من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”ورنہ میں کہاں شوبز کی کسی عورت میں دلچسپی لیتا۔”
”عارفہ کون ہے؟”
”میری منگیتر تھی… کئی سال اس کے ساتھ میری منگنی رہی۔”
” پھر۔۔۔۔” زینی نے اس کی بات کاٹی۔
”پھر آپ نے توڑ دی؟”
”نہیں اس نے توڑ دی۔”
”کیوں؟”
”وہ انتظار نہیں کر سکتی تھی اور مجھے اپنے بہن بھائیوں کے لیے ابھی بہت پیسہ کمانا تھا۔”
”آپ نے گھر والوں کو اس پر ترجیح دی… محبت نہیں ہو گی اس سے۔” زینی کو کہتے ہوئے شیراز یاد آیا۔
”بہت محبت تھی لیکن ذمہ داریوں کا بوجھ اس سے بڑھ کر تھا۔”
”مرد کی زبان پر ہر وقت مجبوری کیوں ہوتی ہے؟… کندھوں پر ذ مہ داریاں تھیں… بہنیں بیاہنی تھیں… ماں باپ نہیں مانتے تھے… وغیرہ وغیرہ۔” وہ اب جیسے اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
وہ خاموش رہا۔
”اب پھر غصہ آگیا ہو گا؟” زینی نے اسے خاموش دیکھ کر کہا۔
”نہیں غصہ کیوں آئے گا؟”
”پھر علاج کی بات پر کیوں آگیا؟” وہ رک گئی۔
”علاج کی بات پر نہیں آیا تھا… کسی اور بات پر آیا تھا۔” کرم نے گہرا سانس لیا۔
”آپ کی ناراضگی ختم ہو گئی ہے؟”
”میری ناراضگی …؟” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”آپ کو ہرٹ کرنا میں کبھی نہیں چاہوں گا لیکن پتہ نہیں کیا ہو گیامجھے… بہت پچھتایا میں… کہنا کچھ اور چاہتا تھا لیکن پتہ نہیں کیا کیا کہہ دیاآپ سے۔۔۔۔” وہ اپنی ندامت کا اظہار کر رہا تھا۔ زینی نے اس بار اسے نہیں ٹوکا بات کرنے دی۔
اس نے اس دن اسے اپنے اپارٹمنٹ کے اندر نہیں بلایا۔ کرم نے کہا بھی نہیں۔ چند دن گزرنے کے بعد اس نے ایک بار پھر زینی کو فون کیا تھا… پھرجیسے یہ روز کا معمول بن گیا تھا وہ اسے فون کرنے لگا تھا اور معمول کی اسی گفتگو کے دوران زینی نے اسے مجبور کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ آپریشن کروائے… وہ اس سے بحث تک نہیں کر سکا… اس نے آپریشن کروا لیا تھا اور اس آپریشن کی اطلاع ملنے کے بعد کئی ماہ بعد اس کا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رابطہ بحال ہوا تھا… ان میں سے ہر ایک باری باری اس کی عیادت کے لیے آیا تھا ان کے انداز میں گرم جوشی نہیں تھی جو کرم دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن اتنی بے حسی بھی نہیں تھی جو وہ expect کر رہا تھا۔
اور آپریشن کے بعد زینی بھی اس سے ملنے آئی تھی اور پہلے ہی دن اس کا سامنا کرم کے بھائی اور ماں سے ہو گیا تھا۔ وہ کرم کے کمرے سے نکل رہے تھے اسے دیکھ کر وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ ”پری زاد”وہاں کیا کرنے آئی تھی اور کرم کی زندگی میں وہ کب سے تھی اس کا اندازہ وہ نہیں لگا سکے تھے لیکن یہ اندازہ انہوں نے لگا لیا تھا کہ کرم کی اس ”خود غرضی” اور ”تبدیلی” کے پیچھے وہی تھی ورنہ کرم ایسا تو نہیں تھا جیسا اب ہو گیا تھا۔
زینی کا استقبال انہوں نے اتنی ہی سرد مہری سے کیا جتنا وہ کرسکتے تھے اور زینی کو بے اختیاروہاں آنے پر پچھتاوا ہونے لگا… انہیں اس کا وہاں آنا اچھا نہیں لگا تھا یہ سمجھنے میں اسے دقت نہیں ہوئی تھی لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ آچکی تھی۔
اس کے کمرے میں داخل ہوتے وقت وہ بری طرح ڈسٹرب تھی اور کرم نے یہ چیز چند منٹوں میں اس سے باتیں کرتے ہوئے نوٹ کر لی تھی۔
”نہیں… کچھ نہیں ہوا… آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں بس کچھ سوچ رہی تھی۔” اس کے پوچھنے پر زینی فوراً سنبھل گئی تھی۔ کرم کے اصرار کے باوجود وہ یہ ماننے پر تیار نہیں ہوئی تھی کہ وہ کسی بات پر اپ سیٹ تھی۔




وہ دوبارہ ہاسپٹل اسے دیکھنے نہیں گئی… نہ ہی وہ اس کے ڈسچارج ہونے کے بعد اس کے گھر اس کی عیادت کے لیے گئی… وہ ان نظروں اور ان سوالات کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی جن کا سامنا اس نے ہاسپٹل کے کوریڈور میں کیا تھا… کرم سے اس کی بات فون پر ہوتی تھی اور اس کے بار بار کے کہنے کے باوجود وہ اس کی عیادت کے لیے آنے پر تیار نہیں ہوئی… ہر بار اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ تھا۔
