اس رات کرم سو نہیں سکا… زینی جیسے اس کے ساتھ چل کر اس کے گھر اس کے بیڈ روم اس کی آنکھوں میں آکر بیٹھ گئی تھی… پہلے اس کا خیال آنے پر وہ میگزینز میں اس کی تصویریں دیکھتا… اس کی موویز دیکھتا… آج پہلی بار اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ باربی ڈول کی طرح سجے ہوئے اس کے وجود کو آج کی زینی نے کہیں چھپا دیا تھا۔ آج اداکاراؤں والی کوئی خوبی اس میں نظر نہیں آئی تھی اسے… وہ اسے ایک عام سی گھریلو لڑکی لگی تھی… ویسی ہی لڑکی جیسی وہ اپنی فیملی میں دیکھتا آرہا تھا… اگر میک اپ میں چھپے چہرے کو بھلانا مشکل تھا تو اس سادہ چہرے کو بھی ذہن سے نکالنا دشوار تھا… بہت دفعہ اس کا دل چاہا وہ اسے فون کرے… اور ہر بار اس نے ارادہ ترک کر دیا… وہ پتہ نہیں کیا سمجھتی… اور پھر…؟ کرم نے کوئی اور توجیہہ بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کوئی اور توجیہہ سمجھ میں نہیں آئی… دل تھا کہ جیسے مقناطیس کی طرح اس کی طرف جا رہا تھا اور ذہن تھا کہ اسے روکنے کی کوشش کررہا تھا… اور یہ… یہ اسکی زندگی میں دوسری بار ہوا تھا… پہلی بار بھی یہ زینی کو دیکھ کر ہی ہوا تھا۔
وہ اگلا سارا دن بھی صرف اسی کے بارے میں سوچتا رہا تھا… آفس سے نکلتے ہوئے بے اختیار اس کا دل ایک بار پھر اس کے گھر جانے کو چاہا تھا… اس سے بات کرنے کو… اس کے ہاتھ کی کافی پینے کو… اس کافی میں اسے ”گھر” والی مہک محسوس ہوئی تھی۔ ویسی مہک جیسی وہ اپنے دوستوں کی بیویوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی میں محسوس کرتا تھا… یا اپنی بھابھیوں اور بہنوں کی ہاتھ کی کافی میں… اور کبھی کبھار زری کے ہاتھ سے بنی ہوئی کافی میں بھی۔
ایک عجیب سی اداسی نے گھر پہنچنے پر اسے گھیرا تھا جیسے وہ اس وقت غلط جگہ پر آگیا تھا اسے کہیں اور ہونا چاہیے تھا۔
اس نے نو بجے بالآخر اسے فون کر دیا تھا… بیل ہوتی رہی… کسی نے فون نہیں اٹھایا… وہ بار بار فون کرتا رہا… اور messageچھوڑے بغیر فون بند کرتا رہا اس نے کم از کم 25 بار اسے کال کیا تھا اور بہت غصہ بھی آیا اسے… وہ اپنے آپ کو کیا سمجھ رہی تھی؟… اس پر ایکٹریسز والے حربے آزما رہی تھی کہ وہ اسے avoid کرتی اور وہ خود ہی پیچھے بھاگتا آتا… وہ غصے میں پتہ نہیں کیا کیا سوچنے لگا تھا اس کے بارے میں… غصہ اب اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنے لگا تھا… یہ پہلے نہیں تھا لیکن اب کرم کو خود بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اسے کیا ہونے لگا تھا۔
پچھلے کئی ماہ سے اس کے اور اس کی فیملی کے درمیان رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ صرف ماں تھی جس سے فون پر اس کی بات ہو جاتی تھی لیکن باقی کسی کے ساتھ تو یہ بھی نہیں تھا۔ اس کے گھر ہونے والے ڈنرز میں اب صرف اس کے کاروباری دوست ہی شریک ہوتے تھے… پہلے کی طرح اس کی فیملی کے لوگ نہیں… اور کرم نے آہستہ آہستہ انہیں انوائیٹ کرنا ہی بند کر دیا تھا۔
صبح تک اس کا موڈ اتنا خراب ہو چکا تھا کہ وہ آفس نہیں گیا… دوپہر تک سوتا رہا۔ دو بجے سو کراٹھتے وقت بھی اس کا موڈ اسی طرح تھا۔ وہ اس دن کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا کہیں نہیں جانا چاہتا تھا۔ نائٹ سوٹ میں ہی ملبوس کپڑے تبدیل کیے بغیر اس نے ہاؤس کیپر کو کچھ ہدایات دیں اور پھر اپنے بیڈ روم میں آکر سیل آن کر کے messages اور کالز کا ریکارڈ چیک کرنے لگا۔ پہلے message نے اس کے وجود میں زندگی دوڑا دی تھی۔
