عکس — قسط نمبر ۵

شیر دل نے اکیڈمی میں اس کے ساتھ ٹریننگ کے دوران اور وقتاً فوقتاً اس کے ساتھ کام کے دوران کبھی اس کو اسٹریس میں آکر ٹیمپر لوز کرتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ خود بھی بے حد ٹھنڈے مزاج کا آدمی تھا لیکن عکس مراد علی جیسا تحمل او ر Composure اس نے بہت کم کسی میں دیکھا تھا۔ وہ کم گو نہیں تھی لیکن بات چیت میں بے حد محتاط تھی۔ شیر دل نے اکیڈمی میں بھی اسے دوسری لڑکیوں کے ساتھ کبھی بے مقصد گپیں ہانکتے نہیں دیکھا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ عکس کی بہت کم بات کبھی کہیں Misquote ہوئی تھی۔
وہ کمشنر کو کسی پروجیکٹ کی بریفنگ دے رہی تھی اور وہ اسے دیکھتے ہوئے بیٹھا بہت کچھ سوچ رہا تھا۔ میٹنگ میں بریفنگ دیتے ہوئے بھی عکس اپنے بالمقابل ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے اس شخص کی خود پر مرکوز نظروں سے آگاہ تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ کبھی اس کے سامنے بیٹھی ہوتی اور شیر دل کسی اور چیز کو دیکھ پاتا۔ بریفنگ ختم کر کے اپنے سامنے رکھا پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے سامنے بیٹھے شیر دل کو دیکھا۔ وہ بھی پانی پی رہا تھا۔
……٭……




شیر دل نے عکس مراد علی کو اکیڈمی میں ٹریننگ اسٹارٹ ہونے کے ایک ہفتے کے بعد دیکھا تھا۔ وہ میڈیکل لیو پر تھی اور پہلی پوزیشن پر آنے والے امیدوار کے بارے میں سب کا تجسس اور اشتیاق آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ شیر دل ان میں شامل نہیں تھا اور وہ واقعی ہی ان میں شامل نہیں تھا۔ شروع شروع میں اسے عکس کے بارے میں جاننے میں تجسس اور دلچسپی ضرور تھی لیکن عکس کی ٹریننگ شروع ہونے پر بھی وہاں موجود نہ ہونے پر دوسروں کی طرح اس کا اشتیاق بڑھنے کے بجائے کم ہوگیا تھا۔اس کی عدم موجودگی نے جیسے شیر دل کو وہاں سب کی توجہ کا مرکز بننے کا موقع دے دیا تھا۔ پہلی پوزیشن والے امیدوار کی عدم موجودگی میں دوسری پوزیشن والا امیدوار قائم مقام کی حیثیت سے تمام مراعات اور اضافی سہولتیں پارہا تھا۔ عکس مراد علی کے آنے تک شیر دل اکیڈمی کی تمام خواتین Commoners کا Heartthrob بن چکا تھا۔ وہ اپنے Common میں آنے والے چند با اثر ترین خاندانوں کے سپوتوں میں سے ایک تھا اور ضرورت سے زیادہ ہینڈسم تھا۔ یہ Expression اس کے لیے اکیڈمی کے ایک انسٹرکٹر نے ازراہ تفنن استعمال کیا تھا جو پھر اس کے لیے اکثر دوسرے بھی چھیڑ چھاڑ میں استعمال کرنے لگے تھے۔
ایک ہفتے کے بعد شیر دل کا تختہ کسی بغاوت کے بغیر دن دہاڑے الٹایا گیا تھا جب عکس مراد علی اکیڈمی میں اپنی جگہ لینے آگئی تھی۔ شیر دل نیوز پیپر میں اس کی تصویریں دیکھ لینے کے بعد کم از کم شکل کی حد تک اس سے واقف تھا لیکن ایک ہفتے کی میڈیکل لیو کے بعد اکیڈمی میں آنے والی لڑکی شیر دل کو اس سے کہیں زیادہ ان انٹریکٹو لگی تھی جتنی اسے نیو ز پیپر میں لگی تھی۔ وہ کسی اسکن انفیکشن کا شکارتھی اور قدرے صحت یاب ہونے کے باوجود اس کے چہرے ،گردن، ہاتھوں اور بازوؤں پر سرخ رنگ کے چھوٹے بڑے ان گنت دھبے تھے اور اس الرجی نے عکس مراد علی کو کافی مضحکہ خیز سی حالت میں ہرا یک سے متعارف کروایا تھا۔ وہ اپنی اس حالت کے باوجود اور بے حد ریزرو طبیعت رکھنے کے بعد بھی اپنے کامن کے ساتھیوں سے علیک سلیک کی کوشش کررہی تھی۔ اگر وہاں کسی کو یہ غلط فہمی تھی کہ پہلی پوزیشن لینے والی امیدوار خراب اور الٹے دماغ کے ساتھ وہاں پہنچے گی تو وہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔ عکس مراد علی بے حد نرم خو اور دوستانہ مزاج رکھنے والی لڑکی تھی۔ اگلے ایک ہفتے میں شیر دل نے اس کو ہر ایک کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھ لیا تھا سوائے اپنے… اور یہ چیز جیسے اسے بری طرح کھلی تھی۔ اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے عکس نے اسے دانستاً نظر انداز کیاتھا… اپنے سب سے قریبی اور سب سے خطرناک حریف کو۔




