”میرا رکھ لو۔” کرم نے مدھم آواز میں کہا۔
زینی نے اسے نظر انداز کیا۔ وہ پلیٹیں نکال رہا تھا۔
”کرم تم شادی کر لو۔”
وہ پلیٹیں نکالتے رک گیا۔ وہ سلاد کے لیے ٹماٹر کاٹنے میں مصروف بے حد معمول کے انداز میں کہہ رہی تھی۔
”کسی بہت اچھی سی لڑکی سے جو تمہارا بہت خیال رکھے کسی بڑی پیاری سی لڑکی سے۔”
”ایک پیاری سی لڑکی سے کی تھی… اس کا جو نتیجہ ہوا تمہیں بتا چکا ہوں… بار بار اپنی بیویوں کی شادی نہیں کرا سکتا میں۔” زینی کو اس کی سنجیدگی سے کہی بات پر بے اختیار ہنسی آئی۔
” تم عجیب آدمی ہو… اپنی بیوی کی شادی کروا دی۔۔۔۔” وہ ہنستی جا رہی تھی۔
”انسان کو اتنا بھی اعلیٰ ظرف نہیں ہونا چاہیے۔”
”غلط کیا کیا؟” وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
”پتہ نہیں۔” وہ ہنسی پر قابو پانے میں ناکام ہو رہی تھی۔
”تم نے شیراز کو جیل سے کیوں نکلوایا؟”
یک دم جیسے کسی نے اس کی ہنسی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے چپ چاپ اس کو دیکھتی رہی۔ وہ کاؤنٹر کے دوسری طرف اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”اس نے ابو کا واسطہ دیا تھا مجھے۔” وہ مدھم آواز میں کہتے ہوئے دوبارہ سلاد بنانے لگی۔
”اس نے اللہ کا واسطہ دیا تھا مجھے۔” زینی کا ہاتھ رک گیا کرم پلیٹیں لے کر میز کی طرف چلا گیا تھا۔ وہ جیسے سلاد بنانا بھول گئی… بہت دیر اسے ٹیبل سیٹ کرتے دیکھتی رہی۔ اس کی نظروں میں اضطراب تھا… اسے اپنا باپ یاد آیا تھا اس وقت پہلی بار اسے احساس ہوا اسے کرم کی طرف کون سی چیز کھینچتی تھی… اس کی فطرت اس کے باپ جیسی تھی… ویسی ہی نرمی ویسی ہی محبت، ویسا ہی ایثار، ویسا ہی اخلاق اور ویسی ہی اعلیٰ ظرفی… ساری زندگی اسے لگا اس کے باپ جیسا کوئی آدمی نہیں تھا… اورآج قسمت کرم کو اس کے سامنے لے آئی تھی۔
”تم کیا مجھ سے تنگ آگئی ہو؟” ٹیبل سیٹ کرتے کرتے کرم کو جانے کیا خیال آیا۔
وہ دوبارہ سلاد بنانے لگی۔
”تنگ نہیں آئی… میں واقعی چاہتی ہوں کرم کہ تمہاری زندگی میں کوئی ایسا ہو جو تم سے محبت کرے… تمہارے گھر کو گھر بنا کر رکھے… یہ جو تم ہر جگہ مارے مارے پھرتے ہونا… ایک اچھی سی بیوی گھر پر ہو گی تو یوں خوار نہیں ہو گے تم اور یہ بھی کہ… ”
”کہ تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔” کرم نے اس کی بات میں اضافہ کیا۔
”میں تو ویسے ہی کچھ عرصے میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔” اس کی بات پر کرم کو کرنٹ لگا۔
”کہاں چلی جاؤ گی تم؟” وہ ٹیبل چھوڑ کر اس کی طرف آیا۔
”اگلے سال کے شروع میں میرا ویزا ختم ہو جائے گا۔ میں پاکستان جاؤں گی… ویزہ اپلائی کروں گی… پتہ نہیں ملتا ہے یا نہیں… پھر شاید کسی دوسرے ملک میں چلی جاؤں۔۔۔۔”
”کہاں؟”
”پتہ نہیں… لیکن کہیں نہ کہیں تو جاؤں گی میں۔۔۔۔”
”میں لگوا دیتا ہوں ویزا تم پاسپورٹ اور پیپرز۔۔۔۔”
”نہیں… اس کی ضرورت نہیں” زینی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کیونکہ تمہیں کسی کا احسان پسند نہیں۔”
”مذاق مت اڑاؤ میرا۔ ” وہ برا مان گئی۔
”میں تمہیں جانے نہیں دوں گا یہاں سے۔”
