دسویں منٹ میں شیر دل سمیت 16 پروفیشنرز نے عکس مراد علی کو ایک عجیب سی خاموشی اور تعظیم وتحسین کے عالم میں بے حد پر اعتماد انداز اور مہارت سے اپنے گھوڑے پر دوبارہ سوار ہوتے دیکھا۔ اس نے رائیڈنگ انسٹرکٹر کو رکاب میں پاؤں پھنسانے کے لیے رکاب کو ہاتھ لگانے دیا تھا نہ ہی باگ پکڑنے میں اس کی مدد لی تھی۔ وہ باگ پکڑ کر پہلی ہی کوشش میں بے حد ہموار انداز میں گھوڑے پر سوار ہوئی تھی۔ اپنے گھوڑے کو چند قدم چلاتے ہوئے وہ دائرے کے وسط سے دائرے کے اس سرے پر لے آئی تھی جہاں سے وہ لوگ ہمیشہ trotting کا آغاز کرتے تھے اور شیر دل نے اسے ایک بار پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاتے دیکھا۔ اس عورت کی برداشت اور بے جگری نے شیر دل کو پانی کیا تھا، وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ وہ خود درجنوں بار گھوڑے سے گر چکا تھا اور اچھی طرح ان انجریز اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تکلیف سے واقف تھا۔ عکس مراد علی سے زیادہ ہمت اور حوصلہ کسی میں نہیں تھا۔ یہ اعتراف صرف شیر دل نے نہیں کیا تھا ان سترہ کے سترہ DMG پروفیشنرز نے کیا تھا جن کو لیڈ کرتے ہوئے وہ وہاں پہنچی تھی۔
اور شیر دل کا اندازہ غلط نہیں تھا ۔عکس مراد علی نے ایسی تکلیف اور اذیت برداشت کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا مظاہرہ پہلی بار کیا تھا۔ اس کی کمر کا نچلا حصہ ایک پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا اور اس میں سے کرنٹ کی طرح نکلنے والی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ نہ صرف باقی کا پورا وقت رائیڈنگ کرتی رہی تھی بلکہ اس نے اس دن معمول کی طرح ہر کلاس لی۔ وہ اس گروپ میں واحد عورت تھی اور ان 17 مردوں کے سامنے اسے ایک مرد کی طرح کھڑے رہنا تھا۔ وہ اس سال پاکستان کے 17 ذہین ترین ذہنوں کے ساتھ اس DMG کیمپس میں تھی جن میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے مگرمچھ تھا اور وہ ان سب کے لیے شارک مچھلی بننا چاہتی تھی۔ اس رائیڈنگ رنگ میں چوتھے دن گر کر زمین پر گرے رہنے کا آپشن قابل قبول نہیں تھا۔ وہ اگلے ساتھ آٹھ مہینےDMG کیمپس کے کامن روم میں سنائے جانے والے جوکس کا موضوع نہیں بننا چاہتی تھی۔
رات کو ڈائننگ ہال میں ڈنر کے بعد شیر دل اس کے پاس گیا تھا۔ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن پتا نہیں کیوں وہ رہ نہیں سکا۔ وہ اس وقت ویٹر سے کچھ کہہ رہی تھی جب شیر دل اس کے پاس آگیا۔
”I hope you are alright now ”اس نے عکس کے متوجہ ہونے پر اس سے کہا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی پھر شیر دل نے اسے مسکراتے دیکھا۔
”I am absolutely alright ”
شیر دل اور وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب کھڑے تھے کہ شیر دل کو اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ عکس کی آنکھوں میں نمی امنڈی تھی جسے اس نے نظریں چرا کر اور سر جھکا کر چھپایا تھا۔ وہ اب ہاتھ میں پکڑے سونف کے کچھ دانوں کو ہتھیلی پر ہلکا سا رگڑتے ہوئے مصروف نظر آنے کی کوشش کررہی تھی۔ شیر دل کو لگا اسے وہم ہوا تھا۔ عکس کی آنکھوں میں نمی…اور کس لیے؟… عکس نے پاؤں بیرونی دروازے کی طرف بڑھادیے۔ شیر دل بھی پیچھے نہیں رکا۔ بہت خاموشی سے وہ ڈائننگ ہال سے برابر چلتے ہوئے نکلے تھے۔ ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے شیر دل نے اس سے کہا۔
