من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”میں سوچتا ہوں وہ کبھی ”خونی رشتے” کے حوالے سے بھی تو ملیں مجھ سے۔”
”تم نے خود انہیں فاصلے پررکھا ہو گا۔” زینی اب بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے پر تیار نہیں تھی۔
”پہلے نہیں رکھا تھا… اب رکھا ہے… میرا جانا انہیں اتنی خوشی نہیں دیتا جتنا میرا بھیجا ہوا چیک… اس لیے میں انہیں وہی چیز بھیجتا ہوں جو انہیں زیادہ خوشی دے۔”
”تم اندر سے بہت تلخ ہو کرم۔” زینی نے بہت غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ مسکرا دیا۔
”25 سال اگر کوئی انسان کڑواہٹ اپنے اندر جمع کرتا آرہا ہو تو کبھی نہ کبھی زبان وہ کڑواہٹ اگلنے لگتی ہے۔”
”پھر بھی تمہیں اپنے بہن بھائیوں سے ملنا چاہیے… یوں الگ ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔” زینی نے جیسے بات ختم کی۔
”تم کیوں نہیں ملتی اپنے بہن بھائیوں سے؟… تم کیوں یوں چھپ کر بیٹھ گئی ہو؟ ” وہ اس کے سوال پر چند لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔وہ واقعی بہت تلخ تھا۔
”میں۔۔۔۔” اس نے نظریں چرائیں۔
”میں اپنے بہن بھائیوں سے اس لیے نہیں ملتی کیونکہ میں ان کے لیے داغ ہوں… پھرمیں کیوں ان کی زندگی کو اپنے وجود سے آلودہ کروں… وہ سب میرے بغیر بھی بہت خوش ہیں… انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔”
”میری فیملی بھی میرے بغیر بہت خوش ہے انہیں بھی میری ضرورت نہیں ہے۔” کرم نے بے ساختہ کہا۔
”رشتے اتنی آسانی کے ساتھ۔۔۔۔”
”زینی باہر چلیں…؟” کرم نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی وہ الجھی نظروں کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
٭٭٭
کرم نے زندگی میں بہت ساری عورتیں دیکھی تھیں لیکن زینی ان میں سے عجیب ترین تھی… وہ انسانوں کو منٹوں میں judge کرتا تھا… ان کی اگلی move کو پڑھ لیتا تھا… اور ”عورت” کے بارے میں اس نے آج تک جو سوچا تھا جو اندازے لگائے تھے۔ اس کی زندگی میں آنے والی عورتیں اس پر حرف بہ حرف پوری اتری تھیں… صرف زینب ضیاء تھی جو اس کا ہر اندازہ غلط ثابت کر دیتی تھی۔ وہ اس کے ذہن کو نہیں پڑھ سکتا تھا… صرف چہرہ پڑھ سکتا تھا… اور اس کا چہرہ پڑھنا اسے تکلیف دیتا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اس کی زندگی کا وہ تکلیف دہ حصہ یوں منٹوں میں اس کی زندگی سے غائب کرتا کہ دوبارہ کبھی وہ اس کے چہرے پر سایہ بن کر نہ لہراتا۔
وہ اس سے جتنا زیادہ مل رہا تھا وہ اس سے اتنا زیادہ ملنا چاہتا تھا… 25 سال بعد وہ کسی سے اپنے دل کی باتیں کر رہا تھا… کسی کے دل کی باتیں سن رہا تھا… وہ دنیا میں واحد انسان تھی جس سے کرم نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں چھپایا تھا…ایک ایک چیز بتا دی تھی اس نے… ایک ایک غلطی… ایک ایک گناہ… وہ جیسے اس کے لیے ایک آئینہ بن گئی تھی جس میں وہ جھانکتا تو باآسانی اپنا عکس دیکھ لیتا… اور ہر بار اس سے اپنا کوئی راز شیئر کرنے کے بعد وہ گھر آتا اور پچھتاتا… اسے یہ نہیں بتانا چاہیے تھا… یہ تو چھپانے کی بات تھی… کیا ہو گیا ہے مجھے؟ وہ خود کو ملامت کرتا… اگلی بار اپنی زبان بند رکھنے کا عہد کرتا… اور اس پر جما رہتا تب تک جب تک وہ فون پر اس کی آواز نہ سن لیتا یا وہ اس کے سامنے نہ آجاتی… اور جیسے ہی ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز ہوتی… کرم ایک بار پھر کرم نہیں رہتا تھا… اس کی کڑواہٹ بڑے عجیب انداز میں ختم ہونے لگی تھی اس کی تلخی دم توڑنے لگی تھی… زینی کا وجود جیسے اس کی تنہائی کے زہر کو مارنے لگا تھا… اور یہ سب تب تھا جب وہ صرف ایک دوست تھی… صرف ایک د وست۔
