”میں پاکستان جا رہا ہوں۔” کیتھرین کافی کا سپ لینا بھول گئی۔ مظہر کے پیپرز ہو رہے تھے اور آج وہ بہت دنوں کے بعد ملے تھے۔
”پاکستان؟”
وہ مسکرایا۔ ”ہمیشہ کے لیے نہیں جا رہا۔ چند ماہ کے لیے جا رہا ہوں پھر واپس آ جاؤں گا۔” وہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
”مگر کیوں؟”
”بہت سارے کام نمٹانے ہیں وہاں…” وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”اپنی شادی کے بارے میں بھی کچھ فیصلے کرنے ہیں۔” وہ اب کچھ سوچ رہا تھا۔ کیتھرین کو محسوس ہوا بعض دفعہ صرف سانس لینا بھی خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسے پہلے سے زیادہ سردی لگنے لگی۔ اس نے مظہر کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔ کافی کا کپ اس نے بینچ پر رکھ دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی، مظہر اس کے ہاتھوں کی لرزش دیکھے۔ اسے یاد آیا۔ مظہر نے کبھی اس کو پرپوز نہیں کیا تھا۔ پھر اب اگر وہ اپنی شادی کے بارے میں… ”مجھے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ وہ مجھ سے شادی بھی کرے گا۔” وہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے خیال کو ذہن سے جھٹک رہی تھی۔ پھر اسے یاد آیا اسے مظہر کو مبارکباد دینی چاہیے۔
“Congrats” (مبارک ہو) اس نے مدھم آواز میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”کس لیے؟” وہ حیران ہوا۔
”آپ پاکستان شادی کے لیے جا رہے ہیں۔” وہ ہکا بکا رہ گیا۔ پلکیں جھپکائے اور کچھ کہے بغیر وہ اسے دیکھتا رہا۔ کیتھرین اس کے تاثرات پر کچھ پریشان ہوئی۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس کے جملے میں کس چیز نے اسے پریشان کیا تھا۔ ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے کیتھرین سے پوچھا۔
”آپ سے یہ کس نے کہا کہ میں پاکستان شادی کے لیے جا رہا ہوں؟”
”آپ نے خود کہا کہ آپ کو اپنی شادی کے بارے میں کچھ فیصلے کرنے ہیں۔” کیتھرین نے وضاحت کی۔
”فیصلے میں اور شادی میں بڑا فرق ہوتا ہے مس کیتھرین الیگزینڈر براؤن…” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کیا آپ ابھی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکیں کہ میں آپ سے شادی کے بارے میں اپنے والدین سے بات کرنے جا رہا ہوں۔” وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی۔ فوری طور پر اسے کس ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے، وہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”ویل؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”ویل!” مظہر نے وہی لفظ استفہامیہ انداز میں دہراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
”میں یہ اندازہ کیسے لگا سکتی تھی۔ آپ نے باقاعدہ طور پر مجھے کبھی پرپوز نہیں کیا۔” وہ اس کی بات پر حیران ہوا۔
”باقاعدہ طور پر کبھی پرپوز نہیں کیا؟ اوکے۔” وہ یک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیا آپ میرڈ ہیں؟” اس نے کیتھرین کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔” وہ اس کے سوال اور انداز پر حیران ہوئی۔
”کیا آپ انگیجڈ ہیں؟”
”نہیں۔” مظہر نے اس کے بالکل سامنے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ایک گھٹنا زمین پر ٹیک دیا۔ ایک بازو اس نے کمر کے پیچھے باندھا۔ دوسرا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔
”کیا میں آپ سے شادی کی درخواست کر سکتا ہوں۔ مس کیتھرین الیگزینڈر براؤن؟” وہ چند لمحوں کے لیے دم بخود اسے دیکھتی رہی پھر وہ بے اختیار کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ واضح طور پر وہ اس ساری صورتحال سے بہت محظوظ ہوئی تھی۔ مظہر کی سنجیدگی پر اس کی ہنسی نے کوئی اثر نہیں کیا تھا۔
