عکس — قسط نمبر ۸

”مذاق میں بھی مجھے تمہاری بات بہت insulting لگی۔” عکس نے اسی انداز میں کہا۔
‘‘I am sorry ” میں نے کہا نا میں مذاق کررہا تھا… تم جانتی ہو میری عادت کو… اور تم سوچ سکتی ہو کہ میں تمہیں date سمجھ رہا تھا۔” شیر دل نے بے حد تحمل سے کہا تھا لیکن وہ عکس کے رد عمل پر بے حد حیران تھا۔ وہ مذاق میں اس سے بھی بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا تھا اور وہ اگنور کردیا کرتی تھی پھر اب اتنی چھوٹی سی بات پر اتنی خفگی…
”ہر بات مذاق میں کہنے والی نہیں ہوتی۔” عکس نے دوٹوک انداز میں کہا۔”تم میرے دوست ہو تو اس کا یہ بالکل بھی مطلب نہیں کہ تم اپنی اور میری دوستی کو ہمیشہ مرد بن کر دیکھو۔” وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”تم مجھے صرف ایک بات بتاؤ، تم سوچ سکتی ہو کہ میں تمہارے ساتھ dating کررہا تھا وہاں۔” شیر دل نے اس کی بات کاٹ کر اپنا سوال دہرایا۔




” میں نیتوں کا حال نہیں جانتی شیر دل ۔” اس کی بات پر شیر دل بری طرح ہتھے سے اکھڑا۔
”تم میری نیت نہیں جانتیں… تو تم مجھے بد نیت کیسے سمجھ سکتی ہو؟” وہ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بولی۔
”میرا خیال ہے کہ اب اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں۔” شیر دل کو اس کے اس انداز نے اور تپادیا۔
”نہیں اب یہ بات ختم نہیں ہوگی… تم کو میری بات بری لگی ہے تو مجھے بھی تمہاری بات بری لگی ہے۔ اتنے سالوں کے بعد بھی تمہیں میری نیت پر شبہ ہے اور تم سمجھتی ہو کہ میں اپنی اور تمہاری دوستی کو ایک مرد کے طور پر biased ہو کر دیکھتا ہوں… حالانکہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے تمہیں کبھی دوست نہیں سمجھا۔”
”شیر دل اب ہم فضول باتیں کررہے ہیں۔” عکس نے اسے ٹوکا تھا۔”تم بھی جاؤ اور مجھے بھی جانا ہے کل کی میٹنگ کی تیاری کرنی ہے میں نے۔” عکس نے بات کہہ کر وہاں سے جانے کے لیے قدم بڑھایا اور شیر دل نے بہت خفگی سے اس کو بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔
”ہم میں سے کوئی یہاں سے نہیں جارہا… میں تم سے بات کررہا ہوں اور تمہیں آگر جانا بھی ہے تو تم میری پوری بات سن کر جاؤگی۔” ایک لمحے کے لیے وہ اس طرح روکے جانے پر حواس باختہ ہوگئی تھی۔”میں تمہارے لیے کس طرح کے جذبات رکھتا ہوں اور تمہیں کیا سمجھتا ہوں وہ تم اچھی طرح جانتی ہو اگر دوبارہ سننا چاہتی ہو تو میں دہرا دیتا ہوں… میں تم سے محبت کرتا تھا… کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اور میرے لیے یہ بات بے حد insulting ہے کہ تم یہ سوچو کہ میں تمہارے حوالے سے کسی بد نیتی کا شکار ہوںیا تمہیں date سمجھ کر تمہارے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں ۔”
”شیر دل میرا بازو چھوڑو۔” اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے عکس نے بے حد خفگی سے اس سے کہا۔ شیر دل نے بے اختیار اس کا بازو چھوڑ دیا۔ اسے شاید یہ اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اب تک عکس کا بازو پکڑے ہوا تھا۔
”مجھے تم دوبارہ اپنی شکل بھی مت دکھانا۔” اس نے اپنا بازو رگڑتے ہوئے شیر دل سے کہا۔
”تم اگر یہاں سے میری بات سنے بغیر جاؤگی تو میں تمہیں دوبارہ اسی طرح روکوں گا۔” شیر دل نے اسی طرح کہا۔ وہ جانے کے لیے قدم بڑھا چکی تھی لیکن شیر دل کی بات پر اس نے یک دم واپس پلٹتے ہوئے چیلنج والے انداز میں شیر دل سے کہا۔
”تم اب مجھے ہاتھ لگا کر دکھاؤ۔” وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے رہے۔ شیر دل کے چہرے کا رنگ سرخ سے مزید سرخ پھر دوبارہ نارمل ہوتا گیا۔
”مجھے زندگی میں بہت کم عورتوں پر غصہ آیا ہے اور مجھے تم پر بہت غصہ آتا ہے۔” عکس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بلا خر اسے بولتے دیکھا۔
”مجھ سے زیادہ غصہ تو نہیں آسکتا تمہیں…تم مذاق میں بھی مجھے اپنی date کیسے کہہ سکتے ہو؟” دونوں طرف اب پارہ نیچے آرہا تھا۔
”جو تمہیں کہنا چاہتا تھا میں اس کا موقع تم نے نہیں دیا… میں تمہیں date کہوں تو برا ہوں، تم سے اظہار محبت کروں تو بر ا ہوں… اور دوست تمہیں میں نے مر کے بھی نہیں کہنا…” شیر دل نے اس کے ماتھے کے بل دیکھتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میرا خیال ہے اس صورت میں آج کی اس ملاقات کو تم آخری ملاقات سمجھو… مجھے شادی شدہ مردوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” عکس نے سنجیدگی سے کہا۔
”تمہیں تو خیر مجھ میں تب بھی دلچسپی نہیں تھی جب میں شادی شدہ نہیں تھا۔ تمہیں اس وقت بھی میرے علاوہ دنیا کے ہر مرد میں دلچسپی تھی… غنی حمید، عثمان علی، لقمان آفاق…”




