قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

”تم نے کہا تھا آؤ گے، آئے نہیں؟” اسے کوئی سرگوشی سنائی دی۔ آواز میں ایک شکایت بھی تھی۔
”میں پھول رکھ کر جارہی ہوں، نیچے آجانا۔” اس کی آنکھ کُھلی تو تکیے کے پاس تازہ گلاب رکھا ہوا تھا۔ کمرے میں اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ نوید اور احمد اسے سوتا پا کر ناجانے کب باہر نکل گئے تھے۔ گلاب کا پھول دیکھ کر وہ کش مکش کا شکار ہوگیا۔ وہ لڑکی اسے نیچے کیوں بلا رہی ہے؟ وہ خواب تھا یا حقیقت؟ وہ دروازہ کھول کر باہر آیا، تو وہ دونوں اُسے لان میں ہی مل گئے۔
”نیندیں پوری کرلیں؟” نوید نے جملہ کسا۔
”ہاں! بس ناشتے کے بعد دوبارہ نیند آگئی تھی۔ وہ بولا، تو وہ دونوں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
”کون سا ناشتا؟ ناشتا تو ابھی ہم نے کیا ہے۔” احمد نے اسے بتایا تو وہ گڑ بڑا گیا۔
”ایک لڑکی ناشتے کی ٹرے لے کرآئی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں نے تم لوگوں کا حصہ بھی رکھا تھا۔” اس کے جواب نے ان دونوں کو اور شہ دی۔
”لڑکی؟ اس ویرانے میں؟ کیا کرنے آئی تھی؟ نمبر دے کے گئی ہے اپنا؟” نوید کو ہنسی آرہی تھی جو اس نے زبردستی روکی۔
”ادھر اور لڑکی؟ چل پوچھ لیتے ہیں نذیر سے۔” نذیر پانی لے کر آیا، تو احمد نے اس سے پوچھا۔
”نذیر! تمہاری بیٹی ادھر ہی رہتی ہے؟” اسے پتا تھا کہ نذیر کا باپ اس کے دادا کا ملازم تھا۔ اس کی ایک بیٹی بھی تھی مگر وہ چھوٹی عمر میں مرگئی تھی۔ اب اور بھی بچے تھے مگر کتنے، یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ اس نے بس نذیر اور اس کی بیوی کو ہی دیکھ رکھا تھا۔
”ہاں! ادھر ہی ہوتی ہے۔” سادگی سے جواب آیا تھا۔ لگتا تھا وہ اپنے آپ کو ہی جواب دے رہا ہے۔
”دیکھ لو! میں نے کہا تھا نا!” شرجیل نے بے ساختہ زور دیتے ہوئے کہا۔ نذیر وہاں سے جاچکا تھا۔
اس کے جانے کے بعد نوید نے اپنا موبائل اٹھایا۔
”یار! یہاں رات سے سگنل آرہے ہیں نہ موبائل ڈیٹا چل رہا ہے۔” نوید کے بولنے پر دونوں کو اپنے موبائل کا خیال آیا تھا۔
”ہاں! واقعی ایسا ہی ہے۔” دونوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”میں نے کل سے گھر بات نہیں کی۔ اب کیا کریں؟” نوید نے پوچھا، تو احمد نے تسلی دی۔ ”باہر نکل کے بات کرتے ہیں ۔ ادھر پہاڑوں کی وجہ سے بھی مسئلہ رہتا ہے۔”اس بات پر وہ کچھ پُرسکون ہوگیا۔
گھنٹے تک وہ سیر کے لیے نکل گئے۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ یہاں آچکے تھے مگر مری کی یہی خاص بات ہے کہ جب آؤ تب نیا ہی لگتا ہے۔
مری کی یہی خاصیت اور یہی کشش بار بار سیاحوں کو کھینچ لاتی ہے۔ مری کے مال روڈ پر گھومتے پھرتے شرجیل حویلی کو یکسر بھول چکا تھا۔ تینوں نے اپنے گھر فون کرکے اطلاع دے دی کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔ بس نوید نے ہی اپنے بابا کو بتایا تھا کہ اس پرانی حویلی میں سگنل نہیں آرہے جس کی وجہ سے وہ رابطہ نہ کر پایا۔
