محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

”آج کتابوں کا خیال کیسے آگیا میری بیٹی کو۔” زویا پلنگ پر نوٹس اور بکس پھیلائے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی جب نجمہ کی آواز پر اس نے سر اٹھایا۔ نجمہ ہاتھ میں چائے کا کپ لیے بولی۔
”امی… بس کردیں آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے میں نے پہلی دفعہ کتاب کھولی ہے۔” وہ چڑ کر بولی۔
”میں نے تو شاذو نادر ہی دیکھا تمہیں کتاب پکڑے ورنہ تو منحوس موبائل ہوتا ہے اور تم ہوتی ہو۔” نجمہ نے طنز کیا۔
”اس پر بھی میں پڑھ ہی رہی ہوتی ہوں۔ سارا ڈیٹا تو وہیں سے ملتا ہے۔ slidsبھی واٹس ایپ گروپ میں آتی ہیں۔ آپ کو تو بس یہی لگتا ہے جیسے میں فارغ بیٹھی ہوں۔ زویا نے غصے سے ناک چڑھایا۔
”ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی یہ موبائلوں والی پڑھائی کون سی ہوتی ہے۔ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یہ نیا کام شروع ہوگیا۔” نجمہ نے بھنا کر کہا۔
”لو پکڑو چائے۔” انہوں نے کپ سائیڈ ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھا۔
”بہت شکریہ… اتنا غصہ کیوں آرہا ہے آپ کو۔” اس نے نوٹس ایک طرف رکھے۔
”سارا دن لگی رہتی ہوں۔ بجائے ماں کا خیال کرنے کے چائے کی فرمائش کرکے آتے تمہیں شرم نہ آئی۔ انہوں نے غصے کی وجہ بتائی۔
”روز خود ہی تو بناتی ہوں، آج کام زیادہ تھا۔” وہ منمنائی۔
”اُنہہ وہ کھڑکی کے پردے برابر کرتیں باہر نکل گئیں۔ زویا نے گہرا سانس لیا، بال پوائنٹ نوٹ بک پر رکھا اور انگلیاں سیدھی کرنے لگی۔ چائے کا کپ اٹھاتے ہی اس نے موبائل بھی اٹھا لیا۔
”فرینڈ ریکویسٹ… یہ کون ہے۔” اس نے ہوم اسکرین پر فرینڈ ریکویسٹ کا نوٹیفکیشن دیکھتے ہی اسکرین ان لاک اور فیس بک کھولی۔
”موسیٰ بن عالم… یہ کون ہے یہ کیا نام ہوا۔” اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔ اس نے اس کے پروفائل پر کلک کیا اور اس کی پوسٹس اور کومنٹس دیکھنے لگی۔ ابھی وہ اس کی پوسٹس دیکھ ہی رہی تھی کہ اس کے موبائل پر لڈو اسٹار سے گیم کا انوی ٹیشن آنے لگا۔
”میری اسائنمنٹ نہیں بنی اور ان دونوں کو لڈو کی پڑی ہے۔” وہ نوٹیفکیشن پر نام دیکھے بغیر تپی اور پروفائل چھاننے لگی۔
”کیا مصیبت ہے۔” موبائل اسکرین پر تھرکتی اس کی انگلیاں بار بار آتے ہوئے لڈو کے نوٹیفکیشن کو چھو بھی رہی تھیں اور اس کے سامنے کھیل کا میدان سج گیا تھا۔
”کیسی ہو؟” پہلی باری کے ساتھ ہی میسج آیا تھا۔
”ڈیم… ” زویا نے نام دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ کنگ تھا جو اسے بار بار انوائٹ کررہا تھا۔
”اس کو ڈیلیٹ کرنا کیسے بھول گئی میں۔” اسے جی بھر کر کوفت ہوئی۔
”کہاں ہو…” فوراً دوسرا میسج آیا۔
”کیا مسئلہ ہے؟” زویا نے خشک جواب دیا۔





