محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

”یہ میں نے کچھ کپڑے نکالے ہیں تمہارے لیے نجمہ اُس کے سامنے زرق برق لباس بکھیرے بیٹھی تھیں۔
”او ہو امی مجھے اتنے بھڑکیلے کپڑے نہیں چاہئیں” اس نے ناگواری سے کہا۔
”چپ کرو تم… کیوں نہیں چاہئیں شادی ہے تمہاری۔” نجمہ نے ڈانٹ دیا۔
”امی آپ… موبائل کی وائبریشن پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ہیلو…” اس نے موبائل کان سے لگایا۔
”السلام علیکم موسیٰ بات کررہا ہوں۔” موسیٰ کی آواز سن کر اُسے گویا کرنٹ لگا۔ اُس نے نجمہ کی طرف دیکھا۔
”میں کب سے تمہیں فیس بک پر میسج کررہا تھا، لیکن تم نے کوئی جواب نہیں دیا، تو سوچا کال کرلوں۔” وہ بے تکلفی سے بولا۔
”اچھا بتاؤ یہ والا کیسا ہے۔” نجمہ نے ایک سوٹ نکال کر سامنے رکھا۔
”اچھا ہے۔” زویا نے جلدی سے کچھ بھی بولے بغیر فون کاٹ دیا۔
”ایسا کرتی ہوں یہ تمہارے لیے نکال لیتی ہوں۔ دینے دلانے کے لیے بھی چاہیے ہوں گے اور تولانے پڑیں گے۔” نجمہ خود سے ہی بڑبڑا رہی تھیں۔ زویا نے موبائل سائیڈ پر رکھا ہی تھا کہ پھر سے وائبریٹ کرنے لگا۔ اُس نے دو تین دفعہ کال کاٹی۔
”کس کا فون ہے؟” نجمہ بھی بیزار ہوئیں۔
”پتا نہیں کوئی رانگ نمبر ہے شاید اُس نے جلدی سے فون آف کردیا۔
٭…٭…٭





”ہائے آئم سو ایکسائیٹڈ تیری شادی ہے زویا۔ اتنے عرصے بعد نئے کپڑوں بناؤں گی۔” شزا زویا پر صدقے واری جاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں تو زویا کی مہندی پر خاص آئٹم نمبر کروں گی۔” نور نے اعلان کیا۔
”کیا…” دونوں نے چیخ کر اُسے دیکھا۔
”کیا…؟ گندی سوچ والی عورتو! ویسا آئٹم نمبر نہیں کہہ رہی۔” نور نے فوراً اسے گھورا۔
”نور تم رہنے دو… یہ فضول کی چیزیں۔”
”ایکسکیوزمی…” زویا کی بات ادھوری ہی رہ گئی تھی۔
”زویا کیا ہم بات کرسکتے ہیں۔” موسیٰ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم… کیا ہوا زویا… یہ تو وہ اس دن۔” نور اور شزا نے ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔” زویا نے دانت پیسے۔
”ٹھیک ہے پھر میں بھی یہیں بیٹھتا ہوں۔” موسیٰ نے دھمکا کر کہا۔
”اچھی زبردستی ہے۔” شزا بڑبڑائی۔
زویا جھٹکے سے اٹھی اور دوسرے لان کی طرف چلی گئی۔
موسیٰ نے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے جلد ہی اسے جا لیا۔
”کیا تکلیف ہے تمہیں۔” زویا پھنکاری۔
”تم میرے ساتھ ایسا کیوں کررہی ہو۔” اس نے سوال کیا۔
”کیسا…؟”
”تم نہ مجھ سے FBپر بات کررہی ہو نہ میرا فون اٹھا رہی ہو، اگر تم مجھ سے ناراض ہو تو بتاؤ۔” وہ بے بسی سے بولا۔
”دیکھو یہ کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے۔ اتنے لمبے چوڑے چکروں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف FB فرینڈز ہیں۔ وہ بھی زبردستی کے… اس لیے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں۔” زویا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
ہم صرف FBفرینڈز نہیں ہیں۔” موسیٰ چیخ اُٹھا۔
”محبت کرتا ہوں میں تم سے، شادی کرنا چاہتا ہوں۔ کیا ابھی تک تمہیں یہ بات سمجھ نہیں آئی۔” وہ پھٹ پڑا۔
”تم…”
