بس میں بیٹھے اسے پہلی بار اپنی پینٹ کی جیب میں سیل فون کی موجودگی کا احساس ہوا… اس نے بے اختیار اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک عجیب سی خوشی کااحساس ہوا اسے… سیل فون اس کی pants کی جیب میں تھا اس کا خیال تھا وہ اس لانگ کوٹ کی جیب میں تھا جو وہ آصف کے گھر دروازے کے عقب میں لٹکا کر بھول آیا تھا۔
سیل فون نکال کر اس نے ایک کے بعد ایک کئی بار اسے کال کیا… بیل بجتی رہی زینی نے کال ریسیو نہیں کی تھی… اسے یہی توقع تھی… وہ جانتا تھا وہ اب تک اپنے اپارٹمنٹ پر پہنچ چکی ہو گی اور بیٹھ کر رو رہی ہو گی… اسے یقین تھا کہ وہ اس کے لیے دروازہ بھی نہیں کھولے گی… ایک بار پھر اس نے بے اختیار اپنی جیبیں ٹٹولنا شروع کیں… اس کے اپارٹمنٹ کی ایک چابی اس کے والٹ میں لگی ہوئی تھی… والٹ دیکھ کر اس نے اطمینان کا سانس لیا… چابی پاس تھی… وہ جانتا تھا وہ اس سے بہت ناراض ہو گی لیکن اسے یقین تھا وہ اسے منا لے گا… وہ جانتی تھی وہ اس سے کتنی شدید محبت کرتا تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی اس غلطی پر اسے معاف نہ کر تی… لیکن غلطی ہوئی کیوں تھی؟… وہ ایک بار پھر خود کو Analyze کرنے لگا تھا۔
٭٭٭
”مجھ سے غلطی ہوئی ابو مجھے معاف کر دیں۔” وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے باپ کے پیچھے کسی مقناطیس کی طرح جا رہی تھی وہ اب انہیں اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی تھی… وہ فٹ پاتھ پر آتے جاتے لوگوں سے ٹکراتی بس ان کے پیچھے بھاگتی ہی جا رہی تھی۔
‘تم نے بہت ستایا ہے مجھے زینی۔” اس نے ضیا کو کہتے سنا۔ وہ برہم تھے۔
”لیکن میں اب کبھی نہیں ستاؤں گی… کبھی نہیں… ایک بار معاف کر دیں مجھے اپنے پاس آنے دیں۔” فٹ پاتھ سے گزرنے والے لوگ اس بھاگتی، روتی اپنے آپ سے باتیں کرتی ہوئی لڑکی پر ترس کھاتے ہوئے اسے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے… وہ بہت خوبصورت تھی لیکن پاگل تھی۔
”مجھ سے پوچھے بغیر تم گھر سے چلی گئی میں تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوار ہو گیا… تمہیں ذرا خیال نہیں آیا باپ کا…؟” وہ اور بلکنے لگی۔
”مجھے خیال آیا تھا… بار بار آتا تھا… لیکن میرے ساتھ سب نے برا کیا… آپ نے دیکھا نا… میرے ساتھ کس طرح سب نے برا کیا۔” اس کی کھانسی بڑھ رہی تھی۔
”تم نے بھی سب کے ساتھ برا کیا… میں نے یہ سب کچھ سکھایا تھا تمہیں…؟” وہ اسے ملامت کر رہے تھے۔
”میں اب آپ کی ساری باتیں مانوں گی کبھی گھر سے باہر نہیں جاؤں گی… بس آپ مجھے اپنے پاس آنے دیں۔” وہ بلک بلک کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی ضیاء نہیں رکے تھے وہ اب سڑک کراس کرنے لگے تھے۔
وہ بھی بھاگتی ہوئی ان کے پیچھے سڑک کراس کرنے لگی تھی… سڑک پرچلنے والی تین چار گاڑیوں کے ڈرائیور نے بیک وقت بریکس لگائے تھے… یہ نہ کرتے تو اس روڈ پر بہت بڑا حادثہ ہوتا۔
٭٭٭
بس کا دروازہ کھلتے ہی اس نے بے اختیار جھرجھری لی اور پھر اسے یاد آیا۔ وہ اپنا کوٹ جلدی میں گھر ہی بھول آیا تھا۔ بس سے نیچے اترتے ہوئے اس نے ہاتھ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ڈال لیے۔ موسم کی پہلی برف باری ہو چکی تھی۔ اگرچہ وہ بہت مختصر وقت کے لیے ہوئی تھی مگر محکمہ موسمیات نے اگلے چند گھنٹوں میں مزید اور طویل برف باری کی پیش گوئی کی تھی۔
