عکس — قسط نمبر ۸

اس نے آخری بار جب اس آئینے میں اپنا عکس دیکھا تھا تو اس کا لباس اور اس کا چہرہ… اس کا جسم… اور ان تینوں چیزوں سے بھی بڑھ کر اس کی روح، اس کی زندگی اور اس کے وجود کے پرخچے اڑگئے تھے۔ اب 26 سالوں بعد وہاں اس آئینے کے سامنے کھڑے اپنے آپ کو دیکھنا کیسا صبر آزما کام تھا کوئی اس سے پوچھتا… لیکن اگر کسی کو یہ پتا ہوتا کہ وہاں اس پر اور اس کے خاندان پر کیا گزری تھی تو کوئی بھی اس سے کچھ بھی نہ پوچھتا…




وہ ایک نظر جو اس آئینے کے سامنے سے چیختے چلاتے اس نے اپنے چہرے پر ڈالی تھی، وہ چند سیکنڈ اس کے اندر سمندر کی کسی شوریدہ سر لہر کی طرح پلٹ کر آئے تھے… سب کچھ اتھل پتھل کرتے ۔ایک طوفان تھا جو اس کے اندر آیا تھا جو اس کی آنکھوں میں آیا تھا۔ پانی نہیں تھا وہ جو اس کی آنکھوں سے برس رہا تھا۔ پانی ہوتا تو بہہ جاتاہاتھ سے پونچھ لیا جاتا، وہ تو آبلے تھے جو اس گھر میں داخل ہو کر اس آئینے تک آتے آتے یوں پھوٹے تھے کہ پھوٹتے ہی چلے گئے تھے اور کیا کیا تھا جو ان آبلوں سے نہیں بہہ نکلا تھا… درد کا ایسا سمندر اس کے اندر اتنے سالوں سے یوں قید تھا اس کو خود بھی کبھی پتا نہیں چلا۔ تکلیف تو تھی… اذیت تو تھی…جس کو اپنے وجود کے اندر مقید کرتے کرتے اس پر خاموشی کے تالے لگاتے لگاتے اس نے بہت سا وقت گزاردیا تھا اور وہ تکلیف وہ اذیت یوں پلی بڑھی تھی اس کے اندر کہ ایک قطرے سے سمندر ہوگئی تھی۔
اس گھر کے دروازے پر اس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر رونا اس کی زندگی کی خواہشات میں کبھی شامل نہیں تھا۔ اس گھر کو دوبارہ دیکھنا وہاں دوبارہ آنا بھی اس کی زندگی کی خواہشات میں نہیں تھالیکن وقت اسے وہاں لے آیا تھا اور کیسے لے کر آیا تھا…آبلوں سے رسنے والی اذیت، ذلت اب تشکر بننے لگی تھی… عاجزی ،احسا ن مندی، تشکر، اس کائنات کا حاکم… اس ذات کے لیے تشکر اور احسا ن مندی…جو دن پلٹا سکتا تھا اور جس نے دن پلٹادیے تھے۔
زمین پر گھٹنوں کے بل گرتے ہوئے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اس نے اس گھر کے حاکم کے طور پر پہلا سجدہ کیا تھا اور وہ سجدہ کبھی ختم نہ ہوتا اگر وہ مہربان نرم مضبوط ہاتھ اس کی پشت کو مشفقانہ انداز میں نہ تھپکنے لگتا… اس نے اس کی تمام ہدایات اور نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا تھا۔
اس ہاتھ نے سہارا دے کر اسے اوپر کھینچ لیا تھا… ساری زندگی اس ہاتھ نے یہی کیا تھا اس کے لیے… اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے ساتھ اسے کسی ننھے بچے کی طرح چپکائے …وہ دونوں اس گھر کے اندر جارہے تھے۔ وہ صرف ایک چیز باہر بھول گئے تھے۔
……٭……




