لیپ ٹاپ — ثناء سعید

آج ہفتے کا تیسرا دن تھا اور وہ مسلسل اپنا بھاری لیپ ٹاپ کالج لا رہی تھی۔ اس کے دونوں بازو سخت دکھ رہے تھے۔ اس کی نازک جسامت لیپ ٹاپ کو اٹھا اٹھا کر عاجز آچکی تھی… بات اتنی ہی نہ تھی۔ لیب تین گھنٹے کی تھی جس میں کوئی اچھا لیپ ٹاپ کم از کم ڈھائی گھنٹے تو مسلسل چلتا تھا مگر اس کے لیپ ٹاپ کا بیک اپ بہ مشکل ایک گھنٹہ پندرہ منٹ تھا۔ وہ لیب میں بجلی کے سوئچ کے تلاش زیادہ اور باقی کام کم ہی کرتی تھی۔ بات یہ نہیں تھی کہ باقی سب کے لیپ ٹاپس کا بیک اپ بہت زیادہ تھا لیکن کم از کم اس لیپ ٹاپ سے تو زیادہ ہی تھا۔ اوپر سے اس کے ہارڈویئر میں مسئلہ تھا… یہ بہت سست چلتا تھا… پہلا ہفتہ وہ لیپ ٹاپ نہیں لائی تھی مگر پروفیسر صاحب کی بات سچ ثابت ہونے پر اسے لیپ ٹاپ لانا ہی پڑا۔ اس کے کاندھے دُکھ رہے تھے، بازو ں میں جیسے کسی نے لوہے کی سلاخیں بھر دی تھیں۔ اس کی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ اس وقت بھی وہ اپنے دکھتے بازوئوں کو سہلاتے ہوئے رجسٹر پر کچھ لکھنے ہی والی تھی کہ اسے اپنی ایک جونیئر لڑکی کی آواز آئی ”ایکس کیوز می سینئر۔”





