی کہ سانس رکے تو ہی بات بنے… مگر وہی بات زندگی سے پیاری چیز بھی کیا ہو؟ یعنی ایک اور دُکھ…
وہ اس کاڑھ کباڑے کے کمرے میں کھڑی تھی… کمرہ ایسا کہ جس کا طول و عرض کسی بادشاہ کے خاص دوبار کی لمبائی کی مانند تھا۔
ادھر ادھر بے حد دھول مٹی سے اٹی چیزوں میں سب سے پرانی بھی وہ خود تھی اور نئی بھی… اس نے ایک ٹانگ کے صوفے کو کھینچ کر باہر نکالا۔
”ایک بات کے کہہ دینے کی بھی حد ہوتی ہے اور وہی حد آخر بھی…آخر تمہیں کس بات سے سمجھ آئے گی کہ تم مان جاؤ…” چبا چبا کر بولتے لفظوں میں آگ تھی… اور اس کی سانس مدھم۔
وہ اب صوفے کو گھسیٹنے لگی تھی اور کوئی غصے کی آخری حد پر تھا۔
”آخر کون سی چیز کی کمی ہے تمہیں یہاں…ہر آسائش میسر ہے تمہیں دنیا کی کون سی چیز کی کمی ہے تمہیں کہ پھر بھی اپنی مرضی کرتی ہو۔”
وہ آخر کار صوفے کو اس سایہ دار کھڑی تک لے ہی آئی تھی…
”گلا گھونٹ کر زمین میں دفنا دیا جاتا تو اچھا تھا … بہتر ہے کہ اصول و ضابطے کے تحت خود کو گزارلو تاکہ جی لو… مگر تمہیں شاید اتنی ”نرمی” راس نہیں ہے۔”
”نرمی” کا لفظ تھا یا کوئی تیز چبھتا بھالا…
سانس اب گھٹنے لگا تھا۔
”اس دس کنال کی کوٹھی میں ہر جگہ تمہارے لحاظ و حساب سے مناسب ہے ۔ اپنی نظر کے پیمانے کو نیچے ہی رکھو اور یہاں تک محدود بھی… اگر اس حد کو کراس کرنے کی کوشش کی تو تم پھر گلہ کرنے کی بھی لائق نہیں رہوگی۔”
”گلہ۔” اک آرزو… اک خواب۔
وہ بمشکل اوپر چڑھی… تو بھاری بھرکم صوفے کی چوتھی ادھ لگی دیمک زدہ ٹانگ ایک سائیڈ پر جھکی مگر اس کا بوجھ سہار گئی۔
اور اس کے سامنے اس کی وہ اک ”امید” جو آخری نقطہ آغاز تھی اس کی زندگی کی اسے سامنے لے آئی۔
بے جان چیز کا احسان تھا یہ اس پر… کپکپاتے وجود کے ساتھ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے تھام لیا… کہ اب اگر کچھ رہ گیا تو وجود کو مٹی کھا جائے گی…!!! سوچ نے اک نئے لفظوں کا پیراہن اوڑھ لیا تھا۔
٭…٭…٭





وہ پسینے میں شرابور تھا۔
بائیک کی اسپیڈ کا لیول حد سے بڑھا ہوا تھا… اس کے مضبوط ہاتھوں کا ہینڈل پر دباؤ غیر یقینی طور پر بڑھا ہوا تھا۔
اب سے کچھ وقت پہلے ہی تو وہ بے حد مطمئن و پرسکون تھا…
آتش جواں تھا… مگر منہ زور نہ تھا۔
”آؤ بھئی آؤ کیا کہنے تمہارے بھئی…” چچا جان کی ایسی خوشدلی اس نے بڑے زمانوں بعد دیکھی تھی… مگر پھر بھی بہت اپنی سی بھی لگی اور الجھی ہوئی بھی…
چچی جان نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
وہ خود بھی مسکرادیا۔
”اوئے لخت ِ جگر نکلا تو ، تو ہمارا…” بڑے چچا نے تو گلے ہی لگا ڈالا۔
وہ وہیں جم سا گیا۔
چچا جان کے والہانہ التفاف سے زیادہ نظر کے سامنے موجود ان دو نفوسوں کا التفاف اسے لوہے کا بنا گیا۔
سرخ گھیر دار میکسی میں نیہا انصاری اور آف وائٹ سوٹ میں اس کے ساتھ جم کر بیٹھا وہ نہ جانے کون…؟
