لیپ ٹاپ — ثناء سعید

اگلے دن ماما نے اسے بتایا کہ انہوں نے اپنی کسی کزن سے بات کی ہے اس کا بیٹا شام کے وقت آئے گا۔ اس نے انہیں ایک دُکان کا پتا بتایا تھا، وہ ماماکو ساتھ لے کر شام کے وقت اس دکان پر پہنچ گئی۔ آٹھ نو لیپ ٹاپ دیکھنے کے بعد ایک انہیں پسند آگیا… تئیس ہزار قیمت… ان کے بھائو تائو کرنے پر وہ اکیس میں راضی ہو گیا… اسے لیپ ٹاپ بہت پسند آیا تھا۔ وہ قیمت ادا کرنے کے لئے پیسے نکال رہی تھی کہ عین اسی لمحے ماما کی کزن کا بیٹا اندر داخل ہوا۔ معمول کی دعا سلام کے بعدوہ پیچھے ہٹ گئی اوراس لڑکے نے لیپ ٹاپ کا معائنہ شروع کیا، … ٹچ پیڈ پر انگلی رگڑنے کے بعد اس نے سسٹم کو شٹ ڈائون کر کے دوبارہ آن کیا، سسٹم دوبار ہ آن ہوا تو اس کی سکرین پر عجیب و غریب رنگوں میں ڈسپلے آرہا تھا… دُکان دار سے پوچھا تو وہ بولا کوئی مسئلہ نہیں، لیپ ٹاپ کو ہلکا سا ہلانے پر وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے ایک دوبار پھر آن آف کیا۔ ہر دفعہ ہی یہ مسئلہ آرہا تھا، سو وہ لیپ ٹاپ بھی نامنظور ہو گیا… اس کے بعد وہ، اسے اور ماما کو چند اور دکانوں پر لے گیا۔ کہیں بھی تیس ہزار سے کم کا لیپ ٹاپ نہیں تھا۔ دراصل ایبٹ آباد جیسے چھوٹے شہر میں لیپ ٹاپ کی مارکیٹ ہی بہت کم تھی۔ آخرکار وہ انہیں ایک دکان پر لے گیا… ”اسے آپ اپنی دکان سمجھیں،آپ دیکھیں آپ کو کچھ پسند آتا ہے تو…” پانچ چھے سسٹمز دیکھنے کے بعد اس نے بالآخر ایک ایچ پی کا لیپ ٹاپ پسند کر ہی لیا۔ قیمت اٹھائیس ہزار تھی، کور آئی فائف، چار جی بی ریم اور پانچ سو جی بی ہارڈ سک تھی، وہ کافی خوشی خوشی واپس آئی۔ لیکن اس کی یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اگلے دن وہ جب اپنا سسٹم کالج لے کر گئی تو سب کو اچھا لگا مگر جب قیمت بتائی تو سب کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا… اسے اس وقت بہت رونا آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا اس کے ساتھ۔ حد یہ کہ وہ ایڈوانس کے طور پر بیس ہزار بھی دے آئی تھی… اس کے دماغ میں بار بار دکان دار کا ایک ہی جملہ گونجتارہا، ”چار گھنٹے کا بیک اپ ہے۔”