”یار! میرا خیال ہے کہ ادھر ہی ہوٹل لے لیں۔ صبح یہاں سے بھور بن کے لیے نکل جائیں گے۔” شرجیل کا یہاں دل لگ رہا تھا۔ ویسے بھی اس گھٹن زدہ حویلی سے بہتر تھا کہ رات باہر ہی بسر کرلی جائے۔





”بالکل! بہت اچھا پلان ہے۔ دو دن ادھر ہی ٹھہرتے ہیں۔ پتریاٹہ بھی چلیں گے۔” نوید نے اس کے پلان کی پوری طرح حمایت کی تھی۔
”چلو ٹھیک ہے پھر، رک جاتے ہیں۔ ادھیر حویلی میں کون سا کوئی ہمارا انتظار کررہا ہے۔” احمد نے کہا، تو شرجیل کو لگا کہ کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا دے مارا ہو۔
”آجاؤ!” کوئی پُر اسرار سرگوشی اس کے کانوں میں سنائی دی۔ ادھر کوئی واقعی اس کا انتظار کررہا تھا۔
”ہاں ہاں دو دن رکیں گے۔ ہمارا کوئی انتظار تھوڑی کررہا ہے۔” شرجیل نے جلدی سے کہا۔ اس کی دو دن کے لیے اس خوف ناک حویلی سے جان چھوٹ جانی تھی۔ ہوٹل میں کمرا لیتے وقت اسے لگا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے، مگر آس پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ یک دم اس کی نظر کھڑکی پر پڑی تو دو بڑی بڑی خوف ناک آنکھیں اِسے غصے سے گھور رہی تھیں۔ نہ کوئی چہرہ، نہ جسم، بس دو آنکھیں۔ اس نے گھوم کر احمد اور نوید کی طرف دیکھا جو فارم فل کررہے تھے اور پھر کھڑکی کی طرف، اب وہاں کوئی نہ تھا۔
”یقینا یہ میرا وہم تھا۔ مجھے آرام کی ضرورت ہے۔”اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔
کوئی پر اسرار قوت اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسے لگا کہ اس کمرے کے اندر اس کا دم گھٹ جائے گا۔
”میں ذرا باہر گیلری میں جارہا ہوں، ادھر مجھے گھٹن ہورہی ہے۔” شرجیل نے ہڑ بڑا کر کہا، تو نوید بہت حیران ہوا۔
”یار! اے سی چل رہا ہے اور تو باہر جارہا ہے؟”
”ہاں! بس باہر کا نظارہ دیکھ لوں۔” اس نے نوید کو ٹالا تھا۔ اس سے اندر بیٹھا نہیں جارہا تھا۔ ہوٹل کے سارے کمروں کے باہر چھوٹی سی گیلری تھی۔ ان کے کمرے کی گیلری باہر کی سڑک پر کھلتی تھی۔ وہ باہر آیا، تو صبح کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹک کررہ گیا۔
نیچے سڑک پر وہی لڑکی کھڑی تھی جو اسے ناشتا دینے آئی تھی، مگر اب اس نے گھونگٹ سے منہ نہیں چھپایا تھا۔ گورا رنگ، سیاہ بڑی بڑی گلابی آنکھیں، باریک ہونٹوں پر مسکراہٹ چھپاتی وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”آجاؤ۔” اسے اپنے کان کے اندر ایسی سرگوشی سنائی دی جیسے وہ ساتھ کھڑی بول رہی ہے۔ وہ اچھل پڑا تھا۔ وہ اب اسے اشارہ کررہی تھی۔ وہ شاید چاہتی تھی کہ اس کے اشارے پر وہ اس کے ساتھ چلا جائے۔ سڑک پر چلتے لوگوں نے اسے نظر بھر کے بھی نہ دیکھا تھا۔ کتنی عجیب بات تھی حالاں کہ یہ منظر نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا۔ اگر وہ نذیر کی بیٹی تھی تو یہاں نتھیا گلی سے کیسے پہنچی۔ وہ عجیب کش مکش کا شکار تھا۔
”لگتا ہے باہر کچھ زیادہ ہی دل لگ گیا ہے۔ کوئی لڑکی ہے کیا ادھر؟” نوید نے پیچھے سے آتے کہا، تو وہ نہیں نہیں کرتا مڑا اور جیسے ہی پلٹ کردیکھا، تو وہ لڑکی غائب تھی۔