”کیا میں اپنی درخواست دہرا سکتا ہوں؟” وہ ایک بار پھر پوچھ رہا تھا۔ کیتھرین کو اور ہنسی آئی، اس کی آنکھوں سے اب پانی نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ مظہر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تک نہیں ابھری تھی۔
”میڈم! میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔ کیا میں آپ کا ہاتھ مانگ سکتا ہوں؟” وہ اب بھی اسی سنجیدگی کے ساتھ اپنا ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے تھا۔ کیتھرین نے ہنستے ہنستے چند لمحوں کے لیے ایک ہاتھ ہونٹوں پر رکھ کر اپنی ہنسی پر قابو پایا اور دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
”اوہ یس مائی لارڈ۔” مظہر نے بڑی نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ہاتھ کی پشت کو چوما۔ “I’m honoured my most gracious lady” اس نے سترھویں صدی کے کسی نائٹ کی طرح کہا اور کیتھرین اپنا ہاتھ کھینچ کر ایک بار پھر اسی طرح ہنسنے لگی۔
مظہر اب زمین سے اٹھ کر دوبارہ بینچ پر بیٹھ چکا تھا۔ اس بار اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
”اتنی ہنسی کیوں آ رہی ہے آپ کو؟”
”میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ…” مظہر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”آپ نے کہا تھا میں نے آپ کو باقاعدہ طور پر پرپوز نہیں کیا۔ باقاعدہ طور پر تو پھر اسی طرح پرپوز کیا جاتا ہے… حیران کن بات ہے پچھلے آٹھ ماہ سے میں جس طرح ہر وقت آپ کو ساتھ لیے پھر رہا ہوں ،کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال تھا، آپ یہ بات سمجھ چکی ہوں گی مگر…” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ کیتھرین ہنسنا بند کر چکی تھی۔ ”میں نے پہلی بار تمہیں اس طرح ہنستے دیکھا ہے بہت اچھی لگی ہو۔”
اس نے یک دم بات کا موضوع بدل دیا۔
اس رات پہلی بار گھر جاتے ہوئے کیتھرین کو رستے میں موجود ہر چیز اچھی لگ رہی تھی۔ گندگی کے ڈھیر… گٹار بجاتے ہوئے ہپی… لین کے سرے پر کھڑے گالیاں بکتے ہوئے ٹین ایجرز… بھکاری… عمارت کی ٹوٹی ہوئی تاریک سیڑھیاں… اپنے فلیٹ کے ٹوٹے شیشوں والے روشن دان اور کھڑکیاں… شدید سردی میں باتھ روم میں آنے والا سرد پانی… کم از کم اس رات اسے کچھ بھی برا نہیں لگا تھا نہ ہی کسی چیز سے گھن آئی تھی۔
”بہت جلد میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔ ایک بہتر اور اچھی جگہ پر جہاں مظہر ہوگا… پھر ہم ساری عمر اکٹھے گزاریں گے…” اس نے خواب بننے شروع کر دیے۔
—–*—–
مظہر تین چار دن بعد پاکستان چلا گیا۔ وہ اسے چھوڑنے ائیرپورٹ گئی تھی۔
”میں آپ کو مس کروں گی۔” اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس سے کہا۔
”میں نہیں کروں گا… تم وہاں بھی میرے ساتھ ہی ہوگی۔” وہ کہتے ہوئے مڑ گیا۔ کیتھرین تب تک اسے دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔
مظہر کو پاکستان گئے دو ماہ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کا آپس میں کوئی تحریری رابطہ نہیں تھا۔ مظہر اس بلڈنگ سے ضرور واقف تھا جہاں وہ رہتی تھی مگر وہ کبھی اندر اس کے فلیٹ تک نہیں آیا تھا۔ کیتھرین لندن میں اس کی رہائش گاہ سے واقف تھی مگر پاکستان میں نہیں۔ وہ اس کی فیملی کے بارے میں بھی زیادہ نہیں جانتی تھی سوائے اس کے کہ وہ ایک پٹھان گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جو کراچی میں رہائش پذیر تھا اور اس کی فیملی بہت جلد سندھ سے پنجاب منتقل ہونے والی تھی۔ اس کے والد کا تعلق قانون کے پیشے سے تھا اور وہ ان ہی کی خواہش پر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن آیا تھا۔
