اس نے اسے گھر کے دروازے پر ریسیو کیا تھا… وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تھا اور اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔
”کل صبح کے وقت اس کی کسی فرینڈ نے لاش دیکھی… زری نے اس کے ساتھ کل کہیں جانا تھا… بار باربیل بجانے پر جب وہ باہر نہیں آئی تو اس کی دوست نے اپنی چابی سے دروازہ کھولا۔”
وہ خالی آنکھوں اور بے تاثرچہرے کے ساتھ ٹھہرٹھہر کر بول رہا تھا۔ اس کے بعد خاموش ہو گیا۔ بہت دیر تک دونوں لاؤنج میں اسی خاموشی سے بیٹھے رہے۔ وہ منتظر تھی وہ بات شروع کرے گا اسے زری کے مرڈر کے بارے میں بتائے گا… لیکن وہ خاموش تھا۔
”I am sorry ” بالآخر زینی نے بات شروع کی۔
”میں جانتی ہوں تم بہت اپ سیٹ ہو… وہ تمہاری بیوی رہی ہے اور تم یقینا اس کے لیے بہت خاص feelings رکھتے ہو… میں سمجھ سکتی ہوں کہ۔۔۔۔” اس نے سنبھل کر کہنا شروع کیا۔
کرم نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں تمہارے بارے میں اپ سیٹ ہوں۔”
وہ حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔
”پرسوں رات تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں… تم بھی ایک بُرے علاقے میں رہتی ہو… اور وہ بھی… اکیلے اگر خدانخواستہ تمہیں کچھ ہو گیا تو۔” کرم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”میں جلد ہی جگہ بدل لوں گی۔” اس نے کرم کو تسلی دی۔
”جلد ہی کیوں؟ کل کیوں نہیں؟”
”کرم میرا لائف اسٹائل زری جیسا نہیں ہے… مجھے زری جیسے خطرات نہیں ہیں… کچھ نہیں ہوتا۔”
”زینب ضیا تم بے حد ضدی ہو۔”
زینی کو اس کا جملہ اس وقت بے حد برا لگا۔
”ہاں ہوں… اور مجھے تمہاری ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے… میں اتنے عرصہ سے اس علاقے میں رہ رہی ہوں… کچھ نہیں ہوا مجھے۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔
”اور مجھ سے بالکل یہ مت کہو کہ تم میرے لیے پرسوں رات سے اپ سیٹ ہو… تم صرف زری کے بارے میں پریشان ہو اتنا تو میں بھی دیکھ سکتی ہوں… وہ آج زندہ ہوتی تو اس وقت بھی تم اس کے پاس بیٹھے ہوتے میرے پاس نہیں… تم جمال سے بھی اسی لیے طلاق دلوانا چاہتے تھے اسے تاکہ اس سے دوبارہ شادی کر سکو۔”
کرم اس کے الزام پر ہکا بکا رہ گیا تھا۔ زینی خفگی میں یہ بھی بھول گئی تھی کہ وہ اس وقت کرم کو تسلی دینے وہاں آئی تھی… کل رات سے جو کچھ اس کے اندر پک رہا تھا اب اس کی زبان سے لاشعوری طور پر نکل رہا تھا۔
”اور مجھے بہت دکھ ہے کہ تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی… لیکن کوئی بات نہیں ابھی عارفہ تو ہے نا… ہو سکتا ہے وہ بھی کہیں مل جائے تمہیں اور اس کو بھی تمہاری مدد کی ضرورت پڑے۔”
کرم بھونچکا اسے دیکھ رہا تھا وہ اس کی زبان سے پہلی بار عارفہ اور زری کا ذکر اس طرح سن رہا تھا اور اسے زینی کی باتوں پر غصہ آرہا تھا۔
”تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟… تمہیں خوش ہونا چاہیے… تمہی تو کہتی ہو شادی کروں میں کسی سے… پھر میں جس سے مرضی کروں۔” وہ بھی خفگی کے عالم میں کھڑا ہو گیا۔
زینی کچھ بول نہیں سکی اس کے بہتے آنسوؤں میں یک دم اضافہ ہو گیا۔
ایک بھی لفظ کہے بغیر وہ دروازے کی طرف چلی گئی۔ کرم بے اختیار اس کے پیچھے گیا۔
”میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔”
”نہیں اس کی ضرورت نہیں۔” اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
