محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

”السلام علیکم…” وہ ابھی ابھی یونیورسٹی سے واپس آئی تھی۔ نجمہ نہ جانے کہاں تھیں۔ وہ ڈسپنسر سے گلاس میں پانی لے کر مٹر ہی رہی تھی کہ اِس آواز پر ساکت رہ گئی۔
”معیز…” وہ بے اختیار مسکرا اُٹھی۔ سامنے ہی وہ کچن کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ بلیک جینز پر اس نے ٹی شرٹ پہنی تھی۔ بال بڑھے ہوئے تھے جو اس پر سوٹ بھی کررہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی سُرخی ہمیشہ کی طرح آج بھی تھی اور وہ کافی فریش لگ رہا تھا۔
”کیسی ہو…” وہ مسکرایا۔
”تم سے مطلب… تم نے تو کبھی فون کیا نا حال پوچھا۔”
زویا کو فوراً یاد آیا کہ وہ اُس سے ناراض تھی۔
”تم نے مجھے اپنا نمبر نہیں دیا تھا۔” وہ ہنس کر بولا۔
”جھوٹے میں نے تمہیں فیس بک پر ریکویسٹ بھیجی اور تم نے منع کردیا۔” وہ صدمے سے چیخ ہی پڑی۔
”آرام سے… آرام سے…” وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔
بس میرے پاس عجیب عجیب لوگ ایڈڈ تھے اس وقت مجھے تمہیں ایڈ کرنا مناسب نہیں لگا۔ بس اب جلد ہی صفائی کرتا ہوں پھر سب سے پہلے تمہیں ہی ایڈ کروں گا۔” اُس نے تفصیلاً جواب دیا۔
”مہربانی…” زویا نے منہ بنایا۔
”چلو لاؤنج میں چلتے ہیں۔ امی کو پتا چل گیا کہ میں نے تمہیں کھڑا کر رکھا ہے، تو پھڑکا دیں گی” وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”اب ایسی بھی بات نہیں ممانی جان بہت اچھی ہیں۔” اس نے نجمہ کی حمایت کی۔ وہ دونوں چلتے ہوئے ٹی وی لاؤنج میں آگئے۔
”تمہاری یونیورسٹی کیسی جارہی ہے” وہ صوفے پر بیٹھا۔
”اچھی جارہی ہے… تھرڈ سمیسٹر کے فائنلز ہونے والے ہیں۔ آج کل بس اسائمنٹس اور پریزنٹیشن۔” اُس نے تفصیل سے بتایا۔
”آہاہ… پھر ایک سمیسٹر رہ جائے گا۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں…” وہ اس کے پر سوچ انداز کو سمجھ گئی۔”
”اور وہ تمہاری عقل سے پیدل دوستیں کیسی ہیں۔” معیز نے شرارتاً پوچھا۔
”آرام سے بیٹھو…” اس نے اُسے گھورا۔
”وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں نے تو انہیں تمہارے آنے کا کچھ بتایا ہی نہیں تھا۔ ورنہ وہ فوراً تم سے ملنے کو بے تاب ہو جائیں گی” وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”ہاں تو ٹھیک ہے کہیں باہر چلیں گے۔” سفیر نے فوراً plans کیا۔
”yes… گڈ آئیڈیا…” اس نے ہاں میں ہاں ملائی۔
”چلو میں نکلتا ہوں۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
”دیکھو ممانی جان کہاں ہیں۔” اس نے اپنا موبائل پکڑا۔
”میں بلاتی ہوں انہیں۔” زویا کچن کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭





”زویا یہ موسیٰ بن عالم کون ہے۔” شزا کو نوٹس اتارتے ہوئے اچانک یاد آیا۔
”موسیٰ… کون۔” زویا گڑبڑا گئی۔
”اس نے کل میرا کومنٹ لائیک کیا تھا۔” شزا نے فوراً جواب دیا۔
”میرا کومنٹ تو نہیں لائیک کیا کسی موسیٰ نے۔” نور نے فوراً شکوہ تھا۔
”چلو…” شزا اس کے شکوے پر بھنا اُٹھی۔
