اگلے بھکاری نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر فلوٹ بجاتے ہوئے سر کو بے اختیار خم کر کے ہمیشہ کی طرح اس کا استقبال کیا۔ اس نے آج پہلی بار اس کے اس استقبالی انداز کو نہیں دیکھا۔ اس کی نظریں اس کے ڈبے کے پاس پڑے سرخ برانڈڈ اٹالین جوتوں کے اس جوڑے کو دیکھ رہی تھیں جو اس نے کل ایک بہت مہنگے اسٹور سے کوئی پچاس جوتے ٹرائی کرنے کے بعد اسے خرید کر دیے تھے۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ایک لہر گزری تھی، وہ کیا پاگل ہو گئی تھی کہ اس سردی میں وہ جوتے وہاں اتار کر وہاں سے ننگے پاؤں اپنے اپارٹمنٹ کی بلڈنگ تک گئی تھی۔ برف اور سرد کھردری سڑک نے اس کے پیروں کا کیا حال کیا ہو گا۔ کوئی اسے اپنے پیٹ میں گھونسے مارتا محسوس ہوا۔
اسے اپنے سرخ کپڑوں کے ساتھ میچ کرتا سرخ جوتوں کا ایک جوڑا چاہیے تھا۔ چار مختلف اسٹورز سے پھرتے پھراتے وہ بالآخر پانچویں اسٹور میں آئے تھے اور تب تک وہ کچھ جھنجلا چکا تھا جبکہ وہ ابھی اسی طرح چہکتے ہوئے خوش باش مختلف جوتوں کو پہن پہن کر دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں آخر کس قسم کا جوتاچاہیے؟” اس نے پندرھواں جوڑا ٹرائی کرنے کے بعد ریجکٹ کر دیا تو اس نے بالآخر تنگ آکر پوچھا۔
اس نے جواب میں بے حد سنجیدگی سے اسے جوتے کی شکل، معیار، اسٹائل اور رنگ کے بارے میں جو تین منٹ کا لیکچر اسے دیا تھا، اس سے وہ صرف یہ اخذ کر سکتا تھا کہ اسے Stiletto ہیلز والا ایک سرخ جوتا چاہیے۔
”تم کسی اور رنگ کا جوتا کیوں نہیں خرید لیتیں۔”
ساتویں اسٹور کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے کہا۔
اس نے جواباً اسے اتنی ملامت بھری نظروں سے دیکھا تھا کہ وہ بے اختیار شرمندہ ہو گیا۔
”میرے کپڑے سرخ رنگ کے ہیں۔” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اس طرح کہا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کو سمجھاتا ہے۔ ”اس لیے کامن سینس تو یہی کہتی ہے کہ مجھے سرخ جوتے ہی خریدنے چاہیں۔” اس نے مزید اضافہ کیا۔ اس نے دوبارہ کچھ بولنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
”کہیں نہ کہیں ایک سرخ جوتوں کا جوڑا ہو گا جو اس کے نام کا ہو گا اور مجھے کیا کرنا ہے، مجھے صرف اس کو escortہی تو کرنا ہے۔” اس نے جیسے خود سے طے کیا تھا۔
اور بالآخر جب اسے یقین ہونے لگا کہ شہر میں سرخ جوتوں کا ایسا کوئی جوڑا نہیں ہے جو اس کے نام کا ہے تو اس نے جوتے پہن کر اسے دکھاتے ہوئے پوچھا ”میرا خیال ہے، یہ ٹھیک ہے۔ تمہیں کیسے لگ رہے ہیں؟”
”Just Perfect”
وہ بے اختیار والٹ نکالتے ہوئے اٹھ کھڑ اہوا۔ وہ اس کے اندز پر بے اختیار ہنسی۔
”کم از کم دیکھ تو لو کہ میں نے کیا خریدا ہے اور یہ میرے پیروں میں کیسے لگ رہے ہیں۔”
”یہ جیسے بھی لگ رہے ہیں، مجھے صرف یہ خوشی ہے کہ تم نے بالآخر جوتے پسند کر لیے ہیں۔” اس نے کریڈٹ کارڈ نکالتے ہوئے ایک سرسری نظر اس کے پیروں پر ڈالی۔ وہ جوتے اس کے پیروں میں اچھے لگ رہے تھے مگر اسے وہ پچھلے پچاس جوڑے بھی برے نہیں لگے تھے جو اس نے پچھلے پانچ گھنٹوں میں مختلف اسٹورز میں پہن کر اسے دکھائے تھے۔
