قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

وہ تینوں اندر داخل ہوئے، اندر سے بدبو کے شدید بھبکے اٹھ رہے تھے۔ فرحان اندر داخل ہوا۔ طلحہ نے موبائل کی ٹارچ آن کی۔ سفیان اور اس کے بیٹوں کے اندر آتے ہی دروازہ خود بہ خود بند ہوگیا۔ نذیر باہر ہی رہ گیا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے اندر بڑھتے جارہے تھے۔ وہ بڑا سا تہ خانہ تھا جس میں بہت سے پِلّر بنے ہوئے تھے اور آگے جاکے کچھ کمرے بھی تھے۔ وہ اب احمد، شرجیل اور نوید کو آوازیں دے رہے تھے۔ دو منٹ بعد ہی ان کی آواز آئی۔ ”ہم ادھر ہیں۔” شاید وہ آگے والے کمروں کی طرف تھے۔ وہ تیزی سے آگے بڑھنے لگے کہ ایک دم بجلی کڑکنے کی آواز سُنائی دی۔ وہ لوگ اپنی جگہ ساکت ہوگئے کہ اچانک سارے تہ خانے میں ایسی روشنی ہوگئی جیسے دن نکل آیا ہو۔ سامنے نظر پڑتے ہی ان کے دل دھک سے رہ گئے۔ ان کے کچھ فاصلے پر وہ تینوں کھڑے تھے، مگر ان لوگوں کے درمیان سفید کپڑے پہنے، منہ پر بال ڈالے ایک عورت کھڑی تھی۔ اس عورت نے اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے اپنے بال پیچھے ہٹائے تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کے منہ سے جگہ جگہ خون بہ رہا تھا۔ وہ زور زور سے قہقہے مار رہی تھی اور وہ سب اپنی سانس روکے کھڑے تھے۔ وہ چلتی ہوئی فرحان کے قریب آئی۔
”آج تمہیں حساب دینا ہوگا فرحان اسفند یار۔ آج تمہارے کیے کا حساب تمہارا بیٹا چکائے گا۔ ہاہاہا۔ آخر آج ادھر اتنے سالوں بعدآہی گئے۔” وہ عورت بھاری مردانہ آواز میں بول رہی تھی۔ اس کی بات نے شرجیل کے ہوش اڑا دیے تھے۔ یہی کہتی تھی وہ عورت اس کی ماں کو، یعنی بابا نے کچھ کیا ہے جس کا حساب اسے چکانا پڑے گا۔ وہ پسینے میں نہا گیا۔
”اسے کچھ مت کہو، تمہارا مجرم میں ہوں۔ جو بدلہ لینا ہے مجھ سے لو۔” فرحان کے جواب پر وہ دوبارہ ہنسی۔
”فکر نہ کرو، تمہاری بھی باری آئے گی۔ پہلے اپنے بیٹے کا حشر تو دیکھ لو فرحان اسفند یار۔” یہ کہتے ہی اس نے ہاتھ شرجیل کی طرف بڑھایا۔ اس کا ہاتھ لمبا ہوتے ہوتے شرجیل کی گردن تک پہنچا۔ اس نے شرجیل کو ہوا میں بلند کردیا تھا۔ وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ اس نے ایک دم ہاتھ ہٹایا تو وہ دھڑام سے فرش پر گرگیا۔ فرحان دوڑ کے اس کی طرف آیا، مگر اس بد روح نے ہاتھ کے اشارہ سے اسے وہیں قید کردیا۔ اس نے باقی سب کو بھی دائروں میں قید کردیا تاکہ کوئی آگے نہ بڑھ سکے۔ سب اپنی جگہ بے بس تھے اور اُس نادیدہ دائرے سے نکل نہیں پارہے تھے۔ صرف شرجیل فرش پر گرا پڑا تھا۔ گرنے کی وجہ سے اس کے منہ سے اب خون نکل رہا تھا۔ اس نے اُسے سیدھا کرکے اتنا اوپر اٹھا دیا تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی میز پر لیٹا ہوا ہو۔ اس نے شرجیل کے جوتے اتار پھینکے اور انگوٹھے کے ناخن پر ہاتھ رکھ کر دبایا۔ ناخن جڑ سے نکل کر اس کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ اب اس جگہ سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا۔ شرجیل بے ہوش تھا پھر بھی اس کی کراہ نکل گئی۔
”تم یہ مت کرو، اسے چھوڑ دو۔” فرحان کے بلکنے پر وہ اس کے پاس آئی۔