فٹ پاتھ پر برف کی بے حد ہلکی اور معمولی سی تہہ نظر رہی تھی جس نے فی الحال لوگوں کی زندگیوں کو مفلوج کرنا اور انہیں عمارتوں کے اندر رکنے پر مجبور کرنا شروع کیا تھا۔
وہ فٹ پاتھ بھی اس کے لیے شناسا تھا۔ اس کے گھر تک وہ دونوں اتنی بار اس پر چلتے رہے تھے کہ اس فٹ پاتھ پر بیٹھے پانچ بھکاری تک ان کے شناسا بن گئے تھے۔ وہ اب باقاعدہ بھیک لیتے ہوئے ان سے مسکراہٹوں اور greetingsکا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ اسے شک تھا، وہ ان دونوں کا نام بھی جانتے تھے اور نام نہیں تو کم از کم یہ ضرور جانتے تھے کہ وہ پاکستانی ہیں، انڈین نہیں اور ان دونوں کا رشتہ…؟ شاید اس کے بارے میں بھی انہیں اندازہ تھا۔
اس کا پاؤں یک دم پھسلا، سوچوں سے واپس آتے ہوئے اس نے بے اختیار خود کو سنبھالا کنکریٹ کے اس فٹ پاتھ پر وہ گرتا تو اسے کتنی بری چوٹ آسکتی تھی۔ وہ ہر بار اس فٹ پاتھ پر اسی جگہ پھسل جاتا تھا۔ جب اس کا یہ پھسلنا معمول بننے لگا تو وہ ناراض ہونے لگی اور وہ مزید شرمندہ… اور اب کچھ عرصے سے وہ فٹ پاتھ پر مخصوص جگہ آنے سے پہلے ہی اس سے کہنا شروع کر دیتی۔
”پھسلنے والی جگہ آنے لگی ہے، اب دھیان سے پاؤں رکھنا۔”
وہ بے حد محتاط ہونے اور اس کی اس تنبیہہ کے باوجود وہاں کئی بار پھسلا تھا اور وہ بے اختیار اس کو سہارا دیتے ہوئے کہتی۔
”مجھے لگتا ہے تم اس لیے یہاں پھسلتے ہو تا کہ میرا ہاتھ پکڑ سکو۔”
”تمہارا ہاتھ پکڑنے کے لیے مجھے پھسلنے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ جھنجلا کر کہتا۔ وہ رک جاتی اور اس سے چند قدم دور ہو کر بے حد تیکھے انداز میں اس سے کہتی۔
”اچھا…؟ تمہارا کیا خیال ہے۔ بغیر وجہ کے اتنی آسانی سے ہاتھ پکڑا دوں گی تمہیں؟”
”میں ہاتھ پکڑانے کی بات نہیں کر رہا، ہاتھ پکڑنے کی بات کر رہا ہوں۔” وہ کچھ اور جھنجلاتا۔
”اتنی ہمت ہے؟ذرا پکڑ کر تو دکھاؤ۔”
وہ بے حد ناراضی کے عالم میں ا پنے دونوں ہاتھ اپنے عقب میں کر کے اس کو چیلنج کرتی۔ وہ چند لمحے اس کو گھورتا۔ وہ جانتی تھی، وہ اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کرے گا اور اسے بھی پتا تھا کہ وہ یہ بات جانتی ہے۔ دو منٹ کی اس لڑائی کے بعد دونوں ہمیشہ کی طرح ساتھ ساتھ چلنے لگتے۔
اس کے پچھتاوے میں کچھ مزید اضافہ ہوا۔ جیب سے سیل فون نکال کر اس نے ایک بار پھر اس کو کال کرنے کی کوشش کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس کی کال ریسیو نہیں کرے گی۔ وہ راستے میں پندرہ دفعہ اسے کال کر چکا تھا۔ ہر بار بیل ہوتی رہی تھی۔
سولہویں بار پھر اس نے کسی موہوم سی امید کے تحت کال ملائی۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس نے آج ایک دوسری جگہ سے ٹھوکر کھائی تھی۔ سیل فون کان سے لگائے بے یقینی کے عالم میں اس کے قدم رک گئے۔ دوسری طرف بیل ہو رہی تھی اور پہلے کی طرح کسی نے کال ریسیو نہیں کی تھی۔ اس کے پیروں کو روک دینے والی یہ چیز نہیں تھی بلکہ اس کے سیل فون کی رنگ ٹون تھی جو اس کے آس پاس کہیں بج رہی تھی۔
If tomorrow never comes کی وہ رنگ ٹون اس سیل فون میں اس کی منتخب کردہ تھی۔ بیل جس تواتر سے ہو رہی تھی، وہ رنگ ٹون اسی تواتر سے گونج رہی تھی۔
