شیر دل نے اس میچ کے بعد جو تالیاں بجائی تھیں وہ اس ہیلن آف ٹرائے کی ذہانت پر بجائی تھیں جسے اکیڈمی میں دو الو کے پٹھے مل گئے تھے جنہوں نے اسے اسپورٹس میں وہ پوائنٹس دلوا دیے تھے جو CTP کی ٹریننگ ختم ہونے کے بعدbest probationes کی ٹرافی جیتنے کے لیے ضروری تھے۔
عکس مراد علی ٹینس اور بیڈ منٹن دونوں میں آیکaverage player تھی ۔وہ اکیڈمی میں لڑکیوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہاں بہت سی ایسی لڑکیاں موجود تھیں جو ایسے اداروں سے تعلیم حاصل کر کے وہاں پہنچی تھیں جہاں نہ صرف مختلف کھیلوں کی سہولیات تھیں بلکہ وہ کھیلتی رہی تھیں… وہ لڑکیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے کسی مقابلے کے فائنل تک کبھی نہیں پہنچی لیکن اس نے بے حد ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے مکسڈ ڈبلز مقابلوں کے لیے ان دو کھیلوں کے سب سے اچھے کھلاڑیوں کے ساتھ pairing کرلی تھی۔ وہ دو ٹرافیز نہ بھی جیتتے پھر بھی فائنلز تک ضرور پہنچا دیتے اس کو… وہ شیر دل کے ساتھ pairing بھی کرلیتی اگر best probationes کے لیے وہ اس کا سب سے قریبی rival نہ ہوتا… یہ شیر دل کا اندازہ تھا۔
وہ چیس موو تھی… سوچ سمجھ کر ایک کی جانے والی knight (گھوڑے) کی ٹیڑھی موو… بظاہر سادہ لیکن بے حد دور اندیش اور سمجھدای سے کی جانے والی …جو کم از کم شیر دل کے لیے کاری ثابت ہوئی تھی۔ شیر دل ذہانت کے اس مظاہرے پر دانت پیسنے کے بعد عش عش کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
غنی حمید نے میکا ولی کی اس فلاسفی پر عمل کیا تھا کہ دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے۔ وہ اس کامن میں خود ٹاپ نہیں کرسکتا تھا اور شیر دل کو ٹاپ کرتے دیکھ نہیں سکتا تھا… عکس مراد علی وہ واحد لڑکی تھی جو شیر دل کو ہرا سکتی تھی اور غنی حمید نے ہیلن آف ٹرائے کا گھوڑا بننے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی تھی۔
عکس مراد علی اور غنی حمید کی دوستی اور شیردل اور عکس مراد علی کی دشمنی کا وہ باقاعدہ آغاز تھا۔ عکس مراد علی نے اس کامن کی best probationer کا اعزاز بے حد آرام سے جیتا تھا۔ best conduct کی ٹرافی بھی اسی کے حصے میں آئی تھی ۔شیر دل صرف best sportsman کی ٹرافی حاصل کرسکاتھا۔ وہ پہلا سال تھا جب شیر دل کے خاندان کے کسی فرد کے کسی کامن کا حصہ ہوتے ہوئے بھی best probationer کا ایوارڈ کہیں اور گیا تھا۔
……٭……
زندگی میں ایوارڈز اور ٹرافیز سب کچھ نہیں ہوتے لیکن ان کو حاصل کرنے کی قابلیت رکھتے ہوئے بھی حاصل نہ کرپانا بدقسمتی ہے۔” چڑیا کو ٹھیک سے یاد نہیں تھا خیر دین نے اس سے یہ بات کب کہی تھی لیکن اسے یہ ضرور یاد تھا کہ اسے یہ بات خیر دین نے ہی کہی تھی۔ خیر دین کی باتیں اس کے لیے باتیں تھیں وہ اس کے لیے quotations تھیں۔ زندگی گزارنے کے گر… وہ اس کی زندگی کا پہلا بڑا آدمی تھا جسے اس نے کبھی چھوٹا بنتے نہیں دیکھا۔
