عکس — قسط نمبر ۵

”میں اوور ری ایکٹ کررہا ہوں…؟” وہ اس پر الٹ پڑا تھا۔
”میں اسے اس لیے شہر کے مہنگے ترین اسکول میں پڑھارہا ہوں کہ وہ نوکروں کے بچوں کے لیے میسنجر کا کام کرے… وہ اتنی فیس لیتے ہیں انہوں نے ڈائریکٹ خیر دین کو اپروچ کیوں نہیں کیا… اس کے پوسٹل ایڈریس پر ڈائریکٹ کانٹیکٹ کرتے، میری بیٹی سے انہوں نے اس طرح کا کام کیوں کروایا۔” وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ غصے میں اس طرح آؤٹ آف کنٹرول کیوں ہورہا تھا… کیا یہ کسی اور مسئلے کی وجہ سے تھا…؟کسی آفس کی ٹینشن کی وجہ سے…؟ یا پھر وہ مسئلہ واقعی اتنا بڑا تھا کہ اس پر اس طرح ہنگامہ کیا جاتا۔ وہ جس وقت فون پر سسٹر ایگنس کے ساتھ بد زبانی کررہا تھا وہ اس وقت بھی اسے اسی طرح بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ اگر اسے یہ پتا ہوتا کہ وہ اسکول کی پرنسپل سے اس طرح بات کرنے والا تھا تو وہ اسے کبھی ان سے بات کرنے نہ دیتی۔ اسے یہ نہیں پتا تھا کہ سسٹر ایگنس نے اسے جواباً کیا کہا تھا لیکن اسے اس کی گفتگو سے یہ پتا چل گیا تھا کہ وہ اس کے انداز گفتگو کو بے حد نا پسند کررہی تھیں اور انہوں نے ایک پوائنٹ پر آکر کال بند کردی تھی۔ اس کے شوہر کی انا پر یہ جیسے ایک اور کاری ضرب تھی وہ اس شہر کا ڈپٹی کمشنر تھا… جس کا مطلب اس معاشرے میں بادشاہ کا ہوتا تھا اور ایک معمولی نن نے DC کی کال ڈسکنیکٹ کرنے کی جرات دکھائی تھی… یہ بے عزتی سی بے عزتی تھی۔ وہ بار بار آپریٹر کو دوبارہ کال ملانے کے لیے کہتا رہا اور آپریٹر اسے بار بار یہ اطلاع دیتا رہا کہ کانوینٹ کے رہائشی حصے سے اس کی کال اٹینڈ نہیں کی جارہی اور اس تمام عرصے کے درمیان وہ بار بار اپنے شوہر کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ وہ اسی طرح غضبناک رہا تھا اور اس کا یہ رویہ اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا تھا۔ وہ جس بیک گراؤنڈ سے تھی وہاں استاد اور تعلیم وتدریس سے متعلقہ لوگوں کی بے حد عزت کی جاتی تھی خود اس نے اپنے شوہر اور اس کی فیملی کو اس حوالے سے بے حد تمیزوتہذیب والا پایا تھا اور اب ایک چھوٹی سی بات پر وہ جیسے ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔ وہ اس سارے argument کے بعد چائے اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اس کی بیوی ایک عجیب مخمصے کا شکار وہاں بیٹھی رہ گئی تھی۔




رات تک وہ نارمل ہوچکا تھا اور اس نے دوبارہ فی الحال اپنے شوہر کے ساتھ یہ معاملہ ڈسکس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ خیر دین اور اس سے متعلقہ ہر چیز سے فی الحال بری طرح چڑا ہوا تھا اور اس کے بات کرنے پر پھر اوور ری ایکٹ کرسکتا تھا۔
”پاپا اسکول آئے تھے…” باربی ڈول نے اگلی شام ہوم ورک کرتے ہوئے ماں کو اطلاع دی… وہ بری طرح چونک گئی۔
”اسکول آئے تھے… پاپا؟” وہ بری طرح حیران ہوئی تھی۔ اس کا شوہر کم از کم صبح ناشتے کی ٹیبل پر ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کر کے گیا تھا۔
”Yes ”باربی ڈول کلرنگ بک میں کلر کرنے میں مصروف رہی۔
”تم اسکول گئے تھے؟” وہ پہلا موقع تھا جب اس نے اپنے شوہر کے گھر آتے ہی اس سے کسی مسئلے پر بازپرس شروع کردی تھی۔
”ہاں…” وہ ٹھٹکا اور پھر اس نے بغیر کسی تامل کے کہا۔
”کس لیے؟” وہ بے حد سنجیدگی سے اپنے شوہر کو دیکھتی رہی جو اپنی ٹائی اتارنے کے بعد اب کوٹ اتاررہا تھا۔
”سسٹر سے بات کرنی تھی مجھے۔”اس نے مختصراً کہا۔
”چڑیا کے بارے میں؟ ” اس نے بے اختیار کہا۔ وہ بری طرح جھنجلایا۔
