محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

صبح کا وقت تھا۔ زویا پوائنٹ میں تھی۔ اُسے آئی ای آر کی لائبریری سے کچھ کتابیں دیکھنی تھیں۔ وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہیں اُتر جائے یا ڈیپارٹمنٹ چلی جائے۔ اُس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا جو آٹھ بجا رہی تھی۔ اُ س نے سوچا شزا اور نور تو ویسے بھی ابھی آئی نہیں ہو ں گی۔اُسی لمحے پوائنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سامنے رُکا تو وہ کچھ سوچتے ہوئے آئی ای آرہی اُتر گئی۔ ابھی وہ اپنے دھیان میں چلتی ہوئی فٹ پاتھ سے نیچے اُتری ہی تھی کہ فیصل آڈیٹوریم کے پاس اُسے موسیٰ چند لڑکوں کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔
”ڈیم… ” اُس نے بے اختیار خود کو کوسا۔ وہ یقینا اُس سے پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ اُس کے ہاتھ میں فولڈر تھا اور وہ لوگ نوٹس اُٹھائے اُس کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ زویا نے دوبارہ اُس کی طرف دیکھا ۔ موسیٰ کا اُ س کی طرف رُخ نہیں تھا۔ اُس نے زویا کو نہیں دیکھا تھا۔ زویا نے موقع غنیمت جانتے ہوئے وہاں سے کھسکنے ہی میں عافیت جانی۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی واپس فٹ پاتھ پر آگئی اور سیدھی چلنے لگی۔ اُس نے راستے میں رُک کر ایک دو دفعہ شٹل پوائنٹ کے لیے نگاہ دوڑائی لیکن اُسے کوئی پوائنٹ نظر نہ آیا۔ وہ رُکے بنا چلتی رہی۔
”اور تم اپنے رب کی کو ن کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔” وہ انڈر گریڈ بلاک کے سامنے سے گزر رہی تھی جب اُس نے وہ آواز سُنی جو وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔ وہ خاموش رہی اور اپنی رفتا بڑھا دی۔
”تم عموماً اتنی ہی تیز چلتی ہو یا آج کوئی خاص بات ہے ۔” وہ اُلٹے قدموں چلتا ہوا اُس کے سامنے آ گیا۔ زویا کو ایک دم رُکنا پڑا۔
”پلیز تم میرا پیچھا چھوڑ دو ۔ فار گاڈ سیک۔” زویا نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔
”کون تھا وہ کل تمہارے ساتھ۔”موسیٰ نے سرد مہری سے اُس سے پوچھا۔





”معیز… میرا فیانسی ہے اور بہت جلد ہماری شادی ہونے والی ہے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا۔ ” زویا نے چبا چبا کر کہا۔
”اور میرے ساتھ کیا کر رہی تھیں تم، اگر شادی تمہیں اُس کے ساتھ کرنی تھی تو…” وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔
”موسیٰ تم خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا رہے ہو۔ تم بھول رہے ہو کہ تم زبردستی میری زندگی میں داخل ہوئے تھے۔ میں نہیں اور میں نے کب تم سے پیار محبت کے وعدے کیے تھے جو تم مجھ سے ایسی باتیں کر رہے ہو۔” وہ دبی آواز میں چیخ پڑی۔
”واؤ… بات کا بتنگڑ ۔ میں نے تمہیں ریکویسٹ بھیجی تھی، ایڈ تو تم نے مجھے اپنی مرضی سے کیا نا۔ باتیں تو ا پنی مرضی سے کیں نا؟ رات کے تین تین بجے تک بات کیوں کرتی تھیں تم مجھ سے ۔ ٹائم پاس کر رہی تھیں تم ۔” وہ پھنکارتا ہو ا بولا ۔
