عکس — قسط نمبر ۵

”ہاں وہ تو میں جانتی ہوں تم ہی وجہ ہوگے… مگر اس بار کیا کیا ہے تم نے۔”عکس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس بار سے کیا مراد ہے تمہاری۔” وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے ٹھٹکا۔”پہلے کیا کرتا رہا ہوں میں؟”
”میں تمہاری Biography (سوانح) نہیں لکھ رہی۔”عکس نے اطمینان سے کہا۔ وہ ہنسا۔




”یار میرا خیال ہے اگر میری طلاق ہوئی تو اس میں ایک بنیادی رول چیف کا ہوگا۔” وہ اب سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بے حد سنجیدگی اور جیسے کچھ تشویش سے کہہ رہا تھا۔ عکس کو ہنسی آگئی۔ اس کا اشارہ چیف کمشنر کی طرف تھا جو ڈویژن کے ڈی سیز کو پھرکی کی طرح گھمانے میں کمال شہرت رکھتا تھا… وہ خود Workaholic تھا اور اس کو بعض دفعہ آدھی رات کو کوئی فائل چیک کرتے ہوئے کوئی بھی ڈی سی یاد آجاتا تھا اور جو اسے آدھی رات کو یاد آجاتا وہ فجر تک اپنی جان اس سے چھڑا نہیں پاتا تھا۔ این ڈی لطیف اپنا کام آفس میں کر کے آتا تھا اور باقیوں کا کام اپنے گھر میں نبٹاتا تھا اور وہ بھی بے حد فرصت سے۔ ڈی ایم جی کے سینئر آفیسرز میں بہت کم این ڈی لطیف کی طرح 18 گھنٹے کام کرنے کا اسٹیمنا رکھتے تھے اور وہ جس ڈویژن میں بھی ہوتا اس کے ماتحتوں کی جان حلق میں اٹکی رہتی اور آج کل شاید شیر دل اس کی توجہ کا خاص مرکزتھا اور اس کی وجہ اس کے ڈسٹرکٹ میں شروع ہونے والے بڑے بڑے پروجیکٹس تھے۔
”تم ہنس سکتی ہو کیونکہ I think the chief has a crush on you “شیر دل نے اس کی ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بتانے کی دانستہ کوشش کی۔ عکس نے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ سامنے پڑے ہوئے گلاس میں پانی انڈیلنا شروع کردیا۔ وہ شیر دل کی اس بکواس کی عادی تھی اور آج کی میٹنگ میں عکس کے علاوہ شیر دل سمیت تمام DCs اپنے اپنے حصے کی کافی بے عزتی سمیٹے بیٹھے تھے… اور اس ”جھاڑ پونچھ” کے بعد شیر دل سے وہ اسی طرح کے رد عمل کی توقع کررہی تھی۔
”تم مجھے شہر بانو کے بارے میں کچھ بتارہے تھے۔” عکس نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس کی کوششوں پر جیسے پانی ڈالتے ہوئے کہا۔
”لیکن اس سے پہلے میں تمہیں چیف کے بارے میں کچھ بتارہا تھا۔” شیر دل نے بات کو پھر وہیں لے جاتے ہوئے کہا۔ ”چیف تمہیں پسند کرنے لگا ہے شاید۔” وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”شاید نہیں یقینا… تمہیں اس سے کوئی پرابلم ہے کیا؟” وہ بری طرح لاجواب ہوا تھا۔
”نہیں ہونی چاہیے کیا؟” اس نے چند لمحوں کے بعد پوچھا۔
”بالکل نہیں ہونی چاہیے۔” عکس نے ترکی بہ ترکی کہا اور ساتھ ہی اسے کھانسی آئی اور پھر وہ کھانستی ہی چلی گئی۔
”کیا ہوا یار؟” شیر دل نے اس کا گلاس اٹھا کر اسے تھمانے کی کوشش کی۔
”یہ تمہارے سگریٹ کا کمال ہے۔” عکس نے بہ مشکل اپنی کھانسی پر قابو پاتے ہوئے پانی کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ شیر دل نے چونک کر ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کی طرف دیکھا۔
”کیوں سگریٹ نے کیا کیا ہے؟” وہ قدرے حیران ہوا اس سے پہلے اس کی اسموکنگ نے کبھی عکس کی یہ حالت نہیں کی تھی۔
Asthma “ہے مجھے۔” عکس نے پانی کا ایک اور گھونٹ لیا۔