اور اب پانچ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ڈھائی سوڈالرز کے وہ برانڈڈ جوتے اس ناہموار فٹ پاتھ پر فلوٹ بجاتے اس آدمی کے سامنے پڑے تھے جو شاید اسی کی طرح اس ہڈیوں تک اترتی سردی میں اسے جوتے پاؤں سے اتارتے دیکھ کر حیران ہوا ہو گا اور پھر اس نے وہی سوچا ہو گا جو اسے سوچنا چاہیے تھا کہ وہ شاید نشے کی حالت میں ہے۔
اس کا منک کوٹ، جوتے، گھڑی، موبائل اس فٹ پاتھ پر پڑے تھے تو اب اس کے پاس اتار پھینکنے کے لیے اور کیا رہ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا، کہ اس کے جسم پر صرف دو چیزیں باقی تھیں۔ اس کا سرخ لباس اور ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی (اس کے جسم پر اس دن سجایا ہوا واحد زیور)
وہ لباس اس کا اپنا تھا۔ اس کا دلوایا ہوا ہوتا تو وہ اسے بھی اتار کر اسی فٹ پاتھ پر پھینک چکی ہوتی۔ وہ کسی دوسری عورت کو جانتا تھا یا نہیں مگر اس کو جانتا تھا۔ وہ اس فٹ پاتھ پر اس کی دی ہوئی چیزیں پھینک رہی تھی۔
٭٭٭
”یہ ساری چیزیں چاہیے تھیں تمہیں…؟” وہ کمرے میں بکھرے کرم کے تحائف کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
”اس لیے سب کچھ گنوایا تم نے…؟”
”نہیں… نہیں مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے… کوئی چیز بھی نہیں۔” وہ یک دم اٹھ گئی۔
”مجھے… مجھے… یہ سب… یہ سب نہیں چاہیے… یہ بھی نہیں… یہ بھی نہیں… کچھ بھی نہیں۔۔۔۔” وہ لڑکھڑاتی… گرتی پڑتی کمرے کی کھڑکی کھولے کرم کیے دیے ہوئے سارے تحفے باہر پھینک رہی تھی… سب… ان گفٹس کے پیپرز تک… کچن کاؤنٹر پر پڑی کرم کی کھینچی ہوئی تصویریں تک… صرف چند منٹ میں کمرہ ان تمام چیزوں سے خالی ہو گیا تھا… اس نے جیسے ”دنیا” کو کمرے سے باہر پھینک دیا تھا۔
٭٭٭
فٹ پاتھ پر بیٹھی اسکیچ بناتی اس ادھیڑ عمر عورت کے پاس اس کی انگوٹھی ہونا چاہیے تھی۔ وہ آگے بڑھ کر اس قطار میں بیٹھے پانچویں بھکاری کے سامنے آکھڑا ہو گیا۔ وہ عورت مخبوط الحواس تھی یا کم از کم ان دونوں کو یہی لگتا تھا۔ پچھلے چار بھکاریوں کے برعکس وہ کبھی سراٹھا کر پاس سے گزرنے والے یا پاس آکر کھڑے ہونے والے لوگوں کو نہیں دیکھتی تھی۔
وہ ہر بار ایک ہی مرد کا چہرہ اسکیچ کرتی تھی۔ ایک نوجوان… خوبصورت مرد کا… مگر ہر بار وہ چہرہ کسی دوسرے اینگل سے اسکیچ کر رہی ہوتی۔ وہ اپنے کام میں بلاشبہ طاق تھی۔ وہ دونوں آ کثر اس کے پاس کھڑے اس کو اسکیچ بناتے دیکھتے رہتے۔ وہ دونوں اب اس اسکیچ کیے جانے والے چہرے سے بے حد شناسا ہو گئے تھے۔
”کون ہو سکتا ہے یہ مرد؟” اس نے ایک دن وہاں کھڑے کھڑے اس سے پوچھا۔ ”شاید اس عورت کا بیٹا۔” اس نے خود ہی اندازہ لگایا۔
”نہیں، بیٹا نہیں ہے۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
اس نے اس کے جواب پر چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اسکیچ پر نظریں جمائے اپنے اوور کوٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔
”توپھر کون ہے؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی نظروں اور چہرے پر بے حد عجیب سا تاثر تھا۔
