لاحاصل — قسط نمبر ۱

کمرے میں چلتا ہوا پنکھا اپنی کئی سال پرانی مخصوص آواز کے ساتھ اس کے اشتعال کو اور ہوا دے رہا تھا۔ اسے بچپن سے اس ”باآواز” پنکھے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ اس کا خیال تھا اب اگر اسے کسی ایسے کمرے میں سونا پڑے جہاں چلتا ہوا پنکھا بے آواز ہو تو اسے نیند نہیں آئے گی۔
”میرے لیے کبھی کوئی ائرکنڈیشنر نہیں ہوگا۔ صرف یہ بے ہودہ اور گھٹیا پنکھا ہی ہوگا۔”
اس نے پنکھے پر نظریں جماتے ہوئے ایک بار پھر کڑھ کر سوچا تھا۔ بہت دفعہ ماما جان سے جھگڑے کے بعد اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی وقت چلتا ہوا یہ پنکھا ہی اس کے اوپر گر پڑے، کم از کم کبھی تو اس کا کوئی فائدہ اس کو خوش کر جائے۔
“No comforts, no luxuries , just contentment. To hell with your contentment Mama Jaan.”
(”نہ آسائشات، نہ تعیشات محض قناعت۔ جہنم میں جائے آپ کی یہ قناعت… ماما جان۔”) وہ زہریلے لہجے میں بڑبڑائی۔
”انسان ٹوٹی دیواروں، اکھڑے فرش، رستی ہوئی چھت، چار چھ جانوروں، دس بارہ پودوں اور خواہشوں کی قبروں کے ساتھ کتنی دیر ”خوش” رہ سکتا ہے بلکہ کتنی دیر رہ سکتا ہے اور آخر انسان رہے کیوں؟ اگر اس کے پاس بہتر مواقع ہیں تو کیوں ان کا فائدہ نہ اٹھائے مگر ماما جان… ماما جان تو یہ سب کچھ کبھی سننا ہی نہیں چاہیں گی… لیکن اگر وہ کنویں کا مینڈک بن گئی ہیں تو میں بھی کنویں کا مینڈک کیوں بنوں۔ انہوں نے اپنی زندگی گزار لی ہے اور مجھے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اگر ان کا یہ خیال ہے کہ میں اس گھر میں ان کی طرح جانوروں اور پودوں کے ساتھ خوش رہ سکتی ہوں۔ تو وہ غلط سوچ رہی ہیں… یہ گھر میری منزل نہیں ہے، کم از کم میں یہاں تو زندگی نہیں گزار سکتی۔” اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو پا رہا تھا۔ ”ان گندے لوگوں کے درمیان میں تو زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں تو ان میں سے نہیں ہوں۔” بہت دفعہ کا سوچا ہوا جملہ ایک بار پھر اس کے دماغ میں گونجا تھا۔ ”کتنی دیر باندھ کر رکھ سکتی ہیں ماما جان مجھے… ایک نہ ایک دن تو میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔ مجھے ماما جان کی طرح اپنی زندگی یہاں برباد نہیں کرنی۔” وہ بے چینی کے عالم میں ایک بار پھر اپنے ناخن کترنے لگی۔
ماما جان ایک بار پھر کمرے میں آ چکی تھیں۔ اس نے ایک بار پھر کتاب چہرے کے آگے کر لی۔ وہ اب خشک کپڑوں میں ملبوس تھیں۔ کمرے میں آنے کے بعد انہوں نے کمرے میں پھیلی ہوئی چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا اور یہ پھیلی ہوئی چیزیں صرف مریم ہی کی ملکیت تھیں۔ اس کا ایزل، پے لٹ، کلر برش، کتابیں، کلرز سب کچھ ہمیشہ کی طرح کمرے میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ صبح سے کمرے میں پینٹنگ کر رہی تھی اور جو چیز اس نے جہاں رکھی تھی کام کے بعد بھی وہیں چھوڑ دی تھی۔ اس کی یہ عادت بھی نئی نہیں تھی ہمیشہ ماما جان ہی اس کی اِدھر اُدھر پھینکی اور پھیلائی ہوئی چیزوں کو سمیٹتی رہتی تھیں۔ اسے یہ چیز بھی کبھی احسان یا مدد نہیں لگی تھی، وہ اسے بھی ہمیشہ حق سمجھ کر کروایا کرتی تھی۔