”ہاں تو اگر مجھ سے تمہیں ایڈ کرنے کا گناہ ہو گیا ہے، تو تم مجھے اُس کی اتنی بڑی سزا مت دو۔ میری زندگی خراب مت کرو۔” اُس نے دوبارہ ہاتھ جوڑدیے۔
”تم یہ بار بار ہاتھ جوڑنا بند کرو۔تم کتنی ستی ساوتری ہو میں جانتا ہوں۔” اُس نے طنز بھرے لہجے میں کہا۔
”ستی ساوتری نہیں ہوں، تو میری جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے تم۔ میرے پیچھے کیوں پڑے ہو۔” زویا کو اُس کے الفاظ پر دھچکالگا۔
”زیادہ چیخنے کی ضرورت نہیں ہے۔” موسیٰ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ صبح کا وقت تھا اس لیے وہاں اِکا دُکا اسٹوڈنٹس ہی پھر رہے تھے۔
”ہٹو پیچھے، مجھے جانے دو۔” زویا نے اپنا دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
”جاؤ ضرور جاؤ…لیکن ایک بات سمجھ لو۔ تمہاری شادی ہوگی، تو صرف مجھ سے۔”موسیٰ کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔ زویا اُس کے لہجے پر دھک رہ گئی۔
”لیکن میں تم سے نہ محبت کرتی ہوں نہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔” اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔
”تو پھر مجھے کس کیٹگری میں رکھا تھا تم نے۔ میں تمہارے منگیتر کی غیر موجودگی میں ٹائم پاس کے لیے ملا تھا کیا۔” وہ بھی چیخ پڑا۔
”میں نے تمہارے ساتھ کوئی ٹائم پاس نہیں کیاتم…
”اور کیسے کرتے ہیں ٹائم پاس؟ تم نے مجھے پہلے دن کیوں نہ بتا دیا کہ تم منگنی شدہ ہو ۔کیوں تم میری باتوں پر ہنستی رہی اور مجھے شہ دیتی رہی۔ میں نے تمہیں کتنی دفعہ بتایا کہ تم مجھے اچھی لگنے لگی ہو ، محبت کرنے لگا ہوں تم سے ۔۔تب تم نے مجھے کیوں نہیں روکا۔” وہ سوال درسوال کرنے لگا۔
” مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ سب ہو جائے گا۔ مجھے لگا تم مذاق میں وہ سب کہتے تھے اور میں نے بھی مذاق میں ہی اُڑا دیا۔میں نے تمہیں صرف فیس بک فرینڈ کے طور پر ٹریٹ کیا اور فرینڈز کے ساتھ یہ سب چلتا رہتا ہے۔” وہ کمزور لہجے میں بولی۔
”فیس بک فرینڈ کیا ہوا۔ کیا اُس کے پیچھے ایک جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا؟ اُس کے کوئی جذبات نہیں ہوتے؟ فیس بک پر ہونے کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہاں ہر کوئی ٹائم پاس کر رہا ہے اور دوسروں کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ کیا فیس بک فرینڈز ڈمی ہوتے ہیں ، کیا اُ ن کو کسی بھی طرح ٹریٹ کیا جا سکتا ہے؟ ” وہ غصے سے بولا۔
”آئم سوری …مجھے میری غلطی کا احساس دلانے کے لیے شکریہ۔ مجھے یہ رئیلائز کروانے کے لیے تھینکس کہ مجھے فیس بک کے نام پر کسی کے جذبات سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ فیس بک پر نہ ہمیشہ دھوکا ملتا ہے اور نہ ہمیشہ وفا۔ دونوں چیزیں ہوسکتی ہیں۔” اُس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
”مجھے اب ان تمام باتوں سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں تمہیں اپنے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلنے دوں گا۔ اگر میں تڑپوں گا، تو چین سے تمہیں بھی نہیں رہنے دوں گا۔ ” وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