مگر اس سرخ رنگ کی ساری روشنی اس کے اجنبی چہرے میں جذب تھی… بے حد اجلی سی روشنی نہ جانے روید انصاری کو کیوں لگ رہا تھا۔ اس اجلی روشنی کے طفیل کوئی سارہ سا ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگا تھا… ریزہ ریزہ شاید۔
”جو تم اتنی محبت نہ کرتے میری بھتیجی سے تو شاید ہم ساری زندگی نامراد ہی رہتے۔”
چھوٹے چچا نے تو گلاس بھر کر اورنج جوس پیا تھا… اور روید سر کے مساموں میں سے پسینہ سا نکلنے لگا تھا۔ ہاں…مگر کیوں؟
”محبت کی طاقت کا اندازہ و ہی گیا مجھے۔”
چچی نے نظروں سے بلائیں اتاری تھیں۔
”تو یہ ہیں مسٹر روید انصاری…” آخر کار سرخ روشنی کا تاج اپنے سر پہ سجائے بیٹھا وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا۔
”جس نے تمہیں کو اپنی پاور آف اٹارنی دی تھی…”
”اور میں نے بدلے میں اپنا دل…” کیا بے نیاز ادا تھی نیہا انصاری کی۔
”نیہا یہ کیا مذاق ہے۔” روید انصاری نے بکھرے ریزوں کو روکنا چاہا تھا… مگر ٹوٹ کر بکھرتی کوئی بھی چیز واپس جڑتی نہیں ہے۔
”مذاق نہیں میری زندگی کی سب سے خوبصورت حقیقت ہے مسز نیہا امجد …”
اوہ … وہ تارہ نہیں تھا۔ ریزہ ریزہ بکھرتی اس کی دنیا تھی… جو یک لخت اس کے اوپر آگری تھی۔
”محبت ہمیشہ آپ کی خواہش کا احترام کرتی ہے جیسے تم نے کیا روید…” سرخ رنگ واقعی اگ سے ہی نکلا تھا… وجہ اثر ہے اس کا کہ جل جاتا ہے سب… اور تپش الگ… اور اب روید انصاری کے ہرمسام سے پسینہ پھوٹ پڑا تھا۔
”میری خواہش تھی بہت زیادہ کہ میں امجد کے ساتھ اپنی زندگی کا نیا سفر اس طریقے سے شروع کروں کہ جب ہم ایک ہوں…” سرخ ہاتھوں نے وہ ہاتھ تھاما… اجلی روشنی بھڑک اٹھی۔
تو ایک ساتھ ہی ایک بزنس کی بنیاد رکھیں۔ میرے پاس انویسٹمنٹ تھوڑی کم تھی پارٹنر شپ کے لئے مگر تم نے میری یہ خواہش مکمل کردی روید… مجھے ”فخر” ہے تمہاری محبت پر… اورہمیشہ رہے گا…” وہ سب مسکرا رہے تھے ، خو تھے ، بے تحاشہ اور وہ …ایڑی تک پسینے میں بھیگ گیا تھا۔
”تم نے… تم نے نیہا یہ سب کیا۔” وہ یوں بولا کہ آواز پرائی لگی تھی۔ اور نیہا انصاری … کندھے اچکا گئی۔
”چلو برخوردار … ہر ”حساب” برابر رہا… تمہارا ور ہمارا…” بڑے چچا کا ہاتھ اڑاتا لہجہ۔
”ہر حساب…” وہ بڑبڑایا… اورنظر کی اس پر جسکی مسکراہٹ پر وہ اک سجدہ بھی کرسکتا تھا جو اگر واجب ہوتا اس کو ۔ مگر اب…
وہ گھٹن تھی… جو حد سے بڑھی تھی۔
بالکل نیہا امجد، کی طرح … جو اس کی محبت کی خواہش میں بڑھی توحد سے بڑھ گئی اس حد تک کہ اس کا دم ہی گھوٹ گئی…
وہ کسی ایسے سیال کی مانند ہوگیا جس کا کوئی راستہ ، نہ کوئی مقصد…وہ خالی کردی گئی اس زمین سے بھاگیا تھا جہاں انسان کے مردہ چور کو لے جایا جاتا ہے۔
سو اب وہ کہاں جاتا۔
سڑک… وہ… اور راستہ ۔
یہ تھا اس کی زندگی کا بچا ہوا سوگ…