”جتنی تکلیف دہ زندگی میں ماما جان کی وجہ سے گزار رہی ہوں اگر اس کی تلافی کے لیے وہ یہ چھوٹی موٹی عنایات مجھ پر کر دیتی ہیں تو کوئی احسان نہیں کرتیں۔ وہ اگر میری بات مان لیں تو انہیں کبھی میرے لیے یہ ساری زحمتیں نہ اٹھانا پڑیں کیونکہ پھر میں انہیں اس طرح کے کاموں کا کوئی موقع ہی نہیں دوں گی لیکن ماما جان وہ اگر اپنی ضد پر قائم ہیں تو پھر ٹھیک ہے، میں بھی انہیں تکلیف کیوں نہ پہنچاؤں۔ اٹھاتی پھریں یہ ساری چیزیں۔”





وہ بہت زیادہ منتقم ہو کر سوچ رہی تھی۔
”تم نے چائے نہیں پی؟” وہ چیزیں سمیٹتے سمیٹتے اس کی تپائی کے پاس آئیں اور تب ہی ان کی نظر تپائی پر رکھے ہوئے چائے کے کپ پر پڑی جس پر اب بالائی کی تہہ جم چکی تھی۔
”میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے چائے نہیں پینی۔ آپ پھر بھی کپ یہاں رکھ گئی تھیں۔” اس نے کتاب پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
”میں نے تمہیں چائے اس لیے دی تھی کیونکہ تم نے کھانا نہیں کھایا۔”انہوں نے اس کی کتابیں تپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
”میں اب کبھی کھانا کھاؤں گی بھی نہیں۔ کم از کم اس گھر سے نہیں۔”
”ضد کیوں کر رہی ہو مریم؟” وہ اس کے قریب بستر پر بیٹھ گئیں۔
”میں ضد نہیں کر رہی۔ آپ ضد کر رہی ہیں۔” اس نے ایک جھٹکے سے کتاب بند کر دی۔
”میں جو کچھ کر رہی ہوں۔ تمہارے فائدے کے لیے کر رہی ہوں۔”
”پلیز ماما جان! آپ یہ جملہ مت بولا کریں۔ آپ میرا فائدہ مت چاہیں۔ مجھے اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے دیں۔ میری خوشیوں کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔” اس نے بے زاری سے کہا۔
”میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں بن رہی ہوں، میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔”
”اگر آپ کو میری اتنی پرواہ ہوتی ماما جان! تو میں یہاں دھکے نہ کھا رہی ہوتی۔ آپ مجھے لے کر انگلینڈ چلی جاتیں۔ میرا کوئی مستقبل ہوتا وہاں۔ میں آج وہاں ایک بڑا نام ہوتی مگر آپ نے یہ سب نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ ضد کی، اپنی من مانی کی، آپ نے مجھے ہر چیز کے لیے ترسا دیا، ہر سہولت کے لیے خوار کیا اور اب آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ چاہتی ہیں کہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے؟ میری زندگی میں اگر کوئی سہولت یا لگژری آ جائے گی تو مجھے نقصان پہنچے گا؟ مجھے شہرت مل جائے گی تو مجھے نقصان پہنچے گا؟ میں اپنے نام سے پہچانی جاؤں گی تو مجھے نقصان پہنچے گا؟ میرا کام سراہا جائے گا تو مجھے نقصان پہنچے گا؟ میرا مستقبل محفوظ ہو جائے گا تو مجھے نقصان پہنچے گا؟”
ماما جان خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہیں۔
”چائے اور بنا دوں؟”
اپنی بات کے جواب میں ان کے منہ سے نکلنے والے جملے نے اسے اور بھڑکایا۔ ”ماما جان! آپ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہی ہیں۔ آپ میری زندگی کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش نہ کریں۔ اپنے اصولوں کو میرے سر پر مت تھوپیں۔” وہ اس کے پاس سے اٹھ گئیں۔
”آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے ماما جان! آپ کو مجھ سے محبت ہوتی تو آپ میری بات مان لیتیں مگر آپ…
وہ خاموش ہو گئی۔ ماما جان اس کی بات سنے بغیر کمرے سے باہر جا چکی تھیں۔
—–*—–
کیتھرین براؤن نے سولہ سال کی عمر میں پہلی بار اپنا جسم فروخت کیا تھا۔ کیوں کیا تھا؟ اگلے چھ سال اس نے یہ سوال خود سے نہیں کیا… ہاں جب وہ پہلی بار مظہر خان سے ملی تو اس نے یہ سوال اپنے آپ سے پوچھا تھا مگر تب تک بہت دیر ہو گئی تھی۔ Dusky Damsel کے علاوہ وہ اپنی ہر شناخت کھو چکی تھی۔