”ٹھیک ہے! تم ان سب کے سامنے اس دن کا واقعہ سناؤ کہ چوبیس ستمبر کو کیا ہوا تھا۔ جب جب تم رُکو گے، میں تمہارے بیٹے کو کسی اعضا سے محروم کردوں گی۔” اس عورت کے حکمیہ انداز میں بھی اب ایک درد کی آمیزش تھی۔ سب کے سامنے اقبالِ جرم کے لیے ہمت چاہیے ہوتی ہے جو فرحان میں نہ تھی۔
”سناتے ہویا…” یہ کہہ کر اس نے بات اُدھوری چھوڑی اور فرحان کے انگوٹھے کی ساتھ والی انگلی کے ناخن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
”سناتا ہوں، سناتا ہوں۔” وہ گویا ہوا، مگر تب بھی اس نے شرجیل کے پاؤں سے ہاتھ نہیں ہٹایا تھا۔





”کئی سال پہلے، ہم دوستوں نے حویلی کی سیر کا پروگرام بنایا تھا۔ میرے تینوں دوست غیرشادی شدہ تھے۔ ہم دو دن تو سیر کرتے رہے۔ نذیر اور اس کے والد ہی ہمیں کھانا دینے آتے تھے۔ تیئس ستمبر کے دن نذیر گھر پر موجود نہ تھا۔ اس کے والد نے ہم پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی بارہ سالہ پوتی کو کھانا دینے بھیج دیا۔” اتناکہہ کر وہ رک گیا۔ شاید آگے بولنے کے لیے ہمت جمع کررہا تھا۔ سب دم سادھے اپنے اپنے دائروں میں جکڑے اس کی داستان سن رہے تھے۔ اس بد روح نے اس کے رُکنے پر بغیر کچھ کہے، شرجیل کی انگلی کا ناخن اتار دیا جس پر نیم بے ہوش شرجیل نے کراہتے ہوئے آنکھیں کھولیں تھیں۔ فرحان یہ حرکت دیکھ کر دوبارہ بولنا شروع ہوا، جیسے کسی نے ٹیپ ریکارڈ آن کردیا ہو۔
”اس لڑکی کا حسن اور خوب صورتی دیکھ کر ان تینوں کی نیت میں فتور آگیا۔ انہوں نے اپنے پلان میں مجھے بھی شامل کرلیا۔ رات ہونے پر انہوں نے اس کے دادا کی چائے میں نیند کی گولی ملا دی اور جب وہ رات کھانا رکھنے آئی تو ان تینوں نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ میں باہر پہرہ دے رہا تھا۔ انہوں نے اس سے زیادتی کرتے ہوئے اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کی بری حالت اور کسی کو بتائے جانے کے ڈر سے انہوں نے اسے گلا گھونٹ کر مار دیا۔ اب مسئلہ اس کی لاش چھپانے کا تھا۔ تب ہم چاروں نے مل کر ایک بوری میں اس لاش کو ڈالا تاکہ اسے کہیں چھپا سکیں۔” وہ پھر رک گیا۔ اس روح نے اب اپنا ناخن شرجیل کی ٹانگ پر رکھ کر دبایا تو وہ اس کے گوشت میں اتر کر سوراخ کرنے لگا شرجیل کی ٹانگ سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور اس کی چیخیں تہ خانے کو ہلانے لگیں۔
”تہ خانے کا راستہ مجھے معلوم تھا۔ اس وقت ادھر کوئی تالا نہیں لگا تھا۔ ہم چاروں اس لاش کو لے کر ادھر آگئے اور چھپا دیا۔ اس تہ خانے کو سب سے آخر میں بند کرنے والا بھی میں ہی تھا۔ اس پر تالا لگا کر اس کی چابی ہم نے پاس موجود کنویں میں پھینک دی۔” فرحان خاموش ہوا تو وہ روح گویا ہوئی۔
”اور ان ظالموں کے ظلم کا نشانہ بننے والی وہ لڑکی میں ہوں۔ اور وہ ہے میری لاش جو سالوں سے بے کفن پڑی ہے۔” اس روح نے کونے میں پڑی ایک بوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے میں واضح کرب تھا۔
سفیان صاحب اس واقع کے متعلق کچھ کچھ جانتے تھے، مگر مکمل تفصیل انہیں آج پتا چلی تھی، وہ بھی فرحان کے منہ سے۔ انہوں نے اسی وجہ سے بھائی سے رشتا توڑ دیا تھا۔