”I am sorry” کرم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”میں نے تم سے کیا کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی… sorry” اس کے انداز میں اتنی لجاجت تھی کہ زینی رک گئی۔ اس وقت اسے بھی احساس ہو ا تھا کہ اس نے کرم کو بہت نامناسب باتیں کہہ دی تھیں… جبکہ وہ یہاں پر اس سے تعزیت کے لیے آئی تھی۔
”مجھے یہ سب کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا۔” اس نے بھی بے ساختہ کہا۔
”آؤ میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں۔” کرم نے موضوع بدل دیا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس اندر لے گیا۔
٭٭٭
وہ واش بیسن کے سامنے جھکی پانی اپنی دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں لیتے لیتے رک گئی تھی اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں کچھ تھا۔ اس نے بے حد ہکا بکا انداز میں اپنا ہاتھ پلٹ کر دیکھاا ور ساکت رہ گئی اس کے ہاتھ میں پلاٹینم کی ایک انگوٹھی تھی جس میں Till death do us part(جب تک موت ہمیں جدا نہ کر دے) کے لفظ چمک رہے تھے۔ وہ ہل نہیں سکی تو وہ پچھلی رات تین بجے اسے یہ دینے کے لیے اس کے اپارٹمنٹ آیا تھا اور وہ سمجھی تھی وہ دو دن پہلے زری کی موت کی وجہ سے ذہنی طور پر اتنا پریشان تھا کہ رات کو دوبارہ اس وقت اس کے پاس چلا آیا۔ انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ بری طرح کپکپانے لگا تھا۔ وہ اس انگوٹھی کا مطلب بوجھ سکتی تھی لیکن اسے اس وقت یہ کوئی خواب لگ رہا تھا… وہ رات کس وقت آیا تھا اسے یاد تھا مگر کب گیا اسے یاد نہیں آیا… اور اس نے کس وقت اسے یہ انگوٹھی پہنائی اسے یہ بھی یاد نہیں آیا۔ اس نے tap بند کر دیا اور واش بیسن کو تھام لیا چند لمحوں کے لیے اسے یوں ہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کے پیروں سے جان نکل گئی تھی۔ بہت دیر اس انگوٹھی کو دیکھتی وہ اسی طرح وہاں کھڑی رہی پھر اسے یاد آیا وہ تہجد پڑھنے کے لیے اٹھی تھی اس نے وضو کرنا شروع کر دیا اور وضو کے دوران اس نے کب رونا شروع کر دیا اسے پتہ بھی نہیں چلا۔ وہ ایک انگلی جو کسی وعدے کی گرفت میں تھی اس کے پورے وجود کو کہیں اڑائے لے جا رہی تھی اسی انگلی میں کئی سال پہلے بھی ایک انگوٹھی پہنائی گئی تھی اور وہ سستے نگینے کی اس ہلکی سی انگوٹھی کو اپنی کائنات سمجھ کر ہاتھ میں لیے پھرتی تھی… وہ سرشاری اور وہ غرور اسے آج بھی اشکبار کر رہے تھے آج اتنے سالوں کے بعد ایک دوسری انگوٹھی کو وہ انگلی سے اتار دینا چاہتی تھی… کسی دوسرے وعدے کی زنجیر سے خود کو مصلوب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اسے اتار نہیں پا رہی تھی۔ وہ اس دن تہجد میں بری طرح روتی رہی۔
٭٭٭
کرم نے آگے بڑھ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا پھر بڑے اطمینان سے کہا۔
”یہ ایک رنگ ہے… engagement ring” وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کے گھر بغیر اطلاع دیے آئی تھی کرم اس وقت ناشتہ کی ٹیبل پر تھا اور زینی نے اندر آتے ہی اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا ہے؟”
”میں جانتی ہوں… لیکن میں اس کا مطلب پوچھ رہی ہوں۔” وہ سنجیدہ تھی۔
”اس پر لکھے ہوئے لفظوں کا؟”
وہ انجان بنا۔
”کرم میں سیریس ہوں۔” زینی نے اس کی بات کاٹی۔
”بیٹھ جاؤ۔” کرم نے ایک کرسی نکالتے ہوئے اس سے کہا۔ وہ بیٹھ گئی۔
”چائے پیو گی؟” کرم نے کہا۔
”چار میل سے چائے پینے آئی ہوں؟”
”نہیں ناشتہ بھی کرنا چاہتی ہو؟” وہ کرم کی بات پر مسکرائی تک نہیں صرف اسے دیکھتی رہی۔
کرم سنجیدہ ہو گیا۔
”تم جانتی ہو یہ ring میں نے کب لی تھی؟”
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی۔
