من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

کچھ دیر وہ خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے کافی پیتا رہا وہ اسی طرح فرش رگڑتی رہی۔ پھر کرم نے کہا۔
”میں کل آپ کو سٹور میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔”
”میری طرح۔” مسکراہٹ ہلکی سی تھی۔ لیکن چہرے پر آئی تھی۔
”مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ آپ اوٹوا میں ہیں۔”
”اورمجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ آپ کا سٹور تھا۔”
”اور پتہ چلنے پر آپ نے کام چھوڑ دیا؟”
”جب جانتے ہیں تو پوچھ کیوں رہے ہیں؟”
”کیوں؟”
”مجھے شناسا چہروں سے خوف آتا ہے اور آپ ایک شناسا چہرہ ہیں۔”
کرم کو اس کا جواب عجیب لگا۔
”میرا خیال ہے آپ کسی شناسا چہرے کا احسان لینا پسند نہیں کرتیں… اس لیے ۔”
زینی نے پہلی بار سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر مسکرائی۔
”چلیں آپ یہ کہہ لیں۔” وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
”اس سٹور میں میں نے کام نہیں دلوایا تھا آپ کو… میرا احسان کیسے ہوا یہ؟”
جواب نہیں آیا۔
”بہت egoistic ہیں آپ۔” کرم نے جیسے شکوہ کرنے والے انداز میں کہا۔
”مجھ میں اور بھی بہت سارے عیب ہیں۔” اس کے جواب نے کرم کو خاموش کر دیا۔
”میں آپ کے عیب بتانے یہاں نہیں آیا۔” چند لمحوں بعد اس نے کہا۔
”جانتی ہوں آپ یہاں سے گزر رہے تھے اس لیے یہاں آئے۔” اس نے بے ساختہ کہا… کرم بے ساختہ ہنسا۔
اس نے فرش صاف کر لیا تھا۔ اب وہ چیزیں سمیٹ رہی تھی۔
”اس طرح سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں کیوں آگئی ہیں؟”
چیزیں سمیٹتے ہوئے پل بھر کے لیے وہ رکی۔ پھر اسی انداز میں اس نے کرم سے کہا۔
”بیوی بچے کیسے ہیں آپ کے؟” واضح طورپر اس نے کرم کا سوال گول کیا تھا۔
”Divorce ہو چکی ہے میری۔”
زینی نے پلٹ کر کرم کو دیکھا پھر الماری میں چیزیں رکھتے ہوئے اسے بند کر دیا۔
”کیوں؟”
”اسے میں پسند نہیں تھا۔”
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” اس نے اب کرم کے سامنے پڑا مگ اٹھا لیا اور جا کر اسے دھونے لگی۔
”وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔”
مگ دھوتے دھوتے زینی نے گردن موڑ کر کرم کو دیکھا۔ وہ افسردہ نہیں لگ رہا تھا۔
”بہت برا ہوا۔”
”اس کے ساتھ؟”
”میں آپ کی بات کر رہی ہوں۔”
”نہیں اچھا ہوا… میری Divorce نہ ہوتی تو چند سالوں بعد ویسے بیوہ ہو جاتی وہ۔”
زینی نے حیرانی سے گردن موڑ کر کرم کو دیکھا۔ اس کو لگا وہ کوئی مذاق کر رہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”مجھے کینسر ہے… کچھ عرصہ پہلے ہی diagnoseہوا ہے۔”




زینی کے ہاتھ سے مگ بے اختیار چھوٹ کر سنک میں گرا اور ٹوٹ گیا۔
”آپ کا مگ ٹوٹ گیا۔” وہ سنک میں گرنے والا مگ کو اٹھانے کے لیے آیا تھا لیکن اس نے قدرے ندامت کے عالم میں مگ کے ٹکڑے نکالے یوں جیسے وہ مگ اس کے ہاتھ سے چھوٹا ہو… وہ شاکڈ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔ یوں جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ وہ کیا کہے۔ کرم اس کے تاثرات سے محظوظ ہوا۔
”پلیز مجھے اس طرح مت دیکھیں جیسے کوئی بھوت ہوں۔” اس نے مگ کے ٹکڑے Trash میں پھینکتے ہوئے کہا۔
”I, I am so sorry.” زینی ہکلائی۔
”It’s alright.… میں آپ کو کسی بہتر جگہ پر جاب دلوا سکتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو۔”
”Thank youلیکن میں پہلے ہی کسی اور جگہ پر کام ڈھونڈ چکی ہوں۔”
کرم خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
”میں آپ کے لیے کچھ لے کر یہاں آنا چاہتا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ آپ برا مان جائیں گی۔”
”ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟” اس نے کرم کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”میں ٹریٹمنٹ نہیں کروا رہا۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں اب جینا نہیں چاہتا۔” کرم کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔
”آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں…؟ آپ ایک اچھے انسان ہیں… دنیاکو آپ کی ضرورت ہے۔” اسے کرم کی باتیں واقعی پریشان کر رہی تھیں۔
”کوئی بھی انسان ”پوری دنیا” کے لیے نہیں جیتا صرف ایک انسان کے لیے جی سکتا ہے جو اس کی ”دنیا” ہو… اور میرے پاس وہ دنیا نہیں ہے۔”
زینی بول نہیں سکی۔
”میں آپ کے لیے دعا کروں گی۔”اس نے کچھ دیر بعد مدھم آواز میں کہا۔
”یہ اب نہ کریں… میرے مرنے کے بعد کیجیے گا۔” وہ اب اپنے والٹ سے کچھ نکال کر کچن کے کاؤنٹر پر رکھ رہا تھا۔
”خدا حافظ۔” وہ اپارٹمنٹ سے نکل گیا۔
زینی اسے خدا حافظ نہیں کہہ سکی وہ صرف اسے جاتا دیکھتی رہی اسے کرم کی بیماری کے بارے میں سن کر واقعی بہت تکلیف پہنچی تھی… وہ اچھا آدمی تھا۔
”تھا” … زینی نے خود ہے اپنی تصحیح کی… وہ ”تھا” کا لفظ کیوں استعمال کر رہی تھی۔ اس کے لیے؟… وہ تو ابھی زندہ ہے۔ اس نے کاؤنٹر پر پڑا کارڈ اٹھا کر اس پر ایک نظر ڈالی وہ کرم کا وزیٹنگ کارڈ تھا۔ وہ شاید عادتاً چھوڑ گیا تھا وہاں… زینی نے کارڈ اٹھا کر دراز میں رکھ دیا۔ کرم نے اس دن اسے الجھا دیا تھا… بالکل ویسے ہی جیسے کئی سال پہلے… جب وہ اس سے پہلی بارملی تھی… پتہ نہیں کیوں لیکن وہ اسے ”مرد” نہیں لگتا تھا اور شاید اسی لیے ایک عجیب سی اپنائیت محسوس ہوئی تھی اسے اس سے… حالانکہ اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے کے باہر یوں یک دم اسے کھڑا دیکھ کر وہ کچھ دیر کے لیے تو سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ کیا کرے… دروازہ کھولے نہ کھولے؟… بات کرے نہ کرے…؟… پہچانے نہ پہچانے؟… اندر بلائے نہ بلائے؟…
اور اب وہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ وہ علاج کیوں نہیں کروا رہا تھا… ایسا بھی کیا ہو گیا تھا اس کے ساتھ کہ…
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!