لاحاصل — قسط نمبر ۱

اس نے چونک کر سر اٹھایا اور ایک گہری سانس لے کر رہ گئی۔
”ہیلو کیسی ہیں آپ؟” اسی مدھم اور شستہ لہجے میں وہ اس سے مخاطب تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” ”آپ کیسے ہیں؟” اس نے مسکرا کر جواباً کہا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں، بیٹھ سکتا ہوں؟” وہ سیڑھی کی طرف اشارا کرتے ہوئے بولا۔
”ہاں، کیوں نہیں۔” اس نے خوش دلی سے کہا۔
”شکریہ۔” وہ اس کے بالکل ساتھ بیٹھنے کے بجائے دو فٹ کے فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کیتھرین نے کچھ حیران ہو کر اپنے اور اس کے درمیان چھوڑی جانے والی جگہ کو دیکھا۔
”آپ کی چوٹیں ٹھیک ہو گئی ہیں؟” اس نے یک دم بات شروع کی۔
”ہاں تقریباً۔”
”میں بہت دنوں سے آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ میرا خیال تھا آپ روز یہاں آتی ہیں مگر پچھلے دو ہفتے سے میں نے آپ کو یہاں نہیں دیکھا۔
”نہیں۔ میں روز یہاں نہیں آتی، کبھی کبھار کافی لے کر یہاں آتی ہوں۔ ایک دو گھنٹے بیٹھنے کے بعد چلی جاتی ہوں۔” وہ مسکرایا۔
”Bad guessing” (غلط قیاس) اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ کیتھرین کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھیں بہت چمک دار تھیں۔ ”میں آپ کی خیریت دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے اس دن غلط نام اور ایڈریس بتایا تھا، تو ظاہر ہے یہ ممکن نہیں تھا۔” کیتھرین کا چہرہ ایک لحظہ کے لیے سرخ ہوا۔
”آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں نے غلط نام اور ایڈریس بتایا تھا؟”
”آپ بہت وقت لے رہی تھیں، نام پتا بتانے میں۔ اصلی ہوتا تو فوراً بتا دیتیں۔”
کیتھرین نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے نظر گراؤنڈ کی طرف کر لی۔
”میرا نام مظہر ہے۔ میں یہاں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ آخری سال ہے میرا۔ آپ کا نام جان سکتا ہوں، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو؟” اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
”میرا نام کیتھرین براؤن ہے۔” کیتھرین کو اندازہ ہوا اس کے پاس تعارف کروانے کے لیے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
”پڑھتی ہیں آپ؟”
”نہیں… میں ایک سٹور میں کام کرتی ہوں۔” مظہر نے مزید کچھ نہیں پوچھا، کچھ دیر خاموشی رہی۔
”اس دن جو بھی ہوا وہ میں بالکل سمجھ نہیں سکی، میں نہیں جانتی میں نے ایسا کیوں کیا۔ بعد میں مجھے بہت افسوس ہوا۔” کیتھرین نے کچھ سوچنے کے بعد بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”میں آپ سے ایکسکیوز کرتی ہوں، میں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایسی حرکت کی۔”
”آپ نے واقعی بہت بری حرکت کی تھی اور میرے ساتھ بھی زندگی میں پہلی ہی دفعہ ایسا ہوا۔ آپ نے ایسا کیوں کیا اور میرے ساتھ ہی کیوں؟ میں تو بہت مہذب طریقے سے بات کر رہا تھا آپ سے اور صرف یہ کہہ دینا کہ مجھے افسوس ہے، یہ تو کافی نہیں ہے۔” مظہر نے انتہائی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ وہ کپ دونوں ہاتھوں کے درمیان گھماتے ہوئے سر جھکائے بیٹھی رہی۔
”آخر اتنا غصہ کس بات پر آیا آپ کو؟” وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”میرا باپ پاکستانی تھا۔” کیتھرین نے سر اٹھا کر اس سے کہا۔ ”میری پیدائش سے پہلے ہی وہ میری ماں کو چھوڑ گیا دوبارہ کبھی نہیں آیا۔”
”لیکن میرا آپ کے باپ سے کیا تعلق ہے؟”
”آپ بھی پاکستانی ہیں۔”
”سوری لیکن آپ کی لاجک میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر آپ کے والد آپ کو چھوڑ گئے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ہر پاکستانی پر تھوکیں اور اسے گالیاں دیں۔” وہ دو ٹوک انداز میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ رہا تھا۔ ”یہاں کا کوئی شخص بھی چھوڑ کر جا سکتا تھا آپ کی ماں کو پھر کیا آپ سڑک پر چلنے والے ہر شخص پر تھوکنا شروع کر دیں گی؟” وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔
ویسے بھی یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ یہاں اس سوسائٹی میں اکثر بوائے فرینڈز اپنی گرل فرینڈز اور اولاد چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بعض دفعہ شوہر بھی، پھر اس میں اتنا ٹچی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟”
وہ اس کی بات کاٹ دینا چاہتی تھی۔ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس کے باپ کے اس طرح چلے جانے نے اس کی ماں اور اس کی زندگی کو کس طرح تباہ کر دیا تھا۔
ایک سے زندگی چھینی تھی اور دوسرے سے عزت مگر پھر اسے یاد آیا دو ہفتے پہلے اس شخص نے اس پر کتنی عنایات کی تھیں۔ اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا وہ مسلسل بول رہا تھا۔





”اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ صرف اچھے یا صرف برے لوگوں پر مشتمل نہیں ہوتا اور یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک شخص کی برائی کی سزا پورے معاشرے کو دینا شروع کر دیں۔”
بولتے بولتے مظہر کو خیال آیا، وہ بہت دیر سے خاموش ہے۔ وہ بھی یک دم خاموش ہو گیا اسے احساس ہونے لگا شاید وہ ضرورت سے زیادہ بول گیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا پھر مظہر نے پوچھا۔
”آپ کی ماں نے دوسری شادی نہیں کی؟”
”نہیں۔”
”کوئی بہن بھائی ہیں آپ کے۔”
”نہیں۔”
”آپ لوگوں نے ایمبیسی کے ذریعے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟”
”میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی میں نے کبھی اپنی ماں سے اس بارے میں بات نہیں کی۔”
”اگر آپ کی ماں چاہیں تو میں اس سلسلے میں آپ لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں۔”
”اب اس کی ضرورت نہیں۔”
”کیوں؟”
”پچھلے سال ان کا انتقال ہو گیا۔” وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ کیتھرین کا چہرہ بے تاثر تھا۔
”آپ کس کے ساتھ رہتی ہیں؟”
”میں اکیلی رہتی ہوں۔” وہ گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ مظہر بھی گراؤنڈ کی طرف دیکھنے لگا۔
”کرکٹ میں دلچسپی ہے آپ کو؟” مظہر نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بات کا موضوع بدل دیا۔
”صرف دیکھنے کی حد تک۔” وہ مسکرائی۔
”میں کھیلتا ہوں مگر اچھا کھلاڑی نہیں ہوں۔ سامنے گراؤنڈ میں میرے دوست کھیل رہے ہیں ہم ہر روز یہاں آتے ہیں۔ جس جگہ ہم رہتے ہیں وہ پاس ہی ہے۔ یہ لوگ یہاں کھیلتے ہیں۔ میں زیادہ تر دیکھتا رہتا ہوں۔ پانچویں بال پر آؤٹ ہونے کے بعد دوسروں کی سینچریز کے لیے اگلے دو گھنٹے فیلڈنگ کرتے رہنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس لیے ان کے اصرار کے باوجود میں کھیل میں حصہ نہیں لیتا۔” وہ مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔ ایک بار پھر وہ دونوں خاموش ہو گئے بعض دفعہ بات شروع کرنے سے زیادہ بات جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ دونوں بھی اس وقت اسی مشکل کا سامنا کر رہے تھے۔
”آپ یہاں روز کیوں نہیں آتیں؟” وہ سمجھ نہیں سکی۔ اس نے سوال کیا تھا یا مطالبہ اس لیے وہ صرف مسکرائی۔
وہ کچھ دیر اور خاموشی سے گراؤنڈ میں کھیل دیکھتے رہے پھر کیتھرین نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے اب جانا ہے۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں آپ کو سڑک تک چھوڑ آتا ہوں۔” مظہر نے کہا اور وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ کیتھرین نے انکار نہیں کیا۔ وہ دونوں خاموشی سے ٹہلتے ہوئے سڑک تک آ گئے۔