”shut up ”عکس نے اس بار سر خ چہرے کے ساتھ اس کی بات کاٹی تھی۔” تم اب آؤ ٹ ہورہے ہو… تم یہاں سے جاؤ۔”
”میں دوبارہ تم سے کبھی نہیں ملوں گا۔”شیر دل کا چہرہ بھی سرخ ہوا۔
”good for both of us ” اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”اب تم دوبارہ کبھی میری شکل بھی نہیں دیکھوگی۔”
”ok ۔”عکس نے جواباً کہا۔
”عکس تمہیں انسانوں کی پہچان نہیں ہے۔” شیر دل نے اس بار بے حد تلخی سے کہا ۔وہ اس کی بات پر چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگئی پھر اس نے ٹھنڈے لیکن کچھ عجیب سے انداز میں شیر دل سے کہا۔
”مجھے انسانوں کی پہچان نہیں ہے؟good joke ”
”مذاق نہیں ہے یہ۔”
”انسان واحد پتھر ہے جس کی پرکھ ہے مجھے۔”
”نہیں ہے۔”شیر دل مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چل پڑاتھا اس نے پیچھے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ اس کی بات پر عکس کا رد عمل کیا تھا۔
……٭……

گھر پہنچنے کے بعد بھی اس کا موڈ اسی طرح آف تھا اور شہر بانو کو اس کا اندازہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ویٹر اور اس کی گفتگو شہر بانو نے فون پر سن لی تھی۔ کسی میڈم کے ساتھ بھی ڈنر کرنے پر شہر بانو کو کسی قسم کی کوئی ٹینشن نہیں تھی… واحد تجسس جو اسے تھا وہ یہ کہ وہ میڈم کون تھی ۔عکس مراد علی کی طرف کم از کم اس وقت اس کا ذہن نہیں گیا تھا لیکن شیر دل کا موڈ آف دیکھ کر وہ فوری طور پر اس سے اس میڈم کے کوائف کے بارے میں کچھ نہیں پوچھ سکی۔ وہ لوگ شیر دل کے پیرنٹس کے گھر پر ٹھہرے ہوئے تھے اور فیملی کے کچھ لوگ بھی اس وقت وہاں تھے جن کی وجہ سے شہر بانو کو فوری طور پر شیر دل سے کوئی بات کرنے کا موقع نہیں ملا مگر وہ وقتاً فوقتاً لاؤنج میں فیملی ممبرز میں بیٹھے شیر دل کو دیکھتی رہی۔ وہ بہت کم بات کررہا تھا اور بار بار کچھ سوچتا نظر آرہا تھا۔
رات کو ایک بجے کے قریب انہیں واپس اپنے بیڈ روم میں جانے کا موقع ملا اور اس وقت پہلی بار شہر بانو نے اس سے اس کی پریشانی کی نوعیت جاننے کی کوشش کی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا … بس تھکن ہے … آج بہت دنوں کے بعد ٹینس کی اتنی لمبی چوڑی پریکٹس کی ہے اس لیے۔” شیر دل نے بڑے آرام سے اسے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔وہ ٹی وی پر کوئی فلم لگائے بیٹھا تھا اور شہر بانو سے نظریں تک نہیں ملارہا تھا۔ شہر بانو چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”کس کے ساتھ ٹینس کھیلتے رہے آج ؟”




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!