اس نے کال ختم کر دی۔ وہ جان گیا تھا، فون کہاں ہو سکتا تھا مگر وہاں کیوں تھا؟
وہ چند قدم آگے بڑھ کر ایک سیکنڈ میں اس فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے پانچ بھکاریوں میں سے پہلے کے پاس پہنچ گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے سیل فون اپنے ہاتھ میں بلند کیے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کے سامنے کھڑا اس قیمتی سیل فون کو دیکھ رہا تھا۔ یہ سیل فون چند ہفتے پہلے ہی اس نے اسے گفٹ کیا تھا۔ وہ جانتا تھا، اس سیل فون کی میموری میں محفوظ واحد نام اور کانٹکٹ نمبر اس کا تھا۔
”واحد تمہارا نام ہے جسے دیکھ کر مجھے کچھ ”محسوس” ہوتا ہے، باقی ہر نام کے ساتھ صرف ”یادیں” جڑی ہیں اور میں ان یادوں سے فرار چاہتی ہوں۔ تمہارا نام کافی ہے میرے لیے۔” اس نے سیل فون میں اس کا نام محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اسے یقین تھا، اس سیل فون میں اور کسی کا نام نہیں تھا۔ اس کی فون بک اس کے نام سے شروع ہو کر اسی کے نام پر ختم ہو جاتی تھی۔
اور اب وہ قیمتی فون سڑک پر بیٹھے اس بوڑھے بھکاری کے ہاتھ میں تھا جوہر روز وہاں بیٹھا تاش کے پتوں سے مختلف چیزیں بناتا رہتا تھا یا اکیلا بیٹھا تاش کھیلتا رہتا۔ آج وہ تاش کھیل رہا تھا۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ وہ تاش کے پتے کھڑے نہیں کر سکتا تھا، وہ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے کئی بار اس کے پاس بیٹھ کر تاش کھیلنا شروع کر دیتی اور وہ احمقوں کی طرح فٹ پاتھ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اس کو یکے بعد دیگرے بازی پر بازی ہارتے دیکھتا رہتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر وہ آخری لمحوں میں بازی ہار جاتی تھی۔ بہت دفعہ اس کا جی چاہتا، وہ اسے ٹوک کر کی جانے والی غلطی کے بارے میں بتا دے۔ اگرچہ یہ غلط ہوتا پھر بھی وہ اس کو اتنی بری طرح ہارتے نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن وہ اسے زبان سے کچھ نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ وہ بوڑھا بھکاری برا مان جاتا اور کسی اشارے کی مدد سے بھی نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ وہ تاش کھیلتے ہوئے ایک بار بھی سر نہیں اٹھاتی تھی۔ کسی مدد، کسی داد، کسی آس سے اس کی طرف نہیں دیکھتی تھی۔ سرجھکائے وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی تاش کھیلتی پھر آخری بازی کے بعد ایک گہرا سانس لے کر مسکراتی اور بوڑھے کو دیکھتی جو فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا ہوتا پھر وہ جیب سے چند ڈالر نکالتی اور اس کے ڈبے میں ڈال کر اٹھ کھڑی ہوتی۔
”میں اچھا کھیلی نا؟” وہ ساتھ چلتے اس سے پوچھتی۔
”ہاں۔” وہ مختصراً کہتا۔
”لیکن ہار گئی۔”
وہ جانتا تھا، وہ اس جملے میں کیا کہہ رہی تھی۔
”معمولی غلطی سے۔” اسے بھی پتا تھا کہ وہ ان تین لفظوں میں اسے کیا جتا رہا تھا۔
وہ ایک دوسرے کو دیکھتے، چند لمحوں کے لیے جھٹکتے۔ گہری نظروں کا تبادلہ کرتے، نظریں چراتے پھر قدم بڑھا دیتے۔