”کیا میں کل آپ کا انتظار کروں؟” مظہر نے واپس مڑنے سے پہلے کہا۔ وہ ایک بار پھر مسکرا دی۔
”شکریہ۔” اس نے کیتھرین کی مسکراہٹ سے جواب اخذ کر لیا اور کمال اعتماد کے ساتھ واپس مڑ گیا۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑے اسے جاتا دیکھتی رہی پھر خود بھی سڑک کنارے فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔
—–*—–
دوسرے دن وہ گراؤنڈ میں سیڑھیوں پر اسی جگہ اس کا منتظر تھا۔ کیتھرین کے پاس آنے پر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ہیلو ہائے کے بعد اس نے کیتھرین کے بیٹھنے کا انتظار کیا اور جب وہ بیٹھ گئی تو وہ ایک بار پھر اس سے چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھ گیا۔
اس دن بھی دونوں ایک گھنٹے تک وہاں رہے۔ آدھے سے زیادہ وقت انہوں نے خاموشی سے گزارا اور پھر اسی طرح وہ اسے سڑک تک چھوڑنے آیا۔ واپس مڑنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر وہی سوال کیا۔ کیتھرین نے اسی مسکراہٹ کے ذریعے جواب دیا اور پھر وہ دونوں اپنے اپنے راستے پر چلنے لگے۔
پھر یہ ایک روٹین بننے لگی تھی۔ وہ دونوں روزانہ اس گراؤنڈ کی سیڑھیوں میں ایک گھنٹے کے لیے ملتے۔ کبھی باتیں کرتے کبھی خاموش رہتے اور پھر الگ ہو جاتے۔
رفتہ رفتہ ان کے ملنے کی جگہ اور وقت بدلنے لگا اب وہ اکثر شامیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے لگے۔ بعض دفعہ وہ کوئی فلم دیکھتے بعض دفعہ کسی پارک میں چلے جاتے اور بعض دفعہ ٹیمز کے کنارے پھرتے رہتے۔
مظہر کے ساتھ گھومتے ہوئے کیتھرین کو کبھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ اسے اس کے پاس ایک عجیب سے تحفظ کا احساس ہوتا۔ وہ جو پہلے اس شہر کو چھوڑ جانا چاہتی تھی، اب صرف مظہر کی وجہ سے ایک ایسی نوکری کر کے بھی خوش تھی جس سے وہ بمشکل کھینچ تان کر اپنا وقت گزار رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس آمدنی میں وہ اب کبھی اس بوسیدہ عمارت سے جان نہیں چھڑا سکتی جہاں وہ رہتی تھی مگر اس کے باوجود اب شہر چھوڑنے کا تصور بھی اس کے لیے ہولناک تھا۔ وہ ہر صورت میں وہیں رہنا چاہتی تھی۔
اگر وہ دونوں شام کے وقت کہیں باہر گھوم رہے ہوتے تو مظہر ایک مخصوص وقت پر مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے کسی نہ کسی مسجد میں ضرور چلا جاتا۔ کیتھرین مسجد کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر یا فٹ پاتھ پر ٹہلتے ہوئے اس کا انتظار کرتی رہتی۔ وہ بہت زیادہ مذہبی تھا، اس کا اندازہ اسے شروع کی چند ملاقاتوں کے بعد ہی ہو گیا تھا۔ مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ عملی طور پر بھی مسلمان ہے۔ پھر جب ساتھ گھومتے پھرتے نماز کے اوقات میں وہ مسجد کی تلاش شروع کرتا یا پھر پارک کے کسی سنسان گوشے میں نماز پڑھنے لگتا تو کیتھرین کو اس کی ترجیحات کا بہت اچھی طرح اندازہ ہونے لگا۔ وہ نماز میں اس کا انہماک دیکھ کر حیران ہوتی۔ اگر کبھی وہ پارک میں نماز ادا کرنے لگتا تو وہ مسلسل اس پر نظریں مرکوز رکھتی۔
اس وقت پارک میں ادھر ادھر گھومنے کے بجائے ،وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی اسے دیکھتی رہتی۔ اسے اس شخص کا سکون متاثر کرتا تھا۔ اس میں وہ اضطراب اور بے چینی نہیں تھی جو وہ اس سے پہلے ملنے والے تمام مردوں میں دیکھ چکی تھی۔ ایک عجیب سا ٹھہراؤ اور وقار تھا اس کے انداز میں۔ ”شاید اس کا تعلق اس عبادت سے ہے جو یہ باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔” وہ بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے نتائج اخذ کرنے لگتی۔