”بڑا آدمی بننا بہت بڑا کمال ہے لیکن بڑا آدمی بننے کے بعد چھوٹا آدمی نہ بننا اس سے زیادہ بڑا کمال ہے۔”
”نانا آپ مشکل باتیں کرتے ہیں۔” چڑیا نے اس کی بات سننے کے بعد خیر دین سے کہا۔ وہ مسکرادیا۔”مشکل باتیں زندگی میں بڑی آسانیاں کردیتی ہیں۔” خیر دین نے اس سے کہا تھا۔
وہ چھ سیاہ مہینے اب آہستہ آہستہ ان کی زندگی اور رشتے سے اپنی تاریکی اور نحوست کے سائے سمیٹنے لگے تھے… وہ ڈی سی وہاں سے ٹرانسفر ہوگیا تھا اور اس کے جانے کے بعد خیر دین کا وہ خوف بھی ختم ہوگیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر بالکل اسی جگہ پر اپنی ریڑھی دوبارہ لگانی شروع کردی تھی جہاں وہ پہلے لگاتا تھا۔ اور کچھ عجیب سی برکت تھی جو ان کے رزق میں آنا شروع ہوئی تھی ۔اس ریڑھی سے اتنا کچھ بچنے لگا تھا کہ حلیمہ کو گھر میں سلائی کڑھائی کا وہ کام نہیں کرنا پڑتا تھا جو اس نے شہر میں آنے کے بعد شروع کیا تھا۔
دو سال میں خیر دین نے ریڑھی کے بجائے اسی علاقے میں ایک چھوٹی سی دکان لے لی تھی۔ چڑیا اب مڈل میں آگئی تھی اور وہ اب خیر دین کے ساتھ اس ریڑھی پر بیٹھنا چھوڑ چکی تھی اور اس کی ریڑھی پر بیٹھنے کے ساتھ ہی خیر دین نے پھلوں کا کاروبار بھی ختم کردیا تھا۔ اس کی دال اب اتنی بکنے لگی تھی کہ اس کے پاس پھلوں کا کاروبار کرنے کی نہ تو وقت تھا نہ ضرورت ۔
ایک کمرے کے کرائے کے مکان سے وہ اب دو کمروں کے ایک بہت بہتر مکان میں کرائے پر رہنے لگے تھے اور انہی دوسالوں میں خیر دین کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کرنا پڑا تھا… حلیمہ کی دوبارہ شادی کا… وہ اسی محلے میں رہنے والا ایک خاندان تھا جس کا ایک بیٹا کویت میں کئی سالوں سے مقیم تھا… ایک کار ایکسیڈنٹ میں اس آدمی کی بیوی تین چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گئی تھی اور وہ تین بچے اب مختلف مسائل کا شکار تھے۔ وہ آدمی نہ تو انہیں اکیلا اپنے پاس رکھ پارہا تھا نہ ہی پاکستان میں ان کی دیکھ بھال سے مطمئن تھا اور تبھی محلے کے ایک آدمی کے توسط سے خیر دین سے حلیمہ کا ہاتھ مانگا گیا ۔جس نے کچھ عرصہ اس آدمی کے گھر کی عورتوں کے لیے سلائی کڑھائی کا کام کیا تھا۔
خیر دین کے لیے یہ ایک عجیب آزمائش کا موقع تھا۔ اس نے کبھی حلیمہ کی تیسری شادی کا نہیں سوچا تھا۔ اس کے دوسرے شوہر کی وفات کے بعد حلیمہ خود بھی ایک بار پھر ایسے رشتے میں بندھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تینوں ایک فیملی کے طور پر اپنی زندگی سے مطمئن تھے لیکن چڑیا کے بعد آنے والے کرائسس میں خیر دین کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اس کو کچھ ہوجانے کی صورت میں حلیمہ اور چڑیا کتنے مسائل کا شکار ہوسکتی تھیں۔فکر مندی کا یہی احساس تھا کہ اس آدمی کے رشتے کی بات کرنے پر خیر دین نے فوری انکار کرنے کے بجائے غور کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا تھا لیکن خیر دین نے حلیمہ سے بھی پہلے اس مسئلے پر چڑیا سے بات کی تھی۔