”کیا بات ہے، لڑو مت آج بھی گیم چھوڑ دوں گا، آج تو میں نے دس ملین کی لگائی ہے۔” اس نے اسے گیم چھوڑنے کا لالچ دیا۔
”میرا آج کھیلنے کا موڈ ہے نہ میرے پاس ٹائم ہے تھینکس۔” زویا نے جواب دیا۔
”بڑی بے مروت ہو۔” اس نے فوراً شکوہ کیا۔
”بے مروتی کی کیا بات ہے۔” زویا نے غصے سے لکھا۔
”دس ملین دے رہا ہوں تمہیں۔” اس نے فوراً جواب دیا۔
”کون سا اصل میں ہی دے رہے ہو۔ آج تو مجھے تمہارے گیم چھوڑنے کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ پیسوں کا میں نے کیا کرنا ہے۔ جب میرا رینک ہی نہیں بڑھے گا لیگ میں۔” زویا نے منہ بنایا۔
اگر کوئی فرینڈ یا گیم بڑی گیم ہارتا ہے، تو جیتنے والے کو پیسے ضرور ملتے ہیں، لیکن گیم میں اس کا رینک نہیں بڑھتا تھا۔
”ہر چیز فائدہ اور نقصان سوچ کر تو نہیں کی جاتی نا۔” اس نے فوراً کہا۔
”تو اور کیا سوچ کر کی جاتی ہے۔” زویا نے جواباً لکھا۔
”پیار، محبت اور موت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔” کنگ نے فلسفہ جھاڑا۔
”اپنے پیار محبت کا فلسفہ اپنے پاس رکھو اللہ حافظ۔” زویا نے جلدی سے لکھا۔
”چلو آج گیم ہی لگا لیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کس میں کتنا دم ہے۔” اس نے پینترا بدلا۔
”ہاں ہاں ضرور ایک گیم تو لگا ہی لیتی ہوں۔ ذرا تمہیں بھی پتا چلے۔” زویا پرجوش ہوئی۔ دونوں دل جمعی سے کھیلنے لگے۔
”سنو…” کافی دیر بعد میسج آیا۔
”کیا ہے…” اس نے لٹھ مار انداز اپنایا۔
”تمہارا نام بہت پیارا ہے۔” اس نے emojisبنائے۔
”تھینکس…” اس نے بے پروائی سے کہا۔
”میرا نام نہیں پوچھو گی۔” اگلا میسج آیا۔
”واٹ دا ہیل… تم یہاں لڈو کھیلنے آتے ہو یا ٹھرک جھاڑنے۔ اتنی باریاں نہیں کرتے جتنے میسج کرتے ہو۔”زویا تپ گئی۔
”ایسے بات مت کرو۔” اس نے آرڈر جاری کیا۔
”ایکسکیوز می… سچ بولا تو برا لگ گیا۔” زویا کو مزہ آیا۔
”ہاہا… میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ میں نے بھی سچ بولا، تو تمہیں مرچیں لگ جائیں گی۔”
”ایسا کون سا سچ ہے۔” زویا نے اسکرین کو یوں گھورا جیسے وہ سامنے ہی بیٹھا ہو۔
”کیوں بتاؤں…؟”
”اُنہہ Attention seekar” اس نے ٹھینگا دکھایا۔
”تم بہت کیوٹ ہو۔ مجھے تم سے بات کرکے مزہ آتا ہے۔ اسی لیے کھیلتا کم ہوں اور بولتا زیادہ۔” اس کا لمبا سا میسج آیا۔
”او بس… گاڈ میں تو گئی… زویا کی گوٹی گھر جارہی تھی اور کنگ کے مطلوبہ نمبر آگئے تھے جس سے وہ اس کی گوٹی مار سکتا تھا۔
”بتاؤ کیا کروں؟” فوراً میسج آیا۔
”جو مرضی کرو۔” وہ کیوں اس کا احسان لیتی۔
”اوکے بائے۔ انجوائے کرو۔” میسج بھیجتے ہی اس نے گیم چھوڑ دی۔ زویا نے حیرت سے موبائل دیکھا۔
”واؤ…” اس نے کندھے اُچکائے دس ملین آگئے۔
”ویسے یہ کیا بکواس کررہا تھا سچ اینڈ آل۔” اب اسے اس کے میسج یاد آنے لگے۔
تم بہت کیوٹ ہو۔” اسے اس کا میسج یاد آیا۔
”اُنہہ ابھی ڈیلیٹ کرتی ہوں۔” اس نے بڑی لسٹ کھولی اور چند ثانیے تک اسکرین کو تکتی رہی پھر اس کا نام ڈیلیٹ کردیا۔
٭…٭…٭
”اللہ میں نے تو شکر کیا کہ میں نے کہیں امی سے یا شرمین بجو سے بات نہیں کرلی۔ کتنا غلط ہو جاتا اور میرا کیا بنتا۔” شزا ہاتھ اُٹھائے شکر کررہی تھی۔
”دیکھا اسی لیے تمہیں منع کررہے تھے۔” زویا نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”ہاں زندگی میں پہلی دفعہ تم لوگوں نے ٹھیک ایڈوائز کیا۔” شزا نے مسکراہٹ دبائی۔
”کیا…” زویا نے اسے چپت لگائی۔
”السلام علیکم…” نور نے حسب معمول پلر کے پاس بیگ پھینکا اور سلام کیا۔
”آگئیں مس آلویز لیٹ…” زویا نے آنکھیں مٹکائیں۔
”شٹ اپ…” نور جھینپ کر بولی۔
”آج کس کی بائیک خراب ہوئی؟” شزا نے اسے گھورا۔
”ظاہر ہے بھائی کی۔” نور نے دانت پیسے۔
”تمہارے بھائی کہ ہمارے بھائی؟” زویا نے لقمہ دیا۔
زویا کمینی…” اس نے نوٹ بک اس کے کندھے پر ماری۔
”سنو سنو تمہیں پتا چلا؟” زویا سیدھی ہوئی۔
”کیا…؟” نور نے الرٹ ہوکر پوچھا۔
”اس دن شہزاد بھائی اپنی کولیک سے بات کررہے تھے۔ وہ لڑکی شہزاد بھائی اور شرمین آپی کی کلاس فیلو بھی رہ چکی ہے اور وہ اسے جاب کی ٹریٹ کا ہی کہہ رہے تھے۔ شرمین آپی بھی جائیں گی ساتھ۔” زویا نے تفصیلاً بتایا۔
”see, in knew it اور تمہیں کیا دورے پڑ رہے تھے۔ امی کو بتانا ہے، بجو کو بتانا ہے۔” نور نے اس کی نقل اتاری۔
”تھینکس ایڈیٹس۔” وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
”چل یہ ڈرامے بند کر اور ہمیں کچھ کھلا۔” زویا نے فوراً مطلب کی بات کی۔
”بس اچھے سے بات کی نہیں کہ فرمائشیں شروع۔” شزا کے مسکراتے لب سکڑ گئے اور اس نے زویا کو گھورا۔
”ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے زویا چلو اٹھو اٹھو۔” نور نے اسے اٹھانا شروع کیا، تو زویا بھی اس کے ساتھ لگ گئی۔
٭…٭…٭
کیا مصیبت ہے۔ یہ میری بکس کیوں چھیڑتی ہیں آپ امی۔” زویا نے بک ریک سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے بے زار ہوکر آواز لگائی۔
”اُنہہ… اب جواب ہی نہیں دیں گی۔” زویا تھک کر کارپٹ پر بیٹھی، تو اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے چھوٹے سے باکس پر پڑی۔
”یہ کیا ہے۔” اس نے باکس اٹھایا جوکہ ریپر میں تھا۔ اس نے ریپر کھولا تو باکس سے چھوٹا سا ٹویٹی نکلا جس کے ساتھ کی رنگ بھی تھا۔ پیلے رنگ کا مخملی ٹویٹی اس کے ہاتھ سے پھسل رہا تھا۔ وہ ٹویٹی کو دیکھتے ہی بے اختیار مسکرائی۔ وہ اسے آگے پیچھے کررہی تھی کہ اس کی گود میں چھوٹا سا کارڈ گرا۔ اس نے کارڈ اٹھایا جوکہ انویلپ میں بند تھا۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے کارڈ نکالا اور اسے کھولا۔ اس پر چھوٹا سا میسج درج تھا۔ اس نے آنکھیں میچیں۔
”ٹویٹی… مجھے لڈو سے ڈیلیٹ کرکے یار اچھا نہیں کیا۔ اتنا ظلم۔” زویا کے ہاتھ سے کارڈ اور ٹویٹی دونوں چھوٹ گئے۔ وہ ہکا بکا رہ گئی۔
”یہ… یہ اس نے… لیکن…” وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے ساکت تھی۔
”اوہ مائی گاڈ۔” اس نے جلدی سے باکس اور ریپر گھمایا۔ اسے وہاں سوائے اپنے ایڈریس کے کچھ نہ ملا۔
”کون ہوسکتا ہے یہ…” وہ ناخن چبانے لگی۔
اس نے ٹویٹی کو اٹھایا اور پھر سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی کہ اچانک اس کی نظر ایک اسٹیکر پر ٹھہر گئی۔
ٹویٹی کے گردن کے پاس چھوٹا سا اسٹیکر تھا۔ اس نے اسٹیکر دیکھ کر گہرا سانس لیا۔ وہ اسٹیکر یونیورسٹی کے ہاسٹلز سے ملحق اسٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر (STC) کی ایک دکان کا تھا۔
”اس کا مطلب ہے وہ لڑکا واقعی یونیورسٹی کا ہے؟” اس نے اپنا سر تھام لیا۔ کیا نام بتایا تھا اس نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا؟” وہ اٹھ کر کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
”اُف…” وہ پلنگ پر بیٹھ گئی۔
”بائیو ٹیکنالوجی… انڈر گریٹ… واٹ…” اس کی بڑبڑاہٹ رکی۔
امپورٹنٹ یہ نہیں ہے کہ وہ کس ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔ ضروری یہ جاننے والی بات ہے کہ اسے میرا نام میرا ایڈریس… اوہ مائی گاڈ…” وہ گھبرا کر کمرے سے باہر نکل آئی۔
”زویا…” نجمہ کچن سے نکل رہی تھی۔
”جی امی…” اس نے ہڑ بڑا کر جواب دیا۔
”تمہارے لیے کوئی گفٹ آیا تھا ٹی سی ایس والا لے کر آیا تھا، میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہے۔ وہ مصروف سے انداز میں بولیں۔
”ہاں اچھا… میں دیکھتی ہوں یہ شزا یا نور کی حرکت ہوگی۔” اس نے خوامخواہ وضاحت دی۔
”مجھے بھی یہی لگتا ہے دھیان سے دیکھ لینا پچھلی دفعہ کی طرح چھپکلیاں، کاکروچ نہ ہوں اور تم نے آدھی رات کو گھر سر پر اٹھایا ہو۔” وہ ہنستی ہوئی واپس کچن میں چلی گئیں۔
”میں ابھی دیکھ لیتی ہوں۔” زویا بے اختیار مسکرائی۔ شزا اور نور نے اس کی پچھلی سالگرہ پر ڈبا بھر کر کاکروچ اور چھپکلیاں بھیجی تھیں جو زویا نے رات کے ایک بجے کھولا، تو شور ڈال دیا۔
”کیا کروں…” ٹویٹی پر نظر ڈالتے ہی وہ مسکرانا بھول گئی۔ وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ موبائل بجنے لگا۔ اس نے اٹھ کر دیکھا، تو شزا کی کال تھی۔ اس نے گہرا سانس لیا اور کال ریسیو کی۔
٭…٭…٭
”دونوں کیفے جا کر ہی مر گئی ہیں، واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ جب ساری ہیڈنگز لکھ لوں گی تبھی آئیں گی۔” زویا کاریڈور میں اپنے مخصوص پلر کے پاس بیٹھی اسائنمنٹ پیجز پر ہیڈنگز مارک کررہی تھی۔ اس کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ اس نے ہیڈنگز آخر میں لکھنی ہوتی تھیں۔ اس نے سوچا شزا یا نور سے لکھوا لے گی، لیکن وہ کیفے کا بول کر پچھلے پندرہ منٹ سے غائب تھیں۔
