میں نے جھک کر زمین پر پڑی ہوئی وہ جھنڈی اٹھالی۔ رات ہونے والی موسلا دھار بارش نے گھروں اور دیواروں پر لگی ہوئی جھنڈیوں کو زمین بوس کر دیاتھا۔ میں کچھ دیر اس جھنڈی کو دیکھتا رہا پھر میں نے اسے اپنے ٹریک سوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ اس راستے پر نظر آنے والی پہلی جھنڈی… بہت سال پہلے میرے باپ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلا قدم رکھتے ہی وہاں کی مٹی کو ایک رومال میں باندھ کر اسی طرح اپنی جیب میں رکھا تھا۔ مٹی کی وہ ننھی سی پوٹلی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور ہر سال کسی نہ کسی سڑک سے اٹھائی جانے والی ایک جھنڈی بھی… شاید میری کولیکشن دنیا کی عجیب ترین چیزوں پر مشتمل ہے۔ اپنے یومِ آزادی کے بجائے اگلے دن کسی نہ کسی سڑک پر گری ہوئی کوئی پھٹی، مسلی، بھیگی ہوئی ایک جھنڈی پھر میں ہر اس جھنڈی کو تاریخ اور سن کے ساتھ اپنی البم میں محفوظ کر لیتا ہوں…
پچھلے بیس سال سے اسے اسی مخصوص سڑک پر میں صبح کی سیر کے لئے آرہا ہوں، برسات… سردی… گرمی… خزاں… بہار… کوئی موسم، کوئی تہوار میرا معمول نہیں بدل سکا حتیٰ کہ موسلا دھار بارش اور تیز طوفان بھی۔
رات کی بارش نے ہر چیز کو گیلا کر رکھا ہے۔ تارکول کی سیاہ سڑک بھیگ کر کچھ اور چمکدار اور نمایاں ہو گئی ہے۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت اور پودے بارش کے پانی میں دھل کر کچھ اور نکھر گئے ہیں۔ اس وقت بھی آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور شاید کچھ دیر بعد بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔ برسات کی ہوا میں وہی مخصوص نمی ہے جسے پچھلے کئی سالوں سے اس موسم میں میں محسوس کرتا آرہا ہوں۔ ہوا میں خنکی بھی ہے۔
کشمیر کی طرف سے آنے والے جھونکوں کی مرہون منت… صبح سویرے اس سڑک پر ٹریفک غائب ہے اور اس کے ساتھ گاڑیوں کا شور بھی۔ البتہ سڑک کے کنارے لگی ہوئی گھاس میں جمع شدہ پانی سے محفوظ ہونے والے مینڈکوں کی آوازیں اس سناٹے کو توڑ رہی ہیں اور کبھی کبھار سڑک کے کنارے لگے ہوئے درختوں کی گیلی شاخوں پر پناہ لینے والے پرندوں کی چہچہاہٹ بھی۔ یہ اس علاقے کی سب سے خوبصورت سڑک ہے اور میرا اور اس کا ساتھ اب بیس سال پر مشتمل ہے۔ بیس سال پہلے اس سڑک کے دائیں بائیں گھروں کی بہت محدود تعداد تھی، خالی پلاٹ سبزے سے ڈھکے رہتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اس سڑک پر کوئی ایک بھی خالی پلاٹ نہیں مگر گھروں کے آگے سڑک کے کنارے گھاس اور درخت ضرور باقی ہیں۔
میں اس سڑک پر واک کرنے والا اکیلا شخص ہوں، میری عمر کے لوگ، نوجوان لڑکے، لڑکیاں، ادھیڑ عمر عورتیں، والدین کے ساتھ دس بارہ سال کے بچے… وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی میرے پاس سے گزرتا جاتا ہے۔