روتھ براؤن کا تعلق ایک میتھوڈسٹ فیملی سے تھا ایک ایسی فیملی سے جہاں لڑکوں کو لڑکیوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ جہاں عورتوں کا کیرئیر کے بارے میں سوچنا بھی برا سمجھا جاتا تھا۔ روتھ براؤن کے باپ کو اس بات پر فخر تھا کہ اس نے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی جو نہ تو ورکنگ گرل تھی اور نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ تھی، شادی کے بعد بھی اس نے اپنی بیوی کو کام نہیں کرنے دیا۔ وہ ایک مکمل ہاؤس وائف تھی۔
روتھ نے بھی ایسے ہی ماحول میں آنکھ کھولی۔ابتدائی طور پر معمولی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ان دنوں ان مردوں میں سے کسی ایک سے شادی کی منتظر تھی جنہیں اس کے ماں باپ نے اس سے ملوایا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ان میں سے کسی کے ساتھ شادی کرتی اس کی ملاقات ایک پاکستانی سے ہوئی۔ وہ اندازہ نہیں کر سکی کہ اس شخص کی کس چیز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔ بہرحال اس نے گھر سے بھاگنے کے بعد اس شخص کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
روتھ کی فیملی کے لیے یہ ایک شاک سے کم نہیں تھا۔ روتھ اپنی تینوں بہنوں میں سب سے زیادہ بزدل تھی اور اس سے کوئی یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف کسی شخص کے ساتھ نہ صرف رہنا شروع کر دے گی بلکہ وہ بھی اس شخص کے ساتھ جو اس کا ہم مذہب تھا نہ ہی اس کے اپنے ملک سے تعلق رکھتا تھا۔
روتھ اپنی فیملی کے بارے میں ایک بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی فیملی والے کبھی بھی اس شخص کے ساتھ اس کی شادی پر تیار نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ اس پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ گھر سے بھاگنے تک اس نے اس شخص کے بارے میں اپنے والدین کو آگاہ نہیں کیا۔ البتہ جانے کے بعد اس نے ایک خط کے ذریعے اپنے والدین کو تمام حالات سے مطلع کیا اور اپنی حرکت کے لیے ان سے معذرت کی… اس کے والدین نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ روتھ کو یہی توقع تھی۔
علیم نامی وہ شخص جس کے ساتھ روتھ گھر سے چلی آئی تھی، اس کے ساتھ بہت زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ روتھ نے اس سے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کا خیال تھا، یہ چیز ان کے تعلق کو بہت مستحکم کر دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کیتھرین کی پیدائش سے پہلے ہی وہ اسے چھوڑ گیا۔ وہ غیر قانونی طور پر انگلینڈ میں رہائش پذیر تھا اور اس شادی کے نتیجے میں وہ اپنے قیام کو قانونی بنانا چاہتا تھا۔ جب وہ اپنے پیپرز بنوانے میں کامیاب ہو گیا تو روتھ کو بتائے بغیر وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ روتھ کے لیے اس کا غائب ہونا ناقابل یقین تھا۔ کئی ہفتوں تک وہ پاگلوں کی طرح اسے ہر اس جگہ ڈھونڈتی رہی جہاں اس کے پائے جانے کا امکان تھا۔ وہ اس کے ان تمام پاکستانی دوستوں سے ملی جن سے وہ شناسا تھی، ہر ایک نے علیم کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ وہ یوں غائب ہوا تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