”نوید کی وجہ سے چلی گئی ہوگی۔” وہ سوچ کر رہ گیا۔
”آجاؤ! میں نے کھانا منگوایا ہے۔” اندر احمد نے میز پر کھاناسجا رکھا تھا، پتا نہیں اس نے کب آرڈر کیا تھا۔ بھوکے توپتا نہیں وہ کب سے تھے مگر کھانا دیکھتے ہی اس کی بھوک اڑ گئی۔
”یار میرا موڈ نہیں، تم کھالو۔” شرجیل بستر پر جابیٹھا۔
”کیا بات ہے یار؟ باہر گھومتے ہوئے تو تُو نے شور مچا رکھا تھا کہ بھوک لگی ہے، بھوک لگی ہے۔ اب کیا ہوا۔” احمد نے چڑ کر کہا وہ اب کیا بتاتا کہ کھانا دیکھ کر اس کا دل کس بری طرح خراب ہورہا تھا کہ جیسے کھانا نہیں، اس کے آگے کوئی بدبودار شے رکھی ہو۔ اس کا دل متلانے لگا تھا۔
”تھوڑا سا کھالو۔” نوید نے کھانے کی پلیٹ آگے کی تو وہ منہ پر ہاتھ رکھے واش روم میں گھس گیا۔ اُس کا دل متلا رہا تھا۔ تو انہوں نے اسے کھانے کے لیے زور نہیں دیا، لیکن اس کی یہ حالت دونوں کے لیے تشویش کا باعث تھی۔
”احمد! کیا ہم واپس جاسکتے ہیں؟” شرجیل کے کہنے پر دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”پاگل ہوگیا ہے کیا؟ تو نے خود ہی کہا تھا کہ یہاں ٹھہرنا ہے، اب واپس کیوں جائیں؟” احمد کو شدید حیرت ہو رہی تھی۔ ناجانے کون سی قوت تھی جو شرجیل کو اس حویلی کی طرف کھینچ رہی تھی۔
احمد کے موبائل پر کال آرہی تھی۔ اس نے فون اٹھایا، آگے نذیر تھا۔
”ہاں نذیر کیا ہوا؟ خیریت ہے؟” احمد اس کے فون کرنے پر حیران تھا۔ وہ ان کی واپسی کا پوچھ رہا تھا۔
”نہیں! آج نہیں آئیں گے۔ ہم نے ادھر ہی ہوٹل میں کمرا لے لیا ہے۔” نذیر کہنے لگا کہ اس نے ان کے لیے کھانا تیار کرلیا ہے۔
”یار کھانا کیوں بنا لیا؟ ہم تو ادھر کھاچکے ہیں۔”شرجیل کھانے کا نام سُن کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔
”ہمارا ادھر کون انتظار کررہا ہے؟ کل آجائیں گے۔”احمد نے فون بند کیا، تو شرجیل اس کے پاس آگیا۔
”چابی دو، میں واپس جارہا ہوں۔” وہ بہت سنجیدہ تھا۔ اس کے عجیب روّیے نے ان دونوں کو الجھا کے رکھ دیا۔
”کیا ہوگیا ہے شرجیل، رات کو ادھر جاکر کیا کرو گے؟”نوید نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں ادھر جاؤں گا تو ہی کھانا کھاؤں گا۔” اس کی عجیب ضد تھی۔ وہ دونوں اس کا منہ تکنے لگے۔
”مجھے چابی دو، میں اکیلا جارہا ہوں۔” وہ مسلسل اصرار کررہا تھا۔
”ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں، فضول میں ہوٹل لیا۔”احمد نے بے زاری سے کہا۔
احمد کا اس وقت ادھر سے نکلنے کو بالکل موڈ نہیں تھا، لیکن شرجیل کی ضد نے انہیں پریشان کردیا۔ وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حویلی پہنچے۔ رات کی تاریکی میں حویلی، عجیب وحشت ناک منظر پیش کررہی تھی۔ انہوں نے گاڑی روکی تو ایک مخصوص چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ ان کے اندر آتے ہی دروازہ خود بہ خود بند بھی ہوگیا۔ پچھلی دفعہ کے برعکس وہ اتنے حیران نہ ہوئے۔ گاڑی مرکزی دروازے پر پہنچی تو آج بھی نذیر ادھر ہی کھڑا تھا۔
