ٹھیک دو دن بعد مقررہ وقت کے کئی گھنٹے بعد اس نے لیپ ٹاپ پہنچا دیا تھا۔ وہ مطمئن بھی تھی مگر پریشان بھی۔ اب لیپ ٹاپ چیک کرنا تھا، آیا وہ ٹھیک حالت میں ہے بھی یا نہیں۔ سو پھر ماما کے کزن کے بیٹے کی خدمات ہی لی گئیں۔ ”پتا نہیں وہ آئے گا بھی یا نہیں” وہ سخت پریشان تھی… کہیں اسے ہمارا لیپ ٹاپ واپس کرنا برا نہ لگا ہو… لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وہ لڑکا مقررہ وقت پر کہیں قریب ہی تھا سو پہنچ گیا … لیپ ٹاپ دیکھ کے اسے دھچکا ضرور لگا… اسے کال پر کی گئی بات یاد آئی۔
”میڈم آئی فائیو تو نہیں ملا… آئی سیون لے آئوں۔”
”اس کی باقی سپیسفکیشنز کیاہیں۔” وہ الجھی الجھی تھی۔
”پہلے والے سے تھوڑی زیادہ ہیں…”
”تھوڑی زیادہ سے مراد میں سمجھی نہیں… کیا زیادہ کتنا زیادہ؟”
”وہ دراصل ہم اسلام آباد سے منگواتے ہیں۔”
”ابھی بندہ گیا ہے وہ لے آئے تو میں آپ کو بتاتا ہوں…”
”اس کی قیمت کیا ہو گی؟”
”قیمت تھوڑی زیادہ ہو جائے گی…”
”کتنی زیادہ ؟ صاف صاف بتائیں” وہ جیسے اس ہیرا پھیری سے تلملائی۔
”آپ کو تقریباً چوبیس ہزار تک ملے گا۔”
”یہ میرے بجٹ سے زیادہ زیادہ ہے… میں بیس اکیس سے زیادہ افورڈ نہیں کر سکتی۔”
”چلیں آپ کے لئے میں آئی سیون اکیس تک ارینج کر دوں گا۔”
آج جب اس کے آنے سے پہلے بھی اس کی بات ہوئی تھی تو اس نے بولا تھا وہ اکیس میں اس کے لئے لیپ ٹاپ لائے گا، جو اس نے آئی سیون کی قیمت بتائی تھی۔ اب وہ آئی فائیو کی یہ قیمت بتا رہا تھا۔ وہ اور اس کی ماما دکان کے سامنے ایک فاسٹ فوڈ شاپ پر بیٹھے تھے۔ جب ہی ماما کے کزن کا بیٹا لیپ ٹاپ لے کے آگیا۔ ”مجھے تو ٹھیک لگ رہا ہے اب کیا کروں۔ اس نے مجھے جو آئی سیون کی قیمتبتائی تھی، اس میں یہ آئی فائیو لایا ہے… قیمت بہت زیادہ بتا رہا ہے…” اس نے انتہائی بے چارگی سے ماما سے کہا…
”آپ قیمت کی فکر مت کریں ۔وہ میں بار گین کر لوں گا۔ آپ کا کام کرے گا…”
”ایسا کرتی ہوں کہ میں یہ کسی نیٹ کیفے پر لے جاتی ہوں وہاں سے اس کی سپیسفیکیشنزٹھیک طرح سے چیک کر لیتی ہوں۔” وہ یہ کہہ کے اُٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کے سامنے میز پر ایک ایوو آگئی۔ ”اس سے چیک کر لیں…” اس نے انتہائی ممنونیت سے ایوو اُٹھائی اور اپنا کام کرنے لگی۔ کمپیوٹر کی خصوصیات میں پروسسر کے سامنے کھلی لائن اس نے کاپی کر کے گوگل میں پیسٹ کی اور اینٹل کی ویب سائیڈ کالنک کھولا… یہ سسٹم تقریباً وہاں موجود موجود تمام خصوصیات کو سپورٹ کر رہا تھا۔ وہ خاصی خوش ہوئی مگر قیمت سے اتنی ہی بد دل ہو رہی تھی…”یہ سسٹم بالکل ٹھیک ہے ۔ مگر یہ قیمت…”
”آپ فکر مت کریں۔ میں کوشش کرتا ہوںکہ وہ اٹھارہ تک دے دے…”
وہ لیپ ٹاپ لے کے چلا گیا اور یہ سودا اچھا ہونے کے لیے مسلسل درود شریف کا ورد کرتی رہی۔ آخر کار اس نے انیس ہزار معہ دو سو ڈیلیوری ٹیکس میں لیپ ٹاپ دے دیا… وہ خوشی خوشی گھر واپس آئی… اس کا لیپ ٹاپ اُس جونیئر لڑکی کے لیپ ٹاپ جتنا ہلکا نہ سہی لیکن پھر بھی خاصا ہلکا تھا… رات کے وقت کام کرتے ہوئے اس نے سی ڈی روم کھولنے کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ کھلا، دراصل اسے سی ڈی روم کا پریس کرنے والا بٹن نہیں مل رہا تھا۔ اس نے بہت غور سے دیکھا وہاں سی ڈی روم کی جگہ تھی نشان بھی بنا ہوا تھا مگر اس کے کھلنے کا کوئی طریقہ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سو اس نے چھوڑ دیا۔