بہت آہستہ آہستہ اسے احساس ہونا شروع ہوا کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے خوبصورتی اور کمال مہارت کے ساتھ اور وہ کبھی علیم سے دوبارہ مل نہیں سکے گی کیونکہ وہ اس سے ملنا نہیں چاہتا اور اس کے تمام دوست اس کے ٹھکانے کے بارے میں اسی طرح لاعلمی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ وہ جاننے کے باوجود علیم تک پہنچنے میں اس کی کبھی مدد نہیں کریں گے۔ وہ اٹلی چلا گیا ہے۔
”وہ اسپین میں ہے۔” ”وہ فرانس منتقل ہو گیا ہے۔” ”وہ پاکستان جا چکا ہے۔”
وہ ساری عمر اس کے بارے میں ان کے منہ سے یہی جملے سنتی رہے گی۔
روتھ اس وقت صرف اکیس سال کی تھی اور اس کی پوری زندگی کی عمارت ایک ہی جھٹکے میں زمین پر آ گری۔ وہ نہ اپنی فیملی کے پاس واپس جا سکتی تھی نہ ہی اکیلے رہ سکتی تھی مگر اسے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔
کیتھرین کی پیدائش سے کچھ ہفتے پہلے روتھ کے باپ کی ڈیتھ ہو گئی۔ اس کے لیے یہ ایک Blessing in disguise (نعمت غیر مترقبہ) تھی۔ باپ کے ہوتے ہوئے وہ کبھی واپس اپنی فیملی کے پاس جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کا باپ اس کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن باپ کی وفات کے بعد اس کی ماں نے کچھ تامل کے بعد اسے واپس اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس کی ماں اکیلی ہی اس گھر میں رہتی تھی۔ روتھ کے تمام بڑے بہن بھائی شادی شدہ اور دوسرے شہروں میں رہائش پذیر تھے۔
کیتھرین نے اپنی پیدائش سے ہوش سنبھالنے تک اپنے گھر میں صرف دو عورتیں دیکھیں۔ اپنی ماں اور نانی… اور اس نے ان دونوں عورتوں کو ہمیشہ آپس میں جھگڑتے ہی دیکھا تھا۔ اس کی ماں روتھ بے تحاشا شراب نوشی کرتی۔ وہ ساری رات کسی بار میں کام کرتی تھی اور صبح گھر پر شراب پیتی رہتی۔ کیتھرین کی نانی نے ہی اس کی پرورش کی اور اپنی ماں کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں بھی اس کی نانی نے ہی اسے بتایا تھا۔
کیتھرین کبھی یہ جان نہیں پائی کہ اس کی ماں اس سے محبت کرتی ہے یا نفرت۔ روتھ کے ساتھ اس کا تعلق بہت سرسری سا تھا۔ صرف اسی کے ساتھ نہیں روتھ کا ہر ایک کے ساتھ تعلق بہت رسمی سا ہو گیا تھا۔ وہ علیم کو کبھی اپنے ذہن سے نہیں نکال سکی اور علیم کے بعد وہ اپنی زندگی کو بھی سنبھال نہیں پائی۔
بعض دفعہ وہ کیتھرین کو اپنے ساتھ کہیں باہر لے جاتی لیکن راستے میں اگر کوئی بھی مسلم یا ایشیائی نظر آتا تو وہ بلند آواز میں اسے گالیاں دینے لگتی چلانے لگتی، پھر اس پر تھوک دیتی۔ کیتھرین کو اپنی ماں کے ساتھ باہر جانے سے خوف آتا تھا۔ وہ اس ہنگامے سے ڈرتی تھی جو اس کی ماں کہیں بھی کھڑا کر دیتی۔ اس کی ماں نے علیم سے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا مگر علیم کے جانے کے بعد وہ مسلمان رہی تھی نہ ہی کرسچن۔ کیتھرین نے اپنی سولہ سالہ زندگی میں اسے کبھی عبادت کرتے نہیں دیکھا۔ “There is no God” (خدا کا کوئی وجود نہیں تھا) یہ وہ جملہ تھا جو اس نے روتھ کے منہ سے بار بار سنا تھا اور خود اپنی نانی کے ساتھ چرچ میں بیٹھے ہوئے بھی یہ جملہ اس کے ذہن میں چکراتا رہتا تھا۔
