عکس — قسط نمبر ۱۳

”اللہ کا شکر ہے۔” شیردل مسکراتے ہوئے سیدھا ہوگیا۔ عکس اسے خیردین کے بارے میں ڈاکٹر کی رائے بتارہی تھی۔ خیردین ان دونوں کو دیکھنے لگا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بات کررہے تھے۔ دراز قد…اسمارٹ… خیردین نے عجیب حسرت سے ان دونوں کو اکٹھے کھڑے دیکھا تھا۔ شیردل وہ پہلا مرد تھا جس کو دیکھ کر خیردین کو اسے چڑیا کا نصیب دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ وہ اسے کچھ ایسا ہی اچھا لگا تھا۔ وہ پہلی نظر کی پسندیدگی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ شیردل کے شادی شدہ ہوجانے کے باجود خیردین کے دل سے وہ پسندیدگی ختم نہیں ہوئی تھی اور عکس خیردین کی اس پسندیدگی اور خواہش دونوں سے واقف تھی تب سے جب وہ شیردل سے ملی بھی نہیں تھی جب شیردل اس کے لیے صرف ایک غائبانہ وجود تھا جس کا ذکر وہ خیردین سے سنا کرتی تھی اور اسے حیرت ہوتی تھی اس کا نانا کسی سے بھی اس طرح اتنی جلدی متاثر نہیں ہوتا تھا جس طرح وہ شیردل سے ہوگیا تھا۔




خیردین نے شیردل کو پہلی بار اپنی دکان پر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ شکل وصورت میں تو اچھا تھا ہی لیکن خیردین کو وہ خوش شکل اور خوش لباس لڑکا اپنی تہذیب اور شائستگی کی وجہ سے اچھا لگا تھا۔ خیردین نے پہلی بار اسے اپنی دکان پر آتے ہوئے صرف کھانا کھا کر جاتے دیکھا تھا وہ اس سے ذاتی طور پر نہیں ملا تھا یہ چند دنوں کے بعد خیردین کی دکان پر شیردل کا دوسرا چکر تھا جس میں خیردین اس سے متعارف ہوا تھا۔ وہ ان دنوں امریکا میں پڑھ رہا تھا اور چھٹیوں میں پاکستان آیا تھا۔ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ میل ملاقاتوں میں وہ لاہور اور اس کے آس پاس کے شہروں میں بھی گھوم پھر رہا تھا جہاں جہاں اس کے دوستوں کے والدین یا خود اس کے قریبی رشتہ دار پوسٹڈ تھے اور اسی سیر وتفریح میں اسے ایک دوست کے ہاں قیام کے دوران خیردین کی دال جو اس شہر کا تعارف بن چکی تھی شیردل نے دریافت کی تھی۔ وہ پاکستانی روایتی کھانوں کا کوئی زیادہ شوقین نہیں تھا مگر چند ایک چیزیں جن کے ذائقے کو وہ پاکستان میں اس قیام کے دوران بھول نہیں سکا تھا ان میں سے ایک وہ دال بھی تھی۔ وہ اس کے بعد کئی بار خاص طور پر اس دکان کی دال کھانے کے لیے لاہور سے سفر کرکے آیا تھا اور ہر بار وہ اس دکان کے مالک اس بوڑھے بے حد سلجھے ہوئے آدمی سے گپ شپ لگا کر بے حد محظوظ ہوتا جو اپنے حلیے یا کسی بھی طرح سے ایک عام دکاندار نہیں لگتا تھا۔ ایک بے حد، شفیق مہربان ،نرم خو اور اپنی گفتگو سے بڑا پڑھا لکھا نظر آنے والا وہ بوڑھا جو ہر بار اس کے وہاں جانے پر اپنے ہاں کام کرنے والے ویٹرز کو ذاتی طور پر شیردل کو سرو کرنے کے لیے کہتا تھا۔ شیردل کو اس کاداڑھی والا چہرہ کئی بار بے حد شناسا لگا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی آواز… دونوں چیزیں مگر وہ اسے اپنا وہم سمجھتا تھا۔ آخر لاہور سے سکیڑوں میل دور ایک شہر کی ایک چھوٹی سی ریسٹورنٹ نما دکان کے بوڑھے مالک کو وہ پہلے کیسے جان سکتا تھا جبکہ اس نے زندگی میں پہلی بار اس دکان پر کھانے پینے کے لیے آنا جانا شروع کیا تھا۔ ایبک شیردل نے اپنے ہر خیال کو وہم سمجھ کر جھٹک دیا تھا۔