”اچھا ہاں… وہ لڈو اسٹار میں تھا۔ پھر اس نے مجھے FB پر ایڈکرلیا۔ زویا نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”میں نے اس کو اسٹاک کیا تھا۔ یونیورسٹی میں ہی ہے۔ شزا نے پرجوش ہوکر اُسے بتایا۔
”تو…” زویا نے اُسے گھورا، تو وہ خاموش ہوگئی۔
مجھے کیوں نہیں بتایا میں بھی اسٹاک کر لیتی نور نے ایک اور شکوہ کیا۔
”تم دونوں میری بات سنو۔” زویا نے دونوں کو چپ کروایا۔
”معیز راز بیک۔” اس نے نیوز بریک کی۔
”واٹ… رئیلی… کمینی پہلے کیوں نہیں بتایا۔” وہ دونوں اُس پر پل پڑیں۔
”اُفوہ مجھے خود ایک دن پہلے پتا چلا” زویا نے پیچھا چھڑایا۔
”یعنی اب ڈھولکی بجنے والی ہے۔” شزا نے پر جوش ہوکر کہا۔
”شاید… زویا نے آنکھیں گھمائیں۔
”اوہ مائی گاڈ…” نور چیخی۔
”لیکن میں نے امی کو کہا ہے کہ لاسٹ سمیسٹر پورا ہولینے دیں۔ اب پھپھو بتائیں گی۔ ابھی معیز سے امی کی بات نہیں ہوئی۔ اس نے واپس جانا ہے اور وہ کہہ رہا تھا۔
”سارے پیپرز جتنی جلدی ریڈی ہوجائیں بہتر ہوجائے گا۔” زویا نے تفصیل سے بتایا۔
”مطلب تو باہر چلی جائے گی۔” شزا نے اداسی سے پوچھا۔
”ارے نہیں باگل ابھی اتنی جلدی نہیں۔” زویا ہنسی۔
”ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو…” نور نے ساتھ ہی نوٹ بک پر ہاتھ مارنے شروع کردیے۔
”اپنا منہ بند کرو اور خبردار ابھی کسی کو مت بتانا زویا نے دونوں کو گھور کر خبردار کیا۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ ہر وقت اماں نہ بنتی رہا کرو۔”
نور نے اُسے جواباً گھور کر کہا۔
٭…٭…٭
”کیسا رہا دن۔” زویا اپنی اسائمنٹ مکمل کرکے بیڈ پر لیٹی ہی تھی کہ موبائل اسکرین چمکی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھایا۔
”اوہ معیز صاحب…” وہ مسکرائی۔
”آج آپ کو کیسے خیال آگیا۔” اس نے طنزیہ لکھا۔
”کیا کریں اب آپ کا ہی تو خیال کرنا ہے۔” وہ بھی شوخ ہوا۔
”افسوس تو نہیں ہورہا۔” اُس نے اسے تنگ کرنے کا سوچا۔
”وہ تو ہر وقت ہوتا ہے، لیکن اب کیا ہوسکتا ہے۔” وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔
”معیز کے بچے…” وہ چیخ ہی پڑی تھی۔
”وہ تو ابھی ہوں گے نا…” اس نے ہنس کر کہا۔
ابھی وہ جواب لکھ رہی تھی کہ میسجز پر موسیٰ کی کال آنی شروع ہوگئی۔
”کیا مصیبت ہے۔” وہ جھنجھلا گئی۔
یہ مجھے آج کال کیوں کررہا ہے۔” اس نے غصے سے موبائل دیکھا۔
کال ختم ہوگئی تھی پھر میسج آیا۔
”کہاں ہو؟ آن لائن ہوکر بھی نو ریپلائی۔” موسیٰ نے فوراً میسج کیا۔
”اوہ تو یہ اِس لیے کال کررہا تھا کہ میں جواب کیوں نہیں دے رہی۔ عجیب مصیبت ہے۔ کوئی اِتنا لیچڑ بھی نہ ہو۔” وہ اُسے کوسنے لگی۔ پھر اُس نے چپکے سے میسج کھولے بغیر میسنجر پر اسٹیٹس آف لائن کردیا اور معیز سے Chatting کرنے لگی۔
٭…٭…٭
”آج آپ کی سہیلیاں نظر نہیں آرہیں۔” زویا تیزی سے چلتی ہوئی اِسلامک سنٹر کی طرف جارہی تھی۔ شزا آج آئی نہیں تھی اور نور جلدی چلی گئی تھی۔ اس لیے وہ اکیلی ہی پوائنٹ کے لیے اِسلامک سنٹر جارہی تھی۔ ”تم…” زویا ٹھٹک کر رُکی اور پلٹ کر دیکھا۔
”آج کس کا والٹ لائے ہو۔” زویا نے اسے گھورا۔
”آج تو تم سے ملنے آیا ہوں۔” وہ بے تکلفی سے بولا زویا نے رُک کر اُسے گھور کر دیکھا۔
”موسیٰ بن عالم…” اُس نے ہاتھ ایسے آگے بڑھایا جیسے وہ فوراً ہاتھ ملا ہی لے گی۔
”تم… موسیٰ… مطلب…” زویا چکرا کر رہ گئی۔
”ہاں میں… موسیٰ… مطلب…” وہ اس کی نقل کرنے لگا۔
”تم جانتی ہو کہ ہم ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، تو اِتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔” وہ نرمی سے مسکرایا۔
”تم مجھے اسٹاک کررہے تھے؟ میری جاسوسی کررہے تھے۔” زویا کو غصہ آنے لگا۔
”بس تمہارا پروفائل سٹاک کیا تھا۔ تمہیں ایڈ کرنے سے پہلے وہیں سے پتا چلا کہ تم سوشیالوجی پڑھ رہی ہو اور تمہارے شوق اور تمہاری دوستیں… مل تو تم اچانک گئیں۔ یاد ہے اُس دن اِسلامک سنٹر میں جب تم تینوں میں چیخنے کا مقابلہ ہورہا تھا، تو پچھلی ٹیبل پر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور…
”اور باتیں سن رہا تھا…؟” زویا نے خفگی سے کہا۔
”اب اتنی اونچی آواز میں بولو گی تو سننا پڑے گا۔” وہ ہنسا۔
”تم اپنی حرکتیں بند کرو اور جاؤ یہاں سے زویا نے سامنے سے پوائنٹ آتا دیکھا، تو قدم آگے بڑھائے۔
”اچھا سوری… تم سے اتنے دِن سے ٹھیک سے بات نہیں ہو پائی تو میں اُداس ہورہا تھا۔” اس نے بے چارگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جس نے زویا کو ٹھٹکنے پر مجبور کردیا۔ اس نے نگاہیں اُٹھائیں اور اس کے چہرے کو دیکھا۔ موسیٰ کے چہرے پر دو چیزیں بے حد نمایاں تھیں اس کی ہلکی سی مسکان اور ایک عجیب سی نرمی اور حلاوت۔ زویا نے بے اختیار نگاہیں جھکالیں۔
”مجھے جانا ہے” اس نے تیزی سے قدم بڑھائے۔
”کل ملیں…؟ مین لائبریری کے سامنے… شارپ 9AM” وہ اسے جاتا دیکھ کر آگے بڑھا اور تیزی سے بولا۔
”اِس سے پہلے کہ تم کوئی بہانہ بناؤ میں جانتا ہوں تم پوائنٹ میں آئی ہو اور تمہاری دونوں دوستیں بعد میں آئی ہیں۔” وہ اُسے بولتا دیکھ کر بولا۔ زویا نے اُسے بری طرح گھورا۔
”تمہیں شرم نہیں آتی لوگوں کے آنے جانے کا حساب رکھتے ہوئے۔”
”اچھا سوری اُس نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔
”بائے” وہ اونچا سا بول کر آگے بڑھ گئی۔ موسیٰ مسکراتے ہوئے اُسے جاتا دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
”ماشاء اللہ کیسی ہے میری بیٹی۔” پھپھو نے زویا کا چہرہ چومتے ہوئے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں پھپھو آپ کیسی ہیں۔” اُس نے اُنہیں بیڈ پر بٹھایا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں بس سوچا کہ اب اپنی بیٹی کو گھر لے ہی جاؤں۔” وہ شرارت سے بولیں۔ زویا جھینپ گئی۔
”نجمہ نے مجھے بتایا کہ تم پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہو، لیکن معیز کو کافی جلدی ہے۔ اُسے اب ہم لوگ اچھے نہیں لگتے۔ اسے اپنی زندگی میں تبدیلی چاہیے۔” انہوں نے اسے مزید تنگ کیا۔