”گھوڑے سے دوچار دفعہ گرنا ضروری ہوتا ہے۔”عکس نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کیوں؟” ”اس سے انسان کا کانفیڈنس بڑھتا ہے۔” وہ مسکرادی۔
”کانفیڈنس میں اضافے کے لیے اس سے زیادہ مناسب اور کم خطرناک طریقے بھی ہوتے ہیں۔”
”زندگی اور گھوڑا دونوں گراتے ہیں اور گرے بغیر دونوں کی سمجھ نہیں آتی۔”عکس یک دم ہنس پڑی۔ شیر دل نے یک دم پھر اسے دیکھا تھا۔ اس کی ہنسی کی کھنک نے عجیب سے انداز میں اس کے دل کو چھوا تھا۔
”آپ کو میری بات اچھی نہیں لگی؟” شیر دل نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ ”میں نے انجوائے کیا ہے آپ کی بات کو۔” عکس نے جواباً کہا۔
”آپ دوسرے آدمی ہیں جو ایسی فلاسفی بول رہا ہے۔”
”اور پہلا آدمی کون ہے؟” شیر دل نے عجیب سے تجسس کے ساتھ اس سے پوچھا۔
……٭……
”مجھے کیوں نہیں پوچھنا چاہیے یہ؟” وہ اس دن جواد کے ساتھ اپنی دوسالہ کورٹ شپ اور منگنی کے بعد کا پہلاآرگیومنٹ کررہی تھی اور اس آرگیومنٹ کا آغاز اس نے نہیں کیا تھا۔ یہ کام جواد نے کیا تھا۔
”تمہیں میری ہر بات پر اعتبار کرنا چاہیے۔”جواد کی گفتگو کی ٹیگ لائن تھی اور عکس زندگی میں پہلی بار اس سے گفتگو کر کے اس قدر مایوس ہورہی تھی۔ اس کا خیال تھا اس کے آفس میں یوں اچانک آجانے کا مقصد صرف اس معاملے پر اسے وضاحت دے کر صورت حال کو سنبھالنا تھا لیکن جواد کی گفتگو سے ہونے والا احساس اس کے برعکس تھا۔ اسے لگا وہ جیسے بلاواسطہ اسے ذہنی طور پر آئندہ بھی ایسی ہی کسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنے آیا تھا کیونکہ وہ سیاست میں آنے کی تیاری کررہا تھا اور میڈیا اور مخالف پارٹی اسے اور اس کے خاندان کو بد نام کرنے کے لیے اب کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ بار بار اسی ایک بات کو دہرارہا تھا اور یہ بات اس نے اتنی بار دہرائی تھی کہ بے حد ٹھنڈے مزاج کی ہونے کے باوجود عکس کو غصہ آگیا تھا۔
”میڈیا کسی ٹھوس وجہ کے بغیر کیوں تمہیں بدنام کرنا چاہے گا؟تم پاکستان کے کوئی بہت بڑے سیاست دان نہیں ہو جواد … اور میری سمجھ میں تو یہ نہیں آرہا کہ بیٹھے بٹھائے تمہیں سیاست میں آنے کا شوق کیسے ہوگیا۔ تم نے ہمیشہ مجھ سے یہی کہا کہ تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور …” جواد نے کچھ خفگی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
”اب مجھے اپنی زندگی کا ہر فیصلہ تم سے پوچھ کے تو نہیں کرنا اور پھر میں نے کل رات تمہارا attitude (رویہ) اور اپنے ساتھ تمہاریloyalty (وفاداری) دیکھ لی ہے۔” جواد نے بے حد طنزیہ انداز میں اس سے کہا۔
”میری loyalty اور میرا attitude ؟”عکس جیسے کچھ ہکا بکا ہوئی۔
”میں وہاں پولیس اسٹیشن میں تھا تو تم نے میرے لیے کیا کیا؟… تم ابو کو فون کر کے صرف یہ پوچھتی رہیں کہ کیا میں واقعی شراب پیتے پکڑاگیا ہوں…اور یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ تم نے ایک دفعہ بھی انہیں کسی قسم کی مدد کی آفر نہیں کی۔”
