چند لمحوں کے لیے کرم کواپنی آنکھوں پریقین نہیں آیا۔ بے حد زیادہ میک اپ کے ساتھ منی سکرٹ اور stringy top میں اپنا فربہی مائل نیم عریاں جسم لیے وہ زری ہی تھی۔ جو فٹ پاتھ کے اس حصے پر سگریٹ کے کش لگاتی کسی مرد سے باتیں کر رہی تھی کرم کو یہ نظر کا دھوکا لگا… وہ اس حلیے میں رات کے اس وقت وہاں کیا کر رہی تھی… اور وہاں تھی ہی کیوں؟…
سگنل کھل گیا تھا۔ وہ وہیں کھڑی تھی۔ کرم نے گاڑی آگے بڑھا دی پانچ منٹ کے بعد وہ آگے سے ٹرن کر کے واپس آیا تھا اور واپسی پر اس نے ایک بار پھر اسے وہیں کھڑا دیکھا… اس بار اس کے ساتھ وہ مرد نہیں تھا… وہ گاڑی آگے لے گیا… سڑک کے کنارے کچھ دور ایک جگہ گاڑی پارک کر کے وہ بہت تیزی سے چلتا ہوا واپس آیا تھا۔ وہ کھڑی ایک دوسرا سگریٹ سلگا رہی تھی… سگریٹ سلگاتے سلگاتے اس نے پاس آتے کرم کو دیکھا اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ چھوٹ کر زمین پر گر پڑا وہ جیسے سکتے میں آگئی تھی اور ایسا ہی سکتہ کرم کو بھی ہوا تھا… اس کا حلیہ، اس کا انداز، وہ علاقہ اور جگہ اس کے ”کام” کا تعارف کروا رہے تھے۔
بہت دیر تک وہ دونوں اسی طرح کھڑے رہے پھر کرم نے جیسے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس سے کہا۔
”آؤ میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔” اس کے علاوہ وہ اور کوئی جملہ ذہن میں نہیں لا سکا تھا۔
”میرا اپارٹمنٹ پاس ہی ہے… بس walking distance پر۔۔۔۔” اس نے کپکپاتی آواز میں اپنے ایک کندھے پر لٹکی جیکٹ کو پہنتے ہوئے اور اپنے جسم کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا تھا۔
اس کا اپارٹمنٹ واقعی قریب ہی تھا وہ ایک بے حد خستہ حال اور غلیظ جگہ پر تھا اس کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ کے اندر آنے تک کرم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ نشے میں تھی اور پوری کوشش کر رہی تھی کہ کرم کو اس کا احساس نہ ہو۔
اسی عمارت کے باہر اور اندر جتنی گندگی تھی اس کے اپارٹمنٹ کی حالت بھی اس سے بہتر نہیں تھی… شاید بہتر ہو جاتی اگر اس کا خیال رکھا گیا ہوتا… وہ سٹوڈیو اپارٹمنٹ تھا اور اس وقت اس کا فرش بیئر کے خالی کینز، شراب کی خالی بوتلوں اور سگریٹ کی راکھ اور ٹکڑوں کے ساتھ تقریباً اٹا ہوا تھا۔
یوں لگتا تھا اسے بہت عرصے سے صاف نہیں کیا گیا تھا… کسی نائٹ کلب کے علاوہ کرم نے کسی اور جگہ شراب کی اتنی تیز بو نہیں پائی تھی… اور اس بو کے ساتھ ساتھ وہاں کو کین کی بو بھی تھی یا کم از کم کرم کو محسوس ہو رہی تھی… اسے شدید گھٹن محسوس ہونے لگی تھی وہاں۔
زری اب وہاں پڑے اکلوتے صوفے پر پڑی چیزیں اٹھانے میں مصروف تھی۔ کرم روشنی میں پہلی بار اس کا چہرہ پاس سے دیکھ رہا تھا۔ میک اپ کی گہری تہہ بھی زری کے چہرے کی زردی اور ویرانی کو چھپانے میں ناکام ہو رہی تھی… اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے یوں جیسے وہ بہت عرصے سے سوئی نہ ہو۔
”جمال کہاں ہے؟” کرم نے بالآخر اپنی خاموشی توڑی وہ چیزیں اٹھاتے اٹھاتے رک گئی۔
”پتہ نہیں… کبھی کبھی آتا ہے یہاں… آپ بیٹھیں یہاں۔”
”کبھی کبھی آتا ہے؟… کیا مطلب؟” کرم نے اسے ٹوکا۔
”اس نے چھوڑ دیا ہے مجھے۔” زری نے کہا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ اسے کھڑے ہونے میں دقت ہو رہی تھی… کرم ابھی بھی کھڑا تھا۔
