قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

”تم دونوں آج اتنا چپ کیوں ہو؟ ”شرجیل کو ان کی خاموشی پر حیرت ہوئی تھی۔ وہ تینوں لان میں بیٹھے ناشتا کررہے تھے۔
”تو رات کو گدھے بیچ کے سویا تھا۔” احمد نے طنز کیا تو وہ ہنس پڑا۔
”نہیں! مجھے لگتا ہے کھانے میں نشہ تھا۔” وہ ہنسا جب کہ وہ دونوں اب بھی چپ تھے۔
”تمہیں پتا ہے جن تین لڑکوں کی اس حویلی میں ڈیتھ ہوئی تھی، وہ پاپا کے دوست کے بیٹے تھے۔” شرجیل کو چائے پیتے کچھ یاد آیا۔
”تینوں؟” وہ دونوں چونکے تھے۔
”ہاں! دو کو تو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور ایک نے خود کشی کی تھی۔” وہ تفصیل بتانے لگا۔
”دولڑکوں کو اکٹھے ہارٹ اٹیک اسی لیے ہوا کہ دونوں نے کوئی بہت خوف ناک چیز دیکھ لی تھی۔ دیواروں پر ان کے خون کے دھبے تھے اور دروازے پر ناخنوں سے کھرچنے کے نشان، جیسے کسی نے تڑپا تڑپا کے مارا ہو۔” شرجیل ایسے بتا رہا تھا جیسے سب کچھ آنکھوں سے دیکھا ہو۔
”کس نے؟” نوید چائے کا کی چسکی لیتے لیتے رُک گیا۔
”پتا نہیں! مگر وہ تیسرا لڑکا مرنے سے پہلے فون پر بھائی سے بات کررہا تھا۔”
شرجیل کی بات نے پھر انہیں چونکنے پر مجبور کردیا۔
”پھر؟” احمد نے سوال کیا۔ ان دونوں کا تجسس آسمان کو چھو رہا تھا۔
”وہ گیلری میں کھڑا فون پر بات کررہا تھا کہ زور زور سے چلاّنے لگا۔ ہٹو پیچھے، کون ہو تم؟ مجھ سے کیا چاہیے؟ اور ساتھ چیخ بھی رہا تھا کہ ایک دم اس کے نیچے گرنے کی آواز آئی۔ شاید کسی نے اسے دھکا دیا تھا۔” شرجیل نے انہیں تفصیل بتائی اور ہاتھ دھونے واش روم چلا گیا۔ وہ دونوں ہی خاموش اور رات کے قصے میں اُلجھے ہوئے تھے۔
”احمد! رات میرے ساتھ کچھ ہوا ہے۔” نوید نے بنا تمہید باندھے بات شروع کی۔
”کیا مطلب؟ تیرے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے۔” احمد اس کی بات پر یک دم اُچھلا تھا۔
”تیرے ساتھ بھی؟ یعنی تیرے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے؟” نوید بھی اچھل کے سیدھا ہوا تھا۔
دونوں ایک دوسرے سے سر جوڑے رات کا واقعہ سنا رہے تھے۔ جیسے ہی شرجیل واپس آیا، وہ دونوں ہی چپ ہوگئے۔
”گھومنے کا کیا پلان ہے؟” احمد نے پوچھا، تو شرجیل عجیب انداز سے مسکرایا۔
”گھومیں گے نا آج، اس حویلی میں۔” شرجیل کی بات نے انہیں حیران کردیا۔
”چلو! حویلی گھومتے ہیں۔ پھر تو ادھر کبھی آنا نہیں ہے۔ کل بھور بن سے ہوکر گھر چلے جائیں گے۔”
”کہہ تو ٹھیک رہا ہے۔” نوید نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ شرجیل کو کہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ جو کچھ اس نے دیکھا تھا، وہ بالکل سچ تھا۔ کوئی پُراسرار قوت واقعی اس گھر کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔
نذیر کے پاس سب کمروں کی چابیاں تھیں۔ وہ تالے کھول کھول کر انہیں سب کمرے دکھا رہا تھا۔ وہ اس کام سے خوش نہ تھا، لیکن مجبوری میں کررہا تھا۔ زیادہ تر کمرے صاف تھے، لیکن جو کمرے گندے تھے، وہ ان کے چونکنے کی وجہ بنے۔ دھول، مٹی سے اٹے کمروں میں انہیں جا بہ جا کسی کے ہاتھ پیروں کے نشانات ملے جیسے وہاں کوئی آتا جاتا رہتا ہو۔ حویلی کی پچھلی طرف دیوہیکل کالا دروازہ تھا جو بند پڑا تھا۔