٭…٭…٭
بالکلیہ سچ ہی ہے کہ جان ایسے ہی نکلتی ہے… جب ململ کے کپڑے کو خشک جھاڑی پر رکھ کر آہستہ آہستہ اسے کھینچا جائے۔
”اتنی ہمت تیری اتنی مجال کہ بانٹ آئی خود کو اس سے۔”
وہ اڑتا ہوا پیتل کا گلدان تھا جو اس کے ٹخنوں سے آلگا تھا۔ جواباً وہ نیچے کی جانب کھلی…گردن اٹھا کر دیکھا۔
”تو بھی وہی نکلی ناں… بے دید…کوارہ…کیا کمی رکھی تھی جو یہ سب کرگئیں تم…”
”اور کیسا کر آئی تھی وہ۔” یہ سوچنے کے لئے اسے ستاروں بھر ے آسمان کی وسعت چاہیے تھی… اور اس کی اتنی ذہنی وسعت نہ تھی۔
درد کی تیز تیز چلتی سانسوں کے ساتھ ان کا حق کے بل چلانا سن رہی تھی۔
”اب کیابچا تھا جسے دفنانا ہوتا زمین میں، سارا خاندان ہی کھا گئی تھیں تم… اب کیا بچا میرے پاس… میری ساری احتیا ط اکارت گئی … مجھ جیسی منحوس کی بدولت…” ہاتھی دانت کا لیمپ اس کے کندھے پہ اس زور سے آلگا کہ وہ زمین پر جاگری… اس زمین پر جسے اس کے زندہ وجود پر ہی تنگ کردیا گیا تھا… اور زمین کو پانی کے قطروں سے بہت محبت ہوتی ہے… اسی لئے اس کی آنکھوں سے پانی کے قطرے بہت فیاضی سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلنے لگے تھے کہ اب اسی کمر پر اک بھاری وجود کا بوجھ پوری طاقت سے آن گرا تھا۔
”بس کردیں…”
سرخ ستونوں والی عمارت اس آواز کی گونج سے جیسے کسی گہری نیند سے جاگی تھی۔ بھاری وجود کا بوجھ اس کی کمر پہ کم ہوتا محسوس ہوا تو گہری سانس لینے کی کوشش میں اس نے سراٹھایا۔
کھلے دروازے میں گویا اک سورج اگ آیا تھا… وہ سورج جس کا انتظار اس نے اپنی اک اک سانس کی جنبش میں ڈالا تھا… اک اک ”لفظ ” میں پرویا تھا۔
”تو سچ تھا کہ سورج کو زمین پر لانے کے لئے اپنی جانوں کا سودا کیا جاتا ہے۔” اس نے اپنے کندھے سے نکلتے سرخ سیال کو ماربل کے سفید فرش پہ پھیلتے دیکھا تھا… اور مسکراہٹ کو لبوں پر رلانے کی کوشش کی تھی… مگر ہار گئی … کہ وہ رونے لگی تھی۔
ایسی آواز سے… کہ پیچھے والے کا پتھر دل سیاہ ہونے لگا تھا۔
اور آگے کھڑے شخص کا دل…
پانی سا بھی گہرا…
٭…٭…٭
”کبھی کبھی ہم زندگی کا زادِ راہ ڈھونڈنے کے لئے فقط ایک چیز ہی آگے رکھتے ہیں…”محبت”
بس…اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
وہ مل جائے… تو زمانے کے سارے غم نایاب ہوجائیں گے…
لیکن کبھی کبھی زندگی کے زادہِ راہ کے لئے محبت بھی خسارہ ہی لگی ہے… انسان اس کو پانے کے لئے ہر چیز سوچ جاتا ہے… ہمت بھی… طاقت بھی… خواہش بھی… خواب بھی… ہار بھی اور جیت بھی…
اور پھر کسی کمی کے سبب میں خود کو بدقسمت سمجھتا ہے… اور کبھی زیادتی میں … خوش قسمت … اور ان سب میں کبھی وہ بے حسی کی حد کو چھونے لگتا ہے تو کبھی بے نیازی کی…
مگر جو نہ ملنا ہو … تو وہ ہمیں کبھی نہیں ملتا…
نہ آگے سے…نہ پیچھے سے… نہ دائیں سے نہ بائیں سے…
کبھی بھی نہیں…!”