”تمہیں کیا لگتا ہے میں یونہی ہر FBفرینڈ کے پیچھے جاتا ہوں، اسے سٹاک کرتا ہوں؟ زویا تم مجھے اچھی لگتی ہو میں تمہیں پسند کرتا ہوں، اسی لیے تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔” وہ مزید بولا۔
”اپنی بکواس بند کرو تم، دو دن میں تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی؟ اور ہو بھی گئی تو میں کیا کروں؟” زویا نے دبی آواز میں کہا۔
”محبت ہونے کے لیے سال نہیں لگتے۔ ہونی ہوتی ہے، تو ہو جاتی ہے۔”
”تو میں کیا کروں؟ میں تم سے محبت نہیں کرتی۔ میری منگنی پہلے سے ہوچکی ہے اور شادی بھی ہونے والی ہے۔” بالآخر اُس نے یہ بم بھی پھوڑ دیا۔
”واٹ… جھوٹ مت بولو… یہ سب تم مجھ سے جان چھڑانے کے لیے کہہ رہی ہو نا۔” موسیٰ نے شاکڈ ہوکر کہا۔
”نہیں یہ سب سچ ہے۔” زویا نے زور دیا۔
”دیکھو تم مجھ سے اس طرح کی باتیں مت کرو۔ اگر تم مجھ سے ناراض ہو تو مجھ سے بات کرو کیا وجہ ہے کہ تم…”
”افوہ! تم انسان ہو کہ لیجڑ پنے کے شاہکار۔ تمہیں میری کوئی بات سمجھ آتی ہے کہ نہیں۔” زویا نے سر پیٹا۔
”زویا مجھے تنگ مت کرو تم۔” موسیٰ نے انگلی اٹھا کر خبردار کرتے ہوئے کہا۔
”تم جاؤ یہاں سے۔ یہ میرا ڈیپارٹمنٹ ہے ٹائم زیادہ ہورہا ہے۔ میری کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے اور ابھی سب لوگ یہاں آجائیں گے۔” شزا نور کے اشارہ کرنے پر زویا نے بات ختم کرنی چاہی۔
”میں بھی نہیں چاہتا کہ کوئی سین کری ایٹ ہو یا تمہارے ساتھ کوئی مسئلہ ہو، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ…”
”موسیٰ تم جاؤ۔” زویا نے اس کی بات کاٹی۔
”پھر تم میرا فون اٹھاؤ گی۔” اس نے شرط رکھی۔
”ہاں، ہم فون پر بات کرتے ہیں۔” زویا نے اپنی کلاس کے ایک گروپ کو آتے دیکھ کر جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے میں جاتا ہوں۔” وہ مڑ گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
٭…٭…٭
اوہ گاڈ تو ہماری ناک کے نیچے یہ سب چلتا رہا۔” شزا نے آنکھیں مٹکائیں۔
”بکواس مت کرو۔ میں نے تو اسے صرف ایک FBفرینڈ ہی سمجھا اور وہ ہے کہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسا چلا آرہا ہے۔” زویا نے جھنجھلا کر کہا۔
”لیکن تمہیں ہم لوگوں کو پہلے کیوں نہ بتایا۔” نور نے بھی شکوہ کیا۔
”پاگل ہو تم دونوں بتایا، تو ہے میں نے اسے کبھی سیریس لیا ہی نہیں تو بتانا کیا تھا۔ زویا جھنجھلا اٹھی۔
”لیکن اب کیا ہوگا زویا۔ اسے گھر کا ایڈریس تک پتا ہے اور جو تین ہفتوں میں تمہاری شادی ہے۔” شزا نے اسے دیکھا۔
”اب مجھے بھی ٹینشن ہورہی ہے۔” زویا نے انگلیاں مروڑیں۔
”کیا تم نے کبھی اس سے محبت بھری باتیں کیں یا…”
”ڈونٹ بی اسٹوپڈ۔”
“you know i am happily engaed.”زویا نے اسے جھڑکا۔
”لیکن ایسی کیا بات تھی جس نے اس کو اتنی شہ دی کہ وہ محبت کا اظہار کرنے لگا اور تم سے بھی یہی ایکسپیکٹ کررہا ہے۔” نور نے اپنی سوچ کا اظہار کیا۔
بس مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے اس کو ایسی بے سریا باتوں پر suub نہیں کیا جس سے شاید اس کو لگا کہ میں بھی اس میں انٹرسٹڈ ہوں۔” زویا کا لہجہ پرسوچ تھا۔