”اس کی چابی میرے پاس نہیں ہے۔” نذیر نے کہا تو وہ تینوں چونکے۔
”مگر کیوں؟” احمد رات کو اِسی دروازے پر آیا تھا۔ وہ بھی چابی نہ ہونے پر حیران تھا۔
”اس کا تالا کسی نے بدل دیا ہے۔ بہت چابیاں لگائی ہیں، مگر یہ نہیں کھلتا۔” نذیر کی بات میں انہیں دم نہ لگا۔
”تو توڑ دو تالا، ایسا کون سا مشکل کام ہے یہ۔”احمد نے کہا تو نذیر شیطانی ہنسی ہنسا۔
” ہمت ہے توخود توڑ لو۔”
وہ جسے اتنا آسان سمجھ رہے تھے وہ واقعی اتنا آسان نہیں تھا۔
احمد تالا توڑنے کی غرض سے آگے بڑھا۔ یک دم اسے لگا کہ اس نے کھولتے ہوئے انگارے پر ہاتھ دکھ دیا۔ ہاتھ کا جتنا حصہ تالے کو لگا تھا، اتنا حصہ جل گیا تھا۔ وہ سی سی کرتا پیچھے ہوا۔
نوید اس کا جلا ہوا ہاتھ دیکھنے کے باوجود ہمت کرکے آگے بڑھا۔ دروازے کو ہاتھ لگاتے ہی اسے زور دار کرنٹ لگا اور وہ اچھل کر کئی فٹ دور جا گرا۔
”میرا خیال ہے ادھر سے چلو۔” شرجیل ان دونوں کو لے کر کمرے میں آگیا۔ احمد اپنے ہاتھ کے لیے دوائی ڈھونڈ رہا تھا جب کہ نوید بھی ابھی تک کانپ رہا تھا۔
٭…٭…٭





ملازمائیں اب ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھیں۔ بچے کے آنے میں بس کچھ ہی دن باقی تھے۔ دونوں میاں بیوی چاہتے تھے کہ یہ وقت جلدی گزر جائے لیکن یہ خوشی انہیں نصیب نہیں ہونی تھی۔ وہ پرسکون انداز میں بیڈ پر سوئی ہوئی تھی جب اسے لگا کہ کوئی اس کی گردن دبا رہا ہے، وہ گھبرا کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ کوئی اس کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کھلے بالوں والی لڑکی پیچھے ہٹی تو صورت واضح ہوئی۔ اس کی آواز حلق میں ہی اٹک گئی تھی کیوں کہ اس کے ہاتھ اب بھی اس کے گلے پر تھے۔ رضیہ کو سانس نہیں آرہا تھا۔
”کیا چاہتی ہو تم؟ چھوڑ دو میرا پیچھا۔” وہ گھٹی گھٹی آواز میں چلّائی۔
”میں تمہارا بچہ چاہتی ہوں اس کے بعد میں تمہیں چھوڑ دوں گی ہمیشہ کے لیے۔” وہ قہقہہ مار کے ہنسی۔ پھر ایک ہاتھ اس نے رضیہ کے پیٹ پر رکھا اور جھٹکا دے کر کھینچا، تو رضیہ درد کی شدت سے تڑپ کر رہ گئی۔ اب اس لڑکی کے ہاتھ میں بہت چھوٹا سا بچہ تھا جس کی گردن وہ مروڑ رہی تھی۔
”مت کرو، میرا بچہ۔” وہ چلّائی مگر اس کی آواز گلے میں ہی کہیں دم توڑ گئی۔ اس کے لمبے لمبے ناخن رضیہ کی گردن میں پیوست ہوگئے۔ اس کی آنکھیں درد کی شدت سے اُبل کے باہر آگئیں اور پھر خاموشی چھا گئی جس میں صرف اس کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔
فرحان کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔ رضیہ اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ اس کی گردن پر تشدد کے نشان تھے اور ساری چادر خون آلود تھی۔ وہ اسپتال بھاگا تھا کہ شاید بچہ بچ جائے مگر رضیہ کی موت سے چند لمحے قبل ہی بچہ بھی مرگیا تھا۔
٭…٭…٭
اس دن وہ رضیہ کی قبر پر بیٹھ کر گھنٹوں رویا۔ جب وہ وہاں سے اٹھ رہا تھا، تو اسے اپنے بہت قریب سے فلک شگاف قہقہے کی آواز آئی۔ بھلا قبرستان میں کون ہنستا ہے؟ لیکن وہ جانتا تھا یہ کون ہے، جو اس کے ماتم پر جشن منا رہا ہے۔