” کل رات تو میں خاموش رہا، لیکن تمہیں فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ورنہ میں مزید خاموش نہیں رہوں گا۔ میں تمہارے گھر آ جاؤں گا۔ تمہارے منگیتر سے بھی خود ملوں گا۔سُنا تم نے…” وہ اُسے دھمکا کر بولا۔
”چلتاہوں میں اب ۔” اُس نے اُسے طنز بھرے لہجے میں کہا اور قدم بڑھادیے۔
”موسیٰ …” زویا کے آنسو چھلک پڑے۔
موسیٰ کے دل کو کچھ ہوا۔ جو بھی ہوا تھا کافی جلدی ہوا تھا، لیکن سچ یہی تھا کہ وہ اُسے دل سے چاہنے لگا تھا۔
”اگر مجھے پتا ہوتا کہ ایسی سچویشن ہوجائے گی، تو میں کبھی تم سے بات نہیں کرتی۔ اگر مجھے رتی برابر بھی خیال ہو تا کہ تم میرے لیے سیریس ہو میں تمہیں تب ہی سب بتا دیتی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ آپ اپنی پرسنل باتیںصرف کلوز فرینڈز سے ہی کر سکتے ہیں۔ نہ تم نے مجھ سے پوچھا کہ میں کمٹڈ ہوں یا نہیں نہ ہی میں نے اس کا ذکر کیا۔ کیوں کہ یہ پرائیویٹ بات ہے۔ میں نے تو کبھی اپنی فرینڈز سے بھی اس چیز کو بہت زیاد ہ ڈسکس نہیں کیا۔ ” زویا نے اپنے آنسو پونچھے۔
”تمہیں میرے ساتھ زبردستی کر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں تم سے نہیں معیز سے محبت کرتی ہوں۔ہم دونوں بچپن کے ساتھی ہیں۔ وہ میری پھپھو کا بیٹا ہے۔ اگر یہ رشتہ ٹوٹا، تو بہت کچھ ٹوٹ جائے گا ۔ پلیز یہ سب مت کرو۔ میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتی ہوں۔”اُس نے روتے ہوئے بات مکمل کی۔
”اور کچھ…” موسیٰ نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”تم نے کہا تھا کہ تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے۔ میری عزت کروگے۔ تم نے وعدہ کیا تھا موسیٰ۔ اپنا وعدہ مت توڑو۔ یہ سب مت کر و۔” وہ سسک پڑی۔ اُس کے آخری جملے نے گویا موسیٰ کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔
”وعدہ کرو تو ہمیشہ پورا کرو۔ جو وعدہ توڑتا ہے وہ منافق ہوتا ہے اورتم تو موسیٰ ہو ۔ موسیٰ تو منافق ہو ہی نہیں سکتا۔ ” اُس کی ماں نے ہمیشہ اُ س سے کہا تھا کہ اُسے ہر اُس کام سے بچنا ہے جو اُسے منافق بنا دے۔کیوں کہ اُس کی ساری زندگی منافقوں سے لڑتے ہی گزری تھی۔
”مجھے معاف کر دو پلیز۔” وہ دوبارہ سے کہہ رہی تھی۔
”پلیز اسٹاپ اٹ۔”موسیٰ نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔
” مجھے یا د ہے میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمہیں کو ئی نقصان پہنچاؤں گا، نہ ہی تمہار ی عزت کے لیے خطرہ بنوں گا۔ ” وہ لمحہ بھر کو رُکا۔
”میری ماں نے ہمیشہ مجھ سے یہی وعدہ لیا کہ میں اپنی بات کا اپنے وعدے کا پاس رکھوں کیوں کہ وعدہ توڑنا منافق کی نشانی ہے۔ آج وہ میرے ساتھ نہیں ہیں اس لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں ان کی بات مانوں۔ اسی بات پر میں اپنی ضد چھوڑتا ہوں زویا۔میں اپنا راستہ بدل لیتا ہوں، لیکن تم… ” وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔
”تم یہ سب کسی اور کے ساتھ مت کرنا۔ ہر کوئی موسیٰ بن عالم ہوتا ہے نہ ہی عورت کی عزت کرنے والا اور نہ اپنے وعدے کا پاس رکھنے والا ہوتا ہے۔” اُس نے زویا کے روئے روئے چہرے پر ایک محفوظ نگاہ ڈالی۔
”تم اپنا چہرہ صاف کر لو۔۔”اُ س نے جیب سے ٹشو نکال کر اُس کی جانب بڑھایااور لمبے لمبے ڈگ بھرتا سڑک کی دوسری طرف اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا۔
زویا نے گہرا سانس بھرا اوراپنے ہاتھ میں پکڑے ٹشو کو دیکھا۔ بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ منہ صاف کرتے ہوئے اور پچھلے ایک گھنٹے کی گفتگو بارے میں سوچ کر اُس کا دل ہر چیز سے اُچاٹ ہو گیا تھا۔ اُس نے ایک نظر سامنے اُس کے ڈیپارٹمنٹ کو دیکھا اور آہستگی سے قدم بڑھا دیے۔ اُس کا رُخ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب تھا۔ اسی دوران اُس کو بیگ میں رکھے موبائل کی وائبریشن محسوس ہو ئی۔ اُس نے موبائل نکالا جس پر حسبِ توقع شزا اور نور کی مسڈ کالز اور میسجز تھے۔ وہ یقیناڈیپارٹمنٹ پہنچ چکی تھیں۔ زویا کا دل کیا وہ موبائل یہیں کہیں پھینک جائے۔ اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ جتنی ٹینشن اُسے پچھلے کچھ دنوں میں موبائل سے ملی تھی اُس نے اُس کو اس سے مکمل بیزار کر دیاتھا۔اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اتنے شوق سے انٹرٹینمنٹ کے نام پر خریدا جانے والایہ چھوٹا سا آلہ اُس کے لیے مصیبت کا گھر بن جائے گا۔
٭…٭…٭
”یار شکر ہے خدا کا…جان چھوٹی…گاڈ …کتنی ٹینشن دی اُس نے۔” نور نے باقاعدہ ہاتھ پھیلا کر شکر ادا کیا۔زویا واپس آئی تو شزا اور نور اُسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ وہ خود کو بہتتھکی ہوئی محسوس کر رہی تھی جیسے میلوں لمبا فاصلہ طے کر کے آئی ہو۔ اُسے گرنے کے سے انداز میں بیٹھتے دیکھ کر شزا اور نور نے اُسے فوراً پکڑا۔
”پھر بھی یار وہ اچھا ہی نکلا۔اُس نے زویا کو بلیک میل نہیں کیا۔اس کے پاس ایڈریس نمبر سب کچھ ہے، لیکن وہ اپنی بات کا پاس رکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔” شزا نے آہستگی سے کہا۔
”یہ بات توٹھیک کہی تم نے۔ ورنہ اُس دن وہ معیز بھائی سے بھی تو ملا تھا ریسٹورنٹ میں۔ وہاں بھی اُنہیں بتا سکتا تھا۔ بے شک معیز بھائی بہت اچھے ہیں، زویا کو بچپن سے جانتے ہیں اور یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی، لیکن کہتے تو ہیں کہ مرد کو شک کرتے بھی وقت نہیں لگتا۔ ” نو ر نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”ایسی بھی کوئی بات کیسے نہیں نور؟ یہ تمہیں عام بات لگتی ہے جس نے آلموسٹ میر ی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ” زویا چیخ اُٹھی۔
”میرا مطلب تھا کہ …” نور گڑبڑائی۔