”اچھا؟… تم روک کیسے سکتے ہو مجھے؟” اس نے سر اٹھا کر کرم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ایک دن تم یہاں آؤ… اور تمہیں میں یہاں ملوں ہی نہ تو… کیا کر لو گے تم؟”
کرم بے حد خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں اذیت تھی۔
”تم میرے ساتھ یہ نہیں کر سکتی زینی۔”
”کیوں نہیں کر سکتی۔” وہ اسے تنگ کرنے لگی تھی۔
”تم کو یاد ہے نا تم کس طرح مجھے چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے تب… مجھے بتایا تک نہیں تھا کہ کہیں جا رہے ہو… پھر میں تمہیں بتا کر کیوں جاؤں؟”
”لیکن میں واپس بھی توآگیا تھا… اور میں نے ایکسکیوز بھی کیا تھا تم سے۔”
”لیکن میں نہ تو واپس آؤں گی نہ ہی ایکسکیوز کروں گی۔” وہ بڑے اطمینان سے کہہ رہی تھی۔
کرم کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ وہ دوبارہ سلاد بنانے میں مصروف تھی۔
”اس لیے تم سے کہہ رہی ہوں… شادی کر لو کسی اچھی سی لڑکی سے… ورنہ پھر کس کے پاس جا کر کھانا کھایا کرو گے۔” وہ اب اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
”تم کرو گی مجھ سے شادی؟” سوال بے ساختہ تھا… کھیرے کے ساتھ ساتھ اس کی انگلی بھی کٹتے کٹتے بچی تھی۔
”نہیں۔” اس نے ایک بار پھر سنبھل کر کھیرا کاٹنا شروع کر دیا۔
”کیوں؟”
”کیوں کے سو جواب ہو سکتے ہیں۔” وہ اپنے کام میں مصروف بولی۔
”تم وہ جواب دو جس سے میں مطمئن ہو جاؤں۔”
وہ چند لمحے سوچ میں پڑ ی۔
”کوئی نہیں ہے؟” کرم نے اسے خاموش دیکھ کر کہا۔
بات پتہ نہیں کیوں اس موضوع پر آگئی تھی لیکن اب اس موضوع پر آگئی تھی تو کرم موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”کرم شادی کا رشتہ اس تعلق کو ختم کر دے گا جو ابھی ہم دونوں کے درمیان ہے۔”
”نہیں تعلق کو مضبوط کر دے گا… تم سمجھتی ہو شادی دوستی ختم کر دیتی ہے۔”
”نہیں میں ایسا نہیں سمجھتی۔ شادی دوستی ختم نہیں کر تی لیکن تمہاری اور میری شادی ختم کر دے گی۔”
”کیوں؟…تمہیں نہیں لگتا کہ ہم دونوں آیک دوسرے کے لیے بنے ہیں… شاید اس لیے ملے ہیں۔”
زینی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔”
”جھوٹ مت بولو زینی” کرم نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔
”تم اگر یہ کہو کہ میری شکل تمہیں پسند نہیں ہے… یا برص کی وجہ سے تم انکار کر رہی ہو تم میں پھر بھی تمہاری بات مان لوں گا لیکن یہ وجہ مجھے مت دو کہ شادی ہماری دوستی کو ختم کر دے گی۔” کرم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”تم بہت جلد بدگمان ہو جاتے ہو کرم… بہت جلد… اور میں ایکٹریس رہ چکی ہوں میرا کریکٹر جیسا تھا تمہیں بتا چکی ہوں… سو لوگ ملیں گے تمہیں جاننے والے… میرے بارے میں باتیں کرنے والے… تم کیا مہاتما بدھ بھی ہو، تو وہ بھی شک کرنے لگے گا مجھ پر… مشہور عورت بد قسمت ہوتی ہے کرم… مشہورہونا اپنے اندر ایک تہمت ہے کوئی جب جہاں چاہے بیٹھ کر جو چاہے کہہ دے ہر سننے والا یقین کر لے گا… ثبوت اور گواہ تک نہیں چاہیے ہوں گے اسے… یہ شہرت کی قیمت ہے… اور میں تو بدکردار بھی تھی۔”