٭…٭…٭
وہ تینوں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ آج کمرے کی لائٹ بہت تنگ کررہی تھی۔ کبھی جلتی، کبھی بجھتی۔ جیسے ہی لائٹ بجھتی، کمرے کے کونے میں وہی گھونگھٹ اوڑھے لڑکی کھڑی دکھائی دیتی اور جیسے ہی لائٹ جلتی وہ غائب ہوجاتی۔ شرجیل کے بار بار اِدھر اُدھر دیکھنے کی وجہ سے وہ دونوں بھی چوکنے ہوگئے۔
”یار! یہ لائٹ بند کرکے زیرو کا بلب جلا لیتے ہیں۔” نوید نے اٹھ کر لائٹ بند کردی۔ لائٹ کا بار بار جلنا بجھنا انہیں بری طرح پریشان کررہا تھا۔
شرجیل کو ان دونوں کے خراٹوں کی آواز آئی تو اس نے کمبل سے سر باہر نکالا۔ وہ گھونگھٹ ڈالے، چھن چھن کرتے اس کے پاس آرہی تھی۔ آج شرجیل کو اس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ بھلا جو رات کی تاریکی میں ہی دِکھے، وہ کون ہوگی؟ وہ اس کے بستر کے پاس آکر کھڑی ہوئی تو اس نے گھونگھٹ اُٹھا کر شرجیل کی آنکھوں میں دیکھا۔ شرجیل کی آنکھوں سے سرخ شعاعیں نکلیں۔ اسے ہلکا سا جھٹکا لگا اور دماغ ماؤف ہوگیا۔
”تم آئے نہیں نا؟” اس کی آواز میں شکوہ تھا۔
”کہاں آنا تھا؟” جواب اس کے منہ سے خود بہ خود نکلا تھا۔ اس کی خود کلامی پر نوید کی آنکھ کھل گئی۔
”نیچے! اور کہاں؟” اس نے اپنا ہاتھ شرجیل کی طرف بڑھایا جسے اس نے تھام لیا۔ اس کا ہاتھ برف کی طرح سرد تھا۔ نوید نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔ شرجیل، کسی ان دیکھی مخلوق کا ہاتھ تھامے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے سرخ شعاعیں نکل رہیں تھیں۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا، تو نوید نے فوراً احمد کو اٹھایا تاکہ وہ دونوں اس کے پیچھے جاسکیں۔
شرجیل گھپ اندھیرے میں کئی راہ داریوں سے گھومتا گامتا اسی دروازے پر پہنچ کے رک گیا جو کہ بہ قول نذیر، ایک تہ خانے کا دروازہ تھا اورجس کی چابی بھی نذیر کے پاس نہیں تھی۔
وہ دونوں اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے۔ شرجیل نے تالے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ تالا خود بہ خود کھل گیا اور دروازے کی کنڈی بھی خود بہ خود کھلنے لگی جیسے اسے کوئی کھول رہا ہو، مگر کھولنے والی وہ نادیدہ قوت انہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ دروازہ کھلا تو نیچے سیڑھیاں اترتی دکھائی دیں۔ شرجیل چپ چاپ سیڑھیاں اترنے لگا۔ نوید اور احمد کی برداشت جواب دے گئی۔ وہ دونوں دوڑتے ہوئے اس کے پیچھے گئے۔ نوید نے شرجیل کا بازو پکڑ کر کھینچا۔
”شرجیل! رک جا۔” شرجیل نے بنا دیکھے اس کا ہاتھ اتنی زور سے جھٹکا کہ اس کا سر دیوار سے جاٹکرایا۔ وہ لڑکی آگے چل رہی تھی اور شرجیل اس کے پیچھے تھا۔ احمد اور نوید دونوں اس کے پیچھے لپکے اور اس کو پیچھے کھینچا تاکہ وہ آگے نہ جاپائے۔ اب کی بار وہ غراتی ہوئی آگے بڑھی۔
