محبتِ ناتمام — ثوبیہ امبر

چلنے کو تو شاید وہ دونوں ہمیشہ کے لیے یونہی چلتے رہتے، لیکن راستے ختم نہ بھی ہوں، ہمت جواب دے جاتی ہے اور انسان کا وجود، اس کے جذبات، اس کی امنگیں اور خواب تھک جاتے ہیں۔ داستانیں بھلا ختم کب ہوتیہیں؟ وہ تو سنانے والا ہی تھک کر سو جاتا ہے۔
وہ ایک گم نام سڑک کے ایک پرانے بوسیدہ بنچ پر بیٹھے تھے۔ بہت گہرے اور گھنے درخت، سدا بہار لگتے تھے جو ابھی خزاں سے لڑ رہے تھے۔
’’کیا کھاؤ گی ؟ہم دونوں کے پاس کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ کسی بھی اور چیز کا احساس ہی نہیں رہا۔‘‘ وہ گزرے ماضی کو یاد کرکے مسکرایا تھا۔ اسے احساس ہوا تھا کہ صبح وہ چائے کے ساتھ ایگ انڈا ٹوسٹ کھا کر نکلی تھی، لیکن اس وقت اسے کسی بھی قسم کی بھوک یا کم زوری کا احساس نہیں تھا۔ جیسے زیادہ غم بھوک مٹا دیتا ہے، ویسے ہی شاید زیادہ خوشی بھی کسی اور احساس کو ختم کر دیتی ہے۔وہ خاموشی سے ان درختوں میں گہرے اندھیرے کو دیکھتی رہی جہاں پیچھے کہیں ڈوبتا سورج الوداعی شعاعیں پھینک رہا تھا۔
وہ دونوں اتنے قریب تو تھے کہ اپنے بیتے سالوں کی تھکن وہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے بھول جاتی۔ اس نے اس کے کندھے پر سر ٹکایا اور وہ اپنے مضبوط بازو پھیلا کر اسے اپنے حصار میں لے گیا تھا۔
اس نے ان کندھوں پر رونے کا بہت مرتبہ سوچا تھا اور اسے لگا تھا کہ یہ خواہش اس کے ساتھ قبر میں اتر جائے گی۔آ ج اس نے اپنی زندگی کی ایسی حسرت جی تھی کہ شاید وہ مرجانے کی خواہش بھی کر لیتی۔
وہ اپنے کندھے پر گرتے نرم گرم آنسوؤں کو محسوس کرتا رہا۔
’’آج اگر مائیکل اینجلو زندہ ہوتا، تو وہ ہم دو عمر رسیدہ، تھکے ماندھے اور ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی محبت کو اس طرح دیکھ کر ایک مجسمہ ضرور بناتا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے اسے چپ کروانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی مسکرادی۔
اس کے بھی آنسو گر رہے تھے، لیکن اس کے اپنے دامن پر۔ کاش وہ سار ی عمر اس کے کندھے سے سر نہ اٹھاتی۔
وہ دونوں کتنی دیر ہی ایسے بیٹھے رہے، لمحے خاموشی کے کنوئیں میں ایسے گر رہے تھے جیسے ایک ایک کر کے سکے پھینکے جاتے ہیں، وقفے سے لیکن روانی سے، گزرتے ہوئے مگر ٹھہرے ٹھہرے سے۔
’’جب ہم دونوں بوڑھے ہو جائیں گے نا تو ایسے کسی بنچ پر ایک دوسرے میں گم ہوں گے۔‘‘ وہ کسی لڑکی کی شوخ سی آواز تھی جو اپنے کپڑوں اور تیاری سے نو بیاہتا دُلہن لگ رہی تھی۔ ایک خوب رو نوجوان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے وہ سامنے سے گزر رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ دونوں لمحے کی قید سے باہر نکلے تھے۔ کوئی مقدر میں لکھا دن تھایا شاید دونوں کی دعائیں تھیں جو آج وہ ساتھ تھے۔
واپسی پر پھر ملنے کا وعدہ دونوں کی طرف سے تھا۔ نمبروں کے تبادلے کے بعد ڈھلتی شام کے اندھیرے میں وہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں داخل ہوئے تھے۔
آج کا دن بہت عجیب تھا۔ ایک ایسا دن جو کبھی بھی آنے کی آس نہیں ہوتی اور اگر آجائے تو پھر انسان اس دن کو روز جینا چاہتا ہے ۔ روز نہ بھی جی سکے، تو اپنی روٹین کی زندگی میں اس کی یاد کو جی لیتا ہے اور پھر اسی سہارے شاید باقی زندگی گزار دیتا ہے۔ گھر آکر وہ اپنی ڈائری لے کر بیٹھ گئی۔ احساسات کسی مینہ کی طرح چھاجھوں برس رہے تھے۔
’’ضروری تو نہیں محبت کی ہر کہانی آہوں، سسکیوں اور محرومیوں سے مزین ہو۔ کبھی کبھار محبت بہت لمبے راستے سے پلٹ کر آتی ہے۔ بہت دیر بعد، طویل عرصہ انتظارکرنے کے بعد اور یہ تو کبھی محبت نہیں ہوتی جو صرف وصل سے زندہ رہے۔ ہجر کی تپش بھی اس کے وجود کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ بس اب اگر میں لکھوں گی، تو ایک ایسی محبت لکھوں گی جو کسی خوب صورت خواب کی طرح ہو گی۔ جو پورا نہ بھی ہو، تو آنکھیں دیکھتے نہ تھکیں۔ ہجر اور وصل کی شرائط سے آزاد ایک خواب۔‘‘ اپنے قلم کی روانی دیکھ کر وہ خود حیران تھی۔