”بس کرو زینی مت کہا کرو یہ سب کچھ بار بار… تم یہ سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتی۔” کرم نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم سمجھتے ہو میں یہ کوشش نہیں کرتی؟… رات دن صرف ماضی ہی تو بھلانے کی کوشش کرتی ہوں میں… لیکن صبح آنکھ کھولنے پر اور رات کو آنکھ بند کرنے سے پہلے پہلی اور آخری چیز جو مجھے نظر آتی ہے وہ ماضی ہی ہوتا ہے۔ ” اس نے ہاتھ میں پکڑی چھری رکھ دی تھی۔ اس کے لہجے میں تھکن تھی۔
”دنیا میں عورت بن کر ”جینا” بڑا مشکل ہے کرم… بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے میں مر جاؤں… پھر سوچتی ہوں… دنیاکے دوزخ میں جی کر شایدآگے دوزخ نہ ملے… ورنہ ہر کبیرہ گناہ تو کر چکی ہوں میں… تم اچھے آدمی ہو کسی پاکباز لڑکی سے شادی کرو جس کے پاس میرے جیسا ماضی نہ ہو۔۔۔۔” وہ سر جھکائے پیالے میں سبزیوں کے ٹکڑے ڈال رہی تھی۔
”میں تمہارے ماضی کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کروں گا… کبھی تمہیں judgeنہیں کروں گا۔”
”دنیا کرے گی۔”
”مجھے دنیا کی پرواہ نہیں ہے۔” وہ جھنجلایا۔
”کیوں تم دنیا میں نہیں رہتے کیا؟” زینی نے ہنسنے کی کوشش کی۔
”میں تم پر کبھی شک نہیں کروں گا کبھی بد گمان نہیں ہوں گا تم سے۔” کرم نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
”ویری گڈ… چلو کھانا کھاتے ہیں۔” اس نے بچوں کی طرح اسے بہلایا اور سلاد کا پیالہ لے کر ٹیبل کی طرف چلی گئی۔
کرم کو اس کے اندازپر بری طرح غصہ آیا تھا۔ وہ ٹیبل کی طرف جانے کی بجائے بیرونی دروازے کی طرف گیا۔
”ٹھیک ہے کھانا چھوڑ کر جا رہے ہو اب دوبارہ کبھی کھانا نہیں کھلاؤں گی تمہیں۔۔۔۔”
وہ دروازے سے کوٹ اتارتے اتارتے رک گیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا وہ بے حد خفا انداز میں کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ کرم پلٹ آیا۔
”تم کتنی آسانی سے مان جاتے ہو کرم… تم واقعی بہت اچھے انسان ہو۔” وہ کرسی پر بیٹھ رہا تھا۔ جب زینی نے اس سے کہا۔
”آج تک کسی نے مجھے منایا ہی نہیں۔” ”منایا نہیں یا تم کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوئے۔” زینی نے اس کی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے کہا۔
کرم سوچ میں پڑ گیا… وہ ٹھیک کہہ رہی تھی وہ واقعی کبھی کسی سے خفا نہیں ہوا تھا پھر زینی سے اس طرح ناراض کیوں ہوتا تھا… عارفہ سے ایک بار ہوا تھا اور اس کا نتیجہ اس کے منگنی اسے کھونے کی صورت میں ہوا تھا… مگر زینی سے تو بار بار خفا ہو رہا تھا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟… کھانا کھاؤ۔” زینی نے اسے چونکایا۔
٭٭٭
اگلی صبح اٹھ کر آفس جانے کے لیے تیار ہوتے ہوئے اسے اس potکا خیال آیا تھا۔ وہ سلائس کھاتی کھاتی بے اختیار کھڑکی کی طرف گئی۔ اسے کرم کی بات یاد آئی ایک مسکراہٹ بے اختیار اس کے ہونٹوں پر آئی تھی۔ ایک گلاس میں پانی لاکر اس نے اس بیل میں ڈالا تھا… لیکن اسے یقین تھا چندہفتوں میں وہ بیل ختم ہو جائے گی۔ اس پوری بلڈنگ کی کسی کھڑکی میں ایسا کوئی پودا یا بیل اسے کبھی نظر نہیں آیا تھا… اور پھر اب چند مہینوں کے بعد جو موسم آنے والا تھا اس میں تو بیل یقینا ختم ہو جاتی۔