”تم نے وہ اپارٹمنٹ کیوں چھوڑا؟”
”پیسے ختم ہو گئے تھے میرے”اس نے صوفے پر پڑا ایک سویٹر اپنی عریاں ٹانگوں پر ڈال لیا تھا۔
”اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئے؟… تمہارے پاس حق مہر کی رقم بھی تھی… زیور بھی تھا۔” کرم کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”وہ سب جمال لے گیا۔”
”تم نے اسے دے دیا سب کچھ؟”
”اس نے چوری کر لیا تھا میرا زیور۔”
”تم کو پولیس کے پاس جانا چاہیے تھا۔”
”کیسے جاتی؟ وہ آخری سہارا تھا میرا یہاں… اسے پولیس پکڑ لیتی تو میں کہاں جاتی؟”
”تم پاکستان جا سکتی تھی۔”
”نہیں جا سکتی تھی… وہاں کس کے پاس جاتی میں؟”
”کیوں؟ … تمہارے ماں باپ ہیں وہاں۔”
” ان کے پاس جاتی تو وہ طعنے دے دے کر مار دیتے مجھے۔”
”طعنے کھا کر مرنا ایسی زندگی سے بہتر ہے جو تم گزار رہی ہو۔” کرم اپنے لہجے کی تلخی اور غصہ چھپا نہیں سکا۔
”جمال سے محبت اور اس کے لیے مجھے دھوکہ دے دینا اور بات تھی لیکن میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم یہ سب کر سکتی ہو۔” کرم کو واقعی شدید دکھ ہو رہا تھا۔
وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔
”میں نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں یہ سب کروں گی… لیکن آپ نے کبھی پیٹ کی بھوک نہیں دیکھی… کبھی غربت نہیں دیکھی ورنہ۔۔۔۔”
کرم نے اس کی بات کاٹ دی۔”سب کچھ دیکھا ہے میں نے… سب کچھ… ایسی ہی سڑکوں پر بارہ بارہ گھنٹے کام کی تلاش میں پھرتا رہا ہوں میں… چودہ چودہ لوگوں کے ساتھ ایک سویٹر اور جینز میں ٹھنڈے basement میں سویا ہوں میں… لیکن میں کبھی حرام پیسے کے پیچھے نہیں گیا۔”
”میں کب حرام پیسے کے پیچھے گئی میں تو صرف ضرورت کے پیچھے گئی۔” زری کی آنکھوں میں اب آنسو آنے لگے تھے۔
”ضرورت عزت سے بڑھ کر نہیں ہونی چاہیے۔”
”میں نے زندگی کے 20سال صرف ضرورت کے ساتھ گزارے ہیں کرم… دن میں ایک وقت کی روٹی کی ضرورت… سال میں دو جوڑے کپڑے کی ضرورت… اور پتہ نہیں کون کون سی ضرورتیں تھیں جو جونکیں بن کر مجھے اور میرے گھر والوں کو چمٹی ہوئی تھیں… پھر آپ سے میری شادی ہوئی… صرف دو سال میں پیسے کے ساتھ رہی اورمیں ضرورت کے ساتھ جینا بھول گئی… دوبارہ بھوک کی ذلّت کے ساتھ جینے کا حوصلہ نہیں تھا مجھ میں۔”
”اور یہ سب… یہ ذلّت نہیں ہے تمہارے لیے؟” کرم کوتکلیف ہوئی۔
”جمال چھوڑ گیا تھا تم میرے پاس آتی میں کچھ نہ کچھ کرتا تمہارے لیے… رہنے کی جگہ اور کام تو دے ہی دیتا تمہیں۔”
”میں آئی تھی آپ کے گھر… دو بار گئی تھی… آصف نے بہت بے عزتی کی میری… اس نے آپ کے کینسر کے بارے میں بھی بتایا مجھے… اس نے مجھے الزام دیا کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے… میں کیسے جاتی آپ کے پاس پھر… لیکن میں نے بڑی دعائیں کیں آپ کی زندگی کے لیے۔”
کرم نے اس سے نظریں چرائیں یہ جاننے کے باوجود کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی تھی۔
”اور اب پھر ملنے لگی ہو تم جمال کے ساتھ تو اس سے کہتی وہ کوئی کام کرتا تمہاری ذمہ داری اٹھاتا۔”
”وہ ڈرگز استعمال کرتا ہے… شراب پیتا ہے… اگر کوئی کام کرتا بھی ہے تو اسکا اپنا خرچہ پورا نہیں ہوتا وہ مجھے کیا دے گا… وہ کہتاہے میں نے اسے یہاں بلا کر اس کی زندگی تباہ کر دی ۔” وہ رو رہی تھی۔