اس نے زندگی بھر ریڑھی لگا کر رزق نہیں کمایا تھا۔ اس نے ساری زندگی ایک ڈی سی ہاؤس میں بڑی عزت کے ساتھ رزق کمایا تھا… ذلت اور زوال کا سفر صرف چند ماہ پہلے شروع ہوا تھا اس کے لیے۔ وہ ہمیشہ سے ایک ریڑھی والا ہوتا تو میونسپلٹی کے ان لوگوں کو چار گالیاں دیتا، تھوکتایا ان کی منتیں کرتا، ان کو رشوت دینے کی کوشش کرتا… مگر شرم سے ڈوب مرنے کی جگہ نہ تلاش کررہا ہوتا… نہ ہی اس کا چہرہ سرخ ہوتانہ اس کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوتے… لیکن خیر دین اپنی نواسی کے ساتھ اس ہجوم کے بیچ میں سرکس کے اس جانور کی طرح کھڑا تھا جس کو سدھائے بغیر رنگ میں اتاردیا گیا تھا۔ وہ مجمع اب آہستہ آہستہ چھٹنے لگاتھا، تماشا ختم ہوگیا تھا۔ چند ہزار روپے سے اس ریڑھی پر کیا جانے والا وہ بزنس چند منٹوں میں ختم ہوگیا تھا۔ قرض کی وہ رقم جو خیر دین نے اپنے دوست سے لی تھی شہر میں آنے سے پہلے اور جس سے اس نے یہ روزگار شروع کیا تھا وہ جیسے پلک جھپکتے میں ڈوب گئی تھی۔
میونسپلٹی کے لوگ جاتے جاتے اس ریڑھی کو وہاں موجود کھمبے کے ساتھ ایک تالے والی زنجیر کے ساتھ سیل کرگئے تھے… اور اس کا قصور کیا تھا یہ اس فٹ پاتھ پر موجود لوگوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا ۔صرف خیر دین تھا جو سمجھ سکتا تھا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا کیوں ہوا تھا۔ اس فٹ پاتھ پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دال چاول کی بھی ریڑھیاں تھیں اور پھلوں کی بھی… وہ ایک مصروف فٹ پاتھ تھا وہاں ایسی ریڑھیوں کا موجود ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی لیکن میونسپلٹی کے اہلکاروں کا وہاں آکر صر ف خیر دین کی ریڑھی کو ان تمام ریڑھیوں میں سے شناخت کر کے اس کا نام پوچھنے کے بعد اس کا سامان یہ بتا کر ضبط کرلینا کہ اسے وہاں کام کرنے کا حق نہیں ہے کسی وجہ کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا اوروہ وجہ میونسپلٹی کے ایک اہلکار نے بے حد درشت لہجے میں اسے جاتے جاتے بتادی تھی۔
”تم اس شہر میں کہیں بھی ریڑھی نہیں لگا سکتے اگریہ کام کرنا ہے تو اس شہر سے چلے جاؤ۔” وہ دھمکی تھی تنبیہہ تھی، اعلان تھا یا چیلنج… خیر دین جانتا تھا وہ صرف ایک ہی شخص کی طرف سے آیا تھا جو اس شہر کا بادشاہ تھا اور جس کے بغیر اس شہر میں واقعی ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ خیر دین کے ارد گرد اکٹھا ہونے والا سارا مجمع آہستہ آہستہ چھٹتا گیا تھا۔آس پاس کی ریڑھیوں اور دکانوں والے اس پراسرار صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے واپس اپنی اپنی جگہوں پر جارہے تھے، صورت حال ان کو پراسرار نہ لگتی تو کیا لگتی۔ وہ ایک آدمی جس نے چند ہفتے پہلے وہاں ریڑھی لگانا شروع کی تھی آج بغیر کسی وجہ کے اس کی ریڑھی اور اس کے سامان کو بحق سرکار کیوں ضبط کرلیا گیا تھا اور وہ آدمی وجہ کیوں نہیں بتارہا تھا… گم صم کیوں تھا۔
زاروقطار روتی ہوئی چڑیا نے فٹ پاتھ اور سڑک پر ریڑھی کے آس پاس بکھرے ہوئے ان پھلوں کو اٹھانا شروع کردیا تھا جو میونسپلٹی کے اہلکاروں سے پھل اٹھاتے ہوئے زمین پر گرگئے تھے۔ اپنی قمیص کے دامن میں سسکیوں اور ہچکیوں سے روتے ہوئے اور بازو سے ناک اور آنکھیں رگڑتے ہوئے اس نے فٹ پاتھ اور سڑک پر گرا ہوا اپنا ایک ایک پھل چن لیا تھا۔
ایک بچے کے طور پر وہ اپنا سرمایہ اکٹھا کررہی تھی جو ڈوبنے سے بچ گیا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس بچے کھچے پھلوں سے وہ ریڑھی نہیں بھرسکتی تھی۔ وہ بزنس دوبارہ نہیں چل سکتا تھا۔ وہ پھر بھی ایک بچے کی لاشعوری معصومیت اور ڈیفنس میکنزم کے تحت وہ سب کو بچانے کی کوشش کررہی تھی جو اسے بچتا نظر آرہا تھا اور خیر دین نے اسے اس کوشش میں مصروف پا کر ایک عجیب سا حوصلہ پایا تھا۔ یہ سبق اسی کا تو دیا ہوا تھا چڑیا کو… وہاں بت بن کر کھڑا رہ کر اس دھواں اڑاتی بہت دور موڑ مڑتی میونسپلٹی کی گاڑی کو حسرت ویاس کی نظروں سے دیکھتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا… ان دس پندرہ پھلوں کو اٹھالینے اور بچالینے کا تھا… وہ بک کر نوٹوں میں نہ بدلتے لیکن کم سے کم تین وقت کے لیے ان کا پیٹ بھر سکتے تھے۔