وہ گھر سے نکلا تھا کسی بے جان کی طرح…
سڑکوں پر پھرا تھا… کسی مسافر کی طرح…
گلیوں ، گلیوں کی خاک چھاننے لگا تھا سودائیوں کی طرح… مگر اب…
وہ اس بے آباد علاقے کے گنجان جنگل میں گھرا…
دیوانوں کی طرح اپنے ہاتھوں میں پکڑے اس پیلے کاغذ پر لکھے سرخ لفظوں کو پڑھ رہا تھا۔
روید انصاری کی زندگی خالی ہوچکی تھی… دولت سے بھی اور رشتوں سے بھی… محبت کا وجود تو تھا ہی نہیں کہیں… اب بس اس کی جان تھی اور ہر آتی جاتی سانس… وہ یہاں اس گنجان درختوں کے اندر چھپا اپنی ذلت کی فقیری کو آسمان کے اک اک کنارے سے اور زمین کے اک اک کونے سے بھی چھپانا چاہتا تھا۔ اکڑوں بیٹھا… سر پر دونوں ہاتھ رکھے وہ زمین کو چھپاتے ان کاٹی زدہ پتوں کو دیکھ رہا تھا۔
جب اس نے اک زہریلے کیڑے کو اپنی طرف آتے دیکھا۔
اس فانی دنیا سے چھٹکارا دلانے والا … نجات دہندہ…
اس نے اپنے ہاتھ سر سے ہٹائے… تو سناٹے میں ہوتی اس آہٹ پروہ کیڑا راہ بدل گیا …اور اس کے ساتھ جاتی نگاہ درخت کی جڑ میں موجود اس کوہ تک گئی۔ جہاں کیڑے کے وجود پر اک کاغذ آن گرا تھا… کیڑا اندر ہی کوہ میں چلا گیا تھا مگر وہ کاغذ وہیں کوہ کی گہرائی سے ذرا اوپر تڑامڑا دکھ رہا تھا ۔
بے مقصد ٹہری آن آنکھوں کو اک مقصد ساملا وہ… وہ اس کاغذ کو دیکھے گیا … چند فٹ کا فاصلہ اتنا زیادہ نہ تھا… اس پیلے رنگ کے کاغذ پر سرخی سی پھیلی تھی۔
کیا خون…؟ یا پھر واقعی خون …
اسے وہاں تک جانا ہی پڑا… کوہ میں پڑے اس پیلے کاغذ تک پہنچا۔
آج کی تاریخ … آج کا دن … اور آج کے ہی لکھے وہ سرخ لفظ…
وہ کوہ کے نزدیک دو زانوں بیٹھ گیا تھا۔
تاریخ و دن کے حسابات کا ندازہ … اس ن یونہی ہاتھ مارا…
وہ بھول گیا … کہ یہاں اک زہریلا کیڑا گیا تھا…
ان سرخ لفظوں میں جھلکتی روح۔
”جنہیں نہ ملنا ہو وہ کبھی نہیں ملتا…
نہ آگے سے نہ پیچھے سے …نہ دائیں سے نہ بائیں سے…
کبھی بھی نہیں …!”