”میں نے بھی اس بات کو عام سمجھ کر یہ سب کر لیا اور مجھے لگا اٹس آل گڈ۔ خیر ہے اس میں ایسی کیا بات ہو گئی لیکن میں غلط تھی۔ مجھ سے غلطی ہو ئی ہے۔ میں اب تک یہ سمجھ رہی تھی کہ موسیٰ اوور ری ایکٹ کر رہا ہے اور جو سوچا ایزیوم کیا اُس کی غلطی ہے میری کو ئی غلطی نہیں۔ بٹ آئی واز رونگ۔ مجھے ماننا پڑے گا۔ میری ہی غلطی تھی۔ میں نے تمام چیزوں کو ہنسی مذاق میں لیا۔ اُس نے ٹھیک کہا کہ ایڈ تو میں نے اُسے اپنی مرضی سے ہی کیا تھا۔پھر تین تین بجے تک بے سروپا چیٹنگ…آپ کسی اور کیپسٹی میں فرینڈز ہوں کزنز ہوں یا کوئی اور رشتہ ہو، تو بات چیت کرنا اتنا آڈ نہیں لگتا، لیکن ایک نئے ر شتے اور تعلق میں باتیں بگھارنا تو کسی کو بھی غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا ہے ۔ اُس نے ٹھیک کہا جب اُ س نے پہلے دن مجھ میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا تب ہی میں نے کیوں نہ بتا دیا کہ میری منگنی ہو چکی ہے۔ اس میں فیس بک کا بھی کیا قصور ہے ۔قصور تو ہماری dealings اور handlingsکا ہے۔ استعمال تو ہم پر منحصر ہے۔ہم ہی خود کو سنبھا ل نہیں پاتے۔ ” زویا روتے ہوئے اپنا غبار نکال رہی تھی۔
” زویا پلیز… ریلیکس ۔۔ it happens…” شزا نے اُس کا کندھا دبایا۔
”لیکن سوچنے کی بات تو ہے کہ تھوڑی سی بھی لبرٹی ملتے ہی ہم آؤٹ آف کنٹرول کیوں ہوجاتے ہیں۔ اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اورکمپلیکسز کے لیے فیس بک کو بلیم کیوں کرتے ہیں ۔ ہم نارمل کیوں نہیں رہ سکتے ہیں اُس کی مصنوعی دنیا فیک بن کر فیک فیلنگز لے کر کیوں نکل پڑتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایکسیپٹ کرتے ہیں کہ سامنے والا بھی ہماری طرح فیک ہی ہوگا۔”زویا نے اپنا چہرہ صاف کیا۔
”ہم سب کے لیے اس میں سبق تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں بغیر کسی نقصان کے بچا لیا۔” نور نے مسکراتے ہوئے زویا کے کندھے کے گرد بازو لپیٹا، تو وہ بھی مسکرادی۔
٭…٭…٭
”موسیٰ آجا بھائی کیا رات یہیں گزارے گا۔ ” ارسلان نے اُسے تیسری دفعہ آواز دی۔ وہ اپنے ہاسٹل روم کے ٹیرس پر بیٹھا آسمان پر نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔ ا س وقت کا اُس کا سب سے پسندید ہ کام زویا سے میسنجر چیٹنگ ہوا کرتا تھا جو اب رہا نہیں تھا۔ وہ عجیب لامتناہی سوچوں کا شکار تھا۔ کبھی اُسے لگتا تھا اُسے زویا کو یوں جانے نہیں دینا چاہیے تھا اور کبھی اُسے خیال آتا کہ اپنے وعدے کا پاس رکھ کراُس نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔
اُسے آج بھی زویا کے ساتھ اپنی پہلی لڈو گیم یاد تھی۔ وہ ہمیشہ ڈسپلے پکچرز کو بہت اہمیت دیتا تھا اور بہت غور سے دیکھا کرتا تھا۔ اُس گیم میں اُس نے سب سے پہلی چیز زویا کی تصویر ہی دیکھی تھی۔ چھوٹی سی تصویر تھی جس میں سب کچھ اپنی جزئیات کے سا تھ موجود تھا۔ پیلے رنگ کے سوٹ میں آئی بی اے کے لان میں کھڑی زویا اُس کو پھول ہی لگی تھی۔ پھر اُس سے بات چیت شروع ہو گئی۔ وہ لڈو پر موجود بہت سارے دوسرے کانٹیسٹنٹس کی طرح چاہتی تھی کہ وہ گیم چھوڑ دے۔ اُس نے گیم چھوڑ بھی دی ۔ گیم چھوڑنے کے بعد پہلا کام اُس نے زویا کو فیس بک پر ڈھونڈنے کا کیا تھا۔ موسیٰ کو اُس کا پروفائل آسانی سے ہی مل گیا تھا۔ اُس تصویر نے اُسے کئی دن مسمرائز کیے رکھا۔اُس نے اُس کا پروفائل اچھی طرح اسٹاک کیا، تو اُسے یہ جاننے میں وقت نہ لگا کہ وہ سوشیالوجی کی اسٹوڈنٹ تھی۔ شزا اور نور اُس کی سب سے بہترین دوستیں تھیں کیوں کہ اُس کے تمام چیک ان انہی کے ساتھ تھے۔ اُ س کے شوق اُس کی دل چسپیاں کافی حد تک وہ جان گیا تھا۔ پھر ایک دن اُس نے اُسے اسلامک سنٹرکے کیفے میں دیکھا تھا۔ ارسلان اُسے زبردستی وہاں لے گیا تھا اور وہ سارا دن یہ جان کر خوش گوار حیرت کا شکار رہا کہ وہ زویا کو دیکھ چکا ہے۔ارسلان کا سیکنڈکزن سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ایڈمن میں تھا۔ اُس نے اُس کے ذریعے زویا کی ساری ڈیٹیلز نکلوا لیں۔ ایک دن یونہی ایس ٹی سی میں پھرتے ہوئے اُسے ایک ٹویٹی بہت اچھا لگا۔ اُسے دیکھ کر پہلا خیال اُسے زویا ہی کا آیا تھا۔ اُس کی فیس بک پوسٹس سے وہ دیکھ چکا تھا کہ اُسے ٹویٹی پسند ہیں۔ نہ جانے کیا سوچ کر اُس نے وہ ٹویٹی زویا کو پوسٹ کر دیا تھا۔پھر اُس سے بات چیت شروع ہو گئی۔ اُس کی حاضر جوابی، برجستگی اور حسِ مزاح سب کمال کا تھا۔ اُسے لگا اُسے زویا سے بات کرنے کی ایڈکشن ہوتی جارہی ہے۔ جس دن اُسے زویا کا جواب نہ آتا، وہ پوری رات بے چینی کا شکار رہتا۔وہ جان گیا تھا کہ اُسے زویا سے محبت ہورہی ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کے دل میں کیا ہے۔ اُس نے زویا کے دل کا حال جاننے کے لیے اُس سے ایسی باتیں کرنی شروع کر دیں، لیکن زویا کچھ بھی کہے بغیر ہنس دیتی، تو اُسے لگا شاید وہ بھی اُس میں انٹرسٹد ہو۔اُس کا خیال تھا شاید لڑکیاں کھل کر بات نہیں کرتیں ایسے ہی گول مول ہاں کر دیتی ہیں۔
”کاش میں اُس سے پوچھ ہی لیتا …” وہ اُداسی سے مسکرایا۔
پھر اُس نے اُسے بتا یا کہ اُس کی شادی ہونے والی ہے اور وہ اُس میں انٹرسٹڈ نہیں ہے جسے وہ اُس کا مذاق ہی سمجھتا رہا۔ یہاں تک کہ اُس نے زویا کو اُس کے فیانسی کے ساتھ دیکھ لیا۔ وہ رات اُس پر بہت بھاری تھی۔ اُس نے سوچا وہ زویا کو اتنی آسانی سے نہیں گنو ا سکتا ۔اُسے اُس سے بات کرنی ہو گی ضد کرنی ہوگی، لیکن وہ کیا کرتا اُس نے واشگاف لفظوں میں اُسے بتا دیا تھا کہ وہ اُس سے محبت کرتی ہے نہ شادی کرنا چاہتی ہے۔ اُس نے اس بات کو بھی اگنور کر دیا، لیکن جب اُس نے ااپنے وعدے کا پاس مانگا، تو وہ اپنی ضد پر قائم نہ رہ پایا۔ وہ وعدہ خلاف کبھی نہیں بننا چاہتا تھا۔پھر واقعی اُسے ملتا بھی کیازویا سے زبردستی کر کے ۔
”یار تم مانو اس بات کو سوشل میڈیانے بہت خراب کیا ہے لڑکوں کو…”ارسلان اندر زور و شور سے بول رہا تھا۔
موسیٰ اُس کی بات سُن کر زخمی دل سے ہنسا۔وہ جان گیا تھا کہ وہ لوگ اُس کی ہی بات کر رہے ہیں۔
”اس میں سوشل میڈیا کا کیا قصور ہے بھائی۔ قصور تو بس میرا تھا جس نے محبت کرنے میں اتنی جلدی دکھائی جتنی لوگ بے وفائی میں نہیں دکھاتے۔ مجھے فیس بک سے کوئی گلہ نہیں ہے بھائی۔ ہوسکتا ہے دوچار دن لگیں اور کسی اور کی ڈی پی اچھی لگ جائے۔”وہ بے اختیا ر ہنستا چلا گیا یہاں تک کہ اُس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرگئیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سوءِ بار — میمونہ صدف

Read Next

فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!