”کہا تھا نا! میرے راستے میں مت آنا۔ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہو۔ ” یہ کہتے ہی وہ ان تینوں پر اپنی اصلی حالت میں ظاہر ہوگئی۔ کالے لمبے بال، موٹی موٹی خوف ناک آنکھیں، خون میں لتھڑا چہرہ، ہونٹوں سے بہتا خون اور انگلیوں کے لمبے لمبے ناخن۔ ان تینوں نے ہی بے ساختہ چیخ ماری۔ وہ واپسی کے لیے پلٹے، لیکن وہیں تھم کے رہ گئے۔ ان کے قدم پتھر کے ہوگئے۔ وہ حرکت نہیں کر پارہے تھے۔ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں اور بجلی چمکنے لگی۔ تہ خانے کے اندر یک دم شدید طوفان آگیا تھا۔
”میں تمہیں یہیں لانا چاہتی تھی۔ اب یہاں اپنے مرنے کا انتظار کرو۔” وہ شرجیل کو اونچی آواز میں کہتی، ہنستی ہوئی غائب ہوگئی اور تہ خانے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بندہوگیا۔ طوفان یک دم تھم گیا اور وہ تینوں وہیں گر کر بے ہوش ہوگئے۔
٭…٭…٭
ہر چوبیس ستمبر، اس پر بہت بھاری گزرتی تھی۔ اسی چوبیس ستمبر کو رضیہ اس سے جدا ہوئی تھی۔ پہلے تو وہ بہت پریشان ہوتا، لیکن رضیہ کے بعد سے اسے ہر غم ہی چھوٹا لگنے لگا تھا۔ آج تیئس ستمبر تھا۔ ناجانے اس سال کیا ہوگا؟ اس کا دل بہت بے چین تھا ساری رات کروٹیں بدلتے، اسے بہت مشکل سے نیند آئی تھی کہ اچانک وہ چیخ مار کے اٹھ بیٹھا۔ اس نے بہت ہی بھیانک خواب دیکھا تھا۔
حویلی کی طرف جانے والی سنسان سڑک پر کوئی سفید لباس میں ملبوس اس کی گاڑی سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کی گاڑی کی ونڈو اسکرین پر خون اور پتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ وہ سفید کپڑوں والا شخص اور کوئی نہیں، اس کا اپنا بیٹا شرجیل تھا۔
”بابا! مجھے بچا لو۔” یہ آخری باز گشت تھی جو اس نے سنی تھی۔ اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوب گیا۔
وہ اس خواب کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔
”کیا شرجیل مشکل میں ہے؟ اسے مدد کی ضرورت ہے؟ وہ تو بس گھومنے گیا ہے۔” اس نے خود کو تسلی دی، مگر اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ خوف کی لہر نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے شرجیل کا نمبر ملایا مگر اس کا نمبر بند تھا۔ شرجیل نے جاتے ہوئے اسے نوید کے والد کا نمبر دیا تھا۔ شرجیل نے پریشانی کے عالم میں وہی نمبر ملایا۔نوید کے والد نے سوتے میں فون اٹھایا تھا۔
”نوید نے کوئی اطلاع کی؟ خیریت سے ہیں وہ لوگ۔” اس نے سلام کے بعد فوراً پوچھا۔
”نہیں! اطلاع تو نہیں آئی۔ آپ پریشان نہ ہوں، اس حویلی میں سگنل نہیں آتے۔” انہوں نے اطمینان سے کہا، تو فرحان کو سو واٹ کا کرنٹ لگا۔
”کون سی حویلی؟”اسے اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی سنائی دے رہی تھی۔
وہ دوڑتا ہوا گھر سے نکلا اور تیزی سے گاڑی چلاتا سفیان کے گھر جا پہنچا ۔اس کے شور اور ہنگامے سے سب لوگ جاگ گئے۔ سڑک پر کھڑا فرحان، حلق کے بل چلا رہا تھا اور اس کی آواز دور دور تک جارہی تھی۔
”میں نے کہا بھی تھا سفیان، اسے اس حویلی کا مت بتانا۔ میرے پاس ایک ہی بیٹا ہے۔ اسے کچھ ہوا تو میں سب کو جان سے مار دوں گا۔ ” وہ نیم پاگل سا ہو گیا تھا۔