”جی…” اس نے سر اُٹھا کے ایک خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔”ایک اسائنمنٹ ہے آپ کی مدد چاہئے…”
”جی ضرور…” اس نے کھلے دل سے پیش کش کی۔ ”یہ میں نے کچھ مواد ڈائون لوڈ کیا بھی ہے۔” اس نے اپنے لیپ ٹاپ پہ کچھ فائلز کھول کر اس کی جانب بڑھایا۔ لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیتے ہی وہ حیران پریشان رہ گئی تھی … اس کا لیپ ٹاپ روئی کی طرح ہلکا تھا۔ ایک عام رجسٹر سے بھی زیادہ ہلکا…
”یہ کون سا سسٹم ہے…” اس نے بظاہر عام سے انداز میں پوچھا تھا…
”سونی کا آئی سیون۔”
”ماڈل کون سا ہے”
”مجھے نہیں پتا آپ خود ہی دیکھ لیں…”
”بہت ہلکا ہے بالکل ویٹ لیس… بیک اپ کتنا ہے اس کا”
”پتا نہیں میں نے چیک نہیں کیا۔ ایک دفعہ چارج کرو تو کافی ٹائم چل جاتا ہے۔ چارجنگ ختم نہیں ہوتی اس کی۔ مجھے کبھی کام کے دوران چارج نہیں کرنا پڑا…” وہ خاصی مرعوب ہوئی تھی۔
”اور یہ چارج ہونے میں کتنا ٹائم لیتا ہے؟”
”ذرا سی دیر لگانا پڑتا ہے… بس ایک گھنٹے میںہی چارج ہو جاتا ہے۔” وہ اور بھی زیادہ مرعوب ہوئی تھی۔
”کتنے میں لیا ہے؟”
”پتا نہیں بھائی نے بھیجا ہے، وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی روپے میں تقریباً ایک لاکھ کا ہو گا ” وہ جانتی تھی کہ خاصا مہنگا ہو گا مگر پھر بھی کافی حسرت سے اسے دیکھا۔ وہ لڑکی اپنا کام کروا کے جا چکی تھی مگر اس کے دماغ میں لیپ ٹاپ نقش ہو کر رہ گیا تھا… مناسب قیمت میں، اچھے بیک اپ والا ہلکا لیپ ٹاپ اس کے خوابوں میں حقیقتاً آبسا تھا۔ موجودہ لیپ ٹاپ پر اس کا کام ٹھیک طریقے سے نہیں ہو رہا تھا۔ سو اب اس نے ادھر بیٹھے بیٹھے نیا لیپ ٹاپ خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔
٭٭٭٭
”میں نیا لیپ ٹاپ خریدنا چاہتی ہوں۔ کوئی مشورہ دو” اس نے اپنی دوستوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھی لینا ہے، میں تو اویل ایکس (OLX) پر سرچ کر رہی ہوں۔” شیبا جھٹ سے بولی۔
”یار پاکستان سے تو نہ ہی لو۔ میرا بھائی کہتا ہے، ادھر ایسی چیزیں دراصل پن پیک نہیں ملتیں، باہر سے آتی ہیںاور اکثر استعمال شدہ ہوتی ہیں” مہروش نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”تو پھر یہاں دکانوں سے ملیں گے سیکنڈ ہینڈ لیپ ٹاپ۔”
”شاپس سے تو نہ لو۔ وہ اپنا پرافٹ رکھ کر بہت مہنگا دیں گے تمہیں…” مہروش بولی۔
”تو پھر کدھر سے لوں؟ اب ریڑھی والا تو لیپ ٹاپ بیچتا نہیں۔”اُس نے منہ بگاڑا۔
”ارے او۔ایل۔ یکس۔ پر دیکھو بھائی…” شیبا نے یوں جواب دیا جیسے اس نے کوئی احمقانہ بات کی ہو۔
”میرے لئے تو میرا بھائی کراچی سے لے آئے گا، ادھر سے کافی اچھے ملتے ہیں۔”
”کب تک … لا رہا ہے تمہارا بھائی…؟” وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
”ابھی کچھ پتا نہیں۔ اس ماہ کے آخر میں اسے آنا تھا مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے نہ آسکا۔ کہہ رہا تھا شاید اگلے ماہ بھی نہ آ پائوں… ایک تو میرے لیپ ٹاپ کی بات جب بھی آتی ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور کھڑا ہوتا ہے۔”
”ہوں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ بھجوا دے کس کے ہاتھ…”
”نہیں ایسا کوئی بندہ نہیں ہے…”
”میں کہہ رہی تھی، اگر ایسا ہو سکے تو مجھے بھی ایک منگوا دو، تمہارے بھائی کو اندازہ ہو گا نا…”
”یار مجھے وہ سال سے کہہ رہا ہے لا دوں گا مگر ابھی تک نہیں لایا۔ میں کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی… پہلے وہ مجھے تو لا دے۔” جو آس بندھی تھی وہ بھی ٹوٹ گئی۔
”اب کیا کروں…” وہ سوچنے لگی۔
٭٭٭٭
دو دن سے مسلسل وہ او۔ایل۔ ایکس پر تلاش کر رہی تھی، مگر نتیجہ صفر ہی تھا۔
”میں کیا کروں او۔ایل۔ ایکس پر بھی کچھ ٹھیک مل ہی نہیں رہا…”
”کچھ شاپس پر دیکھ لو…” شیبا نے بولا تھا۔
”مہروش تو کہہ رہی تھی کہ دکان سے نہ لوں۔ وہاں سے بہت مہنگا ملے گا…”
”تو قیمت کم کروانا نا……”
”اچھا چلو ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں…”
”کوئی جاننے والا ہو تو اس کے ساتھ جانا۔ یہ نہ ہو کہ دکان والا تمہیں اُلو بنا دے۔”
”اب ساتھ کس کو لے کے جائوں… کاش کہ میرا کوئی سمجھ دار سا بڑا بھائی ہوتا۔” اس نے بڑی حسرت سے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
”بڑے بھائی بھی کچھ نہیں کرتے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بڑے بھائیوں والی بھی بیٹھی ہوئی ہیں…”
”چلو ماما سے بات کرتی ہوں، دیکھو کوئی صورت نکلتی ہے یا نہیں۔” اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ”یار پریشان مت ہو ہم بھی تمہاری طرح ہی ہیں…” وہ جواباً صرف مسکرائی تھی۔
٭٭٭٭
”ماما مجھے نیا سیکنڈ ہینڈ لیپ ٹاپ چاہئے۔ کوئی کمپیوٹر کی سوجھ بوجھ رکھنے والا بندہ چاہیے جو مجھے دلوا دے”۔
”کیا تم خود نہیں لے سکتی ہو؟ یا تمہاری دوستیں…؟”
”نہیں ماما کوئی ایسا بندہ ہو جو لیپ ٹاپس کی مارکیٹ کو سمجھتا ہو۔ وہ مجھے صحیح لیپ ٹاپ دلوا سکتا ہے۔”
”ایسا بندہ کون ہو سکتا ہے؟” ماما سوچ میں پڑ گئیں۔ ”ایسا کرو تم نیا لے لو۔” جب انہیں کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک نئی تجویز دی۔ جواباً اس نے مہروش کی بات دہرائی۔
”اچھا تو ایسا بندہ کہاں سے لائوں…” وہ قدرے پریشان ہوئیں… ”چلو میں کوشش کرتی ہوں کوئی نظر میں آئے تو بات بھی کرتی ہوں۔” ماں سے بات کر کے ایک دفعہ پھر وہ او۔ایل۔ایکس کھنگالنے لگی… کل اس نے ایک دو اشتہارات پر پیغامات بھی بھیجے تھے لیکن اب تک ان کا بھی کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ آخرکار تھک ہار کے اس نے فیصلہ کیاکہ اب وہ لیپ ٹاپ دکان سے ہی خریدے گی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

محرمِ دل — نفیسہ عبدالرزاق

Read Next

نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!