وہ بچپن سے اپنے مسلمان اور پاکستانی باپ کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہی تھی۔ جب روتھ بہت زیادہ شراب نوشی کر لیتی تب وہ خوب چلاّتی اور مسلمانوں کو گالیاں دیتی۔ جب نانی روتھ کو اس حالت میں دیکھتیں تو وہ بھی یہی کرتیں اور کیتھرین اس وقت چپ چاپ اپنے بستر میں لیٹی رہتی۔ وہ نہیں جانتی تھی اسے اپنے باپ سے نفرت تھی یا نہیں اور اگر کبھی وہ اس کے سامنے آ جاتا تو وہ کیا کرتی۔ مگر ایک چیز بہت واضح تھی اسے اسلام اور پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی ہو گئی تھی۔ شاید ایسا لاشعوری طور پر تھا یا پھر وہ جان بوجھ کر اس چیز کو پسند کرنے لگی تھی جو اس کی ماں اور نانی کو ناپسند تھی۔
تیرہ سال کی عمر میں اس کی نانی کی ڈیتھ ہو گئی اور تب کیتھرین کو پہلی بار اپنی زندگی کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ گھر فیملی پراپرٹی تھا۔ روتھ سمیت تمام بہن بھائیوں نے اسے بیچ کر رقم آپس میں بانٹ لی۔ روتھ اسے لے کر کرائے کے جس اپارٹمنٹ میں آئی تھی وہ ہولناک جگہ تھی سرد اور تاریک۔ وہ ان عمارتوں میں سے ایک تھی جو آہستہ آہستہ خالی کی جا رہی تھیں۔ روتھ شراب نوشی کے بعد بچنے والی رقم سے اس سے بہتر جگہ نہیں پا سکتی تھی اور کیتھرین کو اس جگہ سے خوف آتا تھا۔ یہ عمارت اس کے سکول سے اتنی دور تھی کہ کیتھرین نے سکول چھوڑ دیا۔ وہ یوں بھی ایک اوسط درجے کی طالبہ تھی۔ روتھ اگر دلچسپی لیتی تو اسے کسی قریبی سکول میں داخل کروایا جا سکتا تھا اور پھر شاید کیتھرین اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کر لیتی مگر روتھ کی شراب نوشی ان دنوں اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔
آہستہ آہستہ گھر میں فاقوں کی نوبت آنے لگی اور تب ہی پہلی بار کیتھرین نے گھر سے نکال کر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند ماہ اس نے ایک فیکٹری کے پیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کیا پھر روتھ بیمار ہو گئی اور کیتھرین نے وقتی طور پر اس کی دیکھ بھال کے لیے وہ جاب چھوڑ دی۔ اس کا خیال تھا کہ بہت جلد روتھ ٹھیک ہو کر بار جوائن کر لے گی اور وہ اپنے لیے کوئی اور جاب ڈھونڈ لے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا روتھ دوبارہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکی۔ اسے معدے کا کینسر تھا اور جب تک اس کی تشخیص ہوئی اس کی بیماری آخری سٹیج پر پہنچ چکی تھی اس کی بیماری کے دوران ہی اسے بار کی جاب سے بھی فارغ کر دیا گیا۔
کیتھرین نے چھ ماہ کے عرصے میں اپنی ماں کے وجود کو گوشت پوست سے ہڈیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا۔ وہ سارا وقت درد سے کراہتی رہتی اور جب وہ پین کلرز کے زیر اثر نہ ہوتی تو وہ صرف ایک ہی جملہ بولتی رہتی۔
”اس نے مجھے برباد کر دیا۔” کیتھرین میں کبھی اتنی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس سے پوچھتی۔ ”کس نے؟”
وہ جانتی تھی اس کی ماں کو کس نے برباد کیا تھا۔ چھ ماہ کے عرصے میں وہ اپنی ماں کی جتنی دیکھ بھال کر سکتی تھی اس نے کی۔ شاید وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ماں کو یہ یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ اپنے باپ کی طرح نہیں ہے۔ اپنی رگوں میں اس کا خون اور اپنے چہرے پر اس کی مشابہت رکھنے کے باوجود وہ روتھ براؤن کو اس کی طرح چھوڑ کر نہیں جائے گی۔
وہ نہیں جانتی اس کی خدمت نے اس کی ماں کی تکلیف کو کتنا کم کیا یا بڑھایا۔ مگر وہ آخری دنوں میں کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہتی تھی۔ کمرے میں کام کرتے، ادھر سے ادھر جاتے کیتھرین اس کی نظروں کو مسلسل خود پر ٹکے ہوئے پاتی۔