پورا سال میں اس سڑک پر بڑی خاموشی کے ساتھ چیزوں پر غور کیے گزرتا رہتا ہوں مگر سال میں ایک دن نوسٹیلجیا کا دن ہوتا ہے۔ اس دن میں اس سڑک سے گزرتے ہوئے ماضی کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچتا اور وہ آج کا دن ہوتا ہے، پندرہ اگست… 54 سال پہلے اس تاریخ کو میں نے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ لفظ خاندان شاید میں جذبات میں آکر استعمال کر گیا۔ میرے ساتھ صرف میرا باپ تھا۔ سینتالیس سال کا ایک دکھ بھرا، ادھ موا قاتل… جس قافلے میں میں پاکستان آیا تھا اس میں کم از کم چھ قاتل تھے۔ باقی کے لوگ کیا تھے یہ میں نہیں جانتا۔
سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کا پہلا گروپ میرے پاس سے گزرنے والا ہے۔ ان کی آوازیں میرے کانوں میں پڑ رہی ہیں۔ ”2025ء تک پاکستان تقسیم ہو جائے گا پچھلے تین سالوں سے امریکن تھنک ٹینک یہی رپورٹ دے رہے ہیں اور ان کے اندازے صحیح ثابت ہوتے ہیں۔”
”2025ء تو بہت دور ہے، جس طرح کے حالات ہیں یہ کام تو اس سے پہلے ہی ہو جائے گا۔” تین لوگوں کا میرا ہم عمر گروپ اب میرے پاس سے گزر رہا ہے، ہم نے سر کے اشارے اور مسکراہٹوں سے سلام و دعا کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے کے پاس سے گزر گئے۔
”2025ء میں پاکستان ٹوٹ جائے گا۔”
کیانی صاحب کا جملہ میرے ذہن میں اٹک گیا ہے۔
میں چودہ سال کا تھا جب میں اپنے باپ کے ساتھ پاکستان آیا، ہندوستان کی تقسیم کے بعد میرے باپ کا تعلق پٹیالہ سے تھا۔ وہ زمیندار تھا، تین بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہمارا گھرانہ اس علاقے کے بہت کم مسلمان گھرانوں میں سے ایک تھا۔ ہم لوگ وہاں بڑے سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ تحریک پاکستان کا آغاز ہونے کے بعد بھی ہم لوگوں کو کوئی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ جس گاؤں میں ہم تھے وہاں کی اکثریت ان پڑھ لوگوں پر مشتمل تھی۔ انہیں ملکی سیاست کے بارے میں زیادہ معلومات تھیں نہ دلچسپی۔ لیکن آہستہ آہستہ تحریک پاکستان میں شدت کے ساتھ ہی چوپال میں شام کو سیاست اور جناح کا یہ مطالبہ زیر بحث لایا جانے لگا میرا باپ بھی ان مسلمانوں میں شامل تھا جو اس مطالبے کو ایک حماقت سمجھتے تھے۔
”یعنی اپنی ساری زمینیں چھوڑ کر میں پاکستان چلا جاؤں کیونکہ وہ ملک مسلمانوں کے لیے ہے۔ جناح کا دماغ خراب ہے۔ کوئی اپنی مٹی چھوڑ کر جاتا ہے۔ کوئی اپنا گھر بار اور زمینیں چھوڑ کر صرف مذہب کے لیے کہیں چل پڑے۔”
مجھے یاد ہے میرا باپ کئی سال یہی بات رات کو گھر میں ماں کے سامنے دہرایا کرتا تھا اور گھر میں موجود سب لوگ اس کے ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ جب زندگی سکون سے گزر رہی ہو تو پھر اس طرح کے مطالبات حماقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں لگتے۔
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور میرا بھائی سب سے بڑا تھا تینوں بہنیں دونوں کے درمیان آئی تھیں۔
گاؤں میں جب کبھی مسلم لیگ والے مسلم لیگ کے لئے کنویسنگ کرنے کے لیے آئے، میرے باپ نے بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح ان کا مذاق اڑایا۔
”تم لوگوں کو ووٹ دیں؟ کیوں ووٹ دیں، بٹوارہ کرنا چاہتے ہو تم لوگ… مصیبتیں بڑھاناچاہتے ہو ہماری۔ کانگریس ہے ہماری بات سننے والی۔ ہمارے لیے وہی کافی ہے۔”