”ہاں شدید… مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔” شزا نے سر ہلایا۔
”لیکن ایسے کہاں ہوتا ہے یار۔”
واٹ نان سینس کوئی آپ سے ہنس کر بات کرے، تو آپ کا شادی کا پروپوزل لے کر آجاتے ہیں۔” زویا جھنجھلائی۔
”ہمارا ایسی ہی سیٹ اپ ہے سویٹ ہارٹ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں لڑکوں سے بات کرتے ہوئے خاص دھیان ہونا چاہیے کہ کوئی غلط مطلب نہ لے لے اور پھر جب ہم لکھ کر بات کررہے ہوتے ہیں تو بہت سی باتیں غلط conveyہو جاتی ہیں۔” نور نے مزید خیال آرائی کی۔
”I know لیکن میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات ایسے ہو جائیں گے۔” زویا نے پریشانی سے کہا۔
”تم گھبراؤ مت ہینڈل کرلیں گے۔ بتایا ہے نا آج اسے تم نے کہ تم انگیجڈ ہو۔ سمجھ جائے گا۔” شزا نے تسلی دی۔
”مجھے نہیں لگتا وہ سمجھے گا۔” نور نے کہا، تو دونوں نے اسے چونک کر دیکھا۔
”اور مجھے لگتا ہے زویا…” اس نے رک کر زویا کے پریشان چہرے کو دیکھا۔
”کیا…” سوال زویا کے منہ سے سرسراتا ہوا نکلا تھا۔
”مجھے لگتا ہے تم سے ایک سنگین غلطی ہوچکی ہے۔ موسیٰ بن عالم کے نام پر… وہ بھی ایسے حالات میں جب تمہاری شادی سر پر ہے۔” نور نے رک رک کر کہا، تو زویا نے ہاتھ گود میں یوں گرا لیے جیسے سمجھ نہ آرہا ہوں کہ اب کیا ہوگا۔
٭…٭…٭
زویا گھر آکر بغیر کسی سے بات کیے منہ سر لپیٹ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ موسیٰ نام کی مصیبت سے کیسے نمٹے۔ نجمہ گھر پر نہیں تھیں ورنہ اب تک اس کی یوں بغیر کپڑے بدلے سستی سے لیٹے رہنے پر کلاس لے چکی ہوتیں۔
زویا نے چادر تان لی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ اسی دوران اس کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے ایک دم ڈر کر موبائل کو دیکھا اور اس کا ڈر گویا سچا ہوکر موسیٰ کے نام سے موبائل اسکرین پر چمک رہا تھا۔
”اُف… مجھے اس سے بات نہیں کرنی۔” وہ چیخ پڑی۔
اس نے فون کاٹ دیا۔ اگلے ہی لمحے میسج کی بیپ بجی۔
”یہ غلط بات ہے زویا تم نے کہا تھا تم مجھ سے فون پر بات کرو گی۔” موسیٰ کا میسج تھا۔
زویا پریشانی میں ناخن چبانے لگی، جب کچھ سمجھ نہ آیا، تو اس نے موبائل آف کردیا اور زبردستی آنکھیں میچ لیں۔
٭…٭…٭
اُف معیز تمہیں ابھی بھی یاد ہے۔” زویا نے ہنستے ہوئے سر اُٹھایا، تو ساکت رہ گئی۔ سامنے والی ٹیبل پر موسیٰ بن عالم براجمان تھا اور وہ زویا کو ہی دیکھ رہا تھا۔ زویا اور معیز ڈنر کے لیے نکلے تھے۔ معیز اسے زبردستی لے کر آیا تھا۔ زویا کا آنے سے پہلے تو موڈ نہیں بن رہا تھا، لیکن وہ اب کافی فریش محسوس کررہی تھی جب تک اس نے موسیٰ کو نہ دیکھ لیا۔
”میں کیسے بھول سکتا ہوں ایسی باتیں کوئی بھولتا ہے کبھی۔” معیز نے خوش گوار لہجے میں اسنیک کھاتے ہوئے کہا۔
”اوہ مائی گاڈ…” زویا ہلکے سے بڑبڑائی۔
اسنیک از رئیلی گڈ یار۔” معیز نے رغبت سے کھاتے ہوئے تعریف کی۔
”ہاں… یہاں کی اسنیک اچھی ہوتی ہیں۔” زویا نے تعریفی انداز میں کہا۔
”تمہاری فرینڈز کیا کیا پلین ہے۔” معیز نے مزید پوچھا۔ اس کی اسنیک تقریباً ختم ہوچکی تھیں۔