دونوں کے درمیان ابھی تک کسی قسم کا اظہار محبت بھی نہیں ہوا تھا۔ نہ مظہر نے کبھی اس سے یہ کہا تھا کہ وہ اس سے شدید قسم کی محبت کرتا ہے اور نہ ہی کیتھرین نے کبھی اس سے یہ کہا تھا کہ وہ دن کے کسی بھی وقت اس کے خیال کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتی۔ اظہار محبت نہ کرنے کے باوجود وہ کیتھرین کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اگر کبھی رات کو گھومتے پھرتے انہیں دیر ہو جاتی تو وہ کیتھرین کے انکار کرنے کے باوجود اس کے گھر تک چھوڑنے جاتا اور اس وقت تک واپس نہ جاتا جب تک وہ بلڈنگ میں داخل نہ ہو جاتی۔ رات کے وقت وہ اسے اکیلا ٹیکسی پر بھی نہیں بھیجتا تھا۔ کیتھرین کے ساتھ بس یا ٹرین کا سفر کرتے ہوئے بھی وہ اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ کیتھرین سے نہ چھوئے۔ وہ یہ کوشش بھی کرتا تھا کہ کیتھرین کو کوئی ایسی سیٹ نہ ملے، جہاں کوئی دوسرا مرد بیٹھا ہے۔ فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے وہ ہمیشہ اسے اس سائیڈ پر چلنے کے لیے کہتا، جہاں دوسرے لوگ نہ گزر رہے ہوں۔ سڑک کراس کرتے ہوئے وہ بڑی احتیاط کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ سڑک پار کرواتا اور یہ واحد موقع ہوتا تھا جب وہ کچھ کہے بغیر بے جھجک اس کا ہاتھ پکڑ لیا کرتا تھا۔
کیتھرین کو اس کے ساتھ باہر جاتے ہوئے کبھی بھی کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی تھی۔ سینما کے ٹکٹ سے ٹیکسی کے کرایہ تک اور ریستوران کے بل سے لے کر سڑک پر خریدے جانے والے کافی کے کپ تک۔ وہ ہر بل خود ادا کرتا تھا۔ کیتھرین کے لیے یہ سب کچھ بہت نیا اور عجیب تھا۔ وہ مردوں سے ملنے والی اس عزت کی عادی نہیں تھی۔
”ہمارے کلچر میں اگر عورت مرد کے ساتھ کہیں جائے تو پھر اس مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے حفاظت سے رکھے اور پھر اسی حفاظت کے ساتھ گھر پہنچائے۔ جہاں تک اپنا بل خود ادا کرنے کی بات ہے تو مرد اسے اپنے منہ پر طمانچے کے برابر سمجھتا ہے۔”
اس نے ایک بار کیتھرین کے استفسار پر اسے مسکراتے ہوئے بتایا تھا۔
”آپ مغرب کی عورت ہیں، لیکن میرے لیے عورت ہی ہیں۔ میں آپ کو اسی طرح ٹریٹ کروں گا جس طرح اپنے معاشرے کی عورت کو کرتا ہوں۔” وہ اس کے ساتھ رہ کر زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آشنا ہو رہی تھی یا شاید پہلی بار زندگی سے شناسائی حاصل کر رہی تھی۔
”اگرآپ کے والد مسلمان تھے توپھر آپ کو بھی مسلمان ہی ہونا چاہیے۔ اولاد باپ کے مذہب ہی پر چلتی ہے۔ کبھی اس بارے میں سوچا آپ نے؟” کئی ماہ بعد ایک دن اس نے کیتھرین سے پوچھا۔
وہ صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”ٹھیک ہے۔ آپ کا باپ جیسا بھی تھا مگر آپ کو اپنے مذہب اور کلچر کا پتا ہونا چاہیے۔ زندگی مذہب سے بے خبری کے عالم میں تو نہیں گزاری جا سکتی۔” وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
”اگر آپ چاہیں تو میں اسلام کا مطالعہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں مگر یہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔ آپ کی خواہش پر منحصر ہے۔” کیتھرین نے کسی ہچکچاہٹ نے بعد اس کی آفر قبول کر لی۔
پھر وہ ہر اتوار کو اسے اسلامک سینٹر لے جانے لگا۔ ہر روز شام کو ساتھ گھومتے وہ اسے مذہب کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتاتا رہتا۔ وہ آہستہ آہستہ اثر قبول کر رہی تھی اور اس اثر نے پہلی تبدیلی اس کے لباس میں کی تھی۔ شام کے وقت مظہر سے ملاقات کے لیے جاتے وقت وہ ایک ڈھیلا ڈھالا سکارف سر پر اوڑھنے لگی۔ وہ زیادہ تر لانگ اسکرٹس پہننے لگی۔ اگر وہ لانگ کوٹ یا جیکٹ میں ملبوس نہ ہوتی تو اپنی شرٹ کوٹراؤزرز سے باہر ہی رکھتی۔ اسکن ٹائٹ بلاؤز کے بجائے وہ کاٹن یا سلک کی ڈھیلی ڈھالی شرٹس پہنتی۔
مظہر ہر نئی تبدیلی پر اسے بہت زیادہ سراہتا تھا اور شاید یہ ستائش بھی اس میں آنے والی تبدیلیوں کی رفتار بڑھا رہی تھی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!