”ہیلو کرم میں زینی بات کر رہی ہوں… میں رات کی شفٹ سے فارغ ہو کر ابھی آئی ہوں… آپ کی کال نہیں لے سکی… اگر آپ اس ویک اینڈ پر کچھ وقت نکال سکیں تو میں ہفتے کو آپ کو لنچ کے لیے بلانا چاہتی ہوں… خدا حافظ۔” کرم نے کم از کم دو سو بار اس message کو سنا۔ اس کا غصہ یک دم پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا… بس اتنی سی بات تھی جو اسے کل رات سے اپ سیٹ کر رہی تھی۔
ایک گھنٹے کے بعد اس نے زینی کے سیل پر پروگرام کنفرم کرنے کا message چھوڑا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے اپنی سیکرٹری کو کہہ کر ہفتے کا کہیں اور شیڈولڈ لنچ کینسل کر دیا۔
ہفتے میں دو دن تھے اور ان دونوں دن کرم نے زینی کو فون کیا۔ پہلی کال دس منٹ کی تھی… دوسرے دن کی جانے والی ایک گھنٹہ اور دس منٹ کی تھی۔
کرم نے زندگی میں پہلی بار کسی لنچ پر جانے کے لیے وقت کو گنا تھا۔
٭٭٭
وہ ہفتے کو ٹھیک ٹائم پر زینی کے اپارٹمنٹ پر پہنچا تھا اوردروازہ کھلنے پر اس نے زینی کو پچھلی دفعہ سے بھی زیادہ خراب حلیے میں پایا تھا۔ اپیرن باندھے پانی میں شرابور اس نے قدرے حواس باختہ دروازہ کھولا اور پھر اسے کھلا چھوڑ کر کرم کی طرف ٹھیک سے دیکھے بغیر اسی طرح تیزی سے کہتی ہوئی واپس چلی گئی۔
”سنک کے tapکو کچھ ہو گیا ہے۔ میں پانی بند کرنے کی کوشش کر رہی ہو… آپ آجائیں اندر۔” آخری جملہ کرم تک جب پہنچا تھا تب تک وہ کچن میں غائب ہو چکی تھی۔ وہ بکے ہاتھ میں لیے کچھ دیر احمقوں کی طرح باہر کھلے دروازے کے سامنے کھڑا رہا پھر دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آگیا۔ وہ ایک رینچ ہاتھ میں لیے سنک پر لگے ایک طرف کے tap کے نچلے حصے کو گھما کر اس پانی کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جو پوری قوت سے سنک میں گر رہا تھا اور اس کے چھینٹے اس پر پڑ رہے تھے۔ وہ پرانی بلڈنگ تھی وہاں پلمبنگ پرانے طریقے کی ہوتی تھی یہ کرم کوپہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا۔ اور مناسب والوز کے بغیر پانی کو کسی مہارت کے بغیر بند کرنا مشکل تھا۔ بکے کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا اور اپنی آستین کھول کر اوپر کرتا ہوا سنک کے پاس آگیا۔
”مجھے دیں ذرا میں دیکھتا ہوں۔” کرم نے رینچ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
زینی نے نفی میں سرہلایا۔”آپ کو یہ کام کہاں آتے ہوں گے… آپ بیٹھیں میں بس کوشش کر رہی ہوں بند ہو جائے گا۔”
کرم مسکرایا… ”یہ کام کویت میں ڈیڑھ سال پلمبر کے طور پر کیا ہے میں نے۔”
زینی نے حیرانی سے اس کی شکل دیکھی کرم نے اس کے ہاتھ سے رینچ لے لیا… پانچ منٹ میں اس نےtap اتار کر اس کے نیچے والے حصے کو کس کر پانی بند کر دیا تھا۔
”میں نے اپارٹمنٹ کے مالک کو فون کیا تھا لیکن اس کا فون آف ہے… ویک اینڈ ہے شاید اس لیے available نہیں ہے ورنہ میں اس کو بتاتی… ہر دوسرے چوتھے دن کچن اور باتھ روم میں کچھ نہ کچھ مسئلہ ہوتا ہی رہتا ہے۔۔۔۔” وہ قدرے خفگی کے عالم میں کرم کے پاس کھڑی اسے کام کرتے دیکھتے ہوئے بتاتی رہی۔
”اپارٹمنٹ بدل لینا چاہیے آپ کو… پرانی بلڈنگ ہے یہاں ایسے مسئلے تو ہوتے رہیں گے۔” کرم نے کام میں مصروف اسے مشورہ دیا۔
”نہیں بدل سکتی… یہ بہت سستا ہے۔” زینی نے کہا۔