”کیا ہوا ہے فرحان؟ آدھی رات کو کیوں سارے محلے کو جگا رہے ہو؟” سفیان نے اسے پکڑ کر دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”وہ تینوں اس وقت اسی حویلی میں ہیں اور میرا دل کہتا ہے کہ وہ کسی مشکل میں ہیں۔” وہ دیوانہ وار چلّا رہا تھا۔
”تم فکر نہ کرو، ہم ساتھ چلتے ہیں تمہارے۔” سفیان اور اس کے بیٹوں نے گاڑی نکالی۔ فرحان کی گاڑی کچھ ہی دور گئی تھی کہ جھٹکے کھاتے ہوئے رک گئی۔ اس نے جیسے ہی بونٹ کھولا تو ایک دم آگ کا شعلہ بھڑکا اور انجن میں آگ لگ گئی۔ سفیان اور اس کے بیٹوں نے جلدی سے آگ بجھائی۔
وہ فرحان کو اپنی گاڑی میں لے آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی طاقت انہیں وہاں جانے سے روک رہی ہے۔ وہ جتنا جلدی پہنچنا چاہتے تھے، انہیں اتنی ہی دیر ہورہی تھی۔ سفیان جتنی سپیڈ بڑھا رہا تھا،گاڑی اتنی ہی آہستہ ہوتی جارہی تھی۔
٭…٭…٭
”احمد! تو ٹھیک ہے؟” سب سے پہلے نوید کو ہوش آیا تھا۔ اس نے بڑ بڑا کر احمد کو اٹھایا۔ وہ دونوں اب شرجیل کو ہلا رہے تھے۔ وہ ہلکی ہلکی آنکھیں کھول رہا تھا اور وہ سُرخ شعاعیں اب اس کی آنکھوں میں نہیں تھیں۔
”یہ ہم کہاں ہیں؟” وہ اس نیم تاریک تہ خانے کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ ہوش میں آتے ہی انہیں شدید بدبو کے بھپکوں کا احساس ہوا۔ ان تینوں نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔
”اب یہاں سے کیسے نکلیں ؟” احمد نے فکر مندی سے کہا۔
”کوئی راستہ ڈھونڈو، ہوسکتا ہے کچھ مل جائے۔” نوید نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ اس نیم تاریک تہ خانے میں آگے بڑھنے لگے۔ یک دم شرجیل کو کسی چیز سے ٹھوکر لگی۔ وہ کوئی سفید سی بوری تھی۔ ان تینوں نے نیچے بیٹھ کر دیکھا، بوری کا سرا کھلا ہوا تھا۔ احمد نے ڈرتے ڈرتے بوری سرکائی تو ان تینوں کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ ایک لڑکی کی لاش تھی جس کے منہ پر خون لگا ہوا تھا۔ ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ شرجیل کے ذہن میں ایک جھما کا ہوا۔ وہ چھوٹا سا تھا جب اس کی ماں نے بتایا تھا کہ اکثر اس کے پاس ایک لڑکی آتی ہے اور اس کے منہ پر جگہ جگہ خون لگا ہوتا ہے۔ وہ اس سے کہتی ہے کہ اسے حساب دینا ہوگا۔ ان سب کو حساب دینا ہوگا؟ مگر کس چیز کا حساب؟ یہ اس کی ماں بھی نہیں جانتی تھی۔ بھلا اس کی ماں نے کیا کیا تھا جو وہ حساب دیتی۔
لاش سے شدید بدبو اُٹھ رہی تھی۔ ابھی تک اس کے چہرے پر لگا خون تازہ لگتا تھا۔
”یہ وہی لڑکی ہے جو مجھے دیکھتی تھی، یعنی وہ نذیر کی بیٹی نہیں ایک بد روح تھی۔” اس تصور نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی دوڑا دی۔ شرجیل اور احمد لاش کے بہت قریب بیٹھے اس کا چہرہ تک رہے تھے، جیسے کچھ کھوج لگا رہے ہوں۔ یک دم لاش نے آنکھیں کھول دیں اور وہ دونوں چیخ مار کے پیچھے ہٹے۔ وہ لاش اب ہنس رہی تھی۔ ان تینوں کی سانس بندہونے لگی۔
”دیکھو میرا حال! آج رات تک تمہارا بھی یہی حال ہوجائے گا۔ ہاہاہا۔” وہ زور زور سے قہقہے مارنے لگی اور پھر سے آنکھیں بند کرلیں، جیسے کبھی بولی ہی نہ ہو۔