پچھلے دنوں کی تاریخوں کے کاغذوں … وہی سرخ الفاظ۔
”جو مرجاتے ہیں… وہ چلے جاتے ہیں… اور جو زندہ ہوتے ہیں وہ کھو جاتے ہیں۔ اپنی ہی سانسوں میں …اپنی ہی آہوں میں… کہ انہیں زندہ رکھنے کا اختیار کسی اور کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔”
وہ درخت کا کوہ نہیں تھا۔
کسی کی روح کا بارِ گراں تھا۔
گزرے زمانوں کی تاریخیں … ادھ کھائے کاغذوں و الفاظوں کا ایک بہت بھاری مجموعہ … اک اک صفحے پر سرخ الفاظ… خون دل سے لکھے تھے…
مگر کس نے… کس نے…!!!
سراٹھا کر دیکھا… بے حد اونچا لمبا… ان گنت ہاتھوں والا درخت…
کس تنے کے ہاتھ میں کوہ کی اتنی گہری سیاہی تھی… نامعلوم…!
اور آس پاس تو آبادی ہی نہ تھی… تو پھر یہ کون…!
”خوش بخت ماں یہ کہتی ہیں کہ مجھ کو نہ تو زمین میں دبایا جائے نہ ہی آسمان کی طرف اچھالا جائے… دونوں جگہ کی ہی بے حرمتی ہوگی مگر ایسا کیا گیا… وجہ … میری ذات سے جڑی وہ صنف … جوابا کے زمانے میں کسی سنہری دھوپ کی طرح آئی تھی… پھپھو رانیہ…
جنہوں نے اپنی مرضی کی اک راہ چن لی… زریاب خان کی۔
اور پھر جس پر پھپھو رانیہ کی پیڑھی نے زریاب خان کو زمین میں دبا کر … اس کی نسل ختم کی… بدلے میں…
خانزادوں نے ان کے خاندان کی نسلوں کو تباہ کر ڈالا…
اور زمین میں کس تہہ میں سوئی ان چار نسلوں کا حساب یوں نکلا… کہ اس پر ہی زمین تنگ کردی گئی…
انسانوں کی خوبو کی خواہش میرے اندر خود رو پودے کی سی بڑھتی ہے اور پھر کسی بانجھ زمین تک چلی جاتی ہے…
حق ہونے کے احساس کو کبھی روح نے بھی محسوس نہیں کیا ہے، کیا واقعی ”روح” وجودمیں ”ہوتی ہے” ہے…”
روید کے ہاتھ سے صفحے چھوٹتے چلے گئے ۔
وہ ایک صدی کے برابر ایک ایک لفظ تھے…
جن کو عبور کرنا… عقل کی پرکو سے سمجھنا…
دول صدیوں برابر کا فاصلہ آنے لگا تھا۔
روید کے جسم میں کپکپی چھوٹی تھی۔
کون تھا یہ…!!! اس نے درختوں میں گھرے اپنے وجود کو دیکھا… پھر سر ا ٹھاتے اِدھر ادھر ۔
جیسے ابھی اسے جالے گا۔
مگر اردگرد سناٹا تھا… ہولناک … یا خُدا۔
جیسے وہ بے روح وجود بھی یہیں کہیں تھا۔
وہ بھاگنے کے سے انداز میں اٹھا تھا… اور گفیرے جنگل کی اونچائی پر چڑھتا چلا گیا تھا۔ او ر جیسے جیسے وہ اونچائی چڑھتا جارہا تھا… سرخ لفظوں کی سی وہ سرخ ستونوں والی عمارت واضع ہونے لگی تھی۔
اور جس کے بالکل سامنے جڑ کر کر کسی جسم کے دوسرے حصے کی مانند… جلد سے چمٹا ہوا… وہ بے بہا حد تک پھیلا ہوا ”روزن” تھا۔
کسی کا رازداں … کسی کا نگہان۔
لیکن جسنے روید انصاری کو مبہوت کیا تھا۔
وہ منظر کچھ اور تھا…!!
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بل ہے کہ مانتا نہیں — سید محسن علی

Read Next

نبھانا — نعمان اسحاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!