”ہم چاروں سے غلطی ہوئی مگر تم نے بھی تو کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ان تینوں کو اذیت دے کر مختلف حادثات میں مارا۔ میری بیوی اور بچے کا قتل کیا۔ تم نے بھی تو اپنا بدلہ لے لیا۔” فرحان سے شرجیل کی تکلیف برداشت نہیں ہورہی تھی۔ تبھی اس نے خوف ناک بلا کے سامنے یہ بات کہہ دی۔
”غلطی کی تھی تم لوگوں نے؟” وہ غرائی۔
”ایک معصوم سے اس کا بچپن چھیننا اور اسے قتل کرنا غلطی ہے؟ اگر یہ غلطی ہے تو میرا بھی حق ہے کہ تم سب سے بدلہ لوں اور تمہاری اولادوں کو بھی وہی درد دوں جو مجھے ملا۔” وہ چلا تے ہوئے بولی۔
”میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ وہی میرے جینے کا سہارا ہے، اسے مجھ سے مت چھینو۔ مجھے معاف کردو۔” وہ گڑ گڑا کر اس سے معافی مانگ رہا تھا۔
”اسے تم سے کون چھین رہا ہے؟ تم بھی قبر میں اس کے ساتھ جاؤ گے۔ ” وہ قہر برساتی نظروں سے بولی۔
”اپنے انجام کے لیے تیار ہوجاؤ۔ تمہارے بیٹے کے بعد تمہاری باری ہے۔” وہ فلک شگاف قہقہے لگا رہی تھی۔
اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پیلی روشنی کا ہالہ، جو فرحان کو گھیرے ہوئے تھا، ختم ہوگیا، لیکن یہ صرف چند لمحوں کے لیے تھا۔ اس نے دوبارہ اشارہ کیا اور فرحان اڑتا ہوا تہ خانے کی چھت سے جالگا۔ اس کی پشت چھت سے چپک گئی۔ وہ بار بار انگلی سے اشارہ کرتی اور وہ تھوڑا سا نیچے آکر پھر چھت سے ٹکرانے لگتا۔ بار بار چھت سے ٹکرانے سے اس کے سر سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ اب اس نے اپنا ہاتھ اتنا لمبا کیا کہ چھت پر چپکے فرحان تک پہنچ گیا۔ وہ اب اس کا گلا دبا رہی تھی۔ فرحان کی آنکھیں ابل رہی تھیں اور حلق سے گھٹی گھٹی آوازیں نکل رہی تھیں۔
”سونیا! اسے معاف کردو۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔” سفیان اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر اس سے درخواست کرنے سے باز نہ رہ سکا۔ ان دونوں بھائیوں کو اس واقع کا کچھ کچھ علم تھا۔ تبھی انہوں نے اپنے بھائی سے قطع تعلق کرکے اسے اس حویلی سے بھی بے دخل کردیا تھا، لیکن آج سونیا نے اپنی موت کا سارا قصہ فرحان سے خود اگلوا لیا تھا۔
”اس ظالم کو معاف کردوں؟ اسے تو میں عبرت کا نشان بناؤں گی۔ اتنے سال میں نے اس رات کا انتظار کیا ہے۔ آج میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔ اسے حساب دینا ہوگا۔ ہر جرم کا، ہر زیادتی کا۔” خوف ناک آنکھوں سے سفیان کو گھورتی وہ چلا کر بولی۔ وہ کسی طور پر ہار ماننے کو تیار نہ تھی اور سفیان، اپنی آنکھوں سے اپنے بھائی اور بھتیجے کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”سونیا! ہمارا احسان یاد کرو کہ تمہارے گھر کے ہر فرد کو ہم اپنے گھر کے فرد کی طرح سمجھتے ہیں۔ اس واقع کے بعد بھی، کبھی تمہارے خاندان کی عزت میں کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان سے ان کی نوکری اور گھر چھینا گیا۔ حالاں کہ نذیر بعض اوقات غائب دماغی کی حالت میں ہوتا ہے، کبھی اکیلے میں باتیں کرتا ہے، مگر اس کی جگہ بھی کسی دوسرے کو نہیں دی گئی۔” سفیان کی بات پر اس کی گرفت فرحان پر ڈھیلی پڑی تھی۔