بھوک کے احساس سے بوجھل وہ اٹھی، کہانی آج قلم سے نہیں لکھی جائے گی، دل پر کسی واردات کی طرح اترے گی۔ آج رات نیند تو آنی نہیں تھی، سو آج صر ف لکھا جائے گا۔
وہ چیز سینڈوچ بنانے کے خیال سے اٹھی تھی۔ بیگ میں پڑاموبائل گھر آتے ہی دم دے چکا تھا۔ اسے چارجنگ پر لگا کر اس نے کچن کا رخ کیا۔
اپنے سینے میں اٹھتے بائیں طرف کے درد کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ یقینا یہ انجائنا نہیں تھا، یہ درد اس سے زیادہ تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر تھی اور اس درد کو بہت اچھی طرح پہچان سکتی تھی۔ گھر میں کوئی اور نہیں تھا جسے آواز دی جا سکتی اور نہ ہی لینڈ لائن فون تھا۔
وہ کچن سے اپنے سینے کے بائیں طرف ہاتھ رکھے، دوسرے ہاتھ سے دیوار تھامے آہستہ آہستہ واپس کمرے میں آئی۔ اس وقت اسے کسی سہارے کی تلاش تھی۔ وہ فون کی لائٹ دیکھ کر اس کی طرف بڑھی تھی لیکن اسی لمحے لائٹ بند ہو گئی۔
٭…٭…٭
صبح گھر کا تالا کھولتی گل بی بی بڑبڑاتی اندر داخل ہوئی تھی۔ گھر والے نے پھر سے اس سے پیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔ گھر والا بھی جانتا تھا کہ یہ ڈاکٹرنی نرم دل ہے ، ایک دو جھوٹ اور مجبوری کے ایک دو جملے کم از کم ہزار پانچ سو تو نکلوا لیں گے۔ گل بی بی بھی ہمیشہ کی طرح اسے سمجھاتے ہوئے کچھ پیسے پکڑا ہی دیں گی۔ گھر کی ایک چابی اس کے پاس تھی کہ اگر وہ صبح کسی وقت اٹھنے سے پہلے آجائے تو آرام سے کچن کا کام یا صفائی وغیرہ کر لے۔
وہ خاموشی سے اندر داخل ہوئی۔ کچن میں کل صبح والی صرف ایک پیالی تھی۔ باقی کہیں کچھ کھانے پینے کے آثار نہیں تھے۔
’’باجی نے کھانا نہیں کھایا۔ ‘‘وہ فکر مند سی ہوئی۔ اسے بی بی سے دلی وابستگی تھی، کیوں کہ وہ اس کے جھوٹ کو بھی سچ مان کر اس سے ہم دردی کرتی تھی۔
ایک دم اس کا دل بیٹھا تھا ہوکتی خاموشی نے اس کا کلیجا پکڑا تھا۔ وہ بے اختیار اس کمرے کی طرف بڑھی جہاں ایک رائٹنگ ٹیبل اور مختصر بیڈ تھا۔ بیڈ کے قریب موبائل فون زمین پر پڑا تھا اور اوندھی پڑی باجی کو دیکھ کو وہ بے اختیار آگے بڑھی۔ وہ بے جان وجود ہلاتے اسے اپنا آپ ڈھیر ہوتا لگ رہا تھا۔
’’باجی اٹھیں !‘‘ اس کے سارے الفاظ اس ٹھنڈے وجود میں جامد ہو گئے۔ اس نے وہیں بیٹھ کر دہاڑیں مار کر رونا شروع کردیا۔ اسے یاد تھا اس طرح وہ اپنی ماں کے مرنے پر روئی تھی بس۔
’’باجی… باجی! گھر کے درودیوار اس کی چیخیں سن رہے تھے اور باہر والی دیواریں ڈور بیل سے گونج رہی تھیں۔
باہر ایک ادھیڑ عمر مرد ہاتھوں میں سرخ گلاب لیے ایک انجانی خوشی سے سرشار ڈور بیل کے جواب کا منتظر تھا۔
’’آج میں اس کے ہاتھ کی کافی پیوں گا اور اس کے لان میں بیٹھ کر سردیوں کی دھوپ سینکوں گا پھر ہم کچھ باتیں ، کچھ خواب اور کچھ اداسیاں ، بسکٹ کی طرح بانٹیں گے اور انجوائے کریں گے۔‘‘ وہ چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ سجائے سوچ رہا تھا۔
دروازہ اس آدمی کو ، اس کے ہاتھ میں پکڑے سرخ گلابوں کو ، اس مسکراہٹ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا اور اندر آتے شور کو سن رہا تھا۔ اردگرد کے درختوں نے بھی اپنے آنسو پتوں کی شکل میں گرانے شروع کر دیے تھے۔
اس محبت ِنا تمام پر اس خزاں میں انہیں بہت ماتم کرنا تھا۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے (عالمی افسانہ)

Read Next

تین سوال — لیو ٹالسٹائی (مترجم: سعادت حسن منٹو)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!