”جس طرح آپ کو کسی کا احسان پسند نہیں ہے مجھے بھی نہیں ہے۔”
زینی نے ایک لمحے کے لیے حیرانی سے اسے دیکھا پھر وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
”اس سے پہلے تو کھانا کھانے بیٹھ گئے تھے… اس وقت کیوں خیال نہیں آیا کہ آپ کو میرا احسان نہیں لینا۔”
”اس وقت حالات دوسرے تھے۔” کرم اب بھی ویسا ہی سنجیدہ تھا۔
”نہیں تو نہ سہی… آپ کا کیا خیال ہے میں آپ کی منتیں کروں گی؟” وہ آکر دوبارہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”نہیں مجھے یقین تھا آپ اسی طرح صوفے پر آکربیٹھ جائیں گی۔”
زینی چند لمحے کچھ کہے بغیر اسے دیکھتی رہی پھر کھلکھلا کر ہنسی۔
”تم بڑے عجیب آدمی ہو۔”
”تم؟” کرم کو اس کا اندازِ تخاطب بدلنا اچھا لگا۔
”میں آپ صرف ان مردوں کو کہتی ہوں جن کی عزت نہیں کرتی۔
اس بار کرم اس کی بات پر ہنسا۔
”لیکن میں ان کو کہتا ہوں جن کو غیر سمجھتا ہوں۔”
کچھ دیر تک دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے رہے پھر کرم نے کہا۔
”میری امی یا بھائی نے تمہیں ہاسپٹل میں کچھ کہا تھا؟”
وہ چونکی پھر اس نے بظاہر نارمل لہجے میں کہا۔
”مجھ سے کیا کہیں گے وہ؟… مجھے تو ٹھیک سے جانتے بھی نہیں وہ۔”
”میں نہیں مان سکتا تم اسی وجہ سے دوبارہ مجھے ملنے ہاسپٹل نہیں آئی۔”
وہ کچھ دیر خاموش بیٹھی کچھ سوچتی رہی پھر اس نے بہت تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
”میں سب کچھ چھوڑ کر لوگوں کی نظروں سے چھپ کر یہاں بیٹھی ہوں… بہت مدت کے بعد بہت سکون میں ہوں… میں اب اپنے آس پاس کوئی ایسی چیز نہیں چاہتی جو مجھے پھر کسی دلدل میں گھسیٹے… میری قوت برداشت کم ہو چکی ہے کرم… ان کی آنکھوں میں شک، حقارت بہت کچھ تھا میرے لیے… اور میں نظریں اور لہجے پہچاننے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو گئی ہوں… ہتک کے ایک احساس نے مجھے ایک کنویں میں کودنے پر مجبور کر دیا تھا…میں اب دوبارہ کسی کنویں میں کودنا نہیں چاہتی… تم اچھے آدمی ہو لیکن تم میرے ”کوئی نہیں” ہو… ہم دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں… کوئی رشتہ نہیں… اور بس یہی تعلق ہے ہمارا… میں نہیں چاہتی کوئی منہ کھول کر مجھ سے تمہارے بارے میں ایسے سوال کرے جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں۔” وہ بے حد صاف گوئی سے کہہ رہی تھی اور کرم کو اس کی یہ صاف گوئی تکلیف پہنچا رہی تھی۔ وہ بہت پہلے ہی اس کے ساتھ کسی ممکنہ تعلق کو ریجیکٹ کر رہی تھی یعنی وہ کرم کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اگر وہ ایسا کچھ سوچ بھی رہا ہے تو کبھی نہ سوچے… کیوں؟… اس لیے کیونکہ زری کی طرح وہ بھی کسی معمولی شکل کے برص زدہ اور کینسر زدہ آدمی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی تھی… اور اس کے ساتھ ساتھ عمر کا فرق بھی اس کے ذہن میں ہو گا… وہ اس سے دگنی عمر کا نہ سہی لیکن بہر حال کافی بڑا تھا… پھر کرم اپنے آپ کو خواہ مخواہ کسی فریب میں گرفتار کیوں کر رہا تھا… ریجیکشن تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن اتنی کھلی ریجیکشن… کرم وہاں بیٹھے اس کی باتیں سنتا ہوا اس کی ہر بات کو اپنا مفہوم پہنا رہا تھا… اور تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔
وہ اب خاموش ہو گئی … شاید منتظر تھی کہ کرم کچھ کہے گا لیکن کرم کچھ کیسے کہتا… بات کرنے کے لیے اس وقت بڑا حوصلہ چاہیے تھا۔
”میں چلتا ہوں… کچھ کام ہے۔” وہ کھڑا ہو گیا… یہ جیسے راہ فرار تھا۔
”اوکے… and get well soon.۔” وہ جیسے بلا واسطہ اس سے دوبارہ وہاں نہ آنے کے لیے کہہ رہی تھی۔
وہ اس کے اپارٹمنٹ سے نکل آیا… یہ پہلی بارنہیں ہوا تھا اس کے ساتھ… زندگی میں بہت بار روشنی دیکھ کر وہ اندھیرے میں گیا تھا… پتہ نہیں وہ کیوں محبت کی خواہش میں یوں لوگوں کے پیچھے بھاگتا تھا… لوگوں کے پیچھے؟… زینی لوگ نہیں تھی۔
وہ واپسی پر تمام راستے پتہ نہیں کیا کیا سوچتا رہا۔
٭٭٭
اگلے کئی ہفتے کرم نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ کون فون، کوئی message کوئی visit نہیں… وہ یک دم جیسے غائب ہو گیا تھا اور زینی کو جیسے حیرانی ہوئی تھی… حیرانگی یا بے چینی؟… وہ طے نہیں کر پائی… لیکن کئی دن لاشعوری طور پر وہ اس کی کال اس کے message یا ویک اینڈ پر اس کے خود چلے آنے کی منتظر رہی… پھر آہستہ آہستہ زندگی پھر پہلے جیسے معمول پر آگئی تھی… ویسے معمول پر جو کرم کے آنے سے پہلے تھا… اس نے اس کی زندگی میں ایک ہلکی سی ہلچل ضرور پیدا کی تھی لیکن کوئی بھنور پیدا کرنے سے پہلے ہی چلا گیا… بالکل کئی سال پہلے کی طرح۔
دو ڈھائی مہینے کے بعد یہ اس کی سالگرہ کا دن تھا جب اسے کرم کی طرف سے ایک کیک اور پھول ملے… اسے خود بھی یاد نہیں تھا کہ یہ اس کی سالگرہ کا دن تھا… کچھ دیر کے لیے وہ ٹھٹھکی تھی… اور وہ سوچ رہی تھی وہ اسے اپنے ذہن سے نکال چکا تھا… شوبز سے علیحدگی کے بعد یہ دوسری سالگرہ تھی جو اس طرح خاموشی سے کسی ہنگامے کے بغیر گزری تھی… ورنہ اس سے پہلے… ماضی کسی جھماکے کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا…ماضی جو عجیب سی ٹیسیں اٹھانے لگا تھا اس کے وجودمیں۔
کئی ہفتوں کے بعد اس دن پہلی بار اس نے کرم کو فون کیا… کئی بار بیل ہونے پر بھی فون نہیں اٹھایا گیا… اس نے message نہیں چھوڑا… ہلکی سی خفگی کے ساتھ فون رکھ دیا تو وہ اب اس کے ساتھ وہی کر رہا تھا جو وہ اس کے ساتھ کرتی رہی تھی۔
فون رکھنے کے پانچ منٹ بعد ہی اس کی کال آگئی تھی۔
”میں دوسرے فون پر تھا…Happy Birthday” اس نے چھوٹتے ہی کہا ”اس کی ضرورت نہیں تھی کرم۔”
”جانتا ہوں… تم بہت self-reliant ہو… تمہیں کسی بھی چیزکی ضرورت نہیں ہے… لیکن میرے جیسے لوگ اس طرح کی favours اس لیے کرتے ہیں تاکہ شاید کبھی کوئی جواباً ایسی favoursلوٹا دے۔” اس نے زینی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا۔
زینی کی سمجھ میں نہیں آیا اسے کیا کہے۔
”تمہاری طبیعت کیسی ہے؟”
”ٹھیک ہوں میں۔”
”علاج کروا رہے ہو نا؟”
”کوشش کر رہا ہوں” جواب مختصر تھا۔ وہ کچھ اندازہ نہیں لگا سکی۔
”کوئی تحفہ بھی بھیجنا چاہتا تھا میں… لیکن تمہارے ناراض ہونے کے خدشے سے نہیں بھیجا۔”
