عکس — قسط نمبر ۵

”بیچ میٹ ہے ہمارا کوئی؟”شیر دل بے اختیار ٹیبل پر کچھ آگے جھک آیا۔
”تم نے کیا وعدہ کیا ہے ابھی؟”عکس نے کچھ خفگی سے کہا۔
”میں تمہارے بارے میں نہیں اس کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔” وہ بھی اتنا ہی سنجیدہ تھا۔
”تمہیں کیا کرنا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی جان کر؟”
”اور تم کیوں اس کو مجھ سے چھپا رہی ہو؟” اس نے ترکی بہ ترکی عکس سے کہا۔وہ بے اختیار گہری سانس لے کر رہ گئی۔
”جب تمہیں شادی کا کارڈ ملے گا تو تمہیں پتا چل جائے گا کہ کون ہے وہ… ”
”میں شادی کے کارڈ پرنٹ ہونے سے بہت پہلے تمہیں بتادوں گا کہ کون ہے وہ…” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”میں نے شہر بانو کے بارے میں تم سے کچھ پوچھا تھا؟”عکس نے بے حد خفگی کے عالم میں اس سے کہا۔
”میں نے خود تمہیں سب کچھ بتادیا تھا… چھپایا کیا تھا؟”وہ لاجواب ہوگئی۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا وہ واقعی اس سے کبھی کچھ نہیں چھپاتا تھا… کم از کم عکس کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے شیر دل سے کچھ بھی پوچھا ہو اور اس کو جواب دینے میں تامل رہا ہو۔ وہ چند لمحے یہی سوچتی رہی تھی۔
”بیچ میٹ ہے ہمار اکوئی؟” شیر دل نے اسے خاموش دیکھ کر پھر کہا۔
”نہیں۔”اس بار عکس نے کسی اعتراض کے بغیر کہا۔
”سول سرونٹ ہے؟”
”نہیں۔”
”اوہ…” شیر دل نے بے اختیار کہا۔
”گورنمنٹ سروس میں نہیں ہے۔”شیر دل کو اب پہلے سے بھی کچھ زیادہ دلچسپی ہوئی۔
”نہیں۔”
”تو…؟” وہ جواب دینے میں ایک بار پھر متامل نظر آئی شیر دل کو اس سوال کا جواب دینے کا مطلب کیا تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ اس کی زندگی کی بہت ساری fantasies کو ختم کرنے کا باعث بنتا رہا تھا… اپنی نیک نیتی کے باوجود… اور اس سے معلومات کے تبادلے کا مطلب عکس کو خائف کررہا تھا۔ شیر دل بے حد تحمل سے اس کے سامنے بیٹھا کافی پیتا ہوا اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کے جواب کا انتظار کرتارہا۔ وہ سالوں بعد مل رہے تھے… درمیان میں بہت کچھ آیا تھا اور بہت کچھ ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ایک ملاقات میں ہی وہ ایک بار پھر یوں شیر وشکر ہوگئے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور یہ ان کے تعلق کا حیران کن پہلو تھا۔وقت، فاصلہ، اختلافات، کوئی چیز ان کے باہمی تعلق اور ذہنی ہم آہنگی کو ختم نہیں کرپائی تھی۔

وہ جب بھی ملتے تھے بے حد کوشش کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بہت دیر تک ریزروڈ اور فارمل نہیںرہ پاتے تھے۔ بات شروع کرتے اور پھر بات سے بات نکلتی جاتی۔ کون سی چیز ذاتی ہونے کی وجہ سے دوسرے کے لیے قابل مداخلت نہیں تھی انہیںیہ بھی بھول جاتا… ان کے لیے جیسے ایک دوسرے کی ذات اور زندگی میں کوئی نوگوائیریا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ کم از کم شیر دل ایسا ہی سمجھتا اور محسوس کرتا تھا اور اس وقت بھی یہی ہورہا تھا۔ کافی کے ایک کپ سے شروع ہونے والی گفتگو چند منٹوں میں کہاں پہنچ گئی تھی۔ دونوں کو وہاں آنے سے پہلے اندازہ بھی نہیں تھا۔ عکس اب پچھتا رہی تھی اسے شیر دل کی آفر قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔شیر دل نے کافی کا مگ خالی کر کے ٹیبل پر رکھا اور پھر بے حس سنجیدگی سے کہا۔
”وہ جو اس دن میں نے جس مرد کی آواز سنی تھی وہ یقینا یہی صاحب ہوں گے اور اپنی فیملی کے ساتھ تمہارے گھر پر تھے وہ۔” شیر دل کے ذہن کوصرف وہ Psychic کی طرح نہیں پڑھتی تھی، وہ بھی اس کی ہر بات اور ارادے کو ڈی کوڈ کرنے میں ماہر تھا۔ چھپاتے تو ایک دوسرے سے کیا چھپاتے وہ … اور کس طرح…؟ صرف ایک صورت تھی اگر اندھے اور گونگے بن کر بیٹھ جاتے دونوں تو… اور یہ ان دونوں کے لیے ہی ممکن نہیں تھا۔عکس نے بھی بالآخر اپنی کافی ختم کرلی۔