وہ اسے ایک دن اسکول کے بعد گھمانے کے لیے ایک پارک لے گیا تھا اور وہاں اسے آئس کریم کھلاتے ہوئے خیر دین نے اس سے پوچھا تھا۔
”بیٹا اگر تمہاری امی کی شادی ہوجائے اور وہ پاکستان سے چلی جائیں تو تمہیں کیسا لگے گا؟” چڑیا خیر دین کے اس بے ربطگی سے کیے ہوئے مبہم سوال پر آئس کریم کا کپ ہاتھ میں پکڑے کچھ ہکا بکا رہ گئی تھی۔
”مجھے؟”
”ہاں تمہیں ۔” خیر دین نے متانت سے کہا۔
”آپ امی کے شادی کررہے ہیں؟” چڑیا کی زندگی میں خوف کا ایک اور لمحہ آیا تھا۔
”تمہیں برا لگے گا اگر میں ان کی شادی کردوں تو؟” خیر دین نے اس کے سوال پر چڑیا سے ایک اور سوال کیا۔
”لیکن وہ کیوں شادی کریں گی…؟ہم سب خوش ہیں۔” چڑیا نے خیر دین کی طرف دیکھا۔
”تمہارا نانا بہت بوڑھا ہے چڑیا اور تمہاری امی نے زندگی میں کبھی اپنا گھر ،خوشی نہیں دیکھی۔ ہماری زندگی کی واحد خوشی صرف تم رہی ہو… لیکن میں بعض دفعہ سوچتا ہوں کہ اگر آج مجھے کچھ ہوگیا تو تمہارا اور حلیمہ کا کیا ہوگا؟ میرے بعد تم دونوں دال کی وہ دکان تو نہیں چلا سکتیں… رشتے دار جیسے ہیں میرے وہ تم پہلے ہی دیکھ چکی ہو… میں تم دونوں کے لیے بہت ڈرتا ہوں۔”
”خیر دین اب اس کے ساتھ اپنے وہ خوف شیئر کررہا تھا جو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیے تھے اور خدشات اس کی باتیں چڑیا کو رنجیدہ کرنے لگی تھیں۔ اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ اس کا بہادر نانا اس کے اور اس کی ماں کے حوالے سے کچھ خدشات بھی رکھ سکتا تھا۔ خیر دین اسی رسانیت سے اس سے کہہ رہا تھا۔
”اب ایک موقع مل رہا ہے کہ میں تمہاری امی کی شادی کر کے ان کا ایک گھر بنا سکوں تو میں اسے ضائع نہیں کروں گا۔ اس لیے ضائع نہیں کروں گا تاکہ اگر کل کو مجھے کچھ ہوجائے تو تمہاری اور تمہاری امی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ہو۔” چڑیا نے یک دم خیر دین کا بازو پکڑ لیا۔”ناناآپ کو کچھ نہیں ہوگا۔” چڑیا نے جیسے بہت خوفزدہ ہو کر خیر دین سے کہا۔
”ہاں بیٹا مجھے کچھ نہیں ہوگا… لیکن اگر کچھ ہوگیا تو…؟” خیر دین نے اسے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔
”آپ امی کی شادی کردیں گے تو پھر وہ تو چلی جائیں گی ہمارے گھر تو نہیں رہیں گی۔” چڑیا اب رنجیدگی سے خیر دین کو جیسے وہ تصویر دکھانے کی کوشش کررہی تھی جو اسے خوفزدہ کررہی تھی۔
”ہاں وہ ہمارے گھر ہمارے ساتھ نہیں رہیں گی لیکن ان کا اپنا ایک بہت اچھا سا گھر ہوگا جیسے سب عورتوں کا ہوتا ہے۔”
”لیکن نانا ہمارا بھی تو گھر ہے نا وہ امی کا ہی تو گھر ہے۔” چڑیا نے خیر دین کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