”یار یہ سسٹم بلاشبہ اچھا ہے مگر اس کی کیسنگ دیکھو بہت پرانی ہے۔ اس قدر شائن والی کیسنگ پرانے دور میں ہوا کرتی تھی، اور اس کے کارنرز بھی رائونڈ ہیں دوسری بات یہ کہ اچھا خاصا استعمال شدہ بھی ہے۔”
”تو پھر کیسا لوں؟”
”جیسا آمنہ کا ہے اس قسم کا ہو ، دیکھو اس کے کونے کیسے نوک والے ہیں اور کیسنگ جیسے اس کی بالکل اصلی ہو … میرا بھائی بھی میرے لئے ایسا ہی لائے گا یہ بہت کم یوزڈ ہوتے ہیں۔”
”یہ ٹھیک نہیں …لیکن اب میں کیا کروں؟” وہ بہت پریشان ہو گئی۔
”تم کوشش کرو تمہیں سولہ سترہ تک دے دے…”
”پر ہم تو اسے بیس ہزار ایڈوانس کے طور پر دے آئے ہیں، اب کیا ہو گا؟”
”تم پاگل ہو ایڈوانس کے طور اتنی بڑی رقم… صرف آٹھ دس ہزار دینے تھے…”
”اب کوشش کرو اسے مزید رقم مت دو۔”
”کیا کروں، وہ بھائی کہہ رہے تھے چوبیس تک شاید دے دے…”
”نہیں، عفیرہ یہ تو بہت زیادہ ہے۔ اتنے میں نہیں لینا۔” شیبا جیسے چلائی تھی…
”میں ماما سے کہہ کے یہ واپس کروا دوں گی…” وہ سخت دل برداشتہ ہوئی تھی۔ کالج سے واپسی تک وہ اسی الجھن کا شکار رہی کہ اسے یہ لینا چاہئے یا نہیں۔ تقریباً تین کلو سے کچھ زیادہ وزن تو اس کا بھی تھا۔ گھر آتے ہی اس نے لیپ ٹاپ کو ویٹ مشین پر رکھا پچھلے لیپ ٹاپ کا وزن چھے کلو ضرور تھا مگر وہ چارجر اور بیگ سمیت تھا، جب کہ اس کا وزن بغیر چارجر اور بیگ کے تین کلو سے اوپر تھا۔ اس نے اپنا پرانا لیپ ٹاپ جب ویٹ مشین پر رکھا تو اس کا وزن بھی ساڑھے چار اور پونے پانچ کلو کے درمیان نکلا… اس کے دل میں ہول اٹھنے لگے۔ صر ف ایک کلو کے لئے اتنی بڑی رقم میں کیوں ادا کروں ؟ وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔
”ماما یہ لیپ ٹاپ میرے کام کا نہیں ہے میں نے ٹھیک سے چیک کروا لیا ہے۔ آپ یہ واپس کروا کے رقم واپس لے لیں۔”
”کیوں کیا خرابی ہے اس میں؟ ابھی کل تو تمہیں یہ بہت پسندآیا تھا۔”
”ماما میں نے سہیلیوں کو دکھایا ہے یہ بہت پرانا ہے اور وہ بہت مہنگا بھی دے رہا ہے۔”
”اچھا … چلو میں بات کرتی ہو۔ اب وہ واپس لے گا؟”
”آپ بات تو کریں نا، ہم نے وارنٹی کی بات تو کی تھی۔”
”ہوں… دیکھتی ہوں۔”
ماما نے نہ صرف بات کی تھی بلکہ عفیرہ کے مسلسل اصرار پر اگلے دن وہ لیپ ٹاپ اس لڑکے کے گھر ہی دے آئی۔ وہ لڑکا گھر پر نہیں تھا وہ اس کے گھر پر چھوڑ کے آگئی… اس لڑکے اور دکاندار کے مابین کیا بات ہوئی وہ تو پتا نہیں مگر دو دن بعدلڑکے کی امی آکر بیس ہزار دے گئیں۔ اب اس کی تلاش پھر نئے سرے سے شروع ہو گئی تھی… ہزاروں لاکھوں کوششوں کے باوجود اسے اپنے مطلب کی چیز نہیں مل رہی تھی۔ اب کیا کروں؟… ٹھیک تو تھا وہ والا لیپ ٹاپ، چار گھنٹے نکال لیتا تھا مجھے کون سی ویڈیوز دیکھنی تھیں اس پر۔ میری لیب آرام سے گزر جاتی۔ وہ سخت نالاں تھی۔ ہر گزرتا لمحہ اس کی کوفت میں اضافہ کرتا جا رہا تھا۔ آخر کار او۔ ایل۔ ایکس پر اسے ایک پیس پسند آہی گیا۔ لیپ ٹاپ کے مالک کی طرف سے ای میل کا کوئی جواب نہ آیا تو دو دن بعد تنگ آکر اس نے اشتہار کے ساتھ دیے گئے نمبر پر کال کی۔ ”وہ تو بک گیا۔ میں آج اشتہار ہٹا دوں گا۔” اس شخص نے بتایا۔ اسے انتہائی مایوسی ہوئی گو کہ اس نے اظہار نہیں کیا تھا مگر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ چاہتی تھی۔ ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کے فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ اسی نمبر سے کال آئی تھی۔ ”ہیلو ابھی آپ نے کال کی تھی، آپ کو لیپ ٹاپ لینا تھا؟”
”جی”
”اگر آپ کو ضرورت ہے تو میں آپ کے لئے ایک اور منگوا سکتا ہوں۔”
”کب تک۔”
”تین چار دنوں میں۔”
”مجھے جلد از جلد چاہئے۔”
”میں آپ کو پرسوں بتائوں گا۔”
”جو آپ مجھے ارینج کر کے دیں گے وہ کون سا لیپ ٹاپ ہو گا؟”
”سیم ٹو سیم یہی ہو گا۔”
”اور قیمت؟”
”آپ کو تقریباً اتنے میں ہی مل جائے گا۔”
”کتنا پرانا ہو گا، مطلب کتنا استعمال شدہ ہو گا؟”
”زیادہ نہیں، اچھی حالت میں ہو گا۔”
”ایک بات اور آپ چیک وارنٹی دے رہے ہیں؟”
”جی بالکل دو دن کی چیک وارنٹی ۔”
”ٹھیک ہے” تمام معلومات لینے کے بعد اس نے فون بند کیا تھا۔ اس کا انتظار پھر شروع ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

محرمِ دل — نفیسہ عبدالرزاق

Read Next

نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!