٭٭٭
”یہ پری زاد سے کب سے ملنے لگے ہو تم؟” وہ اپنی ماں کی بات پر چونک گیا تھا… زینی کے بارے میں انہیں کیسے پتہ چلا تھا؟… اس نے تو اس کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی اور اب اس کی ماں اس کے ہاسپٹل سے گھر آنے پر اس کے پاس رہنے کے لیے آئی تھی اور چند د ن گزرتے ہی اس نے کرم سے پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔
”آپ سے کس نے کہا؟” کرم نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے پوچھا۔
”مجھ سے کون کہے گا؟… میں اورآصف خودملے ہیں اس سے… تم کو دیکھنے ہاسپٹل آئی تھی وہ۔” کرم بول نہیں سکا۔ اس کے ذہن میں جیسے بجلی سی کوندی تھی… یقینا وہ اس دن ان لوگوں سے ملنے کی وجہ سے ہی اپ سیٹ تھی اور اس کے دوبارہ عیادت کے لیے نہ آنے کی وجہ…
”تم نے بتایا نہیں… یہ یہاں کینیڈا کیوں آگئی ہے؟” اس کی ماں نے اب اپنا سوال بدلتے ہوئے کہا۔
”ہر سال لاکھوں لوگ کینیڈا آجاتے ہیں… پھر کیا مجھے بتاتے ہوں گے کہ کیوں آئے ہیں۔” اس نے جھنجلا کر کہا۔
”صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ تم نے بلایا ہے اسے… اسی کی وجہ سے تم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ سب کر رہے ہو۔” وہ بے حد خفگی سے کہنے لگی تھیں۔
کرم نے آنکھیں بند کر لیں… انہیں اس چیز کا بھی احساس نہیں تھا کہ وہ ابھی بستر پر پڑا تھا بیمار تھا ان کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ آپریشن ہو گیا… وہ گھر آچکاتھا… اب ایک بار پھر پہلے والا سلسلہ شروع کیا جاسکتا تھا۔
”یہ اداکارائیں بہت بری عورتیں ہوتی ہیں… یہ مردوں کو الو بناتی ہیں… انہیں فریب دیتی ہیں… جھوٹی باتیں کرتی ہیں… ان کی نظریں مردوں کی جیب پر ہوتی ہیں… جب مطلب پورا ہو جائے تو پلٹ کر بھی نہیں دیکھتیں یہ۔”
”ہر عورت یہی کرتی ہے وہ اداکارہ ہو یا نہ ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ” وہ بڑبڑایا۔
اس کی ماں کو سمجھ نہیں آئی۔
”اور یہ پری زاد تو ہے ہی آوارہ… تم نے۔۔۔۔”
کرم نے ماں کو ٹوکا۔”میں سونا چاہتاہوں مجھے نیند آرہی ہے۔” اس کی ماں کو بادل نخواستہ خاموش ہونا پڑا… کرم نے ماں کے کمرے سے نکلتے ہی آنکھیں کھول دیں۔
٭٭٭
وہ اسے اپنے دروازے پر دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اپنے گھر پر ان دنوں آپریشن کے بعد آرام کر رہا ہو گا۔ آپریشن خطرناک نہ سہی لیکن اس کے باجود اس کے پشت اور کمر سے تین جگہوں سے گلٹیاں نکالی گئی تھیں… اصولی طور پر اسے ابھی آرام کرنا چاہیے۔
”مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی کرم۔” اس نے دروازہ کھولتے ہوئے بے حد خفگی کے عالم میں اس سے کہا تھا۔
”اندر آسکتا ہوں؟” کرم نے اس کو ٹوکا۔وہ دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی لیکن اس کے چہرے سے خفگی نہیں گئی تھی۔
”آپ کو اس وقت آرام کرنا چاہیے گھر پر بیٹھ کر… اور آپ اتنی لمبی ڈرائیو کر کے یہاں۔۔۔۔”
وہ دروازہ بند کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”اگر آپ میری عیادت کے لیے نہیں آئیں گی تو پھرمجھے ہی آنا پڑے گا ۔” کرم نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”میں آئی تھی آپ کی عیادت کے لیے… اب روز روز تو کوئی نہیں آتا عیادت کے لیے۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”آپ کے کہنے پر آپریشن کروایا ہے میں نے… اور آپ کو اتنی بھی دلچسپی نہیں ہے کہ آپ میری عیادت کے لیے آسکیں۔” کرم کے انداز میں گلہ تھا۔
زینی بول نہیں سکی۔
”بیٹھیں۔” اسے خیال آیا وہ اب تک کھڑا تھا وہ آگے بڑھ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”کیسے ہیں اب آپ؟”
”جیسا تھا ویسا ہی ہوں۔”
”میں آپ کی صحت کا پوچھ رہی ہوں۔”
”آپ کو کیسا لگ رہا ہوں؟”
”بہتر لگ رہے ہیں۔”
”آپ کے گھر بیٹھا ہوں اس لیے۔”
”کیا لیں گے آپ؟” وہ اس کے پاس سے اٹھ گئی۔
”کچھ نہیں۔”
”کیوں؟” وہ ٹھٹھکی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!