”لیکن میں نے تو اس سے نہیں کہا تھا کہ وہ یہ سب کرے۔”
”اور تم… تم بھی لیتی ہو ڈرگز۔” وہ کچھ دیر چپ بیٹھی روتی رہی پھر اس نے کہا۔
”تو کیا کروں؟… سکون ملتا ہے مجھے… ہوش میں نہیں رہتی تو پچھتاوا نہیں ہوتا مجھے… میں نے آپ کے ساتھ بڑی زیادتی کی کرم۔ آپ کی بد دعا لگ گئی مجھے۔”
”تم واپس پاکستان چلی جاؤ زری… میں وہاں تمہیں گھر خرید دیتا ہوں کچھ رقم بھی دے دوں گا… تم چلی جاؤ واپس… وہاں جا کر تم ایک با عزت زندگی۔۔۔۔”
اس نے کرم کی بات کاٹ دی۔
”مجھے پاکستان نہیں جانا… وہاں کچھ نہیں ہے میرا… آپ کیا سمجھتے ہیں جو گھر اور پیسہ آپ مجھے دیں گے وہ میرے پاس رہے گا؟… نہیں رہے گا… میرے ماں باپ گھر والے سب آجائیں گے اپنا اپنا حصہ لینے… نہیں کرم مجھے وہاں نہیں جانا… یہاں میں آزاد ہوں… وہاں یہ بھی ختم ہو جائے گا۔” وہ بے حد حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی تکلیفیں اس کے چہرے پر رقم تھیں وہ اپنی عمر سے 20 سال بڑی لگ رہی تھی لیکن وہ اس تنہائی کو پاکستان میں ماں باپ اور گھر والوں کے ساتھ جینے پر ترجیح دے رہی تھی… بالکل ویسے ہی جیسے کرم کر رہا تھا… کہیں نہ کہیں جا کر وہ اور زری جیسے ایک ہی جگہ جا کر کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ وہاں کھڑے ہو کر اس سے مزید سوال جواب نہیں کرنا چاہتا تھا… وہ ”قاضی” اور ”تماشائی” دونوں کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی جیب میں اس وقت چند ڈالرز تھے اور والٹ کو چیک کرنے کے باوجود اسے زیادہ رقم نہیں ملی۔ اس نے وہ رقم زری کو دینے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
”میں کل یا پرسوں بھیجوں گا کسی کو یہاں یا پھر خود آؤں گا… تمہارے لیے کسی بہتر جگہ پر رہائش اور کام کا انتظام کروں گا میں۔” اس نے سیل فون میں زری کا نمبر اور ایڈریس save کرتے ہوئے کہا۔ زری کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے… شکریہ ادا کرے یا پچھتاوے اور شرمندگی کا اظہار کرے… یا صرف خاموش ہو جائے… وہ خاموش رہی تھی۔ کرم کو لڑکھڑاتے قدموں سے وہ دروازے تک اس کے روکنے کے باوجود چھوڑنے گئی تھی۔ کرم کو اس پر ترس آنے لگا تھا۔ اس کے رویے سے ممنونیت کا اظہار ہوتا تھا۔
”میں تمہیں کچھ عرصہ کے لیے کسی rehabilitation centerبھی بھجواؤں گا… تمہیں علاج کی ضرورت ہے… اور جمال سے طلاق کی بھی۔”اس نے جملے کا آخری حصہ کچھ تامل کے بعد ادا کیا۔
زری نے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں بالکل خالی تھیں وہ چمک تیزی طرارّی سب غائب تھی جو کبھی ان آنکھوں کا حصہ تھی۔
”میں اسے نہیں چھوڑ سکتی کرم… وہ لالچی ہے کمینہ ہے گھٹیا ہے لیکن مجھ سے محبت کرتا ہے۔”
کرم بول نہیں سکا۔ پوری کائنات جیسے محبت کے نام پر فریب کھانے کو تیار تھی۔ جن کی عقلیں ساری دنیا کے سامنے چلتی تھیں محبت کے سامنے آکر بند ہو جاتی تھیں… کیا تھا یہ انسان…؟ کیا تھے یہ مرد اور عورت؟
کینیڈا کے اس جہنم میں زری اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے آکسیجن کی طرح جمال کی محبت کی ڈوز لے رہی تھی… یہ سمجھے بغیر کہ وہ سلو پوائزن تھا۔
کرم چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ کہنے کے لیے لفظ جیسے دم توڑ گئے تھے اس کے پاس… وہ اسے خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آیا۔
٭٭٭