اس کا اندازہ غلط نکلا تھا۔ وہ بیل بڑے عجیب انداز میں تیزی سے بڑھنے لگی تھی۔ وہ ہر روز اس پر نکلتے ننھے ننھے پتوں کو دیکھ کر حیران ہوتی ۔ بہت جلد وہ اتنی بڑھ گئی تھی کہ زینی کو ایک بانس کا ٹکڑا اسے سہارا دینے کے لیے pot میں لگانا پڑا۔بیل اب اس کے گرد بل کھاتے ہوئے پھیل رہی تھی اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سب سے پہلے کھڑکی کے شیشے سے جھانکتی اس سبز بیل پر ہی پڑتی تھی وہ بعض دفعہ اسے دیکھتی رہتی اور یہی کام کرم بھی کرتا جب وہ ہر دوسرے تیسرے دن اس کے پاس آتا۔
وہ ”بیل” ابتدا تھی… وہ چند دن بعد اس کے لیے ایک بیگ لے کر آیا تھا… Armaneکا ایک قیمتی لیدر ہینڈ بیگ۔
”بہت سالوں بعد میرا دل چاہنے لگا ہے کہ میں کسی کے لیے کچھ لوں۔ ورنہ آج تک صرف اپنے لیے ہی شاپنگ کرتا رہا ہوں… لیکن اب جب بھی مارکیٹ جاتا ہوں… ہراچھی چیز کو دیکھ کر مجھے تمہارا خیال آتا ہے… مجھے وہ تمہارے وجود پر سجتی نظر آنے لگتی ہے۔” اس نے پہلی بار اس کے لیے ایک بیگ لانے پر اس کی خفگی پر کہا تھا۔
”اب چاہے تو اسے رکھو چاہے تو پھینک دو۔”
”تم اسے واپس لے کر نہ گئے تو میں اسے پھینک دوں گی۔” اس نے خفگی سے اعلان کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ”اب” ایسا نہیں کر سکتی ایک سال پہلے کرم سے ابتدائی ملاقاتوں میں یقینا کر دیتی۔ کرم وہ بیگ پھینکے جانے کے لیے چھوڑ گیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد وہ بے حد بے بسی کے عالم میں اس بیگ کو لیے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اتنے سالوں میں وہ پہلا تحفہ تھا جو ”قیمت” نہیں تھا… ”غرض” بھی نہیں تھا… اور اسے ”احسان” بھی نہیں لگ رہا تھا… اتنے سالوں میں وہ پہلا تحفہ تھا جسے گود میں رکھے اس نے اپنے آنسوؤں سے بھگویا تھا۔
وہ پہلا تحفہ تھا جو زینی نے قبول کیا تھا… پھر بے حد غیر محسوس طریقے سے وہ اس کے لیے تحفے لانے لگا تھا۔ وہ ساری چیزیں جو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی… کاسمیٹکس ،پرفیوم، بیگز، کپڑے، سویٹرز، جیولری وہ جیسے کسی بلیک اینڈ وائٹ پکچر میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ ان سارے تحفوں کو استعمال کیے بغیر رکھتی جا رہی تھی۔ اس کے پاس ایک بار پھر قیمتی چیزوں کا ایک انبار اکٹھا ہونے لگا تھا۔ وہ کئی باررات کے پچھلے پہرتہجد کے بعد ان چیزوں کونکال کر دیکھتی… ان پر لگے چھوٹے چھوٹے کارڈز پر کرم کے ہاتھ سے لکھے مختصر پیغامات پڑھتی… کبھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی کبھی اس کی آنکھوں میں آنسو… وہ اس کا کوئی نہیں تھا اور وہ اس کا ”سب کچھ” ہو رہا تھا… شیراز کا چہرہ دھندلانے لگا تھا… وہ اوٹوا میں ہی نہیں اسے لگتا اس وقت دنیا میں واحد شخص تھا جو سب کچھ جاننے کے باوجود اسے ”اچھی لڑکی” سمجھتا تھا۔ اس کی ”عزت” کرتا تھا… جب عزت اس کے پاس تھی تو وہ ”محبت” کو سب کچھ سمجھتی تھی… اب ”عزت” نہیں تھی تو وہ ”عزت” کی ”قیمت” سے واقف ہوئی تھی۔
*****