میرے باپ نے ہر دفعہ لیگیوں کو اسی طرح دھتکارا۔ کئی بار لیگیوں کے گھر گھر جا کر عوام رابطہ مہم کے دوران میرے باپ نے گھر کا دروازہ ہی نہیں کھولا۔ وہ لوگ دروازہ بجاتے، تھک کر اگلے گھر چلے جاتے۔
میرے باپ کی سوچ میں تب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی جب اس نے میرے بڑے بھائی کو ہائی اسکول کے بعد آگے تعلیم کے لیے جالندھر بھجوایا۔ گھر میں صرف میں اور میرا بھائی ہی تھے جنہیں تعلیم دلوائی جارہی تھی۔ میری بہنو ںکو تعلیم نہیں دلوائی گئی۔ اس علاقے میں عورتوں کو تعلیم دلوانے کا رواج نہیں تھا اور پھر مسلمان عورتوں کے لیے تو تعلیم شجر ممنوعہ کا درجہ رکھتی تھی۔ میری ماں اور بہنیں گھر کے اندر بند رہنے والی عورتیں تھیں۔ ماں کبھی کبھار باپ کے ساتھ کھیت پر چلی جاتی مگر بہنوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ میرا باپ ویسے بھی ایک خوشحال زمیندار تھا جسے گھر کی عورتوں کو کھیتوں پر کام کروانے کی محتاجی نہیں تھی۔
شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی میرے بڑے بھائی کی سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ اب وہ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتا تو مسلم لیگ کی بات کرتا، جناح کے گن گاتا، مسلمانوں کے حقوق پر بولتا۔ دو قومی نظریہ کے حق میں دلیلیں دیتا۔ وہ اپنے کالج کے بہت سے دوسرے مسلمان طلبہ کے ساتھ جناح کی تقریریں سننے جایا کرتا تھا اور شاید یہ Metamorphosis (کایا پلٹ) وہیں ہوا تھا۔
”ان کی آواز میں جادو ہے، وہ بات کرتے ہیں تو ہندو لیڈرز کو لرزا دیتے ہیں، ان کی دلیلوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ آپ لوگ تو گھروں کے اندر رہتے ہیں، آپ کو کیا پتا شہروں میں انگریز اور ہندو مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ آج ہندو انگریز کے پالتو کتے کا کام کر رہا ہے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو انگریز کی جگہ لے لے گا اور مسلمان ہندو کی اور کم از کم میں تو کسی پالتو کتے کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔”
میرا بڑا بھائی مظفر چولہے کے پاس چوکی پر بیٹھ کر روٹی کھاتا اور ساتھ بولتا جاتا۔ میری تینوں بہنیں میں اور ماں اس کے گرد بیٹھے اسے مرعوب انداز میں دیکھتے رہتے۔ میری بڑی بہن شکیلہ اسے پورا وقت پنکھا جھلتی رہتی۔ ماں گرم گرم روٹیاں اس کے سامنے اتار کر رکھتی جاتی۔ منجھلی بہن صغریٰ سالن کم ہوتے ہی کٹورہ بھر دیتی۔ چھوٹی بہن مسلسل پانی کا گلاس دیکھتی رہی کہ وہ خالی ہو تو اسے برق رفتاری سے بھرے اور میں… میں صرف اس کی باتیں، اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ، اس کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ دیکھتا رہتا۔ جناح کون تھا؟ مسلم لیگ کیا کام کر رہی تھی؟ دوقومی نظریہ کیا تھا؟ اور پاکستان کیا تھا؟ یہ ہم سب نے مظفر سے جانا تھا۔
One Comment
Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims