محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

”یار یہ تو سیریس مسئلہ ہے۔” زویا نے پریشانی سے کہا۔
”میں خود بہت پریشان ہوگئی، مجھے غصہ آرہا ہے۔ بہت دل کررہا ہے بجو کو سب بتا دوں۔” شزا نے غصے سے کہا۔
”پاگل مت بنو۔” نور نے اسے فوراً ٹوکا۔
”تم نے صرف کومنٹس ہی تو پڑھے ہیں شہزاد بھائی کے بے شک ڈبل میننگ ہوں یا ان کا کوئی بھی contact ہو تمہیں ابھی شرمین آپی کو کچھ نہیں بتانا چاہیے۔ وہ خوامخواہ پریشان ہوں گی۔” نور نے تفصیلاً بات کی۔
”نور ٹھیک کہہ رہی ہے۔ ہم ان پر ان فیئر ہونے کا بلیم نہیں کرسکتے۔ وہ بھی صرف ان کومنٹس کی بنیاد پر، ہم بھی ایسے کومنٹس کرتے رہتے ہیں اپنے فیلوز کے ساتھ پھر کیا لوگ ہم پر بھی شک کرنا شروع کردیں؟” زویا نے نور کی تائید کی۔
”لیکن اس میں صاف لکھا تھا کہ تم ہاں کب کرو گی۔” شزا وہیں پھنسی تھی۔
”تم کہاں ”ہاں” پر ہی اٹک گئی ہو۔ ”ہاں” ایک ہی چیز کی تو نہیں ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ کسی ٹریٹ وغیرہ کی بات کررہے ہوں۔” نور نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”دیکھ شزا شہزاد بھائی صرف شرمین آپی کے فیانسی ہی نہیں تمہارے خالہ زاد بھائی بھی ہیں۔ تم جوش میں آکر کچھ بھی ایسا ویسا مت بول دینا کہ کل کو تمہاری امی اور خالہ کے درمیان رشتہ اتنا خراب ہوجائے کہ بات کرنے سے بھی جائیں۔” زویا نے شزا کا کندھا دبا کر کہا۔
”ہاں ہم ایسا کرتے ہیں کچھ دن ان دونوں کو اسٹاک کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں مزید کیا پوسٹیں اور کومنٹس آتے ہیں۔ شہزاد بھائی پہلے ہی سے تمہاری لسٹ میں ہیں اور یہ اس لڑکی کی پروفائل ویسے ہی پبلک ہے۔” نور نے لگے ہاتھوں مشورہ دیا۔
”نور ٹھیک کہہ رہی ہے۔” زویا نے نور کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں مزید کیا گل کھلتے ہیں۔ ہائے شکر ہے شرمین آپی فیس بک پر نہیں ہیں۔” شزا نے ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کیا۔
”اب باقی شکر بعد میں ادا کرلینا… لائبریری جانا تھا ہمیں۔” زویا نے انہیں یاد دلایا تو دونوں کپڑے جھاڑ کر فوراً کھڑی ہوگئیں۔
٭…٭…٭





”آئی امی…” نور نے کچن میں کھڑے کھڑے صفیہ کو جواب دیا۔
”اُف میری مار کب ہوگی۔” نور نے غصے سے سر کھجایا۔
”آپی…؟” زین کچن میں آیا۔
”کیا ہے؟” وہ اسے پھاڑ کھانے کو دوڑی۔
”امی سالن لیے بیٹھی۔ روٹی کا انتظار کررہی ہیں۔ آپ موبائل لے کر بیٹھی ہیں۔ بارہ سالہ زین نے اسے گھور کر دیکھا۔
”تو نظر نہیں آرہا روٹی بنا رہی ہوں اور کیا کررہی ہوں۔” نور نے توے کی طرف اشارہ کیا جہاں روٹی جل کر اپنی قسمت پر شکوہ کناں تھی۔
”ہاہ…” نور نے جلتی روٹی دیکھ کر چیخ ماری۔
”ایک تو اس کی گوٹی نہیں مر رہی اور یہ روٹی۔” اس نے پہلے موبائل کو گھورا اور پھر روٹی کو یوں دیکھا گویا توے پر جانے کے بعد کی نقل و حرکت اس نے خود کرلی تھی۔
”کیا گوٹی… کس کی…” زین نے کان پر ہاتھ رکھا۔
”تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔” وہ چیخی۔
”میں امی کو جا کر بتاتا ہوں کہ آپی موبائل پر لڈو کھیل رہی ہیں اور روٹیاں جلا رہی ہیں۔” زین کہتا بھاگ گیا۔
”زین…” نور نے چیخ ماری، لیکن وہ وہاں سے کھسک چکا تھا۔ نور نے غصے سے موبائل کی اسکرین پر چمکتے ہوئے زویا کے خانے اور تصویر کو یوں گھورا گویا کہ کچا چبا جائے گی اور موبائل شیلف پر رکھ کر نئے سرے سے پیڑا بنانے لگی۔
٭…٭…٭
”یار میں نے بڑا حساب لگایا ہے۔ اپنی قسمت ہی خراب ہے۔” شزا نے آہ بھر کر اپنا دکھڑا سنا
یا۔
”اب کیا ہوا تمہیں۔” زویا نے اسے گھورا۔ نور نے بے زاریت سے دیکھا۔ وہ تینوں اس وقت پاکستان سٹڈی سنٹر کے لان میں بیٹھی کچھ نوٹس کاپی کررہی تھیں جب شزا کو اچانک اپنی قسمت پر غور کرنا یاد آیا۔
”ہونا کیا ہے پہلے تو حقیقت میں کبھی پانچ روپے کا انعام بھی نہیں نکلا اور اب… اس کمبخت ماری لڈو اسٹار میں مجال ہے جو پانچ سو کوائنز کی گیم بھی جیت جاؤں۔” شزا نے اپنی قسمت کا مزید رونا رویا۔
”حد ہے یار…” زویا نے سر پیٹ لیا۔
”سیریسلی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے، تو کل اس چول کے ساتھ لڈو کھیل رہی تھی۔ quickوالی یہ میری گوٹی مار رہی تھی ہر دو منٹ بعد اور مجال ہے جو مجھ سے اس کی ایک دفعہ بھی مری ہو۔ تین روٹیاں جلا لیں اور امی سے ڈانٹ الگ کھائی۔” نور کوبھی اپنا دکھ یاد آیا، تو اس نے زویا کو گھورتے ہوئے اپنا دکھڑا رویا۔
”اس کی قسمت بڑی تیز ہے اور لڈو میں تو بدتمیز پہچانتی بھی نہیں۔” شزا نے اسے گھورا۔
”نہ بھئی، گیم گیم ہوتی ہے۔ اس میں نو جان پہچان۔” زویا نے بے نیازی سے کہا۔
”بتائیں تمہیں۔” دونوں نے اُس پر دھاوا بول دیا۔
٭…٭…٭
”ہائے کوئی اچھا سا پلیئر مل جائے بس ایک پانچ ملین کی گیم جیت گئی تو ٹاپ ٹین میں آجاؤں گی۔ زویا نے دعا کرتے ہوئے موبائل اٹھایا اور لڈو کی گیم پر انگلیاں چلائیں۔ گیم اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ اس نے اگلے پلیئر کی پروفائل کھنگالنی شروع کی۔
”smashing king نام تو دیکھ وڈا کنگ” وہ بڑبڑائی۔
”آئے ہائے بارہ سو گیمز کھیل چکا ہے اور کوئی کام نہیں کیا ویلے نے۔” وہ مزید بڑبڑائی۔
”اس نے تو ہڑیسہ بنایا ہوا ہے یہ کیوں چھوڑنے لگا گیم۔” زویا نے مایوسی سے سوچا۔
”hi۔” وہ اپنے نمبر چل رہی تھی جب اس کنگ نے چیٹ شروع کی۔
”hi” اس نے جواب دے دیا۔
”how are you” اگلا میسج آیا۔
”تم سے مطلب۔” اس نے جل کر جواب دیا۔
”گیم چھوڑ دوں۔” اس نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔
زویا نے آنکھیں جھپک جھپک کر بار بار میسج دیکھا۔
”تم کیوں چھوڑو گے بھلا گیم۔” وہ فوراً الرٹ ہوئی۔
”bcz i like ur dp” فوراً جواب آیا تھا۔
”ٹھرکی…” زویا نے گھور کر اس کا میسج پڑھا اور پھر اپنی ڈی پی دیکھی جس میں وہ IBA کے سامنے فولڈر سے پوز بنائے کھڑی تھی۔
”ہیلو…” کوئی جواب نہ پا کر پھر میسج آیا۔
”کیا ہے…” اس نے لٹھ مار جواب دیا۔
”تم پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہو؟” اسکرین چمکی۔
”تمہیں کیسے پتا۔” زویا کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”بے وقوف لڑکی۔” مقابل نے لطف لیا۔
”ظاہر ہے صرف پکچر بنوانے کو تم IBAنہیں گئی نا؟”
”اف۔” زویا شرمندہ ہوگئی۔
”ہونہہ…” اسے اور کچھ نہ سوجھا۔
””میں بھی وہیں ہوتا ہوں۔ میرا ڈیپارٹمنٹ CHEPہے۔ نیکسٹ ٹو پاکستان اسٹڈی سنٹر اینڈ ایڈجسٹ ٹو کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ۔” اس نے تفصیلاً بتایا۔
”تو میں کیا کروں۔” وہ اس کی تفصیل پر تپ گئی۔”
”تم کون سے ڈیپارٹمنٹ کی ہو؟” سوال آیا تھا۔
”کیوں بتاؤں؟” اس نے بے نیازی سے لکھا۔
اس کا دھیان اب گیم میں کم اور چیٹ میں زیادہ تھا۔
”let me game…” وہاں سے سوچتا ہوا emojiآیا۔
”IBA…؟” ساتھ ہی دوسرا میسج کھلا۔
”No…” وہ مسکرائی۔
”پھر…؟” اس نے بے تابی سے پوچھا۔
”زیادہ فرینک ہونے کی ضرورت نہیں۔ گیم چھوڑنی ہے، تو چھوڑو دماغ مت چاٹو۔” وہ سر جھٹک کر سیدھی ہوئی۔
”تم اپنا ڈیپارزٹمنٹ بتا دو میں گیم چھوڑ دیتا ہوں۔” اس نے شرط رکھی۔
”غلط ہی بتا دیتی ہوں اس کو کیا پتا۔” زویا نے فوراً دماغ چلایا۔
”غلط مت بتانا۔” وہ گویا اس کا دماغ پڑھ رہا تھا۔
”اچھا مجھے گیم بڑی لسٹ میں ایڈ کرلو۔” اس کا اگلا میسج تھا اور ساتھ ہی ریکویسٹ بھی آگئی۔
”بڑا ہی کوئی لیچڑ انسان ہے۔” زویا نے بڑبڑاتے ہوئے اس کو ایڈ کردیا۔
”تھینکس۔ سی یو۔” اس نے میسج بھیج کر گیم چھوڑ دی۔
زویا نے بے یقینی سے موبائل اسکرین کو دیکھا اور خوشی خوشی اپنی رینکنگ چیک کرنے لگی۔ وہ ساتویں نمبر پر آچکی تھی۔
”واؤ gemsمل ہی جائیں گے، کوئی عجیب ہی ٹھرکی تھا۔ بڑی لسٹ میں ایڈ ہوکر غائب ہوگیا، ابھی ڈیلیٹ کرتی ہوں۔” وہ لسٹ کھولتے کھولتے رکی۔
”ویسے اس نے ڈیپارٹمنٹ کا نام بھی دوبارہ نہیں پوچھا۔” زویا کو اچانک خیال آیا۔
”خیر مجھے کیا۔” اس نے موبائل لاک کرکے خوشی سے سوچا۔
٭…٭…٭
”یار… اسلامک سنٹر کا سموسہ ہو اور ساتھ کوک… یم…” نور نے آدھا سموسہ منہ میں ڈالنے کے لیے پورا منہ کھولا اور اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔
”بس تمہیں تو کھانے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہر وقت ٹھونستی رہا کرو۔” شزا نے ناگواری سے اس کا کھلا منہ دیکھا۔
”جیلس… جیلس…” نور نے اسے چھیڑا۔
”زویا…” نور نے چیخ کر کہا۔ زویا نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا اور پھر شرمندگی سے پچھلی ٹیبل پر نگاہ ڈالی جہاں بیٹھے تین چار لڑکے اچانک خاموش ہوگئے تھے۔
