لیپ ٹاپ — ثناء سعید

پریزنٹیشن تیار ہو گئی، جو اس نے بڑے عمدہ انداز میں پیش بھی کر دی تھی، مگر اپنے اس ساڑھے پانچ کلو کے لیپ ٹاپ کو اُٹھائے پھرتے وہ تھکاوٹ سے چور ہو چکی تھی، اس کے بازوئوں میں بہت درد ہو رہا تھا۔ ظلم صرف یہی نہیں بلکہ زیادتیوں کی فہرست خاصی طویل تھی۔ سب کلاس فیلوز جانتی تھیں کہ اس کا کام سب سے شان دار ہوتا ہے لہٰذا کالج میں داخل ہوتے ہی لڑکیوں نے اسے گھیر لیا۔ ”تمہاری پریزنٹیشن تیار ہے؟”صبا نے اس کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا… ”ہاں تیار ہے…” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، وہ ان تینوں کی چالاکیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ ہمیشہ اس کی چیز کو دیکھ کر پہلے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا اور بعد میں وہ سب من و عن اپنے کام میں شامل کرنا، ان کا وطیرہ تھا۔





”لیپ ٹاپ میں ہے”۔
”دکھائو”… صبا نے بڑے اشتیاق سے کہا… باقی دونوں بھی منتظر نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔
”اس کی چارجنگ کم ہے، ابھی پر پزنٹیشن کلاس میں دیکھ لینا۔” اس نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔
”صرف ایک نظر دیکھیں گے… دِکھا دو نا۔” اس دفعہ شافیعہ نے بچوں والے انداز میں کہا۔ ”کہا نا کہ چارجنگ بہت کم ہے۔ ابھی کلاس میں دیکھ لینا، کچھ خاص نہیں ہے، جو بھی بنایا ہے کلاس کے لئے ہی تو بنایا ہے…” اس نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
”ہم نے کب کہا کہ تم نے کلاس سے چھپانے کے لئے تیار کیا ہے، جو یوں وضاحت دے رہی ہو…” صبا انتہائی رکھائی سے بولی تھی۔” تمہیں ہم سے یوں بات نہیں کرنی چاہیے…” شافیعہ سپاٹ انداز میں خاصی خفگی سے بولی۔
اس کے آگے بڑھتے قدم رُک گئے تھے۔ ”میں نے کوئی نامناسب یا غلط بات نہیں کی اور نہ ہی میں کسی کے آگے جواب دہ ہوں، سو مجھے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا…” یہ کہتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی… ”یہ ہے ہی ایسی۔ غصے کی تیز اور بدمزاج…” اپنے پیچھے اسے فقرہ سنائی دیا تھا… دراصل کلاسز کے آغاز میں ہی شافیعہ نے اس سے دوستی کرنے کی کافی کوشش کی تھی، جب کہ صبا اور فلزا کھنچی کھنچی رہتیں۔ مڈٹرم کے امتحانات کے بعد ان دونوں نے اس کے ساتھ دوستی بڑھانی شروع کر دی۔ شروع میں تو اس کی ان سے کافی بنی مگر پھر شافیعہ اورصبا کی چاپلوسانہ قسم کی طبیعت اور مکاری کی حدوں کو چھوتے ہوئے خود غرض رویے نے اسے کافی دل برداشتہ کیا۔ سو اس نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے، شیبا اور آمنہ سے دوستی کر لی۔ اس معاملے میں شیبا اور شافیعہ کا ایک جھگڑا بھی کافی معاون ثابت ہوا تھا۔
آج کی شان دار پریزنٹیشن نے انہیں ایک بار پھر اس کی خوشامد کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آدھے گھنٹے کی پریزنٹیشن آرام و سکون سے اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ وہ خدا کا شکر ادا کر رہی تھی… اس نے نہ صرف لیکچر ٹھیک سے دیا بلکہ پوچھے گئے تمام سوالات کے جو ابات بالکل درست اور تسلی بخش دیے تھے… اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس کا لیپ ٹاپ بھی اس دوران بند نہیں ہوا۔ مگر لیپ ٹاپ نے بھی جیسے پریزنٹیشن ختم ہونے کا انتظار ہی کیا تھا۔ جیسے ہی اُس نے اٹھانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا، لیپ ٹاپ کی سکرین سیاہ پڑ گئی۔ اسے ستائشی جملوں کے ساتھ کئی یو۔ ایس۔ بیز بھی ملی تھیں۔ اس نے لیپ ٹاپ دوبارہ آن کیا اور ڈیٹا جلدی جلدی ان درجن بھر یو۔ ایس۔ بیز میں کاپی کیا۔ خدا خدا کر کے آج اس کے سارے کام خیرو عافیت سے انجام پائے تھے۔
٭٭٭٭