”پھپھو آپ بھی نا… پلیز” وہ ان کا ہاتھ دبا کر بولی۔
”تم فکر مت کرو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اِن شا اللہ شادی کے بعد بھی تمہارا سمیسٹر آرام سے ہوجائے گا۔” وہ ہنستے ہوئے بولیں۔
”ٹھیک ہے پھپھو جیسے آپ لوگوں کو مناسب لگے۔” وہ آہستگی سے بولی۔
”بس تین ہفتے تک کی ڈیٹ فکس کرلیتے ہیں۔ تب تک تمہارے پیپر بھی ہوجائیں گے۔ نجمہ نے بتایا کہ تمہارے فائنل ہونے والے ہیں۔” وہ مزید بولیں۔
”جی پھپھو منڈے سے اسٹارٹ ہوجائیں گے۔” اس نے جواب دیا۔
”چلو آج تاریخ فائنل ہو تو کچھ تیاری بھی شروع کریں گے۔ تم پیپر دے لو پھر تمہیں ساتھ لے جا کر جو چیزیں لینی ہوں گی لے لیں گے۔” وہ رسانیت سے بولیں۔
”یہ تمہاری چھوٹی پھپھو اور چاچو کہاں رہ گئے۔” انہوں نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ زویا خاموش رہی۔ آج اس کی شادی کی ڈیٹ فکسنگ کی چھوٹی سی رسم تھی جس میں بڑوں نے آنا تھا۔
٭…٭…٭
”زویا…” وہ صبح پوائنٹ سے اُتری ہی تھی کہ موسیٰ اس کی طرف بھاگت ہوا آیا۔
”تم…” زویا کو جی بھر کر کوفت ہوئی۔
”میں کل تمہارا اِنتظار ہی کرتا رہا اور تم آئی نہیں۔” اُس نے شکوہ کیا۔
”میں مصروف تھی۔” اس نے مختصراً کہا۔
”ایسی کون سی مصروفیت تھی۔” اس نے دل چسپی لی۔
”تم سے مطلب؟ اپنا کام کرو۔” زویا نے روکھے پن سے کہا۔
”اب تو سارے مطلب مجھ سے ہی ہونے چاہئیں تمہیں۔” وہ شوخ ہوکر بولا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔” وہ اِس کی زبردستی کے رومانس پر بھنا اُٹھی۔
”تم سے ملنے سے پہلے تک تو ٹھیک تھا۔” وہ مسکرایا۔
”میرا خیال ہے تمہیں لوگوں کی جاسوسیاں کرنے اور ان کا پیچھا کرنے کے بجائے اپنی پڑھائی پر دھیان دینا چاہیے۔” وہ سنجیدگی سے بولی۔
”مائنڈ اِٹ… میں صرف تمہارے پیچھے ہوں لوگوں کے نہیں۔ اِس بات پر مجھے غصہ بھی آسکتا ہے۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”تو…” As if …
As if تمہیں میرے غصے کی پروا کرنی ہی چاہیے۔ اس نے زویا کی بات کاٹی۔
”تمہارا مسئلہ کیا ہے۔” وہ رُک کر چیخ کر بولی۔
”اور تمہارا کیا مسئلہ ہے! تم سے چیخے بغیر کوئی بات نہیں ہوتی۔
”دیکھو تم یہ ٹائم پاس بند کرو۔ کوئی فائدہ نہیں ہونے والا وہ سختی سے بولی۔
”تھینکس… لو تمہارا ڈیپارٹمنٹ آگیا۔” وہ بلڈنگ کی طرف اِشارہ کرکے بولا۔
”سنو… کیا میں تمہیں فون کال یا میسج کرلیا کروں۔” اس نے نئی فرمائش کی۔
”واٹ…؟ تمہارے پاس میرا نمبر…؟” زویا نے گھبرا کر پوچھا۔
”تم بہت انوسینٹ ہو یار اور کیوٹ تو ظاہر ہے ہمیشہ کی۔
”جب میرے پاس تمہارا ایڈریس ہوسکتا ہے تو نمبر کیسے نہیں ۔” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”تم ایک نمبر کے لیچڑ انسان ہو۔ آخر تمہیں یہ سب ڈیٹیلز دیے کس نے۔” وہ غصے سے بولی۔
”وہ کانفیڈنشنل ہے۔” وہ فوراً بولا۔
”گوٹو ہیل” وہ غصے میں تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سوءِ بار — میمونہ صدف

Read Next

فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!