من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

وہ شکوہ جو آنسوؤں سے شروع ہوا تھا اب جیسے کسی لاوے کی طرح ابل رہا تھا۔
”مجھے پھر یہ بتانے آئے ہو گے کس طرح ساری دنیا تمہیں پیسے کے لیے exploit کرتی ہے… لیکن تم دوسروں کو کس طرح exploit کرتے ہو… تم نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے؟… دوسرے تمہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں… اور تم بھی ضرورت کے وقت یہی کرتے ہو۔۔۔۔” وہ اب کھڑی ہوتے ہوئے کوٹ پہنتے ہوئے بول رہی تھی۔
وہ سر اٹھائے خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔
”تم بھی دوسرے مردوں کی طرح بے حد خود غرض ہو… خود ترسی کا شکار… صرف اپنے بارے میں سوچنے والے… تمہیں ہر وہ شخص یاد ہے جس نے تمہیں دھوکہ دیا۔”
کرم کی خاموشی زینی کو مزید مشتعل کر رہی تھی۔
”تم نے کبھی ان کے بارے میں سوچا ہے جنہیں تم ہر ٹ کرتے ہو۔”
”تمہیں کیسے ہرٹ کیا میں نے؟” اس نے پہلی بار زبان کھولی اور زینی بول نہیں سکی۔
”میرے غائب ہونے سے تم کو کیا فرق پڑا؟… کچھ فرق پڑا؟۔۔۔۔” وہ چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ وہ اسے کیا جواب دیتی… یہ فلم نہیں تھی… زندگی تھی… وہ ہیرو نہیں تھا… کرم تھا… وہ پری زاد نہیں تھی زینی تھی… اور اس کے پاس جذبات سے بھر پور ڈائیلاگز کا کوئی سکرپٹ نہیں تھا جسے وہ رٹے رٹائے انداز میں بولتی جاتی… جو کچھ تھا دل میں تھا اور جو دل میں تھا اسے زبان پر وہ کیسے لے آتی۔
”فرق اگر پڑتا ہے تومجھے پڑتا ہے… تم سے نہ ملنے پر مجھے تکلیف ہوتی ہے… بات نہ ہونے پر مجھے اذیت ہوتی ہے… تمہیں تو کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا… کیونکہ میں تو صرف ایک دوست ہوں تمہارا… لیکن یہ بات میں اپنے آپ کو نہیں سمجھا پا رہا۔” وہ شکست خوردہ اندازمیں اعتراف جرم کی طرح اقرار محبت کر رہا تھا۔
”تم سے چھپنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا… اپنے آپ سے چھپنے کی کوشش کررہا تھا… ایک بار پھر اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ تم میری کوئی نہیں ہو… میں کیوں اپنے آپ کو تمہارا عادی کررہا ہوں؟… کل کو اگر تم نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا تو مجھے تمہارے بغیر رہنے کے قابل ہونا چاہیے… بے کار کوشش کی… تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا میں۔” وہ مایوسی سے سر ہلا رہاتھا۔
زینی کا غصہ ماچس کی تیلی کی طرح جل کر بجھ گیا… وہ کچھ اور سننے کی توقع کر رہی تھی… یہ سب نہیں۔
”دنیا کے اندر تو کم از کم کہیں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں تم مجھے یاد نہ آؤ۔” وہ چند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر بینچ پر بیٹھ گئی۔
”اتنے دن کہاں تھے تم؟”
”یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔” کرم نے اسے یاد دلایا وہ اس سے کوئی اور بات کر رہا تھا۔
”تمہیں کہیں جانا تھا تو تم مجھے بتا دیتے میں پریشان ہو گئی تھی تمہارے بارے میں۔” وہ اس کی طرف دیکھے بغیر کہہ رہی تھی۔
کرم نے ایک گہرا سانس لیا اظہارمحبت مرد کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ پہل کر چکا تھا… دوسرا قدم زینی کو اٹھانا تھا مگر وہ وہیں کھڑی تھی۔
”تمہیں یوں اچانک کیا ہو گیا تھا؟”
”کیا پھر سے دہراؤں۔” کرم نے مدھم آوازمیں کہا۔




وہ خاموش ہو گئی کوٹ کی جیب سے رومال نکال کر کرم نے زینی کی طرف بڑھایا۔ اس نے رومال تھام کر اپنی آنکھیں خشک کیں اور کرم کو رومال تھما دیا۔
”I am sorry” کرم نے رومال اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
زینی نے سر ہلا دیا۔ وہ رومال ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔
”بہت غلط باتیں سوچتی ہو تم میرے بارے میں زینی۔”کر م نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
”تمہاری عزت کرتا ہوں تو تمہارے پاس بیٹھا ہوں… یہ مانتا ہوں میں خود غرض ہوں اپنی خوشی کے لیے یہ سوچے بغیر تمہارے پاس آجاتا ہوں کہ تم مجھے پسند بھی کرتی ہو یا نہیں… زندگی میں پہلی بار خود غرض بنا ہوں… یہ بھی نہیں سوچ رہا کہ ہو سکتا ہے ایک برص زدہ آدمی سے تمہیں الجھن۔۔۔۔”
جسم پرداغ ہونا روح پر داغ ہونے سے بہتر ہے… مجھ سے بہتر ہو تم… میری طرح آلودہ نہیں ہو۔” اس نے کرم کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”تم کیوں سوچتی ہو اس طرح کی باتیں؟” وہ ہمیشہ کی طرح اس کی اس بات سے Irritate ہوا تھا۔