”ارے یہ کب سے ؟” شیر دل نے چونک کر بے اختیار سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسل کر بجھاتے ہوئے کہا۔
”امریکا کی سوغات ہے۔” وہ مسکرائی۔”اورتم جو چیف کے بارے میں بکواس کرتے رہتے ہو نا یہ اگر ان تک پہنچ گئی تودن میں تارے دکھادیں گے وہ تمہیں۔” عکس نے جیسے اسے تنبیہہ کی۔
”یار آدھی رات کو کال کردیتے ہیں… میری ساری رات آج کل فون پر چیف کے ساتھ ہی گزر رہی ہے۔” شیر دل واقعی تنگ آیا ہوا تھا۔
”میرا خیال ہے اصلی crush ان کا آج کل تم پر ہے۔” عکس نے مسکراتے ہوئے اسے tease کیا۔
”شہر بانو کہتی ہے میں مستقبل کا این ڈی لطیف ہوں۔” شیر دل نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

”یعنی تم چیف کا ماضی ہو؟” عکس مسکرائی۔”اگر چیف تمہارے جیسے ہینڈسم ہوتے تو ان کا لائف اسٹائل تمہارے جیسا ہی ہوتا، پھر تو ان کے پاس رات چھوڑ دن کو بھی کام کرنے کا وقت نہ ہوتا۔” شیر دل نے ایک بار پھر اس کے چوٹ کرتے جملے کو نظر انداز کیا۔
”اس دن فون پر کس کے ساتھ بات کررہی تھیں تم؟” شیر دل نے اس کے تبصرے کے جواب میں وہ سوال کیا جو اتنے دنوں سے اس کے ذہن میں کلبلارہا تھا۔عکس نے بے اختیار گہری سانس لی۔
”اس ایک سوال کے لیے کتنی لمبی تمہید باندھی تم نے، میرے ساتھ چائے پینے آئے، گھما پھرا کر ادھر ادھر کی باتیں کیں، سیدھا سیدھا اسی دن کیوں نہیں پوچھ لیا تم نے… اتنا لمبا صبر اور انتظار…That’s so unlike you Sherdil کیسے گزارلیے تم نے اتنے دن اس بے چینی کے ساتھ کہ میں کس سے بات کررہی تھی اس دن… بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کس کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کررہی تھی۔” اس نے مونو سیکنڈ میں شیر دل کا مدعا جانا تھا اور اسی رفتار سے شیر دل کی گفتگو کو مذاق اڑاتے ہوئے ادھیڑا تھا۔ شیر دل نے اس عورت کے ہاتھوں شرمندہ ہو کر برامنانا بہت پہلے چھوڑ دیا تھا… فائدہ نہیں تھا خواہ مخواہ اس کی باتوں کو دل سے لگانے کا۔
”اچھا تو پھر کون تھا وہ؟”شیر دل نے اسی ڈھٹائی کے ساتھ پوچھا۔
”پیرنٹس آئے ہوئے ہیں آج کل میرے، ساری فیملی ہے یہاں۔ تمہارا کیا خیال تھا… کون ہوگا؟” شیر دل ہی کی طرح عکس نے بھی اس کے ان الٹے سیدھے سوالوں اور باتوں کا برا منانا اکیڈمی میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ اسے کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ شیر دل بے اختیار مسکرایا۔
”اوہ پیرنٹس آئے ہوئے ہیں… گریٹ۔” عکس کے سوال کو اس نے بھی اسی طرح گول کیا تھا مگر کیا اطمینان تھا جو اس نے محسوس کیا تھا۔
”لیکن تمہاری فیملی کیوں آئی ہوئی ہے یہاں…؟”شیر دل کو مسکراتے ہوئے یک دم خیال آیا۔
”مجھ سے ملنے… میں دو سال پاکستان سے باہر رہی ہوں وہ تو ہر سال آتے ہیں یہاں… اس بار میری وجہ سے کچھ جلدی آگئے ورنہ دسمبر میں آتے۔” عکس نے تفصیل سے بتایا۔ویٹر اب انہیں کافی اور اسنیکس سرو کررہا تھا۔
”تمہارے اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی ہوئی؟” ویٹر کے جانے کے بعدکیک کے ایک سلائس کو کاٹ کر اٹھاتے ہوئے شیر دل نے اس سے وہ سوال کیا جو وہ بہت عرصے سے کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”بدلنے کی کوشش کررہی ہوں۔” کیک کا ٹکڑا شیر دل کو یک دم کڑوا لگا۔
”مطلب؟”وہ کیک کا دوسرا ٹکڑا اٹھاتے اٹھاتے رک گیا۔
”تم یہ کیوں چاہتے ہو شیر دل کہ میں تمہیں اپنی ہر پرسنل بات بتایا کروں۔ یہ بھی بتاؤں کہ میری فلاں شخص سے منگنی یا شادی ہونے والی ہے یا ہورہی ہے… یا…” شیر دل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”So you are seeing some one these days? ”
”اگر تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ اس کے بعد اس ایشو کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروگے تو میں تمہیں اس سوال کا جواب دوں گی۔” عکس نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”او،کے… اب بتاؤ۔” شیر دل نے بے ساختہ کہا۔
”ہاں۔” اس نے بھی فوراً ہی جواب دیا۔

Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!