کرم نے اس کا چہرہ دیکھا لیکن کچھ نہیں کہا وہ اپنا کام ختم کرچکا تھا۔ وہ اب کچن رول لے کر ہاتھ خشک کر رہا تھا۔
”آپ کی شرٹ بھیگ گئی” زینی نے کچھ معذرت کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”ابھی خشک ہو جائے گی۔” کرم نے کہا اور کچن رول پھینکتے ہوئے اپنی آستین نیچے کرنے لگا۔ وہ اس کے برص زدہ بازوؤں کو بار بار دیکھ رہی تھی کرم نے محسوس کیا۔
”مجھے changeکرنا ہو گا۔” وہ اپنا اپیرن اتار کر رکھتے ہوئے بولی پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا۔ اس نے فریج میں سے ایک گلاس نکال کر کچن کاؤنٹر پر کرم کے پاس رکھ دیا۔
”یہ کیا ہے؟” اس نے قدرے حیران ہو کر پوچھا تھا لیکن جواب وہ جانتا تھا…
”لیمونیڈ۔ آپ کو پسند ہے نا۔” وہ کہتے ہوئے کچن سے نکل گئی۔
کرم نے پلٹ کر اسے دیکھا وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جا رہی تھی۔ اس نے گلاس اٹھا لیا۔ گلاس میں موجود مشروب کو پیتے ہوئے وہ سٹنگ ایریا کی کھڑکی کے پاس آکر کھڑا ہو گیا… جب تک اس کا مشروب ختم ہوا وہ لباس بدل کر آچکی تھی۔
”یہاں اکیلی رہتی ہیں۔”
”ہاں۔”
کرم کو متوقع جواب ملا تھا۔ وہ اب کھانا سرو کرنے کی تیاری میں مصروف تھی۔
”آپ بتا رہے تھے آپ نے کویت میں ڈیڑھ سال پلمبنگ کا کام کیا۔”
”بھی کیا” کرم نے تصحیح کی۔
زینی نے حیرانی سے اس کے چہرے کو دیکھا۔
”اور کیا کیا کام کیے؟” زینی نے دلچسپی سے پوچھا کرم اس کے پاس چلا آیا اور اس نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیے۔
”انہیں دیکھ کر اندازہ لگا ئیں کہ ان ہاتھوں نے کیا کیا کام کیا ہو گا؟”
زینی نے بے حد اچنبھے سے اس کے ہاتھوں کو دیکھا… ہتھیلیاں واقعی بہت سخت اور مشقت کرنے والے آدمی کے ہاتھوں جیسی تھیں… ان پر چھوٹے بڑے زخموں کے نشان بھی تھے اور ایسے نشان اس کی کلائیوں پر بھی تھے۔ زینی نے ایک گہرا سانس لیا۔
”تو زندگی کا سفر آسان نہیں رہا آپ کے لیے۔”
کرم نے ہاتھ ہٹا لیے۔ کاؤنٹر پر رکھا گلاس اس نے دوبارہ اٹھا لیا۔
”ہر چھوٹا بڑا کام کیا ہے میں نے زندگی میں… تو آئندہ کبھی آپ کو اس اپارٹمنٹ میں کسی کام کے لیے پینٹر… کارپینٹر، الیکٹریشن یا میسن کی ضرورت پڑے تو مجھے کال کر لیجیے گا… میں ویک اینڈ پر بھی available ہوتا ہوں۔” وہ بظاہر مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
زینی مسکرائی نہیں تھی اس نے برتن میز پر لگانے شروع کر دیے۔
”آپ نے کیا کام ڈھونڈا ہے اب اپنے لیے؟”
”کھانا تیار ہے۔” زینی نے بات گول کر دی۔
کرم جان گیا تھا وہ گلاس رکھ کر ٹیبل کی طرف آگیا۔
”میں نہیں جانتا تھا کہ آپ کو کھانا پکانا آتا ہے۔” کرم نے بریانی اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”آپ جانتے بھی کیا ہیں میرے بارے میں؟” زینی نے مسکراتے ہوئے رائتہ اس کی طرف بڑھایا۔
”آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں بس آپ کو نہیں جانتا۔”
”اس لیے اس ٹیبل پر بیٹھے ہیں آپ۔” وہ اب اپنی پلیٹ میں چاول نکال رہی تھی۔ اس کے نیل پالش کے بغیر تراشیدہ ناخنوں والے خالی ہاتھ کرم کو بڑے عجیب لگے تھے۔ زینی نے اس کی ”توجہ محسوس” کی تھی۔
”آپ علاج کیوں نہیں کروا رہے؟”
کرم نے بے ساختہ نظریں ہٹا لیں۔ ”بریانی دیکھنے میں بہت اچھی لگ رہی ہے۔” کرم نے مسکراتے ہوئے اپنی پلیٹ کو دیکھ کر زینی کو جیسے انفارم کیا۔
”علاج نہیں کروائیں گے تو مرض بڑھ جائے گا۔” وہ بے وقوف نہیں تھی۔