”ہم تمہارا اب بھی ساتھ دیں گے۔ تمہاری لاش کو کفن دے کر تدفین کریں گے۔ تم جو مانگو گی وہ ہم تمہیں دیں گے، بس تم ان دونوں کو چھوڑ دو۔ میرے مرے ہوئے باپ کی لاج رکھ لو اور ان کو چھوڑ دو۔” وہ اپنے بھائی اور بھتیجے کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے مگر میری ایک شرط ہے؟”وہ مستحکم لہجے میں بولی۔
”ہم سب شرائط ماننے کو تیار ہیں۔” سفیان نے جلدی سے کہا۔
”میری لاش کو کفن دو اور اس کو دفنانے سے پہلے، میری ساری برادری کو بلاؤ اور ان کے سامنے اعتراف کرو کہ کس طرح میری موت ہوئی اور تمہارے خاندان کے بھی تمام لوگ اس میں شامل ہوں تاکہ مجھ پر لگے داغ دھل سکیں کہ میں راتوں رات کہیں غائب ہوگئی۔” اس کی بات نے سفیان کو خاموش کردیا۔ فرحان کی آنکھیں بندتھیں، وہ یقینا بے ہوش تھا۔ کیا وہ سب کے سامنے یہ اعتراف کرپائے گا؟
سفیان فیصلہ نہ کرسکا۔
”بولو! یا پھر ان دونوں کی لاشیں اٹھانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔” وہ جلالی کیفیت میں بولی۔
”ٹھیک ہے! ہمیں تمہاری تمام شرائط قبول ہیں۔” سفیان نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
”اور یاد رکھنا! جب تک مجھے دفناؤ گے نہیں، میں نہیں جاؤں گی۔ اس لیے اگر اپنے اعتراف میں جھوٹ کی ذرا سی بھی آمیزش کی تو میں ان دونوں کی جان لے لوں گی۔” یہ کہتے ہی وہ دھوئیں میں تبدیل ہوکر غائب ہوگئی۔ اس کے جاتے ہی فرحان ایک دم چھت سے نیچے گرا اور شرجیل جو کہ ایک میز جتنی اونچائی پر تھا، وہ بھی فرش پر آگرا۔ ان سب کے نادیدہ حصار ختم ہوگئے۔ ان سب نے جلدی جلدی ان دونوں کو اٹھایا۔ وہ دونوں بے ہوش تھے۔ تہ خانے کا دروازہ خود بہ خود کھل گیا۔ وہ باہر آئے تو باہر نذیر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ پوپھوٹنے کو تھی۔ سفیان، نذیر کے ساتھ وہ بوری بھی اٹھا لایا اور اس کی حقیقت بتا کر اس کی تمام برادری کو جنازے پر بھی بلا یا۔
”میں جانتا تھا وہ ادھر ہی ہے۔” نذیر آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔
”وہ ہر روز مجھے نظر آتی تھی۔ جب میں پوچھتا کہ تم کدھر رہتی ہو تو وہ چپ کرجاتی۔ مجھے تہ خانے پر شک تھا۔ بہت بار اس کو کھولنے کی کوشش کی مگر وہ کبھی نہیں کُھلا۔ وہ یہ راز مجھ پر ایسے ہی کھولنا چاہتی تھی۔” نذیر زارو قطار رو رہا تھا۔ سفیان نے اسے تسلی دی اور تمام رشتے داروں کو فوراً حویلی بلا لیا۔ فرحان کو ہوش آیا، تو وہ اس صورتِ حال پر پریشان ہوگیا تھا۔
”ایسا کیسے ہوسکتا ہے سفیان بھائی؟ سب اپنوں اور غیروں کے سامنے میں اپنے جرم کا اعتراف کروں؟ نہیں میں یہ نہیں کرسکتا۔ میں یہ نہیں کروں گا۔” وہ بپھر گیا تھا۔
”حالات کو سمجھو فرحان، وہ دھمکی دے کر گئی ہے۔” سفیان نے اسے اس کی بے ہوشی کے دوران دی جانے والی تمام دھمکیاں بتائیں۔ فرحان سوچ میں پڑ گیا۔
”میں کیسے وہ سب بتانے کی ہمت کروں؟ لوگ مجھ پر تھوکیں گے۔ مجھ سے ملنا ترک کردیں گے۔ میرے بیٹے کو کوئی لڑکی نہیں دے گا۔” اس کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ وہ اسی طرح کے کئی اندیشوں میں گھر گیا۔