چند بار اکیڈمی میں مختلف جگہوں پر ان کا آمنا سامنا بھی ہوا تھا مگر تب بھی دونوں کے درمیان سرد مہری اور خاموشی نہیں ٹوٹی تھی اگر عکس نے شیر دل سے علیک سلیک میں پہل نہیں کی تھی تو شیر دل نے بھی اسے گھاس نہیں ڈالی تھی۔ وہ بھی اسے ہر جگہ پر اسی طرح نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تھا جس طرح وہ اسے۔ وہ اس کے وہاں ہوتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں پھیرے رہتی تھی اور اس سرد مہری میں کچھ اضافہ اس حقیقت نے بھی کردیا تھا کہ اس کی آمد کے چند دنوں میں ہی عکس نے کلاسز میں شیر دل جیسے ماہتاب کو گرہن لگانا شروع کردیا تھا۔ وہ کلاس میں ہمیشہ کم پوائنٹس پر بولتی تھی لیکن ان پوائنٹس اور ان مواقع پر بولتی تھی جن پر دوسروں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا یاجب دوسرے بحث کر کر کے کسی لوجیکل نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہوچکے ہوتے… اور پھر جیسے ہر ایک کو لاشعوری طور پر کلاس کے کسی کونے سے سب سے آخر میں ابھرنے والی اس بے حد خوب صورت آواز کا انتظار ہوتا تھا جو مسئلے کے الجھے ہوئے دھاگے کا سرا مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر یوں پلیٹ میں سب کے سامنے رکھتی کہ چند لمحوں کے لیے سب کو اپنا آپ چغد اور احمق محسوس ہوتا… اور بہت آہستہ آہستہ عکس مراد علی نے اپنے آپ کو کلاس کا فوکل پوائنٹ بنانا شروع کردیا تھا۔ وہ 188 لوگوں کے اس کامن میں سب سے برتر کیوں تھی یہ بہت جلد ہی سب کو پتا چلنا شروع ہوگیا تھا۔ وہاں موجود تمام لڑکے لڑکیاں غیر معمولی ذہانت کے حامل تھے اور تمام ہی اپنے اپنے علاقوں اور فیلڈز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے تھے تو اکیڈیمک ریکارڈ کی بنیاد پر عکس اور دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ فرق نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن وہ کسی بھی ڈسکشن میں کسی بھی پوائنٹ کو سمجھنے میں ریز رشارپ تھی اور اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کمرشل کلیئر اور ٹو دا پوائنٹ۔ کلاس میں یہ اس کی امتیازی حصوصیات تھیں جو بعض مواقع پر دوسروں کو مرعوب کرتی تھیں لیکن کئی مواقع پر دوسروں کو خائف اور Insecure کردیتی تھیں۔ وہ دوسروں کی بات کاٹ کاٹ کر جذباتی انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی عادی نہیں تھی، نہ ہی اسے کلاس میں ہر سوال کا جواب سب سے پہلے دینے کا خبط تھا۔ وہ ہر ایک کی بات بہت دیر تک اور بے حد سکون سے سن لینے کے بعد اپنا اختلافی نقطہ نظر دوسروں کے سامنے رکھتی تھی۔ کم سے کم اس معاملے میں وہ اپنے کامن کی تمام لڑکیوں سے مختلف تھی۔
عکس مراد علی شہد کی دلدل ہے۔میس میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے شیر دل نے ایک دن عکس کے بارے میں کسی کا تبصرہ سنا تھا اور وہ جیسے عش عش کر اٹھا تھا۔ عکس مراد علی کے لیے اس سے زیادہ موزوں ٹائٹل کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔

……٭……

اور شہد کی وہ دلدل پاکستان واپسی کے بعد چیف کمشنر کو دی جانے والی اس پہلی بریفنگ میں بھی اسی طرح تباہ کن حدتک پر اعتماد اور مستعد تھی۔
میٹنگ کا اختتام لنچ کے بعد ہوا تھا اور اپنی گاڑیوں کی طرف جاتے ہوئے پورے دن میں پہلی بار شیر دل اور عکس کو ایک دوسرے سے انفارمل گفتگو کا موقع ملا تھا۔ ان کا اسٹاف ان کی گاڑیوں کے پاس پہنچ چکا تھا اور وہ خود رستے میں رک کر ایک دوسرے سے گپ شپ کرنے لگے۔
”تم کیا کررہی ہو اب؟”شیر دل نے اس کی اگلی مصروفیات کا پوچھا۔چار بجنے والے تھے اور آفس ٹائم تقریباً ختم ہونے والا تھا۔
”میں ابھی تو گھر جاؤں گی پھر شام کو دوبارہ آفس جانا ہے کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”عکس نے اس سے پوچھا۔
”میں سوچ رہا تھا بیٹھتے ہیں کہیں…چائے، کافی پیتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں، کافی عرصہ ہوگیا بیٹھ کر بات کیے۔” شیر دل نے اس سے کہا وہ چند لمحوں کے لیے جیسے سوچ میں پڑ گئی پھر اس نے جیسے کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
”چلو ٹھیک ہے چلتے ہیں کہیں… گھر چلو گے یا گالف کلب چلیں؟”عکس نے اس سے کہا۔
”I m at your disposal ”شیر دل نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ جوابا ً قدم بڑھاتے ہوئے مسکرائی۔
”Then you would be disposed off soon” شیر دل اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔
”وہ تو تم نے سالوں پہلے کردیا۔dumped discarded۔” شیر دل نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے جیسے اسے جتایا۔
” گالف کلب چلتے ہیں۔ ”بات کو اس نے اسی مہارت سے بدلا تھا جس کی توقع شیر دل کو تھی۔
” شہر بانو کیسی ہے؟” گالف کلب کے ریسٹورنٹ کی گلاس ونڈوز کے پاس پڑی ایک ٹیبل پر اپنی نشست سنبھالتے ہی عکس نے اس سے پوچھا۔
”بڑے خراب موڈ میں ہے آج کل۔” شیر دل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟…کیا ہوا…؟ ” وہ بھی مسکرائی۔
”میرا خیال ہے میں وجہ ہوں۔” شیر دل نے سگریٹ کا پیک کھولا اور بڑی سنجیدگی سے کہتے ہوئے ایک سگریٹ نکالا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!