”میں نے بتایا تو تھا کہ ہم کل آئیں گے۔” احمد اسے دیکھ کر حیران ہوا۔
”لیکن آپ آ تو گئے ہیں، اسی لیے ادھر کھڑا ہوں۔” اس نے مسکراہٹ دباکر کہا، تو وہ تینوں ہی چونک گئے۔
”تم نے فون کیسے کیا تھا نذیر؟ ادھر تو سگنل بھی نہیں آتے۔” احمد کو یک دم یاد آیا۔
”یہ جو حویلی کے آگے کی طرف ڈھلوان ہے، ادھر آجاتے ہیں۔ ”وہ اس کے جواب سے مطمئن تو نہیں تھا، مگر پھر بھی کچھ نہیں بولا۔
”کھانا لے آؤ۔” شرجیل نے کہا تو نذیر نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا اور سرہلاتا ہوا اندر چلا گیا۔
کھانا آیا، تو شرجیل ایسے کھانے لگا جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔ نوید اور احمد نے کھانا چکھا بھی نہیں کیوں کہ شرجیل کا رویہ انہیں مسلسل الجھا رہا تھا۔
جیسے ہی وہ سونے کے لیے لیٹے تو تھکاوٹ اور بے زاری کی وجہ سے شرجیل اور احمد فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے، البتہ نوید ابھی بھی جاگ رہا تھا۔ دفعتہ بند دروازہ زور سے کھلا اور یک دم اُسی طرح بند ہوگیا۔ ساتھ ہی تیز ہوا کی سنسناہٹ ہوئی۔
”کنڈی لگا دیتا ہوں، شاید طوفان آرہا ہے۔” نوید بستر سے اٹھ کر دروازے تک آیا، تو اسے دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ اس نے حیرانی اور پریشانی کے عالم میں باہر نکل کر دیکھا، تو راہ داری کے سرے پر اسے کوئی سایہ نظر آیا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب گیا۔ وہ کالی چادر میں لپٹے، گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی ایک لڑکی تھی جس کے بال کمر تک کھلے ہوئے تھے۔ اس کی سسکیاں کبھی تیز ہوتیں اور کبھی آہستہ۔
”کون ہو تم؟ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟” نوید نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
اس نے سر اٹھایا، تو ایک لمحے کے لیے نوید کی سانس رک گئی۔ اس نے بے اختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھا کہ کہیں اس کی چیخ نہ نکل جائے۔ بڑی بڑی آنکھوں والی وہ خوف ناک بلا جس کے منہ سے جگہ جگہ سے خون بہ رہا تھا، غصے سے اسے گھور رہی تھی۔
”آئندہ میرے راستے میں مت آنا۔ اسے روکنا مت۔ میں اسے حاصل کرکے رہوں گی۔” وہ غرائی تھی۔
”کسے؟” یہ پوچھنے کی اس میں ہمت نہ تھی کیوں کہ اس کی زبان گنگ ہوگئی تھی۔ وہ الٹے پیر وہاں سے بھاگا اور کمرے کا دروازہ لاک کرلیا۔ کمبل میں گھس کر بھی وہ خوف سے کانپتا رہا۔
رات کے ناجانے کون سے پہر، ایک دم اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا، شاید کمرے میںکسی گیس کی بُو تھی، مگر وہ دونوں تو آرام سے سو رہے تھے۔
”مجھے دروازہ کھول دینا چاہیے، کہیں سب کا دم نہ گھٹ جائے۔”
اس نے دروازہ کھولا تو ایک خوشبو کا جھونکا اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔
اس کی نظر زمین پر پڑی تو وہاں تازہ خون سے بنے پاؤں کا ایک نشان تھا۔