کوئی رابطہ نہ ہونے کے باوجود اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی مظہر اگرچہ تین ماہ کا کہہ کر گیا ہے مگر اسے تین ماہ سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے صرف اتنا کافی تھا کہ وہ واپس آ جائے گا۔
سال ختم ہو رہا تھا۔ کرسمس کا تہوار قریب آ رہا تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے اس تہوار سے کوئی تعلق محسوس نہیں ہور ہا تھا۔ اس نے ابھی تک باقاعدہ طور پر اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ وہ مظہر کے آنے کے بعد اس کے ساتھ جا کر یہ کام کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ پہلے کی طرح ہر اتوار کو اسلامک سینٹر جایا کرتی تھی۔
کرسمس سے ایک دن پہلے وہ سارا دن ان جگہوں پر پھرتی رہی جہاں وہ مظہر کے ساتھ جایا کرتی تھی۔ اسے عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ ہر جگہ سے ان کی بہت سی یادیںوابستہ تھیں اور وہ تمام یادوں کو جیسے مجسم اپنے سامنے دیکھنا چاہ رہی تھی۔ وہ تمام جگہیں جو پہلے زیادہ تر سنسان ہوتی تھیں، اس دن لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہر جگہ بہت زیادہ رش تھا۔ ہر جگہ روشنی اور رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے دکانوں میں سجائے جانے والے کرسمس ٹری دیکھتی رہی۔
صبح سے ہونے والی برف باری رات تک جاری رہی تھی مگر برف سے اٹی ہوئی سڑکوں نے بھی لوگوں کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں کی۔ برف صاف کرنے والی گاڑیاں مسلسل سڑکوں سے برف صاف کرنے میں مصروف تھیں اور ماں باپ کے ساتھ شاپنگ یا تفریح کے لیے آئے ہوئے بچے برف کو اپنی ٹھوکروں سے اڑا رہے تھے۔ کچھ بچے برف کے گولے بنا کر راہ گیروں پر پھینک رہے تھے اور ہر غصیلی نظر پر وہ میری کرسمس کا نعرہ لگاتے دور بھاگ جاتے۔
اپنی لین میں داخل ہوتے ہی اس نے کیرل سنگرز کی ایک ٹولی کو کیرلز گاتے ہوئے گھر گھر جاتے دیکھا۔
بلند آواز سے گائی جانے والی کرسمس کیرل نے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
”اگر آج سانتا کلاز میرے گھر آئیں تو میں ان سے کہوں گی کہ وہ مظہر کو اسی وقت یہاں لے آئیں میری آنکھوں کے سامنے۔” وہ اپنے خیال پر بچوں کی طرح کھلکھلائی۔
دس بج کر بیس منٹ پر اس نے اپنے فلیٹ کی واحد کھڑکی بند کر دی۔ وہ اب باہر جھانکتے ہوئے تھک چکی تھی۔ کافی کے ساتھ چند اسنیکس لینے کے بعد جس وقت وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹی اس وقت گیارہ بج چکے تھے سونے سے پہلے اس نے ان چند لفظوں کو ہمیشہ کی طرح دہرایا جو اس نے اسلامک سینٹر میں سیکھے تھے۔
دوبارہ اس کی آنکھ فائرنگ کی آواز سے کھلی تھی۔ چند لمحے وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنے بیڈ پر ہی لیٹی رہی۔ فائر دوبارہ نہیں ہوا۔ ”شاید یہ کوئی کریکر ہوگا۔ کرسمس کی تقریبات اس وقت شروع ہو چکی ہوں گی۔” اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ آدھی رات سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔
دوبارہ آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہی وہ ایک بار پھر چونک گئی۔ عمارت میں کہیں دور بہت سے بھاری بوٹوں کی آوازیں آ رہی تھیں پھر کچھ دروازے دھڑ دھڑائے جانے لگے۔ وہ ان بوٹوں کی مخصوص آواز کو بہت اچھی طرح پہچانتی تھی۔ وہ ایک سال جو اس نے ایک Hooker کے طور پر گزارا تھا، اس نے اسے بہت سی چیزوں سے آشنا کر دیا تھا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اپنے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ آوازیں اب اور قریب آتی جا رہی تھیں پھر اس کا دروازہ بھی بلند آواز میں بجایا گیا۔
”کون ہے؟” وہ اس سوال کا جواب بخوبی جانتی تھی۔ ”اسکاٹ لینڈ یارڈ” بہت درشت لہجے میں باہر سے جواب دیا گیا تھا۔ اسے اپنا خون اپنی رگوں میں منجمد ہوتا محسوس ہوا۔
—–*—–
One Comment
Abhi paruhi tb