”ابھی کال کرتی ہوں۔” اس نے موبائل نکالا اور ان لاک کیا ہی تھا کہ فیس بکس میسجز پر بنے سرخ نشان پر ٹھٹکی۔
”کس کا میسج ہے؟” اس نے میسنجر کھولا۔ جہاں ایک کانٹیکٹ ریکویسٹ اور ساتھ میسج تھا۔
”ہیلو سویٹی… ٹویٹی کیسا لگا۔”
”واٹ…” اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ پھر گھبرا کر اپنے ارد گرد دیکھا۔
”ریکویسٹ تو ایکسیپٹ کر لو پلیز۔ آئی پرامس کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”
”یہ موسیٰ بن عالم…” اس نے دانت پیسے۔
”یہ وہی ٹھرکی ہے چوّل انسان۔” وہ گالیوں پر اتر آئی۔
”اوہ… تو اس نے لڈو سے میرا نام لے کر مجھے فیس بک پر ڈھونڈا اور ریکویسٹ بھیج دی۔ تبھی میں نے تو لڈو میں اپنا نام بدلا ہوا ہے نہ تصویر اور خود یہ کوئی کنگ بنا بیٹھا ہے ادھر… اس کا بڑا دماغ چلتا ہے۔” وہ غصے میں سلگنے لگی۔
”لیکن اس نے میرا ایڈریس کہاں سے لیا۔” وہ پھر پریشان ہوئی اور اس کا پروفائل کھول لیا۔ دوسری ہی کور فوٹو میں اس نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا چیک ان لگایا ہوا تھا۔
”اوہ chep… اسی لیے اتنا cheapہے۔” اس نے دانت پیسے۔ اسے یاد آیا کل اس نے اس کے ڈیپارٹمنٹ کا نام یاد کرنے کی کتنی کوشش کی تھی۔
”زویا کبھی تم بھی جایا کرو کیفے اور ہمارے لیے کچھ لے آیا کرو۔ اتنا رش تھا جان پر کھیل کر تمہارے لیے یہ نگوڑی فروٹ چاٹ لے کر آرہے ہیں۔” نور تپتی ہوئی آرہی تھی۔ زویا نے جلدی سے انگلیاں چلائیں اور فون لاک کیا۔ مبادا نور اور شزا کو اس معاملے کی بھنک پڑتی۔ وہ جانتی تھی دونوں نے اس کی جان کو آجانا تھا۔
”اتنی دفعہ تو جاتی ہوں۔ اتنی تم اچھی ہمیشہ مجھے لا کر دینے والی…” اس نے موبائل بیگ میں پھینکا اور نور کو جواب دیا۔
”کھڑے ہو ہو کر ٹانگیں رہ گئی ہیں آج تو دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے اتنے اسٹوڈنٹس تھے۔” شزا بیٹھتے ہوئے بولی۔
”ہمارا کیفے مشہور ہی بہت ہے۔” زویا نے نور کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑی۔
”کمینی میں بیٹھنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہی تھی تجھے چاٹ کی پڑی ہے۔” نور نے اس کو گھورا۔
”ہیں تم نے کون سا گھوڑے پر بیٹھنا ہے جو تمہیں مدد چاہیے۔ حد کرتی ہو۔ وہ چاٹ میں مگن ہوگئی۔ نور نے اس کی ڈھٹائی دیکھ کر اسے گھورنا بند کیا اور اپنے پکوڑے کھانے لگی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سوءِ بار — میمونہ صدف

Read Next

فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!