اس نے دوبارہ باپ کے سینے پر سر رکھ دیا پھر کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر سر اٹھایا اور برابر والے بستر میں سوئی نفیسہ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد بے حد مدھم آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے ضیاء سے کہا۔
”آپ کو پتہ ہے آج امی نے مجھے مارا ہے۔”
”کیوں مارا ہے میری بیٹی کو؟” ضیاء نے اس کا ماتھا چوما۔
”میں گلی میں کھیلنے گئی تھی جوتوں کے بغیر۔” اس نے محتاط آواز میں سوئی ہوئی نفیسہ کو دیکھتے ہوئے کہا اسے خدشہ تھا وہ سن رہی ہوں گی۔
”دوبارہ مت جانا۔” انہوں نے اس کا سر سہلایا۔
”اچھا… لیکن اللہ تو معاف کر دیتا ہے پھر امی نے کیوں مارا؟”
ضیاء جواب نہیں دے سکے اس نے جیسے انہیں مشکل میں ڈال دیا تھا۔
”تم نے امی سے معافی نہیں مانگی ہو گی اس لیے مار پڑی۔”
اس بار وہ سوچ میں پڑ گئی ضیاء نے اس کی چمکتی لمبی پلکوں والی خوبصورت آنکھوں میں جھلکنے والی الجھن دیکھی۔
”اللہ سے بھی تو معافی مانگنی پڑتی ہے ورنہ اللہ بھی ناراض ہو جاتا ہے۔”
”امی کی طرح؟”
”امی سے بھی زیادہ!” ”پھر اللہ سے معافی کیسے مانگتے ہیں؟” وہ بے حد پریشان ہوئی۔
ضیاء نے اسے اپنے سینے سے ہٹا کر اپنے بازو پر لٹاتے ہوئے کہا۔
”ایسے مانگتے ہیں… پہلے آنکھیں بند کر تے ہیں۔” انہوں نے اس کی آنکھیں بند کر دیں۔ پھر اس کے ننھے ننھے ہاتھوں کو جوڑا۔
”آنکھیں بند کر کے ہاتھ جوڑ کر اللہ سے کہتے ہیں… اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے… تو بڑا معاف کرنے والا ہے۔” انہوں نے جیسے اسے دعا سکھائی۔
”اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر… دے… تو بڑا… معاف کرنے… والا ہے۔” اس نے پہلی بار اٹک اٹک کر دعا کی تھی پھر آنکھیں کھولیں۔
”آنکھیں نہیں کھولتے… آنکھیں بند رکھتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔” ضیاء اب اسے سلانا چاہ رہے تھے۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں… اور اپنے ننھے ہاتھوں کو جوڑے ہونٹوں کے پاس کیے وہ شروع میں اٹک اٹک کر اور پھر روانی سے دعا کرنے لگی تھی اور اسی طرح سو گئی تھی۔
وہ اب بھی ہر روز رات کو بھیگی آنکھوں کے ساتھ دونوں ہاتھ باندھے وہی دعا کرتے سو جایا کرتی تھی… کئی سالوں کے بعد نیند کے لیے وہ نیند کی گولیوں اور شراب کی محتاج نہیں رہی تھی… کئی سال بعد بھی اسے نیند باپ کی سکھائی ہوئی دعا سے ہی آنے لگی تھی… نیند ”آنے” لگی تھی یا نیند ”کھلنے” لگی تھی۔
٭٭٭
”پری زاد” کسی نے بے یقینی سے کہا تھا زینی کے ہاتھ سے باکس چھوٹ کر گرتے گرتے بچا۔ ایک سال بعد پہلی بار اس نے کسی کے منہ سے پری زاد سنا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور فریز ہو گئی تھی… اگر کرم نے اتنے سالوں بعد اسے ایک ہی نظر میں پہچان لیا تھا تو اس نے بھی کرم کو ایک ہی نظر میں پہچان لیا تھا اور پھر اسے یک دم یاد آیا کہ اسے کرم کو نہیں پہچاننا تھا۔ وہ سٹور مینجر کے ساتھ کھڑا تھا اکیلا ہوتا تو وہ۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ یہاں کام کر رہی ہیں۔” زینی نے ایک نظر سٹور مینجر کو دیکھا پھر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کرم سے کہا۔
”سوری میں پری زاد نہیں ہوں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔” وہ دوبارہ شیلف پر سیریل کے ڈبے رکھنے لگی تھی۔
”I mistook you for a friend” کرم نے معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا۔ پھر سٹور مینجر کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ زینی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ اتنی آسانی سے چلا گیا اسے یقین نہیں آیا… اس نے اتنی آسانی سے اس کی بات پر اعتبار کر لیا یہ اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین بات تھی… لیکن بہر حال وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔
اور کرم اس سٹور سے نکلتے ہوئے اس سٹور میں زینی کے بارے میں موجود تمام معلومات دیکھ کر گیا تھا… وہ کب سے کام کر رہی تھی… اس کا کانٹیکٹ نمبر… اس کا ایڈریس۔
وہ بہت عرصے کے بعد اپنے اس ڈیپارٹمنٹل سٹور میں آیا تھا… اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ اسے وہاں اس کی قسمت لے کر گئی تھی ورنہ پری زاد کا وہاں نظر آنا اور اس حالت میں نظر آنا… وہ پچھلے دو سال سے پری زاد کے شیراز کے ساتھ ہونے والے سکینڈل اور اس کے بعد اس کی گمشدگی پھر شوبز سے علیحدگی اور اس کی پاکستان سے چلے جانے کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کے بارے میں میگزنیز میں پڑھتا اور چینلز پر دیکھتارہا تھا… کچھ جرنلٹس کاخیال تھا پری زاد کا ذہنی توازن خراب ہو گیا تھا اور وہ کسی دوسرے ملک میں ذہنی امراض کے کسی ادارے میں ایڈمیٹڈ تھی… کچھ کا خیال تھا کہ وہ کسی جاگیردار سے شادی کر کے کسی حویلی میں رہنے لگی تھی… اور کچھ کا خیال تھا کہ وہ کسی عربی شیخ سے شادی کر کے ملک چھوڑ گئی تھی… ان میں سے کوئی خبر بھی ایسی نہیں تھی جو کرم کے لیے خوشگوار ہوتی… اس کی شوبز سے گمشدگی کے بعد اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھا… اس نے بھی انڈسٹری میں اپنے جاننے والے ہر شخص کے ذریعے اس کو ڈھونڈنے یا اس کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پری زاد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئی تھی… اور اب یک دم وہ اسی کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں اس کے اتنے قریب آملی تھی اور جس حالت میں وہ تھی اس نے کرم کو حیران کیا تھا… میک اپ اور جیولری سے بے نیاز چہرے کے ساتھ ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مخصوص یونیفارم میں ملبوس وہ اب بھی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن کہیں سے بھی وہ سپر سٹار نظر نہیں آرہی تھی جس نے ایک دنیا کو اپنے گلیمر اور اداؤں سے دیوانہ کر دیا تھا۔
اس کے انکار کے باوجود وہ جانتا تھا کہ وہ پری زاد ہی تھی… سٹور میں اس کا نام ”زینب” تھا… اس کے گلے میں لٹکے کارڈ پر بھی اس کا نام زینب ہی تھا… اور کرم اس کے اس نام سے واقف تھا… یقینا وہ اپنے فلمی نام سے اپنی شناخت نہیں چاہتی تھی اور کرم نے اسے شناخت نہیں کیا تھا لیکن اسے سٹور میں اس طرح کام کرتے دیکھ کر وہ بری طرح بے چین ہوا تھا… رہی سہی کسر اس کے ایڈریس نے پوری کر دی تھی۔ وہ اوٹوا کے سستے ترین علاقے میں رہائش پذیر تھی۔ جہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ سیاہ فام میکسیکن یا Spanish تھے۔ وہ کون سے حالات تھے جو اسے وہاں لے آئے تھے اور یوں چھپ کر رہنے اور معمولی کام کرنے پر مجبور کر رہے تھے… کرم حیران تھا… وہ ایک فلاپ ہیروئن ہوتی تو وہ یہ سب کچھ اس کی مجبوری سمجھتا لیکن وہ انڈسٹری کے ایک بڑے سکینڈل کے بعد لیکن سپر سٹار کی حیثیت سے ہی علیحدہ ہوئی تھی… کیوں؟ یہ کرم کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اس نے اس شام زینی کو فون کیاتھا… چند بیلز کے بعد کال ریسیو کی گئی اور پھر اس نے زینی کی آواز سنی ”ہیلو میں کرم علی بات کر رہا ہوں۔” دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔ پھر چند لمحوں بعد اس نے فون پر اس کی بے حد محتاط آواز سنی۔
”سوری میں آپ کو نہیں جانتی۔”
”میں نے چند سال ایک فلم پروڈیوس کی تھی اور اس میں آپ نے کام کیا تھا اور اس سلسلے میں آپ یہاں آئی تھیں اور تب ہم دونوں ملے تھے۔ ” کرم نے اس کے جھوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے بے حد تحمل سے اس سے اپنا تعارف کروایا۔ رد عمل فوراً ہوا تھا۔ کال ڈس کنیکٹ کر دی گئی تھی۔ وہ فون ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا… یعنی بات صرف یہ نہیں تھی کہ وہ اس سٹور میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اس سٹور کے باہر بھی اس کو پہچاننا نہیں چاہتی تھی… وہ اس کی زندگی میں کوئی مداخلت نہیں کرناچاہتا تھا وہ اگر اس طرح رہنا چاہتی تھی تو وہ اسے اسی طرح رہنے دینا چاہتا تھا۔