”میں جانتی تھی اگر تم بے گناہ ہوگے تو تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔” چند لمحے کے لیے جواد کو کوئی جواب نہیں سوجھا پھر جیسے وہ بہت خفا ہو کر بولا۔
”میری پوری فیملی تمہاری وجہ سے مجھے ذلیل کررہی ہے میرا مذاق اڑارہی ہے۔” عکس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”جواد تم میری وجہ سے پولیس اسٹیشن نہیں پہنچے تھے۔”
”بار بار پولیس اسٹیشن کا ذکر اس طرح کرنا بند کردو کہ جیسے میں کوئی مرڈر کر کے وہاں پہنچا تھا۔” اسے جواد کی بات پر اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا جتنا اس کی بلند آواز سے۔ وہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ اس کا آفس تھا اور وہاں باہر اس کا اسٹاف موجود تھا جو اندر سے آنے والی ہر آواز پر کان لگائے بیٹھا تھا… بلند آواز میں بول رہا تھا۔
”ہمیں اگر اس طرح چلا کر ایک دوسرے سے بات کرنی ہے تو بہتر ہے ہم فی الحال بات نہ کریں جب تم ہوش میں آجاؤگے اور تمہیں لگے گا کہ ہم دو پڑھے لکھے مہذب لوگوں کی طرح گفتگو کرسکتے ہیں تو پھر ہم بیٹھ کر اس ایشو پر بات کرلیں گے جس کے لیے تم اتنی دور سے آئے ہو۔” عکس نے یک دم اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی فائلز سمیٹتے ہوئے بڑے تحمل سے اس سے کہا۔ جواد کا رد عمل اس کے لیے اس سے بھی شاکنگ ثابت ہوا تھا۔وہ یک دم کرسی سے کھڑا ہوا تھا اور اس نے غصے سے تقریباً دہاڑتے ہوئے اپنی پوری آواز سے اس سے کہا۔
”میں تمہارا اسٹاف نہیں ہوں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں… تم مجھ سے ڈپٹی کمشنر بن کر بات کرنے کی جرات بھی مت کرنا۔” وہ چند لمحے کے لیے جیسے کنگ سی رہ گئی تھی۔ ذلت اور توہین کے احساس سے زیادہ وہ جواد کا وہ نیا روپ دیکھ کر شاکڈ ہوئی تھی۔ وہ اس جواد سے آج پہلی بار متعارف ہوئی تھی۔ اتنے عرصے سے وہ ایک سوفٹ اسپوکن، بے حد تہذیب اور شائستگی سے بات کرنے والے ایک بہت خوش مزاج اور نفیس آدمی سے آشنا تھی جس کے ساتھ زندگی کا سفر کرنا اسے بہت آسان لگ رہا تھا۔
” تم” ہونے والے شوہر ہو… شوہر ہو نہیں اس لیے رعب جھاڑنے کی کوشش مت کرو۔ کم از کم اس طرح گلا پھاڑ کر نہیں ۔یہ رشتہ صرف ایک انگوٹھی تک کا ہے جسے میں اگر ہاتھ سے اتار کر تمہارے منہ پر ماردوں تو تمہیں اس آفس سے اٹھوا کر باہر پھنکوا سکتی ہوں اور کبھی بھی یہ مت سوچنا کہ میں یہ نہیں کرسکتی… چاہے میں منگیتر ہوں یا تمہاری بیوی… ”اس نے بڑے تحمل سے ٹھنڈے لہجے میں جواد سے کہا اور فون کا ریسیور اٹھا کر گاڑی لگوانے کی ہدایت دی۔ جواد کا پارا سیکنڈز میں نیچے آیا تھا۔
”میرا خیال ہے ہمیں کہیں اور چل کر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔”اس نے اپنا اگلا جملہ مدھم آواز کے ساتھ بدلے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
”نہیں… کم از کم آج کے اس مظاہرے کے بعد میں آج کہیں بھی تم سے بیٹھ کر بات نہیں کروں گی۔ مرد کی مردانگی طاقت رکھنے کے باوجود اپنی آواز کو مدھم رکھنے میں ہے، ایک عورت کے سامنے گلا پھاڑنے میں نہیں… وہ عورت کو بھی آتا ہے… تم چائے پیو، میں جارہی ہوں۔”