”تمہیں شرم نہیں آتی نور… آہستہ نہیں بک سکتی۔” اس نے دبی آواز میں اسے ڈانٹا۔
”یہ کس کا نام لکھ رہی تھیں تم کیچ اپ سے؟” نور نے بے ڈھنگے پن سے ہنس کر کہا۔ اسے بالکل شرمندگی نہیں ہوئی تھی۔
”اپنی بکواس بند کرو، میں اسمائلی بنا رہی تھی۔” اس نے دانت پیسے۔
”یاد آیا زویا کی بچی کل رات تم کس کے ساتھ لڈو کھیل رہی تھیں۔ میں نے کتنی دفعہ تمہیں انوائٹ کیا۔” شزا کو اچانک خیال آیا۔
”ہاں نور تمہیں اتنے مینرز نہیں کہ جب کوئی پہلے سے ہی کھیل رہا ہو اسے بار بار ریکویسٹ نہیں بھیجتے۔” زویا نے اسے گھورا۔
”لو مجھے کیا پتا تھا کہ تم کوئی سیریس گیم کھیل رہی ہو۔” شزا نے منہ بنایا۔
”لو کل تو اتنا مزہ آیا کوئی کنگ تھا، پانچ ملین کی گیم لگائی خود ہی گیم چھوڑ گیا۔ صرف اس شرط پر کہ میں اسے لسٹ میں ایڈ کرلوں۔” زویا کو رات والی بات یاد آئی تو اس نے مزہ لیا۔
”واہ کمینی تجھے ہی کنگ ملتے ہیں شاہ خرچ ہم تو 500کی بھی لگالیں تو منحوس اینڈ تک کھیلتے ہیں۔” نور نے سموسہ پلیٹ میں پٹختے ہوئے کہا۔
”محنت کر بچہ حسد نہ کر…” زویا نے بال جھٹکے۔
”زویا میری دوست ہے نا چل مجھے ایک ملین دے دے۔ میرے پاس صرف کچھ سو کوائنز بچے ہیں۔ کل سے ہار ہار کر نڈھال ہوگئی ہوں۔” شزا نے مظلوم بن کر اسے مسکا لگاتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں سوچتی ہوں فوراً مانگنے آجایا کرو۔” وہ بے نیازی سے بولی۔
”شرم نہیں آتی تمہیں۔” نور نے اسے گھورا۔
”لو میں نے کیا کیا…” زویا نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
”یہ جو تم حرکتیں کرتی ہو نا…’ نور کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔
”اوہ گاڈ…” شزا چیخ مارتی ٹیبل سے اٹھی۔
زویا نے بھنا کر پہلے شزا کو اور پھر پیچھے دیکھا۔ ٹیبل اب خالی تھا۔
”تم لوگوں کو کوئی تمیز ہے کہ نہیں کہیں بھی گلا پھاڑنے لگتی ہو۔” وہ غصے سے اٹھی۔
”یہ تم تمیز پر بھاشن بعد میں دینا ٹائم دیکھا ہے سوا چار ہوگئے۔ پوائنٹ نکل گیا تو پتا چلے گا نمبرز کا بھاؤ۔” شزا نے چیزیں اٹھائیں اور باہر کو بھاگی۔
”ہاہ…” نور نے چیخنے کا ارادہ کرتے کرتے زویا کے گھورنے پر آواز دبا لی اور بیگ اٹھا لیا۔
”میں نے تمہاری ڈیوٹی لگائی تھی نا ٹائم کا دھیان رکھنے کی۔” تو نے شزا کو آن لیا۔
منہ بند کرو ابھی بھی میں نے ہی بتایا ہے۔” وہ تپ کر بولی۔
”ایویں لڑومت تم لوگ، نہیں جاتا کہیں پوائنٹ۔”
زویا نے ٹائم دیکھا تو دہک سے رہ گئی لیکن ان کے سامنے بنتے ہوئے بولی۔
”تم…” شزا نے اس کو گھور کر دیکھا اور مارنے کے لیے مڑی۔ زویا اس کا ارادہ بھانپتے ہی ہنستے ہوئے بھاگی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سوءِ بار — میمونہ صدف

Read Next

فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!