”کلاس! اگلے ہفتے سے آپ سب لوگ اپنے اپنے لیپ ٹاپ ساتھ لایئے گا، کیوںکہ میرے خیال میں اب ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ، آپ کو پریکٹیکلی کچھ سافٹ وئیرز پر کام کروایا جائے۔ اگر آپ ان سافٹ ویئرز پر کام نہیں کریں گے اور سیمولیشنر خود سے نہیں بنائیں گے تو اس مضمون کو پڑھانے کا مقصد فوت ہو جائے گا…” پروفیسر صاحب کی یہ بات سن کر کئی سر ہلے، کچھ سرگوشیاں بھی اُبھریں… ”جن کے پاس لیپ ٹاپ نہیں ہے وہ لے لیں۔ ویسے میں توقع کرتا ہوں کہ آپ سب کے پاس ہو گا ضرور…”
”سر لیب میں بھی تو کمپیوٹرز ہیں… ان پر کر لیں گے ہمیشہ کی طرح…” کسی نے چٹکی بجاتے ہوئے مسئلے کا حل پیش کیا ، جو شاید بالکل اسی کی طرح روزروز لیپ ٹاپ اٹھا کے لانے سے سخت بے زار تھا۔ ”جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں مگر، آپ کا اپنا سسٹم ہو تو زیادہ بہتر ہو گا بلکہ میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ آپ اپنا ہی سسٹم لائیں، آپ جو بنائیں گے وہ آپ کے پاس آپ کے اپنے سسٹم میں محفوظ ہو گا۔ گھر جا کر آپ اس پر نظرثانی کر سکتے ہیں، اس پر مزید کام کر سکتے ہیں۔”
”سر ہم سارا ڈیٹا یو ایس بی میں کاپی کر کے لائیں گے اور واپس لے جائیں گے…” ایک اور تجویز سنتے ہی سُر مسکرانے لگے…
”جی ہاں بالکل آپ ایسا کر سکتے ہیں… آپ الیکٹرانکس کے سٹوڈنٹ ہیں، آپ کے پاس بڑے بڑے مسائل کا حل موجود ہے، مگر آپ کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ لیب کے کمپیوٹرز میں وائرس ہے، جو ایسی صورت میں آپ کے لئے بڑے بڑے مسائل کھڑے کر سکتا ہے ، پہلے آپ کی یو ایس بی کو متاثر کرے گا، پھر سسٹم کو اور پھر…”
”تو سر کمپیوٹرز کو ٹھیک سے سکین کر کے وائرس ختم کیا جائے ۔” وہ لڑ کا بہ ضد تھا کہذاتی لیپ ٹاپ نہ لائے جائیں۔
”یہ لیب پورے کالج کے لئے ہے، دن میں سینکڑوں سٹوڈنٹس ادھر آتے ہیں۔ وہ فلیش ڈرائیوز اٹیچ کرتے ہیں… مختلف سائیٹس سرچ کرتے ہیں، ڈائون لوڈنگ کرتے ہیں، کئی طرح کا وائرس آجاتا ہے، ایک اینٹی وائرس ہر طرح کے وائرس کو نہ ہی ڈیٹکٹ کر سکتا ہے اور نہ ہی ختم اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ روزانہ سسٹمز کو سکین کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ آپ کاچوتھا سمسٹر جا رہا ہے، اب آپ تھوڑے ہیوی قسم کے سافٹ ویئرز استعمال کریں گے۔ تھوڑے چلینجنگ پراجیکٹس پر کام کریں گے۔ آپ اپنا اپنا لیپ ٹاپ لائیں تو یہ ہی بہتر رہے گا۔” پروفیسر صاحب نے وضاحت سے جواب دیا۔
ساتھ ہی کلاس کا وقت ختم ہوا اور پروفیسر صاحب اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کلاس سے باہر نکل گئے۔
٭٭٭٭
گھر میں داخل ہوتے وقت اس کے چہرے پر تھکن اور پریشانی کے تاثرات نمایاں تھے۔ امی نے فوراً نوٹ کیا، سو بڑی فکر مندی سے پوچھا: ”بیٹا کیسا رہا آج کا دن، پریزنٹیشن اچھی ہو گئی نا؟…” امی کافی متفکر تھیں۔ ”فرسٹ کلاس، اب تک کی بہترین پریزنٹیشن تھی…” اس نے بہ دستور تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
”تو پھر تمہارا رویہ ایسا کیوں ہے؟ تھکا اور پریشان سا؟…”
”وجہ ہے اتنے وزنی لیپ ٹاپ کو اُٹھانا…” اس نے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی جانب اشارہ کیا۔
”چلو پھر تم آرام کرو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو لاتی ہوں…”
”ماما میں خود کچن سے لے لیتی ہو… آپ رہنے دیں۔”
”اب اگلے ہفتے سے تو روز ہی لے جانا پڑے گا لیپ ٹاپ، سرنے کہہ جو دیا ہے۔” اسے بھاری بھرکم لیپ ٹاپ اٹھانے سے سخت چڑ تھی، کیوںکہ وہ اس تجربے سے کئی بار گزر چکی تھی۔ اس نے اپنے چکراتے سر کو اٹھایا… ماما غائب تھیں، وہ مسلسل اپنا سر سہلا رہی تھی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

محرمِ دل — نفیسہ عبدالرزاق

Read Next

نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!