”چھوڑو، جانے دو۔” اس نے جواب دینے کے بجائے قدم آگے بڑھا دیے تھے۔ اس نے جواب کے لیے اصرار نہیں کیا۔ اسے جواب مل گیا تھا۔
وہ عورت اب بھی وہی چہرہ بنا رہی تھی اور اسکیچ کرتے اس کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی میں پلاٹینم کی وہ انگوٹھی تھی جو اس نے سات دن سترہ گھنٹے پہلے رات کے تین بجے اسے دی تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا، کہاں گئی۔” وہ رات کے تین بجے اس کے اپارٹمنٹ پہنچنے کے بعد اب اپنی جیکٹ اور اوورکوٹ کی ایک ایک جیب کو کھنگال چکا تھا۔ اور اب جیکٹ کی جیبوں کو ایک بار پھر ٹرائی کر رہا تھا۔
”کیا کہاں گئی؟” وہ اس کے قریب کھڑی تھی منہ پر ہاتھ رکھے اپنی جماہی کو روکتے ہوئے اس نے اپنی نیند سے بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے کہا۔
”ایک رنگ تھی۔” وہ اب جیکٹ کی اندرونی جیب کو دوبارہ چیک کر رہا تھا۔
”کیسی رنگ؟” وہ جماہیاں لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔ نیند میں کھڑے رہنا اس کے لیے بے حد دشوار تھا۔
”تھی ایک رنگ۔” وہ بے حد مایوسی سے جیکٹ کو آخری بار جھاڑتے ہوئے بولا۔
”اور تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نا؟” اس نے کشن کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیسا مسئلہ؟” وہ حیران ہوا۔
”اب رات کو تین بجے تم کسی کے گھر آؤ گے تو وہ تم سے یہی پوچھے گا نا۔” وہ اب کشنز کے ڈھیر کو صوفے کے ایک طرف کرتے ہوئے اس پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
”جب جانے لگو تو دروازہ ٹھیک سے بند کر کے جانا۔ اب یہ کیا کر رہے ہو؟” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسے ہدایت دینے کی کوشش کی مگر آنکھیں بند کرنے سے پہلے ہی وہ یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ لاؤنج میں پڑی کرسیاں ادھر ادھر ہٹا کر فرش پر کچھ تلاش کر رہا تھا۔
”مجھے لگتا ہے۔ یہیں پر کہیں گری ہے۔” اس نے مڑ کر اسے دیکھے بغیر کہا۔
”میں سونے لگی ہوں اور اب اگر تمہیں کوئی کرسی ہٹانا بھی ہے تو بالکل آواز نہیں ہونی چاہیے۔ اب ایک رنگ ڈھونڈنے کے لیے تم کیا میرا اپارٹمنٹ کھود ڈالو گے؟” وہ ہلکی سی خفگی کے ساتھ بڑبڑائی اور ایک بار پھر کشنز کے اوپر سر رکھ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ انگوٹھی اسے فرش پر ہی دروازے سے کچھ فاصلے پر پڑی ملی۔ اس نے بے اختیاراطمینان کا سانس لیا مگر اس تلاش میں اسے پانچ منٹ لگ گئے تھے اور تب تک وہ صوفے پر گہری نیند سو چکی تھی۔ وہ انگوٹھی لے کر اس کے پاس آیا اور دو تین بار اسے آواز دی مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر وہ پنجوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور اس نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ اسے وہ انگوٹھی پہنائی اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ اس کاہاتھ دوبارہ کشنز پر رکھ دیا۔ اس کے بیڈروم سے کمبل لا کر اس پر ڈالتے ہوئے وہ اسی خاموشی اور احتیاط کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ سے نکل آیا تھا۔