”اتنے سال سچ چھپا کر تمہیں سکون مل گیا؟ بتاؤ؟ کیا تمہارا دل بے چین نہیں رہتا؟ کبھی تمہاری خلش ختم ہوئی ہے؟ ایک سچ تمہیں رسوا تو کرے گا مگر ذہنی اور دلی خلش کا خاتمہ کردے گا۔ تمہیں شرجیل کی جان بچانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ہوگا۔” سفیان کے سمجھانے پر وہ راضی تو ہوگیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے بتانے کی ہمت نہیں کر پارہا تھا۔
دوپہر تک حویلی کے لان میں کافی لوگ پہنچ چکے تھے۔ نذیر نے وہاں دریاں بچھا کر ٹینٹ لگوا دیے تاکہ لوگ سہولت سے بیٹھ سکیں۔ انہوں نے اس لاش کو کفن دے کر تابوت میں بند کردیا تھا۔ سب حیران تھے کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟
”آج آپ سب لوگوں کو ادھر بلانے کا مقصد، ایک اعترافِ جرم کرنا اور کئی سالوں سے بے کفن، ایک لاش کا جنازہ پڑھنا ہے۔” سفیان نے بات کا آغاز کیا تو لوگوں میں بے چینی پھیل گئی۔
”یہ اعترافِ جرم فرحان خود کرے گا۔” سفیان نے فرحان کی طرف دیکھا جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور ہونٹ اور آنکھیں کافی سُوجے ہوئے تھے۔ فرحان نے ہمت کرکے اس سارے واقعے کو دہرانا شروع کیا۔ وہ جب کہیں رکتا تو تیز ہوائیں چلنے لگتیں مگر فرحان کے بولتے ہی سب ٹھہر جاتا۔ سونیا کے ذکر پر اس کے برادری کے لوگ مشتعل جب کہ فرحان کے رشتہ دار شدید غم و غصے کا شکار تھے۔ انہیں فرحان سے اس گھنائونے فعل کی امید نہیں تھی۔ اس نے سارے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی تھی۔ سونیا کی پر تشدد موت کا سن کر ہر آنکھ اشک بار تھی اور فرحان پر غصہ اتارنے کو بے تاب بھی۔ فرحان نے نذیر اور اس کے بیٹوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور معافی نامے کے طور پر دس لاکھ کا چیک بھی ان کے حوالے کیا۔ شرجیل کو یہ ساری کارروائی دیکھ کر دلی صدمہ ہوا تھا۔ کل وہ بے ہوشی میں کچھ نہیں سن سکا تھا، مگر آج اپنے باپ سے متنفر ہوگیا تھا۔ اسی زیادتی کی وجہ سے اس کی ماں بچپن میں ہی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔
سفیان نے نذیر کے ساتھ مل کر لوگوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ جو یہ سن کر فرحان کی جان لینا چاہتے تھے۔ جنازہ پڑھ کر سونیا کی لاش دفنا دی گئی تو ایک کالے رنگ کا ہیولا آسمان کی طرف اٹھتا چلا گیا۔ کہنے کو تو سب کچھ سکون سے ہوگیا تھا، لیکن اب کسی کی زندگی میں سکون نہ تھا۔ سارے رشتہ داروں نے فرحان سے قطع تعلق کرلیا۔ یہ بات اتنی پھیل گئی کہ اس نے شہر تک چھوڑ دیا۔ شرجیل کا دل بھی اپنے باپ سے اتنا متنفر ہوگیا کہ وہ ملک ہی چھوڑ کر چلا گیا۔ کبھی کبھی سفیان، فرحان سے ملنے اس کے تنگ و تاریک اور ویران گھر میں آجاتا، جہاں وہ دن رات جائے نماز پر بیٹھا خدا سے اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہتا۔ نذیر کے گھر والے اب بھی اسی حویلی میں رہتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں اب بھی ہر چوبیس ستمبر کی رات کو حویلی کی بتیاں روشن ہوجاتی ہیں اور ادھر سے کسی عورت کی سسکیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی نتھیا گلی میں واقع وہ حویلی خالی ہے۔ وہ دوبارہ کبھی آباد نہ ہوسکی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Read Next

شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!