دن میں آیک بار کی جانے والی کال اب دن میں کئی بار کی جانے والی کالز میں بدل گئی تھی… اور بے شمار بھیجے جانے والے message اس کے علاوہ تھے… وہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی کی روٹین کے ایک ایک لمحے سے واقف تھے… کرم کی سیکرٹری کو بھی کرم کی ایک مہینے کی مصروفیات بتانے کے لیے ڈائری کا سہارا لینا پڑتا اور زینی کو سب کچھ زبانی پتہ تھا… وہ کس دن کس وقت کتنی دیر کے لیے کس کے پاس کہاں جا رہا تھا… زینی زبانی بتا سکتی تھی… خود کرم بھی اس کی روٹین سے اسی طرح واقف تھا کہ وہ اگر اس کے ایک پورے دن میں صبح سے لے کر شام تک کمنٹری کرتا تو وہ اس کے بتائے ہوئے وقت پر بتائی ہوئی جگہ پر وہی کچھ کرتی پائی جاتی جووہ کہہ رہا ہوتا۔
اوٹوا میں اس کی زندگی کی روٹین میں ان پانچ بھکاریوں کے علاوہ کرم علی بھی شامل ہو گیا تھا… کیسے شامل ہو گیا تھا؟ کرم کی طرح یہ زینی کو بھی سمجھ نہیں آتا تھا… شاید ایک دوست کی کمی تھی میری زندگی میں جو کرم کی صورت میں مل گیا ہے مجھے… اس نے بھی کرم کی طرح اپنے رشتے پر دوستی کا لیبل چسپاں کر دیا تھا… یہ جیسے حفاظتی اقدام تھا۔
٭٭٭




”تم کوئی جیولری کیوں نہیں پہنتی؟” وہ اس ویک اینڈ پر کافی پینے نکلے تھے اور اب کافی پیتے ہوئے ونڈو شاپنگ کر رہے تھے جب کرم نے اچانک اس سے پوچھا تھا اس نے واقعی کبھی اس کے ہاتھ کانوں یا گردن میں کچھ نہیں دیکھا تھا۔
”میرے پاس کوئی جیولری نہیں ہے یہاں آنے سے پہلے سب کچھ دے آئی میں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کرم سے کہا۔
”میں لے کر دوں؟… اگر تم برا نہ مناؤ تو۔” کرم نے پہلے آفر کی پھر ساتھ ہی معذرت۔ وہ ہنسی۔
”میں تمہاری جیب سے کافی تک نہیں پیتی تم سمجھتے ہو جیولری لے لوں گی؟” وہ واقعی کرم کے ساتھ کہیں جاتے ہوئے اپنے کھانے پینے کے بل کی ادائیگی خود کرتی تھی کرم کے احتجاج کے باوجود… وہ کرم کا بل نہیں دیتی تھی لیکن اپنا بل بھی اسے نہیں دینے دیتی تھی… وہ اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ محتاط تھی… کرم نے آہستہ آہستہ اس کے اس رویے کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا… واحد تبدیلی جو آئی تھی وہ یہ تھی کہ ہر بار اپنی اپنی کافی اور کھانے کا بل ادا کرنے کی بجائے اب ایک بار بل وہ ادا کرتی تھی اگلی بار کرم… اور کھانے اور کافی کی جگہ کا انتخاب ہمیشہ زینی کا ہوتا تھا… اور کرم اگر زینی کے بل دینے کی باری پر اگر کسی سستی سی چیز کا انتخاب کرتا تو زینی بھی اس کی باری پر یہی کرتی تھی… وہ بہت سالوں کے بعد وہ سستی چیزیں کھا رہا تھا جو اب اس کی زندگی سے نکل گئی تھیں۔
”ہاں مجھے پتہ ہے تم نہیں لو گی… لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آیا کروں۔”کرم نے سنجیدگی سے کہا۔
”کون سی ایسی چیز لا سکتے ہو تم کرم جو میرے پاس نہ رہی ہو اور میں اسے چھوڑ نہ آئی ہوں۔”
کرم جواب نہیں دے سکا۔ وہ اب بھی فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔
”جیولری، کپڑے، جوتے کاسمیٹکس… یہ سب کچھ نکل گیا ہے میری زندگی سے… بہت پہن لیے میں نے… یہ جو زندگی ہے نا… جو بیوٹی پارلر، جم، سٹوڈیوز، اور پارٹیز سے ہٹ کر گزار رہی ہوں یہ بہت پر سکون زندگی ہے… مجھے 24 گھنٹے سکرین پر خوبصورت نظر آنے کے لیے میک اپ کا ڈھیر اپنے چہرے پر نہیں لگانا پڑتا… جیولری کا انبار سجانا نہیں پڑتا نہ ہی کپڑوں اور جوتوں کے پیچھے ہلکان ہونا پڑتا ہے… نہ ہی اپنے جسم اور چہرے کو خوبصورت دکھانے کی جدوجہد میں جم اور بیوٹی پارلر میں جا کر خوار ہونا پڑتا ہے… میں بہت خوش ہوں ان چند کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ جنہیں میں بار بار استعمال کرتی ہوں… مجھ پر ترس مت کھاؤ۔” کرم کو اس کی بات بری لگی۔
”میں ترس نہیں کھا رہا تم پر۔”
وہ ہنسی۔ ”تو اور کیا کر رہے ہو؟… ایک غریب لڑکی کو جیولری لے کر دینے کی بات کر رہے ہو… اگر ترس کھا کر نہیں دے رہے تو یہ اس سے بھی خطرناک بات ہے… پھر کیوں دے رہے ہو اسے۔”
کرم کچھ اور خفا ہوا وہ اب اس کا مذاق اڑا رہی تھی اور جیسے اس سے محظوظ ہو رہی تھی۔
”تم اگر مجھے تحفہ دینا چاہو گی تو میں کبھی منع نہیں کروں گا میں بڑی خوش دلی سے لے لوں گا۔” کرم نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
”لیکن میں تو تمہیں تحفہ دینا ہی نہیں چاہتی… اور بھلا میں تمہیں تحفہ دوں کیوں…؟” وہ جیسے اسے زچ کرنے پر تل گئی تھی۔
”ہم دوست ہیں زینی اور دوست ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں۔ میں اپنے سب دوستوں کو تحفے دیتا ہوں۔” کرم نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ وہ مارکیٹ ایریا میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے تھے۔
”میں نے کب منع کیا ہے… تم دیتے ہو… دو… لیکن میں نہ تحفہ لوں گی نہ دوں گی… ویسے بھی بہت تحفے دے چکے ہو پہلے ہی تم مجھے۔” کرم اس کا اشارہ سمجھ گیا۔
”جو تم میرے منہ پر مار گئی۔”
”منہ پر نہیں مارے تھے… تم چاہتے تھے میں منہ پر مار کر جاتی؟” زینی نے بے حد سنجیدگی سے پوچھا۔
وہ چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر ہنس پڑا… وہ آج اچھے موڈ میں تھی اتنی اداس نہیں تھی جتنی اکثر ہوتی تھی اور کرم یہ دیکھ کر خوش تھا۔
”تم بہت عجیب ہو زینی۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
”کتنی بار کہو گے یہ مجھ سے؟… میں جانتی ہوں… تمہارا بس چلے تو تم مجھے عجائب خانے میں رکھوا دو… اتنی ہی عجیب لگتی ہوں تمہیں میں۔” وہ اطمینان سے کافی پیتے ہوئے مارکیٹ ایریا میں گاتے ہوئے سٹریٹ سنگر کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”عجائب خانے میں تو نہیں لیکن۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
زینی اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ فٹ پاتھ پر گاتے سنگر کو سن رہی تھی۔
وہ کافی پینا بھول گیا… بہت دیر تک اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ وہ اب بھی کسی پینٹر کی پینٹنگ کی طرح خوبصورت تھی… اسے واقعی خوبصورت نظر آنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی… زری بھی بے انتہا خوبصورت تھی اسے دیکھتے ہوئے بھی بعض دفعہ وہ اسی طرح مبہوت ہو جاتا تھا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسے زری کی آنکھوں میں آنے والے کسی تاثر کسی احساس نے کبھی اس طرح باندھا ہو جس طرح وہ باندھ کر رکھ دیتی تھی… کرم نے نظریں ہٹا کر کافی کا آخری گھونٹ بھرا… وہ اس کی نہیں تھی… وہ اس کی نہیں ہو سکتی تھی… اسے شیراز کی بد قسمتی پر رحم آتا کوئی زینی جیسی لڑکی کو پیسے کی خاطر کیسے چھوڑ سکتا تھا… کم از کم کرم علی تو نہیں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!