”اسی رات دوبئی ائیر پورٹ سے جس رات میں نے تمہیں فیشن شو میں دیکھا تھا… کیوں لی مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن وہاں اسے لیتے ہوئے میرے ذہن میں تمہارا خیال ہی آیا تھا کئی سال یہ میرے پاس پڑی رہی… پھر جب تم یہاں کینیڈا آئی تو میں تمہیں پرپوز کرنا چاہتا تھا اسی رنگ کو دینا چاہتا تھا لیکن تم اس رات مجھے کچھ اور سمجھ رہی تھی… زری سے میری شادی ہو گئی لیکن میں نے اسے کبھی یہ رنگ نہیں دی… کئی بار دینی بھی چاہی لیکن کوئی چیز آڑے آجاتی تھی… ”دل” وہ ہنسا ”کل تم یہاں آئی… مجھ سے ناراض ہوئی… جب چلی گئی تو میں تمہاری باتوں کے بارے میں سوچتا رہا… الجھتا رہا… رات کو دو بجے بالآخر مجھے سمجھ آئی کہ تم نے عارفہ اور زری کا نام اس طرح کیوں لیا… وہ آگ جس میں میں گیارہ سالوں سے جل رہا ہوں اس نے تمہیں بالآخر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
تم اعتراف کبھی نہیں کرو گی کبھی مجھ سے یہ نہیں کہو گی کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے لیکن میری دی ہوئی بیل کو پانی سے سینچ سینچ کر مجھے یہ ضرور بتاتی رہو گی کہ آج دو نئے پتے نکل آئے ہیں… آج پتے گر گئے ہیں… کبھی یہ نہیں مانو گی کہ تم بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتی… لیکن میرے رابطہ نہ کرنے پر غصے میں رو رو کر طوفان اٹھا دو گی… کبھی یہ نہیں کہو گی کہ تم میرا انتظار کرتی ہو لیکن میرے لیے ٹیبل پر کھانے کے برتن رکھتی رہو گی… میری خوشی کے لیے کبھی میرے گھر نہیں آؤ گی لیکن مجھے تکلیف میں دیکھ کر بھاگتی آؤ گی… مجھے زور و شور سے شادی کا مشورہ دو گی لیکن میری زندگی میں آنے والی اور گزرنے والی کوئی عورت برداشت نہیں ہو سکے گی تم سے… اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ تم مجھے ”دوست” سمجھتی ہو۔” وہ ہنس پڑا۔
وہ اس کے دل کو جیسے کتاب کی طرح پڑھ رہا تھا… برا کر رہا تھا… زینی نے زندگی میں ایسی ندامت کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
”زینب ضیاء میں تمہارا دوست نہیں ہوں۔۔۔۔”کیا” ہوں… یہ تسلیم کر لو تم۔۔۔۔”
زینی نے نظریں جھکا لیں وہ نہیں چاہتی تھی وہ دل کے بعد اب اس کی آنکھیں بھی پڑھنے لگے۔
کرم نے ہاتھ بڑھا کر اس کے انگوٹھی والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
”تم یہی چاہتی تھی نا کہ میں کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کر لوں جو مجھے بہت محبت دے میرے گھر کو گھر بنائے تاکہ میں خوار نہ ہوتا پھروں… یہ سارے کام تم سے اچھے تو کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
زینی نے سر جھکائے اپنی آنکھوں اور گالوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑا۔
”بیل کو پانی میں نے پودا سمجھ کر دیا تھا… اور اس طرح بغیر بتائے رابطہ ختم کرنا بدتمیزی تھی اس لیے غصہ آیا مجھے… اور کھانے کے برتن میں اس لیے ٹیبل پر رکھتی ہوں کیونکہ کبھی کوئی مہمان آسکتا ہے… اور کل میں تعزیت کے لیے آئی تھی یہاں جو ہر مسلمان پر فرض ہے… اور میں عارفہ اور زری سے حسد کیوں کروں گی میں نے تو کبھی ان کے بارے میں سوچا تک نہیں۔” اس نے کرم کے ہاتھوں سے ہاتھ چھڑائے بغیر بھرم رکھے رکھنے کی آخری کوشش کی۔
وہ بے اختیار مسکرایا پھر بے اختیار سنجیدہ ہو گیا۔
”I trust you… یقینا یہ سب ایسے ہی ہو گا جیسا تم کہہ رہی ہو… لیکن یہ سب تم میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتی ہو؟”