اس نے حیران ہوکر اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اب وہ پاؤں پھر سے چلنے لگا اور اس کا دوسرا نشان فرش پر پڑا، ایسے جیسے کوئی خون سے رنگے پاؤں لیے فرش پر قدم رکھتا جائے۔ وہ ان قدموں کے پیچھے چلنے لگا۔ کوئی نادیدہ قوت اسے چلنے پر مجبور کررہی تھی۔ چلتے چلتے وہ پائوں ایک دروازے پر آکر رک گئے۔ وہ دروازے پر پہنچا، تو دروازہ ایک بڑے تالے سے بند تھا اور لگتا تھا جیسے وہ خون آلود قدموں والا شخص اس دروازے سے اندر چلا گیا ہے۔ کنڈے پر بھی تازہ خون لگا تھا۔
وہ پیچھے ہٹا، تو کسی سے ٹکرا کر گر پڑا۔ کوئی اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ چیخ مار کر سیدھا ہوا تو نذیر کو سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”نذیر تم اس وقت؟” وہ پسینے سے شرابور تھا۔
”آپ اس وقت احمد صاحب؟ میں تو چوکی داری کررہا ہوں۔” اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا اور وہ اس نذیر سے کافی الگ الگ رہا تھا جو ان سے ملتا تھا۔ اس کے بابا نے بتایا تھا کہ کبھی کبھی نذیر کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہتی۔ اکثر اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے مگر ناجانے کیوں بابا اس حویلی کے لیے کوئی ڈھنگ کا چوکی دار نہیں رکھتے تھے۔ نوید نے اسے خون کے نشانات دکھانا چاہے لیکن وہ اب وہاں نہیں تھے۔ اس کا سر گھوم کر رہ گیا۔
”میں کمرے میں جارہا ہوں۔” احمد اسے کیا جواب دیتا کہ اس نے خونی پاؤں دیکھے ہیں اور وہ پائوں ہی اسے ادھر کھینچ کر لانے کا سبب بنے ہیں۔ نذیر نے اسے کمرے تک چھوڑا۔ جیسے ہی نوید دروازہ بند کرنے کو مُڑا تو نذیر غائب تھا۔
”عجیب آدمی ہے۔” لگاتار رونما ہونے والے واقعات نے اسے الجھا کر رکھ دیا۔
٭…٭…٭
وہ بستر پر بیٹھی تھی کہ اسے لگا کوئی اس کے ساتھ ہے۔ اس نے آگے پیچھے دیکھا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ اب اسے لگا کہ اس کے ہاتھ پر کسی نے ہاتھ رکھا ہے۔ اس نے نظر اٹھائی، لیکن اس کے ہاتھ پر کسی کا ہاتھ بھی نہیں تھا۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھری مگر وہ درمیان میں ہی رک گئی، اس کے ہاتھ پر کسی کا ہاتھ تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ پر ایک لڑکی کے لمبے ناخنوں والا خون زدہ ہاتھ تھا۔ اس نے نظر اٹھا کر ساتھ بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا اور چیخیں مارتی ہوئی کمرے سے بھاگی۔
”رقیہ! رقیہ! بس کر دو۔” وہ سامنے سے آتے اپنے شوہر کے گلے لگ کر زور زور سے چلا رہی تھی اور اس کی چیخیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں تھیں۔ وہ چیختے چیختے بے ہوش ہوگئی۔
”میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ آپ ان کا خیال رکھیے گا۔ سوری! مگر مجھے امید نہیں کہ آپ دوسرے بچے کی خوشی دیکھ سکیں گے۔” ڈاکٹر کی بات نے اسے پھر سے افسردہ کردیا۔ واقعی اب اسے کوئی خوشی راس نہ آتی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Read Next

شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!