”تمہارے لیے کیوںضروری ہے کہ تم ہر بات پر مجھ سے انٹیروگیٹ کرو؟” وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔ ان کی ازدواجی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اس سے اس طرح بات کررہا تھا۔ ان دونوں کی لو میرج ایک مثالی شادی سمجھی جاتی تھی اور ان کا کپل ایک آئیڈیل کپل… وہ دیوانہ وار ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کرتے تھے… اور اس رشتے میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کے ایک سوال پر وہ اسے اس طرح کی بات کہتا جس طرح کی بات اس نے کہی تھی۔
”میں ایک سوال کررہی ہوں… انٹیروگیٹ کیوں کروں گی؟” اس نے جواباً جز بز ہوتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا۔
”تم سوال بھی مت کرو۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تم سسٹر ایگنس سے کوئی جھگڑا تو نہیں کر کے آئے؟” اس نے اس کی بات پر Argue کرنے کے بجائے اس سے اس بات کے بارے میں پوچھا جس کے حوالے سے اسے تشویش تھی۔
”نہیں۔” اس نے آنکھیں ملائے بغیر اپنی بیوی سے جھوٹ بولا۔ اس سے سچ بولنے کا مطلب گھر میں ایک نئے جھگڑے کا آغاز تھا۔
Thank God” میں سوچ رہی تھی تم سسٹر ایگنس کے ساتھ جھگڑا کرنے گئے تھے۔”
”میں بے وقوف نہیں ہوں۔”
”ہاں لیکن تم بعض دفعہ بہت عجیب ری ایکٹ کرتے ہو۔” وہ چند لمحے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھتا رہا پھر وہ بے حد خاموشی سے واش روم چلا گیا۔
باربی ڈول آہستہ آہستہ چڑیا کو بھولتی گئی تھی۔ اس کے باپ کے اسکول کے چکر کے بعد دوبارہ کبھی کسی نے باربی ڈول سے چڑیا کا ذکر نہیں کیا تھا… صرف چڑیا کی کچھ فرینڈز تھیں جو باربی ڈول سے وقتاً فوقتاً چڑیا کے بارے میں پوچھتی رہتیں… لیکن آہستہ آہستہ ان کے سوال بھی ختم ہوتے گئے تھے۔ چڑیا بہت خاموشی سے ان سب کی زندگی سے نکل گئی تھی۔
……٭……
عکس اور شیر دل کا اکیڈمی میں پہلا آمنا سامنا ٹریننگ اسٹارٹ ہونے کے تقریباً ایک ماہ بعد ہوا تھا۔ عکس لائبریری میں کوئی کتاب ایشو کروانے کے لیے کھڑی تھی اور شیر دل کوئی کتاب واپس کروانے کے لیے کچھ دیر پہلے ہی لائبریری آیا تھا۔ لائبریرین کا ڈیسک خالی تھا۔
”ہیلو۔” شیر دل نے عکس کے ساتھ رسمی ہیلو ہائے کا تبادلہ کیا جو ان کے درمیان اب تک ہونے والی واحد گفتگو رہی تھی۔ اور پھر وہ خاموشی سے خود بھی لائبریرین کے انتظار میں ڈیسک کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ پہلا موقع تھا جب وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب کھڑے تھے اور دونوں کو ہی بہت جلدی تھی ورنہ شاید وہ دونوں وہاں کھڑے لائبریرین کا انتظار کرنے کے بجائے لائبریری میں گھوم پھر کر کوئی اور کتاب دیکھ لیتے۔
تقریباً پانچ منٹ ایک دوسرے کے برابر بے وقوفوں کی طرح کھڑے رہنے کے بعد شیر دل نے بالآخر عکس کی طرف مڑ کر کہا۔
”یہ ڈیسک کب سے خالی ہے؟” عکس اس کے سوال پر چونکی۔
”آ…جب سے میں یہاں کھڑی ہوں۔” وہ ایک لمحے کے لیے ہڑ بڑائی اور پھر شیر دل نے کہا۔
”اور آپ یہاں کب سے کھڑی ہیں؟”وہ پہلا موقع تھا جب شیر دل کو اتنے قریب سے عکس مراد علی کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس کی اسکن انفیکشن ختم ہوچکی تھی اور اسے دیکھتے ہوئے شیر دل کو اندازہ ہوا کہ وہ اتنی ان اٹریکٹو نہیں تھی جتنا وہ اسے سمجھ رہا تھا۔
”آپ کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی آکر کھڑی ہوئی ہوں میں۔” عکس نے کہا۔
”بہت زیادتی ہے یہ تو پندرہ منٹ ہوگئے ہیں۔” شیر دل نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”اب کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں؟لائبریری کا سارا اسٹاف ہی غائب ہوگیا ہے۔” وہ بڑ بڑارہا تھا۔
”آپ نے کتاب ریٹرن کروانی ہے؟” عکس نے اس سے کہا۔
”ہاں… اور صرف اتنے سے کام کے لیے بھی آدھا گھنٹا ہوگیا ہے مجھے۔” شیر دل نے اسے جواب دیا۔” عکس نے مسکراتے ہوئے ان سات منٹوں کو پہلے پندرہ اور اب آدھے گھنٹے میں تبدیل ہوتے سنا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!