”میں اسے ضروری نہیں سمجھتی۔” اس نے ہلکی سی خفگی کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے ہاتھ چھڑانا چاہا میں سچ بول رہی ہوں اور مجھے ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے بالآخر ہاتھ چھڑا لیا تھا۔وہ کرسی سے اٹھ گئی۔
”جانے سے پہلے چائے تو بنا کر دے سکتی ہو مجھے۔” کرم نے کہا۔
وہ چند لمحے کھڑی شش و پنج میں رہی۔ پھر اس نے بالآخر چائے بنانا شروع کر دی۔
”میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں۔” چائے کا کپ کرم کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے خفگی سے کہا۔
”سلائس پر مکھن لگا دو۔” کرم نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میں اس کام کے لیے یہاں نہیں آئی۔” زینی نے سلائس اور knife اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کی خفگی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس نے سلائس اس کے سامنے پلیٹ میں رکھ دیا۔
”اور انڈہ بھی چھیل دو۔” اس نے بے حد اطمینان سے اگلا حکم دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے کوئی ناشتہ کروا رہا تھا۔ زینی نے اس بار کچھ نہیں کہا اس نے خاموشی سے انڈاہ اٹھا کر اسے چھیلنا شروع کر دیا۔
کرم نے knife کے ساتھ سلائس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ ایک ٹکڑا اٹھا کر اس نے اس پلیٹ میں رکھ دیا جو زینی کی کرسی کے سامنے پڑی تھی۔
”یہ تمہارے لیے… تمہارا حصہ۔” وہ اپنا حصہ کھانے لگا تھا۔
زینی انڈہ چھیلتے چھیلتے رک گئی۔ سلائس کے اس آدھے حصے کو دیکھتے ہوئے اسے شیراز یاد آیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی طرح اسے کھلایا کرتی تھی کبھی اپنے ہاتھ کی پکی چیزیں کبھی اس کی لائی ہوئی چیزیں… لیکن اسے یاد نہیں تھا کہ شیراز نے کبھی اپنے حصے میں سے کبھی اس کے لیے کوئی حصہ نکالا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھی صرف اسے کھاتا دیکھتی تھی اور صرف اسی بات پر مسرور ہوتی رہتی تھی کہ وہ پیٹ بھر کر کھا رہا تھا… زندگی میں آج تک صرف اس کا باپ تھا جس نے اپنے حصے کا نوالہ اسے دیا تھا… اور آج اس شخص نے دیا تھا جو کرسی پر بیٹھا اب اپنے حصے کا سلائس کھا رہا تھا… آنسوؤں نے پھر کسی بند کو توڑا تھا۔ وہ آہستگی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں پکڑا چھلا ہوا انڈہ اس نے اپنی پلیٹ میں رکھا پھر اپنے knife کے ساتھ اس کے دو ٹکڑے کر دیے… پانی ہر منظر کو دھندلا کر رہا تھا۔ اس نے ایک ٹکڑا بڑی سہولت کے ساتھ کرم کی پلیٹ میں رکھا اور اس پر نمک اور کالی مرچ چھڑکنے لگی یوں جیسے وہ ہر روز روٹین میں یہی سب کرتی ہو۔ کرم ہاتھ بڑھا کر اس کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرنے لگا یوں جیسے وہ ہر روز روٹین میں یہی سب کرتا ہو۔ زینی نے اس بار اس کو نہیں روکا تھا اس کی شرٹ کی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھیں… اس کے گلے کے اوپر والے دونوں بٹن کھلے ہوئے تھے وہ بد نما داغ جو وہ پوری دنیا سے چھپاتا پھرتا تھا بہت عرصے سے اس کے دائیں ہاتھ کرسی پر بیٹھی لڑکی دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے برص کو اس سے نہیں چھپاتا تھا… کیونکہ اس نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے کبھی تحقیر یا گھن نہیں د یکھی تھی۔
conservatory میں بیٹھے وہ دونوں ایک عجیب ”بولتی خاموشی” کے سحر میں تھے۔ وہ ”کہہ” رہے تھے جو نہیں کہہ پا رہے تھے وہ ”سن” رہے تھے جو سننا چاہتے تھے۔ وہ ”بوجھ” رہے تھے جو ہمیشہ سے جانتے تھے۔ وہ ”کھوج” رہے تھے جو ہمیشہ سے اوجھل تھا۔ محبت ”کمال” کرتی ہے محبت ”کمال” کر رہی تھی۔
٭٭٭