‘Till death do us part’
وہ انگوٹھی پر کندہ لفظوں کو وہاں کھڑا کسی دقت کے بغیر دیکھ سکتا تھا۔ وہ کیا کر رہی تھی؟ اسے اپنی زندگی سے نکال رہی تھی یا خود اس کی زندگی سے نکل رہی تھی؟
وہ میکسیکن عورت فٹ پاتھ کے کونے پر تھی، وہ اسے چھوڑ کر آگے بڑھا او رموڑ مڑ کر اس عمارت کے سامنے آگیا جس کی 23ویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں وہ اس وقت تھی۔ وہ ہر بار جب بھی اس عمارت کے سامنے آتا، ایک بار لاشعوری طور پر سر اٹھا کر 23ویں منزل کی اس کھڑکی کو ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کرتا جو اس کے اپارٹمنٹ کی تھی۔ شروع شروع میں وہ ناکام رہا پھر اس نے ایک گملا لا کر اس کی کھڑکی کے باہر بڑھے ہوئے چھجے پر رکھ دیا تھا۔ اس گملے اور اس میں لگی ہوئی بیل سے وہ آسانی سے اس کی کھڑکی ڈھونڈ لیتا تھا لیکن آج فضا ہلکی ہلکی دھند آلود تھی۔ اسے یقین تھا، وہ سر اٹھا کر 23ویں منزل کو نہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے پھربھی سراٹھا کر دیکھا اور پھر وہ سر نیچے نہیں کر سکا۔ اسے 23ویں منزل نظر نہیں آئی تھی مگر اسے ہوا میں بہت سی تصویریں اڑتی نظر آگئی تھیں۔ ان میں سے چند کچھ لمحوں تک زمین پر پہنچے والی تھیں۔
اس کے ہاتھ سے سیل فون چھوٹ کر گر پڑا تھا پھر اس نے اپنے آپ کو بے تحاشا بھاگتے پایا۔ اس کے پاؤں سے ایک بوٹ نکل گیا۔ اس نے دوسرا خود اتار پھینکا۔ وہ ایک بار بھی سلپ نہیں ہوا اور اس نے برف اور کنکریٹ کی ٹھنڈک کو بھی محسوس نہیں کیا۔ اس کے کانوں میں صرف اس کی ہنسی اور آواز آرہی تھی۔
وہ دونوں سینما ہال میں بیٹھے تھے اور وہ بے حس و حرکت اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
”تم مجھے یہ دکھانے کے لیے یہاں لائی تھیں؟” اس نے شاکڈ ہو کر بے یقینی سے اس سے کہا۔
”ہاں، تمہیں اچھا لگا؟” وہ اسی اطمینان سے پاپ کارن کھاتے ہوئے بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتا، اس نے اس سے ایک اور بات کہی تھی۔ وہ اگلے دو منٹ تک بے حس وحرکت اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اسے لگا کہ وہ اسے نہیں جانتا تھا۔
”تمہارا دماغ خراب ہے۔” وہ اس کی بات پر ہنس پڑی۔
”ہر عورت کا ہوتا ہے۔” وہ سکرین پر نظریں جمائے پاپ کارن کھا رہی تھی۔
سکرین پر ہیروئن کی چیزیں اب بھی ایک بلند عمارت سے گرتی نظر آرہی تھیں پھر ہیروئن کھڑکی میں کھڑی نظر آئی اور پھر فضا میں نیچے گرتی ۔
”کیا Exitہے۔” اس نے زینی کو ستائشی انداز میں گہرا سانس لیتے دیکھا۔ کرم اب بھی شاک سے باہر نہیں نکلا تھا… اس نے چند لمحے پہلے اس سے کہا تھا وہ اپنی زندگی کا اختتام ایسا ہی چاہتی تھی۔
”زندگی میں آپ کی entry جیسی مرضی ہو exitشاندار ہونی چاہیے Dramatic… tragic…unforgettable۔” وہ بڑبڑا رہی تھی۔ پھر یک دم اس نے ہنس کر کرم کو دیکھا۔
”پریشان مت ہو مجھے اس ہیروئن کی طرح اب کوئی صدمہ ملنے کا امکان نہیں جسے میں برداشت نہ کر سکوں اور ایسے کود جاؤں۔”