اگلے دن اس نے کالج میں اپنی دوستوں سے بات کی۔ بڑی سوجھ بوجھ کے بعد یہ طے پایا، ہمیں سی ڈی روم کھولنا نہیں آرہا سو کسی سے مدد لیتے ہیں۔ وہ لیپ ٹاپ لے کے ایک ٹیچر کے پاس گئیں، ”سر اس کا سی ڈی روم ہم سے نہیں کھل رہا، یہ کیسے کھلے گا؟”
”اس میں سی ڈی روم ہے کیا؟…” سر نے حیرت سے سوال کیا…جواب میں وہ تلملا کے رہ گئی…
”پتا نہیں… سر میں نے کل ہی یہ لیا ہے۔”
”جگہ تو ہے” سر نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ”میرے خیال میں اس میں سی ڈی روم نہیں ہے… آپ کسی اور کو بھی دکھا لیں” سر نے انہیں لیپ ٹاپ واپس کرتے ہوئے کہا۔ اس بات کی تسلی اس نے ایک دو سٹوڈنٹس سے بھی کروا لی… سب کو اس کا سسٹم، ایک سی ڈی روم والے مسئلے کے علاوہ بہت پسند آیا تھا۔ اب اگر سی ڈی روم کے علاوہ کوئی مسئلہ رہ گیا تھا تو وہ وہ خود تھی۔ اسے اب اس میں بے شمار مسائل نظر آرہے تھے۔ ایک مسئلہ اس کے کی بورڈ کے بٹن تھے جو کہ عام بٹنوں سے ہٹ کے تھے کچھ بٹن ایسے تھے جن پر لکھا کچھ ہوتا تھا اور بٹن دبانے پر ٹائپ کچھ اور ہوتا تھا۔ جیسے وہ فل سٹاپ والے بٹن کو دباتی تو سلیش سکرین پر نمودار ہو جاتی، ہوم اور اینڈ کا بٹن تو سرے سے تھا ہی نہیں… وہ خاصی پریشان تھی، حد یہ کہ جب وہ وائی فائی کا بٹن دباتی تو نوٹیفکیشن ایریامیں، بلوٹوتھ کا نشان آجاتا۔ وہ بہت پریشان تھی اب کیا کرے؟ اسے بھی واپس کر دیتی ہوں۔ اس سے تو پہلے والا ہی ٹھیک تھا۔ کاش وہ واپس ہی نہ کیا ہوتا، وہ خاصی پچھتا رہی تھی… ”اب کیا کروں…” وہ مسلسل سوچ سوچ کے پریشان ہو رہی تھی۔ آخر اس نے اس بندے کو دوبارہ کال کرنے کا فیصلہ کر لیا… یہ گفت گو زیادہ خوش گوار ثابت نہ ہوئی… وہ مصر تھی کہ اس نے اسے پہلے کیوں نہیں بتایا اس میں سی ڈی روم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔
وہ کہتا اس نے کب بولا تھا اس میں سی ڈی روم ہے۔ کی بورڈ کی کیز والے مسئلے پر اس نے کہا کہ وہ لیپ ٹاپ کی کسی بھی دکان پر جائیں یہ مسئلہ ہر لیپ ٹاپ میں ہوتا ہے… وہ سخت نالاں تھی۔ وہ جانتی تھی اس کے سابقہ لیپ ٹاپ میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے اس سے لیپ ٹاپ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ مگر اس بندے نے انکار کر دیا… تبدیلی کا کہا تو جواب آیا کہ اس کے پاس سی ڈی روم والے چند ماڈل اور بھی ہیں وہ چند دن تک ایبٹ آباد آئے گا توساتھ لیتا آئے گا مگر ان کی قیمت بھی زیادہ ہو گی۔ اس نے استفسار کیا کتنی زیادہ ؟وہ گول مول جواب دیتے ہوئے بولا۔ وہ جب میں لائوں گا تو آپ کو بتائوں گا… پھر ایک کے بعد ایک دن گزرتا گیا اس بندے کا کوئی جواب نہ آیا تھا۔ دو ہفتے گزر گئے۔ آخرکار وہ مایوس ہو گئی۔ اب اس نے اسی لیپ ٹاپ پر اپنی تمام تر سیٹنگز کر لی تھیں۔ جو کی بورڈ والا مسئلہ تھا اس پر بھی اس کا ہاتھ چل گیا تھا اور وائی فائی بھی ٹھیک کام کر رہاتھا۔ بیٹری ٹائمنگ اور اتنے کم وزن سے اس کا دل مزید بڑھا تھا… اب وہ بڑی حد تک اس کی عادی ہو چکی تھی کہ اچانک اس کا فون بج اٹھا… ”جیسا سسٹم آپ کو چاہیے تھے اسی طرح کے چند ماڈلز آگئے ہیں، اگر آپ کو چاہئے تو کل لے آئوں۔”
”کیا فیچرز ہیں ان ماڈلز کے؟…”
”جو آپ کو پہلے دیا ہے اس سے ایک نمبر اوپر کا ماڈل ہے پر قیمت اس کی زیادہ ہو گی…”
”کتنی زیادہ …”
”تقریباً ستائیس ہزار…”
”نہیں مجھے نہیں چاہئے…” اس کا اس بار بدھو بننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا… اور ویسے بھی اب اس کا اتنا کام اور اسائمنٹس اس لیپ ٹاپ میں پڑی تھیں…
٭٭٭٭