”I am sorry ” وہ لمحوں میں اپنے اسی روپ میں آیا تھا جس سے وہ واقف تھی۔
”اچھی بات ہے لیکن ہم پھر بھی آج کوئی بات نہیں کریں گے۔” وہ کہہ کر آفس سے نکل آئی تھی۔ اس وقت اس کا ذہن سنسنا رہا تھا۔ ایک شادی شدہ زندگی کے کیا چیلنجز تھے اور کیا ہوسکتے تھے اس کا ایک مظاہرہ عکس نے دیکھ لیا تھا۔
”طاقتور ہوتے ہوئے بھی کچھ دیر کے لیے وہ عجیب بے بسی اور مخمصے کا شکار ہو کر بیٹھی رہ گئی تھی اور جواد ایک روایتی مرد کی طرح اسے اسی احساس سے دوچار کرنے آیا تھا۔ ایک طاقتور عورت کے کام کی جگہ پر اس کی تذلیل کی کوشش… اسے نفسیاتی طور پر ہلانے اور خوفزدہ کرنے کا سب سے موثر اور کار آمد طریقہ یا شاید جواد کے لیے ایک رات پہلے ہونے والے واقعے کے بعد اپنی عزت نفس کو اپنے اور اس کی نظروں میں بحال کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں تھا یا پھر شاید یہ غصے کا وہ احساس تھا جو جواد کو پچھلی رات کے قضیے میں عکس مراد علی کے بالکل نیوٹرل رہنے سے ہوا تھا…ایک ڈیفنس میکنزم کے تحت وہ اپنے آپ کو مزید وضاحتوں اور صفائیوں سے بچانے کے لیے عکس پر الٹ پڑاتھا… وہ وقتی اشتعال تھا یا سوچا سمجھا پلان… وہ جو کچھ بھی تھا اس کے نتائج وہ نہیں نکلے تھے جو جواد چاہتا تھا لیکن اس واقعہ نے عکس کو بہت اپ سیٹ کیا تھا… پچھلی رات سے بھی زیادہ۔
”مردوں کے بارے میں میرے اندازے ہمیشہ غلط ثابت ہوتے ہیں۔” شیر دل نے رات کو عکس کو دوبارہ کال کی تھی اور وہ چاہنے کے باوجود اس سے جواد کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی اور اپنی مایوسی چھپا نہیں سکی تھی۔
”یہ تو تم نے ٹھیک کہا ،تم واقعی بڑے غلط اندازے لگاتی ہو مردوں کے بارے میں۔” شیر دل نے اس کی بات کی معنی خیز انداز میں تائید کی۔ عکس نے اس کے انداز اور جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”ہر بار میری judgement بہتflawed (ناقص) نکلتی ہے۔” وہ واقعی کافی دل شکستہ تھی، شادی سے چند ہفتے پہلے ایسی کوئی صورت حال کسی بھی لڑکی کو اسی طرح دل شکستہ کرتی اوروہ بہر حال ایک لڑکی تھی۔
”میری سمجھ میں صر ف یہ نہیں آیا کہ تمہیں جواد ملہی میں نظر کیا آیا تھا… مجھے ایک نظر دیکھنے پر ہی وہ اچھا نہیں لگا تھا۔ تم دو سال اس سے ملتے جلتے رہنے کے بعد بھی یہ نہیں جان سکیں کہ وہ ایک short tempered (غصے والا) آدمی تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عورت کے ساتھ ہر طرح کی جہالت کا مظاہرہ کر سکتا تھا… میں یہ تو نہیں مان سکتا کہ تم محبت میں اندھی ہوگئی تھیں کیونکہ عکس مراد علی تم کو کوئی محبت میں اندھا کر سکتا توٹیکنیکلی اسپیکنگ یہ اعزاز صرف مجھے حاصل ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ کام میں بھی نہیں کرسکا تو کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا… تو واقعی سوچنے والی بات ہے یہ کہ تم نے اس آدمی کو اتناmisread کیوں کیا۔ اس کے مزاج کے حوالے سے” عکس نے اس کے ابتدائی جملوں کو ایک بار پھر نظر انداز کرتے ہوئے اس کے آخری جملے پر کہا۔
”مجھے تو یہ تک پتا نہیں چل سکا کہ وہ ڈرنک کرتا ہے۔”
”خیر وہ میرے لیے کوئی اتنا قابل اعتراض کام نہیں ہے۔” شیر دل نے اسے ٹوکا۔