٭٭٭
”اب میں آجاؤں آپ کے پاس؟” اس نے بازو پھیلا کر روتے ہوئے باپ سے کہا۔
ضیاء نے نفی میں سر ہلایا تھا اور پھر صوفے پر اٹھ کر کھڑکی کی طرف گئے اگلے ہی لمحے زینی نے انہیں کھڑکی سے باہر جاتا دیکھا… وہ چیخ مارتی ننھے بچے کی طرح باپ کے پیچھے لپکی تھی… باپ پھر جا رہا تھا… وہ کھڑکی کی sill پر پاؤں رکھ کر چڑھنے لگی… ضیاء تھوڑی دور کھڑے تھے۔
”زینی مت آؤ۔” زینی نے باپ کو بے اختیار چلاتے ہوئے سنا۔
”آگے مت آؤ۔” اس نے سر اٹھایا… اس نے ضیاء کو روتے دیکھا تھا بالکل ویسے ہی بلک بلک کر جس طرح وہ اس رات سول سروسز اکیڈمی کے باہر سے اسے لاتے ہوئے رکشے میں روئے تھے۔
”مجھے آپ کے پاس آنا ہے ابو… میں اب ہمیشہ آپ کی بات مانوں گی… کبھی نافرمانی نہیں کروں گی۔” وہ ونڈو سل پر پاؤں جمانے کی کوشش کرتے ہوئے سیدھا کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی… ہوا کے تھپیڑے اسے واپس اندر دھکیل رہے تھے۔
ضیاء نے روتے ہوئے بالآخر اس کی طرف اپنے بازو پھیلا دیے تھے… اس نے ونڈو سل پر کھڑے پہلا قدم باہر رکھا… دوسرا قدم ہوا میں پڑا تھا… تیسرا قدم کہیں نہیں… اس نے اپنی گردن سے دوپٹے کو نکلتا محسوس کیا… پھر اس نے خود کو ضیاء کی آغوش میں پایا… وہ روتے ہوئے اس کا ماتھا چومتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے… زینی نے بے حد تھکے ہوئے انداز میں اپنی آنکھیں بند کر لیں اور تب اسے یاد آیا… ضیاء تو مر چکے تھے پھر وہ کسے دیکھ رہی تھی… اس نے آنکھیں کھولنا چاہیں… اب دیر ہو چکی تھی۔
٭٭٭
سامنے کھلی کھڑکی میں پڑی بیل کے گرد لپٹا اس کا دوپٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا… پتوں سے خالی اس بیل پر… وہ مشینی انداز میں چلتا ہوا اندر آگیا… کمرے میں چند گھنٹے پہلے بکھری اس کی چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں تھا… کمرے میں وہ بھی نہیں تھی اس کا وجود بری طرح کپکپانے لگا تھا۔ بیل سے لپٹا وہ سرخ دوپٹہ ہوا میں عجیب رقص کرنے میں مصروف تھا۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے کھڑکی کے پاس آیا تھا… اس کا پورا وجود لرزاں تھا… پورا وجود… وہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ نیچے جھانکنا نہیں چاہتا تھا… نیچے اب کچھ نہیں رہا تھا… اس کا سرخ دوپٹہ کرم کے سینے سے لپٹنے لگا تھا… کرم نے اپنے کپکپاتے ہاتھ سے اس کے دوپٹے کو اپنی گرفت میں لینا چاہا تھا… بالکل اسی لمحے دوپٹے کا بیل سے اٹکا ہوا سرا نکل گیا تھا… وہ اس کی انگلیوں کی پوروں کے پاس سے ہوتا ہوا دور ہوا میں بلند ہو گیا تھا… کسی کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں تیرتا وہ اب آہستہ آہستہ نیچے جا رہا تھا… کرم گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑا کسی مفلوج، بے جان آدمی کی طرح… وہ ”زندہ” تھا لیکن ”زندگی” چلی گئی تھی۔
”زندگی میں آپ کی entry جیسی مرضی ہو لیکن آپ کی exit شاندار ہونی چاہیے۔
dramatic…tragic… unforgettable ۔” کسی نے سرگوشی کی تھی… وہ مٹی کے ڈھیر کی طرح پڑا رہا۔
٭٭٭ختم شد٭٭٭