”منگنی ہوئی ہے یا شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی ہے؟” شیر دل یوں اطمینان سے پوچھ رہا تھا جیسے اسے اپنے تکے کے تیر ہونے کا الہامی یقین ہو۔
”وہ صرف ہمارے گھر آئے تھے… دونوں فیملیز ایک دوسرے سے ملیں اور بس…اور کچھ فائنل نہیں ہوا ابھی۔” عکس نے مزید کچھ چھپانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اسے بتایا۔
”اور کون ہیں یہ موصوف؟” شیر دل نے کانٹے کے ساتھ کڑوے کیک کا ایک اور ٹکڑا اٹھایا۔
”میرے ساتھ امریکا میں ہی تھا، بوسٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اس سال اس نے ماس کمیونیکیشنز میں …پولیٹیکل فیملی سے تعلق ہے اس کا… اور اس کے فادر پارلیمینٹیرین ہیں… اور اب تم مجھے ڈھونڈھ کر اس کے بارے میں کچھ ایسی معلومات دینا کہ مجھے اس کی شکل دیکھنے میں بھی دلچسپی نہ رہے۔” بے حد سنجیدگی سے کہے گئے آخری جملے پر شیر دل کو بے اختیار ہنسی آئی تھی لیکن عکس کو نہیں… وہ جانتا تھا کہ عکس کا اشارہ کس طرف تھا… غنی حمید کی طرف… اور ان تمام مردوں کی طرف جنہیں ماضی میں وقتاً فوقتاً عکس شادی کی نیت سے کنسیڈر کرتی رہی اور شیر دل ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی چیز ان لوگوں کے حوالے سے اس کے سامنے پیش کرتا رہا کہ وہ کچھ دیر کے لیے سکتے میں آجاتی۔ شیر دل جیسے فیملی بیگ گراؤنڈ اور پہنچ کے ساتھ کسی کا کچا چٹھا نکال کر پیش کردینا دومنٹ کا کام تھا لیکن ان دو منٹوں کی محنت کا نتیجہ عکس کے کئی ہفتوں کے خوابوں کا دھڑن تختہ کردیتے تھے۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ شیر دل کی معلومات اسے بہت سارے غلط فیصلوں اور غلط انتخاب سے بچا تی رہی تھیں، وہ کم از کم اس ایشو پر شیر دل کی اس پروایکٹو سروس سے خوش نہیں تھی۔
”وہ تو میں تب کروں گا نا جب تم مجھے اس لڑکے اور اس کے والد صاحب کے نام بتانے کی زحمت بھی کروگی۔” شیر دل نے بڑے اطمینان سے اس سے کہا۔یوں جیسے عکس خود اسے اپنی مدد کے لیے کہہ رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر کے لیے دیکھتے رہے پھر عکس نے کہا۔
”احسان ملہی کا بیٹا ہے… جواد ملہی۔” شیر دل نے فوری طور پر رد عمل نہیں دیا۔ عکس کچھ دیر جیسے اس کے رد عمل کی منتظر رہی۔
”تم کچھ نہیں کہوگے اس کے بارے میں؟” اس نے بالآخر شیر دل سے خود پوچھا۔
”تم اسے پسند کرتی ہو؟” شیر دل نے غیر متوقع سوال کیا۔
”نہیں، میں نے اسے بھائی بنایا ہوا ہے۔”
”نہیں، بھائی تو تم نے مجھے بنایا ہوا ہے۔” اس کی بے حد سنجیدگی سے کہی ہوئی بات پر عکس کو بری طرح ہنسی آئی۔ وہ اس کے اس طنز کا Context بھی سمجھ گئی تھی۔
”وہ اچھا ہے… پولیٹیکل بیک گراؤنڈ کے باوجود بہت سوبر اور ڈیسنٹ ہے…” عکس نے شیر دل کے تبصرے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے پہلے سوال کا جواب دیا۔
”لاہور کے چھچھورے ترین خاندانوں میں سے ایک یہ خاندان بھی ہے… If I remember correctly تو جواد ملہی احسان ملہی کی دوسری بیوی سے ہے… ایک ہی بیٹا ہے اس کا دوسری بیوی سے… پہلی بیوی سے شاید چار پانچ بیٹے ہیں۔” شیر دل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اسے احسان ملہی کے خاندان کا تعارف دیا۔ عکس کو حیرت نہیں ہوئی۔ لاہور کی کوئی ایسی نامور فیملی نہیں تھی جس سے شیر دل واقف نہیں تھا اور یہ کوئی ایسی حیرانی والی بات بھی نہیں تھی۔ وہ اوراس کی فیملی جس سوشل سرکل میں موو کرتے ہیں وہاں ہرایک کسی نہ کسی کو کسی نہ کسی کے حوالے سے جانتا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے انکشافات سنتی رہی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!