”She gave it to me.” (یہ اس نے مجھے دے دیا۔) بوڑھے بھکاری کی آواز نے اسے یک دم چونکا دیا۔ وہ جھریوں بھرے چہرے پر پیلے دانتوں کی نمائش کرتا اسے دیکھ رہا تھا۔
اس نے اپنے جسم میں کپکپاہٹ محسوس کی۔ یہ سردی نہیں تھی، کچھ ”اور” تھا۔ وہ اس کے دیے ہوئے تحفے کو فٹ پاتھ پر بیٹھے بھکاری کو کیسے تھما سکتی تھی؟”
٭٭٭
”کتنا سمجھایا کرتا تھا میں تمہیں کتنا… تم نے میری ہر نصیحت کو ذہن سے نکال کر پھینک دیا… اپنی ضد اور بے صبری میں سب کچھ تباہ کر دیا” وہ اب کہتے ہوئے اس کی بلڈنگ کی طرف جا رہے تھے۔ وہ اسی طرح روتے ہوئے باپ کی طرف لپک رہی تھی ان کی کوئی ملامت کوئی جھاڑ کوئی غصہ اسے اس وقت برا نہیں لگ رہا تھا… وہ کتنے سالوں بعد پہلی بار اسے نظر آئے تھے… پہلی بار… اس کے ہاتھ اور پاؤں نیلے اور سوج رہے تھے… سرد کاٹ دار ہوا کے تھپیڑے اس کی ہڈیوں میں سلاخوں کی طرح اتر رہے تھے… اس کے پورے جسم اور گردن پر خون کی رگیں آہتہ آہستہ ابھرنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کی کھانسی بلڈنگ کے اندر آکر بھی نہیں رکی تھی… نہ کھانسی… نہ آنکھوں اور ناک سے نکلتا پانی… وہ اب منہ کھول کر جدوجہد کرتے ہوئے سانس لے رہی تھی اسے ناک سے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی… لیکن وہ خوش تھی باپ اس کی بلڈنگ میں آگیا تھا… وہ لفٹ میں باپ کے ساتھ تھی… لیکن باپ چند لوگوں کے پیچھے جا کھڑا ہوا تھا… اس نے ان لوگوں کو ہٹا کر باپ تک جانے کی کوشش کی وہ ناکام رہی… لفٹ میں اتنی جگہ نہیں تھی لفٹ میں کھڑے لوگوں نے اس سے کچھ کہنا شروع کیا تھا… ضیا یک دم خاموش ہو گئے تھے… وہ بس اسے دیکھ رہے تھے… بے حد اداس اور رنجیدہ آنکھوں سے… وہ جانتی تھی ایسا ہی ہو گا… ضیا اس سے ناراض کیسے رہ سکتے تھے۔
٭٭٭
اس نے بے یقینی اور شاک کے عالم میں قدم آگے بڑھائے۔ کچھ دور آگے گٹار بجاتے ہوئے اگلے سیاہ فام بھکاری نے مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔
وہ دونوں ہمیشہ وہاں کھڑے ہو کر کچھ دیر خاموشی سے اس کے گٹار کو سنا کرتے تھے پھر جیسے بجائی جانے والی دھن پہچاننے کی کوشش کرتے اور اکثر اس میں کامیاب ہو جاتے۔ پھر وہ اس سیاہ فام کو کوئی دوسری دھن بجانے کے لیے کہتے۔ ایک دفعہ پھر اسے پہچاننے میں لگ جاتے۔
اس سیاہ فام کی انگلیاں آج بھی بڑی تیزی سے گٹار بجا رہی تھیں مگر وہ آج وہاں کسی دھن کو بوجھنے نہیں آیا تھا، وہ اس کے ڈبے میں پڑے سکوں اور نوٹوں میں اس چیز کو دیکھنے آیا تھا جو وہاں وہ پھینک کر گئی تھی اور وہ چیز سامنے ہی پڑی تھی۔ Gucci کی وہ گھڑی جو اس نے اس کی پچھلی سالگرہ پر دی تھی۔
”تم اسے پہنو گی تو وقت قیمتی ہو جائے گا۔”
وہ گھڑی کا کیس ہاتھ میں پکڑے اس پر ایک نظر ڈال کر مسکرائی۔ ”کس کا وقت؟ میرا یا تمہارا؟”
”تمہارا۔” وہ بھی مسکرایا۔
”لیکن میرے پاس تو وقت ہے ہی نہیں۔” اس نے لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پتا ہے، میں نے زندگی میں کبھی ریسٹ واچ نہیں پہنی۔”
”کیوں؟” اس نے دلچسپی لی۔
”مجھے وقت کو کلائی پر باندھنے کی بجائے مٹھی میں قید رکھنا زیادہ آسان لگتا ہے۔”
اس نے عجیب سے لہجے میں اس کی دی ہوئی بیش قیمت گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے لگتا ہے، وقت کلائی پر ہو تو یہ انتظار کروانے لگتا ہے۔”
”تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟” وہ چونکا۔
”انتظار موت ہے۔” اس نے گھڑی کو دیکھتے ہوئے بے حد عجیب لہجے میں کہا۔
”احمقانہ باتیں مت کرو۔” اس نے اسے ڈانٹا اور پھر گھڑی کیس سے نکال کر اس کی کلائی پر باندھ دی تھی۔
اور اب وہ گھڑی اس ڈبے میں پڑی تھی، اس کے دل کو بے اختیار کچھ ہوا۔
٭٭٭
لفٹ رک گئی اس سے پہلے کہ دوسرے لوگ اترتے اور وہ ضیا سے لپٹ جاتی… ضیا لفٹ سے نکل گئے تھے… وہ ایک بار پھر روتے ہوئے باپ کے پیچھے لپکی تھی پھر اس نے انہیں اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے کے سامنے جا کر غائب ہوتے دیکھا… وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ آکر وہاں کھڑی ہو گئی… وہ اندر گئے تھے… اسے یقین تھا وہ اندر تھے اس نے مٹھی میں دبی چابی سے دروازہ کھولنے کی کوشش… اسے کئی منٹ لگ گئے… اس کی انگلیاں کام نہیں کر رہی تھیں وہ بری طرح سوجی ہوئی تھیں اور بالکل بے حس ہو رہی تھیں۔
٭٭٭
اسے دیکھنا تھا، وہ اگلے بھکاری کو کیا دے کر گئی تھی۔ اس بار اسے کسی ڈبے میں جھانکنا نہیں پڑا۔ وہ اسپینش ہپی جسے وہ ہر وقت نشے میں دیکھتے تھے اور جو کچھ ہوش میں ہوتا تو چند رنگین بالز کو ہوا میں اچھالتے کرتب دکھاتا رہتا یا چند گلاسز کو ہوا میں اچھالتا رہتا۔ وہ ہپی، وہ منک کوٹ پہنے ہوئے تھا جو اس نے نئے سال پر اسے تحفے میں دیا تھا۔ وہ اس لیڈیز منک کوٹ کو اپنے دبلے پتلے جسم پر چڑھائے بے حد مضحکہ خیز مگر بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ اس کا دل بے اختیار ڈوبا۔ اس نے اس دن وہ قیمتی منک کوٹ پہلی بار پہنا تھا۔ اس خاص موقع پر اور اب وہ ایک متروکہ چیز بن چکا تھا۔
”مائی گاڈ۔” وہ اس کوٹ کو دیکھ کر بے اختیار چلائی تھی۔
”تمہیں پسند نہیں آیا کیا؟” وہ جان بوجھ کر انجان بنا۔
”اس منک کوٹ کی قیمت میں دس بہت اچھے کوٹ آجاتے۔ تم ایک بے حد فضول خرچ آدمی ہو۔” وہ واقعی ناراض تھی۔
”تو کیا اسے واپس کر کے دس اچھے اور شان دار کوٹ لادوں تمہیں؟” اس نے اسی انداز سے کہا۔
”کتنا روپیہ تم نے عورتوں میں اس طرح کے منک کوٹ بانٹنے پر ضائع کیا ہو گا۔” وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔
”کون سی عورتیں؟” اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”اچھا اب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ مدافعانہ انداز میں بولی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے کوئی غلط بات کہہ دی تھی۔
وہ جواب دینے کے بجائے بے حد ناراض ہو کر اس کے اپارٹمنٹ سے باہر نکل آیا تھا۔ وہ حواس باختہ اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی۔
”مذاق کر رہی تھی۔ اچھا… اب بس ختم کرو بات کو… اوکے… آئی ایم سوری… اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑوں… اچھا کم از کم تم کچھ کہو تو سہی… اب ایکسکیوز کر تو رہی ہوں، اب اور کیا کروں… کیا مرجاؤں؟”
وہ اس کے پیچھے گاڑی تک آتے آتے روہانسی ہو گئی تھی۔
وہ بے اختیار رکا۔ ”میں پہلے تو شاید مان جاتا مگر یہ بے ہودہ بات جو اب تم نے کہی ہے… یہ۔۔۔۔” وہ واقعی بے حد غصے میں آگیا تھا۔