زویا نے دوبارہ نگاہ اٹھائی تو موسیٰ کو وہیں پایا۔ وہ نہایت سرد نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چھپی دھمکی وہ صاف محسوس کرسکتی تھی۔
اس نے موبائل اٹھایا۔
”پلیز جاؤ یہاں سے۔” اس نے پہلی دفعہ اسے خود میسج کیا۔
”نہیں جاؤں گا۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔ تمہاری یہی سزا ہے زویا۔” فوراً جواب آیا تھا۔
”چلیں…” معیز نے اس سے پوچھا۔
”ہاں پلیز…” وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ارے بیٹھو بل تو دینے دو۔” معیز نے حیرت سے کہا۔
”اوہ سوری…” وہ دوبارہ بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا تمہاری طبیعت ٹھیک ہے۔” معیز نے فکرمند ہوکر پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں بس تھکن یو نو… صبح سے یونیورسٹی اور پھر…” اس نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا۔
”ہاں آئی کین انڈرسٹینڈ۔” اس نے ویٹر کو بل کا اشارہ کیا۔ معیز کے بل ادا کرنے تک زویا نے نہ سامنے والی میز کی طرف دیکھا اور نہ ہی موبائل کی طرف۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔
”اوکے لیٹس گو۔” معیز نے کہا، تو وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ٹیبل چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
”ایکسکیوز می…” زویا نے زور سے آنکھیں میچ لیں وہ یہ آواز بہ خوبی پہچان گئی تھی۔
”یس …”صرف معیز پلٹا تھا۔ زویا ہمت جتاتی رہ گئی۔
”آپ کا یہ موبائل شاید ٹیبل پرچھوٹ گیا تھا۔” موسیٰ کے ہاتھ میں زویا کا موبائل تھا۔
”اوہ یہ تو تمہاراسیل ہے زویا۔” معیز نے فوراً اُسے کہا۔
”اوہ ہاں… میں شاید اُٹھانا بھول گئی۔” بالآخر زویا کو مڑنا بھی پڑا اور بات بھی کرنی پڑی۔ اُس نے موسیٰ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔
”پلیز…” موسیٰ نے موبائل اُس کی طرف بڑھا دیا۔ اُس کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے اُس کی آنکھیں موسیٰ کی کلائی پر بندھی گھڑی پر جم کر رہ گئیں۔
”تھینکس مین ۔” معیز نے موسیٰ سے ہاتھ ملاتے ہوئے اُس کا کندھا تھپتھپایا۔
”مائی پلیثر ” موسیٰ نے بھاری آواز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
زویا نے فون لیتے ہی باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
”کمبخت ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ لوگوں کی چیزوں کا دھیان رکھ کر اُنہیں پیچھے جا جا کر چیزیں دینے کا اسے بہت شوق ہے لیچڑ انسان۔” اُس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔
”زویا ! تم اُس کا شکریہ تو ادا کر دیتیں یار۔ ” معیز اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
”تم نے کر دیا نا کافی ہے۔” اُس نے نروٹھے پن سے کہا۔
”کم آن… ” معیز کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو۔ وہ دونوں پارکنگ لاٹ میں پہنچ چکے تھے۔ معیز نے گاڑی کا لاک کھولا اور زویا اپنی سوچوں میں گم گاڑی میں بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سوءِ بار — میمونہ صدف

Read Next

فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!