”بہت اچھا کیا… کیک اور پھول کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میری پیدائش کا دن ایسا خوشی کا دن نہیں ہے۔” اس نے بے ساختہ کہا اور پچھتائی ایسی بات کرم سے کہنے کا کیافائدہ تھا۔
”یہ صرف تمہاراخیال ہے۔۔۔۔”
”بس میں شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اس لیے فون کیا۔” اس نے بات بدلنا چاہی۔
”بہت دن ہو گئے ہمیں ملے… اگر تم کو برا نہ لگے تو میں اس ویک اینڈ پر… ” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”میں فری ہوں تم آسکتے ہو۔”
”کہیں باہر ملتے ہیں زینی۔” اس نے کہا تھا۔
زینی نے اقرار کر لیا۔ فون رکھنے کے بعد وہ بہت دیر پریشان بیٹھی رہی۔ آخر اس نے انکار کیوں نہیں کر دیا تھا۔
٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر کسی پارک گئے… تین گھنٹے وہاں بیٹھے بے مقصد باتیں کرتے رہے… ہر جملہ بولنے کے بعد اس پر پچھتاتے… ہر لفظ کہنے پر سوچتے یہ کیوں کہا۔
وہ جیسے اپنے اندر کو ایک دوسرے کی نظروں سے چھپانے کی کوششوں میں بے حال ہو رہے تھے…دونوں اپنے ارد گرد دیواریں کھینچنے، خندقیں کھودنے میں لگے تھے۔ جو انہیں ایک دوسرے کی طرف جانے سے روک دیتی… لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک دوسرے سے ملنے… ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہی خوشی کے جس احساس سے وہ دو چار ہوتے تھے اسے جھٹکنا اسے جھٹلانا بہت مشکل تھا۔
اس دن بھی تین گھنٹے ساتھ گزارنے کے بعد وہ دونوں دوبارہ اپنی اپنی دنیا میں چلے گئے تھے اور اپنی اپنی دنیا میں جاتے ہی انہیں احساس ہوا تھا کہ وہ ”اپنی دنیا” سے نکل آئے تھے… اس بار اس سے دوبارہ رابطہ کرنے میں پہل کرم نے کی تھی۔
پہل نہیں کی تھی جیسے ہار مان لی تھی… زینی کو زندگی سے نکال دینا بڑامشکل تھا… کم از کم اس زندگی سے جو اب رہ گئی تھی… کوئی اور رشتہ نہیں وہ دوست تو رہ سکتے تھے… بات تو کر سکتے تھے… مل تو سکتے تھے… آنکھیں بند کر کے یہ سوچ لینا اس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کے شہر میں اس سے چند میل کے فاصلے پر رہتی ہو اور وہ اس سے مکمل طور پر کٹ کر رہے… یہ جاننے کے باوجود کہ زینی کے لیے یہ آسان تھا… اور زینی کے لیے یہ شروع میں واقعی آسان تھا… اس تنہائی میں جینا جس میں وہ جی رہی تھی اس کے لیے مشکل نہیں تھا… وہ اس کی عادی تھی… لیکن پھر یہ عادت بدلنے لگی تھی… غیر محسوس طور پر غیر ارادی طور پر وہ اس کے وجود کی عادی ہونے لگی تھی… اس کے فون پر کسی غیر کی آنے والی وہ واحد کال تھی… واحد message اور ہر بار بیل ہونے پر بنا دیکھے بھی وہ پہچان جاتی تھی کہ وہ کرم تھا… اور ہر بار اس سے بات کرنے کے بعد اس سے ملنے کے بعد وہ بہت دیر بیٹھ کر سوچتی رہتی تھی کہ وہ کیا کر رہی تھی… اور پھر کرم کی طرح اس نے بھی خود کو یہ بتانا شروع کر دیا تھا کہ وہ صرف اس کا دوست تھا… اور کچھ نہیں… بس فرق یہ تھا کہ کینیڈا میں کرم کے اور بھی بہت سے دوست تھے اور کرم کے علاوہ زینی کا کوئی نہیں… کون کس کے ”ہونے یا نہ ہونے” کو زیادہ محسوس کرتا تھا یہ دونوں کے لیے طے کرنا مشکل ہو گیا تھا… اور مزید مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
٭٭٭