”تم مجھے تحفے مت دیا کرو۔” اس نے بے اختیار اس کی بات کاٹ کر بے حد سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”کیوں؟” اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
”کیونکہ میں تمہارے اتنے قیمتی تحفوں کے بدلے میں آ تنے قیمتی تحفے نہیں دے سکتی۔”
”تو تم سے تحفے مانگ کون رہا ہے؟”
”ہاں، کوئی نہیں مانگ رہا مگر مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگتا ہے۔”
”اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمہارا دماغ چھوٹا ہے اور چھوٹے دماغ کے ساتھ انسان صرف چھوٹی باتیں سوچتا ہے۔”
اس نے بے اختیار اسے وہیں کھڑے کھڑے ڈانٹا اور پھر اگلے دس منٹ وہیں پارکنگ میں گاڑی کے پاس کھڑا مسلسل بولتا رہا تھا۔
”کسی سمجھ دار مرد کو کسی بے وقوف عورت سے محبت نہیں کرنا چاہیے۔” اس نے بالآخر بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
”چلو، پھر تو سارا جھگڑا ہی ختم ہوا کیونکہ نہ میں بے وقوف عورت ہوں، نہ تم سمجھ دار مرد ہو۔ آؤ واپس چلیں۔”
وہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے بے ساختہ بڑے اطمینان سے بولی تھی۔ وہ چند لمحے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھتا رہا پھر یک دم ہنس پڑا۔
”یہ احساس تک نہیں تم کو کہ اتنی سردی میں یہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ دیکھو، میرے ہاتھ تک نیلے ہو گئے ہیں۔
اپارٹمنٹ تک واپسی کے پانچ منٹ میں وہ بولتی رہی تھی اور وہ ہنستا رہا تھا۔
ہپی کے ہاتھ سے بے اختیار ایک بال گر کر اس کے پیروں کے پاس آئی۔ اس نے کھڑے کھڑے جوتے کی نوک سے بال اس کی طرف لڑھکائی اور اگلے بھکاری کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭
”ابو… ابو… ابو” وہ اپارٹمنٹ کے اندر آتے ہی آوازیں لگانے لگی تھی۔ ضیاء کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ بے تحاشہ روتی ہوئی پاگلوں کی طرح اس چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں میں ہر اس جگہ باپ کو ڈھونڈ رہی تھی جہاں ان کے ہونے کا امکان ہو سکتا تھا… وہ کہیں نہیں تھے وہ پھر بھاگتے ہوئے اپارٹمنٹ کے بیرونی دروازے کی طرف لپکی… شاید… شاید وہ باہر ہوں گے… اس انتظار میں کہ وہ ان کے لیے دروازہ کھولے… یا پھر کہیں دوبارہ… دوبارہ لفٹ کے ذریعے بلڈنگ سے باہر… وہ ایک بار پھر چلے گئے تو وہ ان کو کیسے ڈھونڈے گی۔ وہ دروازے تک پہنچی جب اس نے ایک بار پھر ضیا کی آواز اپنے عقب میں سنی۔
”زینی۔” وہ اسے پکار رہے تھے۔
وہ پھر بے اختیار ہو کر بھاگتے ہوئے اندر آئی۔ وہ وہاں نہیں تھے۔
”ابو… ابو… ابو۔۔۔۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے رونے لگی… کسی چیز سے اس کا پاؤں اٹکا اور وہ اوندھے منہ فرش پر گر پڑی اس کی دونوں کہنیوں اور گھٹنوں کو بری طرح چوٹ آئی۔
”کتنا کہا تھا احتیاط سے چلا کرو… مت بھاگا کرو… لیکن تم نے کبھی میری نہیں سنی۔ ”
وہ بے تابی سے اٹھ کر بیٹھی ضیاء سامنے کھڑے تھے… مگر دور تھے۔
زینی نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی وہ اٹھ نہیں سکی اس کا جسم یک دم جیسے اس کا ساتھ چھوڑ گیا تھا… وہ وہیں بیٹھے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ روتی ہوئی ضیاء کو دیکھتی رہی… وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔
٭٭٭