اگلی صبح اس کے اس ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مینجر سے بات کی۔ وہ زینی کو کچھ سہولتیں دینا چاہتا تھا لیکن بہتر یہی تھا کہ یہ سب کچھ اسے سٹور کے ذریعے سے ملتا… ایک بہتر پوسٹ اور پیکج کے ذریعے… لیکن اسے یہ جان کر دھچکا لگا کہ وہ کل ہی جاب چھوڑنے کے لیے نوٹس دے کر گئی تھی اور آج leave پر تھی… کرم کو یقین تھا اس نے یہ قدم کرم کی وجہ سے اٹھایا تھا۔ اس نے چند بار اسے کال کیا۔اس کا سیل فون آف تھا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ایڈریس پر چلا آیا… وہ زندگی میں شاید پہلی بار اس علاقے میں آیا تھا۔ اس کا اپارٹمنٹ تلاش کرنے میں اسے کچھ وقت لگا تھا۔ لیکن بہر حال وہ اس پرانی بلڈنگ کے 23ویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی اور عمارت اندر سے اتنی بری نہیں تھی جتنی باہر سے لگ رہی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کے ایڈریس پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے دروازے پر لگے ایڈریس کو دیکھا اور پھر ڈور بیل بجا دی… چند لمحوں بعد اسے قدموں کی چاپ سنائی دی کرم کے دل کی حرکت تیز ہو گئی… چاپ اب دروازے کے پاس آکر رکی تھی پھر فِش ہول میں سے یقینا اس نے باہر جھانک کر دیکھا تھا اور اب کرم کے ذہن میں مختلف خدشات پیدا ہونے لگے تھے… اس کا ری ایکشن وہ بوجھ نہیں سکتا تھا… لیکن اچھا نہیں ہو گا یہ اسے یقین تھا… چند لمحے دروازے پر خاموشی رہی پھردروازے کا لاک کھولا گیا اور چین ہٹا دی گئی۔
”اسلام علیکم… آئیے۔” کرم اپنے قدموں پر فریز ہو گیا۔ کم از کم دروازہ کھلتے ہی وہ زینی سے یہ سننے کی توقع نہیں کر رہا تھا… وہ دروازے سے ہٹ کر اسے اندر آنے کی دعوت کر رہی تھی… چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی… لیکن آنکھوں میں خفگی بھی نہیں تھی۔ کرم جھجکتا ہوا اندر آگیا۔ وہ اتنا کنفیوزڈ تھا کہ سلام کا جواب بھی نہیں دے سکا۔
وہ ایک سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور اس کے آنے سے پہلے کچن کا فرش mop کرنے میں مصروف تھی۔ اسکے بال بے حد بے ترتیبی سے ایک clip میں بندھے ہوئے تھے۔آدھی سے زیادہ لٹیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ وہ اسے کل سے بھی زیادہ سادہ لگی تھی… ایک کمرے کا وہ اپارٹمنٹ بے حد چھوٹا تھا۔ وہ اس وقت سٹنگ ایریا میں تھا اور وہاں بے حد معمولی سا فرنیچر پڑا ہوا تھا گھر کو سجانے کی کوشش کی گئی تھی… لیکن بے حد معمولی، سستی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے۔
”بیٹھیں… کیا لیں گے آ پ؟” اس نے کرم کی محویت کو توڑتے ہوئے کہا۔
”میں… کچھ بھی!” کرم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
زینی کچن ایریا کی طرف چلی گئی تھی۔ کرم اسے دیکھتا رہا … وہ اس طرح کافی کا ایک کپ تیار کرنے میں مصروف تھی جیسے ہمیشہ سے یہی کام کرتی آرہی تھی۔
”میں ادھر سے گزر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ آپ سے ملتا چلوں۔” کرم نے بات شروع کرنے کی کوشش کی۔
”میں جانتی ہوں آپ ادھر سے نہیں گزر رہے تھے۔۔۔۔” کرم چونکا وہ کافی تیار کرتے ہوئے کرم کو دیکھے بغیر بول رہی تھی۔
”آپ کے اور میرے علاقے میں اتنا فاصلہ ہے کہ آپ ادھر سے گزر ہی نہیں سکتے۔”
کرم خاموش رہا۔
زینی نے کافی کا مگ تیار کر لیا اور لا کر کرم کے سامنے رکھ دیا۔ وہ واپس کچن میں چلی گئی اور دوبارہ کچن کے فرش کو mop کرنے لگی۔ وہ کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اسے دیکھتا رہا۔
”کب سے ہیں آپ یہاں؟” کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”جان کر کیا کریں گے؟” وہ اسی طرح رگڑ رگڑ کر کلینر کے ساتھ فرش صاف کرتی رہی۔ شاید فرش پر کوئی چیز گری تھی۔
”شوبز کیوں چھوڑ دیا؟” کرم نے چند لمحوں بعد کہا۔
”پتہ نہیں۔” اس کا سارا انہماک فرش پر تھا۔