خیر دین نے جب تک حوصلہ پکڑا تھا چڑیا زمین پر گرے سارے پھل ریڑھی پر ڈال چکی تھی… وہ ریڑھی جو صرف آدھے گھنٹے پہلے پھلوں سے بھری ہوئی تھی اس میں اب کچھ گرد آلود سیب اور آم پڑے جیسے خیر دین اور چڑیا کا منہ چڑا رہے تھے۔ خیر دین بوجھل قدموں کے ساتھ چلتا ریڑھی کے پاس کھڑی چڑیا کے پاس آگیا جو اب ریڑھی پر پڑے ایک کپڑے کے ساتھ ان گرد آلود پھلوں کو صاف کررہی تھی،وہ خیر دین کے لیے بس یہی کرسکتی تھی، نو سال کی عمر کی ایک بچی کے پاس خیر دین کی مدد کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا لیکن آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ ہچکیوں سے روتے ہوئے ان پھلوں کو صاف کرتے چڑیا نے سوچا تھا وہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے نانا کوایک پھلوں سے بھری ہوئی خوب صورت ریڑھی ضرور لے کر دے گی۔ جس میں ہر رنگ اور ہر موسم کا بہترین پھل ہوگا، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں زیادہ اچھا جتنے میونسپلٹی کے وہ اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے۔
خیر دین نے سڑک پر پڑی ایک اینٹ اٹھا کر اس زنجیر کو توڑ ڈالا تھا جو میونسپلٹی کے اہلکار اس کی ریڑھی کے پہیے کو کھمبے کے ساتھ باندھنے کے لیے ڈال گئے تھے۔ نانا اور نواسی ریڑھی کو دھکیلتے ہوئے خاموشی کے عالم میں وہاں سے لے گئے تھے،روز وہ باتیں کرتے گھر جاتے تھے آج پہلی بار وہ سفر گونگوں کی طرح طے ہوا تھا۔
وہ ان تینوں کے لیے ایک اور برا دن تھا۔ اس دن بھی خیر دین ،حلیمہ اور چڑیا نے کچھ نہیں کھایا۔ اس رات بھی چڑیا نے اپنے نانا اور حلیمہ کو باتیں کرتے اور روتے ساری رات جاگتے دیکھا تھا اور اس دن بھی چڑیا نے اپنے پاس موجود ایک چھوٹی سی ڈائری میں ان تمام چیزوں کی فہرست میں جو وہ اپنے نانا کو دینا چاہتی تھی ایک پھلوں والی ریڑھی کا اضافہ بھی کیا تھا۔
خیر دین اگلا ایک ہفتہ شہر میں کہیں بھی ریڑھی نہیں لگا سکا۔ وہ خائف تھا… نقصان سے ،ذلت سے، اور قسمت سے جو اب اس پر اوچھے سے اوچھا وار کررہی تھی۔ اس کے پاس اتنی جمع پونجی تھی کہ وہ ایک بار پھر ریڑھی کو پھلوں سے اور دال کے دیگچے کو دال سے بھر کر بازار لے جاتا… لیکن اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا بڑا رسک لے یا پھر اپنا کام کرنے کے بجائے کسی کے پاس محنت مزدوری کرلے۔
ایک ہفتے کے بعد وہ ایک اور ہفتہ جگہ جگہ مزدوری کی تلاش میں پھرتا رہا… جس عمر میں وہ کام تلاش کررہا تھا اس عمر کے لوگوں کو مالک کام سے فارغ کررہے ہوتے تھے۔ ایک ہفتے تک دھکے کھاتے رہنے کے بعد اور گھر میں پڑی ہوئی جمع پونجی کو ہر روز گھٹتا دیکھتے رہنے کے بعد خیر دین نے ایک بار پھر خطرہ مول لے ہی لیا تھا۔ وہ دال کا دیگچہ اور ریڑھی کو پھلوں سے بھر کر ایک بار پھر رزق تلاش کرنے نکل پڑا تھا لیکن اس بار اس نے پہلے والے فٹ پاتھ پر ریڑھی نہیں لگائی تھی۔ وہ ایک گنجان بازار میں جیسے چھپنے والے انداز میں ریڑھی لگا کر کھڑا ہوگیا تھا… اور سارے دھڑکوں اور خدشات کے باوجود وہ دن خیر خیریت سے گزر گیا تھااور شام کو جب وہ دال کے دیگچے اور پھلوں کی ریڑھی سے کمائے جانے والے کچھ نوٹ اپنی جیب میں لیے لوٹا تھا تو اسے چڑیا کی زبان سے وہ خوش خبری مل گئی تھی جس کی اسے کم سے کم اس وقت توقع نہیں تھی۔
……٭……




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!