اُس کے لفظوں نے ان تینوں کا خون خشک کردیا تھا۔
٭…٭…٭
وہ لوگ رات کے نکلے دوپہر میں حویلی پہنچے تھے۔
حویلی کے دروازے پر ہی نذیر انہیں مل گیا۔ نذیر نے فرحان کو سر سے پیر تک دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کاٹ تھی۔ وہ کتنے سالوں بعد واپس آیا تھا اور آیا کہاں تھا، بلایا گیا تھا۔
”نذیر! احمد اور شرجیل ادھر آئے ہیں۔” سفیان سیدھا مدعا پہ آیا تھا۔
”جی!” اس نے جواب دے کر سر جھکا دیا۔ وہ مرکزی دروازے تک آئے تو ان کی گاڑی وہاں موجود تھی۔
”کہاں ہیں وہ تینوں؟” فرحان نے جلدی سے پوچھا۔
”مجھے کچھ معلوم نہیں۔” نذیر کی بات پر وہ سب چکرا کر رہ گئے۔
”کیا بکواس کررہے ہو؟ ان کی گاڑی یہاں کھڑی ہے، کدھر ہیں وہ؟” فرحان آپے سے باہر ہورہا تھا۔ اس کی بات سچ ہونے جارہی تھی۔
”وہ کل رات سے لاپتا ہیں صاحب۔ ان کا کچھ پتا نہیں۔”نذیر نے گویا ان کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
”ہمیں انہیں تلاش کرنا ہوگا۔ وہ ادھر ہی ہیں، حویلی میں۔” وہ سب نذیر سے کمرے کھلوا کر انہیں ڈھونڈنے لگے۔ ہر جگہ تلاشی لیتے لیتے شام ہوگئی۔ شام ڈھلے وہ تہ خانے کے دروازے پر پہنچے۔
”اس کی چابی نہیں ہے میرے پاس۔” نذیر نے وہی عذر بیان کیا تو ان سب نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔ فرحان منہ لٹکائے دور کھڑا تھا۔ وہ عجیب تذبذب کا شکار تھا۔وہ اپنا بیٹا ڈھونڈنا چاہتا تھا، لیکن یہ دروازہ بھی نہیں کھولنا چاہتا تھا۔ اس کی چابی تو اس نے خود چھپائی تھی۔
سفیان نے نذیر کو ہتھوڑا لانے کو کہا۔ نذیر اپنے کوارٹر سے ایک ہتھوڑا لے آیا۔ سفیان نے ہتھوڑا فضا میں بلند کیا اور جیسے ہی تالا توڑنے کے لیے ہاتھ اٹھایا، کسی نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اب سفیان ہتھوڑا آگے کرتا اور اس کا ہاتھ اتنا ہی پیچھے چلا جاتا۔ کافی دیر یہ زور آزمائی چلتی رہی۔ وہ نادیدہ قوت اس کے پسینے نکالنے میں کام یاب ہوگئی تھی۔ سفیان نے تھک کر ہتھوڑا ایک طرف رکھ دیا۔
وہ جان گئے تھے کہ یہ سب اتنا آسان نہیں، جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ سفیان کا بڑا بیٹا طلحہ آگے بڑھا۔ اس نے ہتھوڑا پکڑنا چاہا ہتھوڑا دور جاگرا۔
”میرا خیال ہے بابا، ہمیں صبح آنا چاہیے۔” سفیان کے چھوٹے بیٹے نے صورت حال دیکھتے ہوئے مشورہ دیا۔
”جو ہوگا، آج ہی ہوگا۔ ” فرحان یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج کی رات خاص ہے، چوبیس ستمبر کی رات۔ عام حالات میں تو وہ کبھی اس دروازے کی طرف نہ آتا، مگر آج اس کے اکلوتے بیٹے کا معاملہ تھا۔ اس کے پاس صرف اولاد کی خوشی ہی تو باقی تھی۔ وہ ہتھوڑا اٹھائے دروازے کی طرف بڑھا۔ نذیر خاموشی سے یہ سب کارروائی دیکھ رہا تھا۔ فرحان نے ہتھوڑا فضا میں بلند کیا ہی تھا کہ کھڑاک کی آواز کے ساتھ وہ بھاری تالا خود بہ خود کھل گیا۔ وہ سب کے سب حیران رہ گئے۔




Loading

Read Previous

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Read Next

شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!