”تم کیوں کرتے ہو اس طرح کی باتیں؟” اس نے جواباً کہا۔
وہ خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اتنے ہفتوں کے بعد ”زندگی” جیسے لوٹ آئی تھی۔
اس کا دل چاہا وہ اسے بتائے وہ ”زندگی” کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔
”اگلی بارایسا دورہ پڑے تو بتا دینا۔”
”زندگی” اس سے چند فٹ دور بیٹھی خفگی کے عالم میں کہہ رہی تھی۔
٭٭٭
”یہ کیا ہے؟” زینی نے حیرانی سے اس کے ہاتھ میں پکڑے pot کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جس میں ایک چھوٹی سی سبز بیل لگی ہوئی تھی۔
”تحفہ نہیں ہے اس لیے گھبراؤ مت۔” وہ دو بہ دو کہتا ہوا اندر آگیا۔
زینی نے کچھ الجھ کر اس کے عقب میں دروازہ بند کیا اورپلٹ کر کرم کو دیکھا۔ وہ سٹنگ ایریا کی کھڑکی کو کھولتے ہوئے اس کے باہر Ledgeپر اس potکے لیے جگہ ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔
”کیا کر رہے ہو تم؟” وہ اسکے پاس چلی آئی۔
”کوئی شناختی علامت چاہتا ہوں تمہاری کھڑکی کے باہر جس سے میں فوراً پہچان سکوں کہ یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے۔” وہ ابھی بھی کھڑکی سے باہر potکے لیے مناسب جگہ ڈھونڈنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔
”اور تم باہر سے اس کھڑکی کو پہچان کر کیا کرو گے۔”
”کچھ بھی نہیں… بس آتے اور جاتے ہوئے ایک بار پلٹ کر سر اٹھا کر دیکھوں گا۔”
”کیوں؟”
”ہو سکتا ہے اس کھڑکی میں تم مجھے کھڑی نظر آؤ۔”
زینی نے بے یقینی سے اس کے سنجیدگی سے کہے ہوئے جملے کو سنا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
کرم سنجیدگی سے اپنے کام میں مصروف رہا اس کی ہنسی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”کرم تمہارا دماغ ٹھیک ہے…؟23 منزل کی کھڑکی میں میں کھڑی ہوں گی اور تمہیں نیچے سڑک پر کھڑے ہوکر نظر آؤں گی۔” اس نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”یہ مذاق تھا۔”
وہ اب کچن ایریا کی طرف جاتے ہوئے وہاں کوئی کیبنٹ کھول کر کچھ نکال رہا تھا۔
”اب ضروری ہے کہ تم مجھ پر یہ پابندی بھی لگاؤ کہ میں نیچے سڑک پر کھڑا ہو کر سر اٹھا کر اوپر تمہارے اپارٹمنٹ کو بھی نہ دیکھوں۔” وہ ایک وائر اور پلائرز نکال کر دوبارہ کھڑکی کے پاس آتے ہوئے بولا۔
”یہ pot ہوا کی وجہ سے اگر نیچے کسی کے سر پر گرا تو میں تمہیں بہت جلد اپنے اپارٹمنٹ کی بجائے جیل میں نظر آؤں گی۔” زینی نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے گردن باہر نکال کر کھڑکی سے آگے بڑھے ledge پر پڑے potکو دیکھا کرم نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹا یا اور اس pot میں بنے سوراخ میں وہ وائر ڈال کر اسے Pliers کی مدد سے کسنے لگا۔
”تم سمجھتے ہو یہ بیل یہاں پھیلے گی اس پر پھول آئیں گے اور آہستہ آہستہ یہ اتنی بڑی اور لمبی ہو جائے گی کہ تم لفٹ سے آنے کی بجائے اس کی شاخوں سے لٹک کر اوپر آیاکرو گے۔” وہ اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
کرم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”میں اسے پانی نہیں دوں گی۔” زینی نے کھڑکی سے ہٹ کر کچن ایریا کی طرف جاتے ہوئے اعلان کیا۔
”اسے بڑھنے کے لیے تمہارے پانی کی ضرورت نہیں ہے… یہ میری محبت کی طرح ہے تمہاری دیکھ بھال کے بغیر بھی مرے گی نہیں… بڑھتی جائے گی۔” اس کی پر سکون بڑبڑاہٹ نے کچن میں جاتی زینی کے قدموں میں کوئی زنجیر ڈالی تھی… اس نے پلٹ کر کرم کو نہیں دیکھا۔ وہ چلتے چلتے رک گئی تھی کرم اس potکو باندھتے ہوئے اسے دیکھے بغیر بھی جانتا تھا۔ وہ گھر میں ننگے پاؤں چلتی تھی اور وہ اس کے قدموں کی چاپ کو لفظوں کی طرح پڑھتا تھا… ”چاپ” چپ تھی… یوں جیسے سوچ میں پڑ گئی ہو وہ کھڑکی بند کرنے لگا اس کا کام ختم ہو گیا تھا۔
”کھانا کھاؤ گے؟” وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
”اس ویک اینڈپر میرے گھر آؤ گی زینی؟” کرم ہاتھ دھونے کے لیے کچن کی طرف آتے ہوئے بولا۔
”کس لیے؟” وہ فریج کا دروازہ کھولتے ہوئے رکی۔
”تمہیں میرا لان اچھا لگتا تھا… کبھی دل نہیں چاہا دوبارہ آکر دیکھو۔” وہ tapکھولے سنک میں ہاتھ دھونے کے بعد towelسے خشک کر رہا تھا۔
وہ دروازہ پکڑے جیسے کچھ سوچنے لگی۔
”حساب کا سوال تو نہیں تھا… صرف دل رکھنے کی بات ہے۔” کرم نے اسے سوچ میں دیکھ کر کہا۔
”مجھے دل رکھنا نہیں آتا کرم… یہ کام کب کا چھوڑ چکی میں۔” اس کے چہرے پر ایک اداس مسکراہٹ آئی وہ کھانا نکال رہی تھی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!