سینتیس سال کی عمر میں جس وقت روتھ کا انتقال ہوا اس وقت کیتھرین کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ ماں کی وفات کے چند دن بعد اس نے اسی بار میں کام کرنا شروع کر دیا۔ جس بار میں اس کی ماں کام کرتی تھی۔ چھ ماہ کے اس عرصے میں جب وہ روتھ کی دیکھ بھال کے لیے مستقل طور پر گھر رہی اس کی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی تھی۔ اس پر گھر کے کرائے سمیت بہت سے واجبات اکٹھے ہو گئے تھے۔ بار میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دن کے وقت ایک اور جگہ کام کرتی مگر اس کے باوجود وہ اپنے سر پر موجود قرض نہیں اتار پا رہی تھی۔
ان ہی حالات میں اپنے ساتھ بار میں کام کرنے والی ایک لڑکی کے مشورے پر وہ پہلی بار ایک گاہک کے ساتھ گئی۔ چند گھنٹے گزارنے کے عوض ملنے والے چند پاؤنڈز اتنی بڑی رقم نہیں تھی، جو اس کے تمام مسائل کا حل ہوتی مگر اس رقم نے فوری طور پر اس کی کچھ بنیادی ضرورتیں ضرور پوری کر دی تھیں… اس نے ایک طویل عرصے کے بعد اس رقم سے اچھا کھانا کھایا اور ایک پرانا سویٹر خریدا… اور اس کے بعد گھر آ کر وہ ساری رات روتی رہی۔ جسم میں جانے والا کھانا اور اس پر پہنے جانے والا لباس ہر نقصان کی تلافی نہیں کر سکتے مگر یہ دونوں چیزیں بہت بڑے نقصان کی وجہ ضرور بن جاتے ہیں۔
”صرف تھوڑے عرصے کی بات ہے، میں سارا قرض ادا کر دوں گی پھر اس کے بعد مجھے یہ کام کبھی نہیں کرنا پڑے گا۔ میں کسی بہتر جگہ پر کام تلاش کر لوں گی۔ میرا ایک بوائے فرینڈ ہوگا۔ میں اس کے ساتھ رہوں گی۔ ہم دونوں شادی کر لیں گے پھر میں کام نہیں کروں گی۔ گھر پر رہوں گی۔ اپنے بچوں کی پرورش کروں گی۔ یہ سب کچھ بھول جاؤں گی۔ میری زندگی میں دوبارہ ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔
اگلی صبح کام پر جاتے ہوئے اس نے اپنا منہ دھوتے ہوئے سوچا تھا۔ یہ اس کی خوش فہمی تھی وہ جس دلدل میں پیر رکھ چکی تھی وہ دلدل آسانی سے کسی کو اپنے اندر سے نکلنے نہیں دیتی۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا، وہ اپنے ہر گاہک کے ساتھ جاتے ہوئے خود کو یہی تسلی دیتی تھی کہ بہت جلد وہ یہ سب کچھ چھوڑ دے گی۔ یہ تکلیف دہ دور اس کے ماضی کا حصہ بن جائے گا۔
ایک سال کے عرصے میں وہ خود پر واجب الادا سارا قرض اتارنے میں کامیاب ہو گئی مگر تب تک وہ اس علاقے میں اپنی ریپوٹیشن کھو چکی تھی۔ وہ اپنے اسی حوالے سے پہچانی جاتی تھی جس حوالے کو وہ بھلا دینا چاہتی تھی۔ اس نے بار چھوڑ کر ایک سٹور میں سیلز گرل کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ مگر اس کا ماضی اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا ہر جگہ اسے کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور مل جاتا جو اس کے پرانے پیشے کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوتا۔ یکے بعد دیگرے اسے بہت سی جگہوں سے نکالا گیا۔ اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ اس علاقہ میں رہتے ہوئے وہ اب کسی باعزت زندگی کا خواب دیکھ سکتی ہے نہ کسی بوائے فرینڈ کا۔ کیتھرین نے وہ شہر چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس شہر کو چھوڑ دینے سے پہلے اس کے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا جس نے اس کے سارے فیصلے بدل دیے۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!