جوبات ایبک شیردل کو البتہ سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ اسے خاص طور پر وہاں دیا جانے والا پروٹوکول تھا۔ خیردین اسے اتنی اسپیشل توجہ کیوں دیتا تھا ایبک شیردل نے اس کی وجہ ڈھونڈنے پر بھی بڑا غور کیا تھا لیکن وہ ناکام رہا تھا۔ وہ اگر پہلے ہی اپنے دوستوں سے یہ نہ سن چکا ہوتا کہ اس دکان پر بڑی دور دور سے بہت امیر اور اثر ورسوخ والے لوگ بھی آیا کرتے تھے اور پھر خود وہ اپنی آنکھوں سے وہاں دکان کے باہر کھڑی بہت ساری سبز پلیٹوں والی سرکاری گاڑیاں نہ دیکھتا رہتا تو ایبک شیردل اس توجہ کو اس سرکاری گاڑی کی سبز نمبرپلیٹ کی مرہون منت سمجھتا جس میں وہ آیا کرتا تھا۔ وہ اس خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار بھی نہیں ہوسکا تھا کہ اس ڈبل اسٹوری ریسٹورنٹ نما دکان کا مالک بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والے پرانے گاہکوں کو چھوڑ کر اس کی طرف کسی خاص لالچ میں متوجہ ہوتا تھا۔ خیردین اور اپنی ہونے والی گپ شپ میں اس نے کبھی اپنے باپ کے عہدے کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی خیردین نے اس سے اس کے باپ کے بارے میں کبھی پوچھا تھا تو پھر وہ کیا وجہ تھی جو ان دونوں کے درمیان اس قسم کی شناسائی اور پسندیدگی کو وجود میں لے آئی تھی۔ شروع میں چند بار الجھنے اور سر کھپانے کے بعد شیردل نے اس سوال کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا اس کے لیے بس یہ کافی تھا کہ وہ وہاں جاتا تھا تو اسے خاص پروٹوکول دیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ جانے والے اس کے دوست اس چیز کو نوٹس کرتے تھے۔
ان چھٹیوں کے بعد بھی شیردل پاکستان میں اپنے ہر قیام کے دوران وہاں باقاعدگی سے آنے لگا تھا۔ وہ اب یہ بھی جانتا تھا کہ خیردین کی ایک ہی نواسی ہے جو ایک میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی اور اس دکان میں آنے والے پرانے گاہکوں میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو خیردین کی اس لائق نواسی سے واقف نہ ہوتا جو خیردین کے دل کی دھڑکن تھی اور جس کے ذکر کے بغیر خیردین کا دن نہیں گزرتا تھا۔
شیردل نے خیردین کی نواسی کا پہلی بار خیردین سے تعارف ستائشی مسکراہٹ کے ساتھ زیادہ دلچسپی کے بغیر سنا تھا۔ خیردین اپنی نواسی کو میڈیکل کروارہا تھا۔ اچھی بات تھی۔ وہ نواسی لائق تھی یہ اور بھی اچھی بات تھی۔ وہ خیردین کا جوش اور فخر سمجھ سکتا تھا اس کے بیک گراؤنڈ کے کسی آدمی کا اپنی اگلی نسل کی کسی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا کسی معرکے سے کم نہیں تھا اور شیردل کے خاندان میں کسی لڑکی کا کوئی پروفیشنل ڈگری لینا ایک معمول کی بات … شیردل کے لیے خیردین کی نواسی کی قابلیت قابل غور چیز تھی ہی نہیں لیکن وہ اسے خیردین کی دلچسپی کا موضوع سمجھ کر سنتا رہا تھا۔ خیردین کی وہ نواسی اس سے عنقریب کہاں ٹکرانے والی تھی شیردل کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔
وہ STPکے دوران ایک فیلڈ ٹرپ کرتے ہوئے اپنے پورے گروپ کو وہاں لایا تھا۔ عکس بھی ان 25 لوگوں میں تھی جو اس گروپ میں شامل تھے۔ شیردل کو وہاں ویسا ہی پروٹوکول ملا تھا جو اس کے لیے متوقع تھا۔ اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ کی پہلی منزل پر موجود فیملی ایریا فوری طور پر ان لوگوں کے لیے خالی کروالیا گیا تھا۔ شیردل کو وہاں داخل ہوتے ہوئے خیردین نظر نہیں آیا تھا اور وہ پہلا موقع تھا جب اس کی وہاں آمد کے موقع پر اس کا اور خیردین کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس نے ایک ویٹر سے خیردین کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ وہ نماز پڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ فیملی ہال کی چند ٹیبلز کو چھوڑ کر ان لوگوں کے لیے ایک ہی لمبی ٹیبل تیار کردی گئی تھی۔ شیردل نے ان ٹیبلز پر ایک دم نئے ٹیبل کو ر، بہت اچھی کراکری اور شیشے کے چمکتے ہوئے نئے گلاسز اور نئی کٹلری کو نوٹس کیا تھا۔ اس نے ان تین مستعد اور مؤدب ویٹرز کو بھی نوٹس کیا تھا جو صرف ان کے احکامات لینے کے لیے وہاں موجود تھے اور اس نے یہ بھی نوٹس کیا تھا کہ وہاں موجود تقریباً تمام عملے نے داخل ہوتے وقت شیردل سے تو ہمیشہ کی طرح علیک سلیک کی تھی لیکن عکس سے بھی وہ بہت مؤدبانہ انداز میں مخاطب ہوتے رہے تھے۔
”لگتا ہے تمہیں بھی پہچانتے ہیں یہ لوگ۔ تمہار ا تو شہر ہے، تم تو بہت بار آچکی ہو گی یہاں۔” شیردل کو اس کے علاوہ اس عجیب ”شناسائی” کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی جو عکس کے لیے وہاں کے عملے کے رویے میں تھی۔
”بہت بار۔” عکس نے جواباً ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ شیردل بھی مطمئن انداز میں مسکرادیا۔
کھانے کی ٹیبل کے گرد کھانے کا انتظار کرتے ہوئے شیردل ان تمام لوگوں کو اس دکان کے مالک بوڑھے خیردین کے بارے میں بتاتا رہا جو اس کے نزدیک ایک انتہائی دلچسپ بوڑھا تھا۔ ایک حیران کن قسم کا دکان دار… وہ خیردین کے ساتھ ہونے والی اپنی گپ شپ ان کے سامنے دہراتا رہا۔ گروپ کے کچھ اور لوگ بھی خیردین کی اس مشہور زمانہ دال اور اس جگہ سے واقف تھے اور وہاں آچکے تھے لیکن باقی لوگوں کے لیے وہ جگہ نئی تھی لیکن وہ تمام لوگ جو پہلے وہاں آچکے تھے ان میں سے کوئی بھی خیردین کو ان حوالوں سے نہیں جانتا تھا جن حوالوں سے ایبک شیردل جانتا تھا۔
عکس مراد علی ایبک شیردل کی اس ساری ”دلچسپ” گفتگو کے دوران پانی کا ایک گلاس پکڑے اس لمبی میز کے ہیڈ پر بیٹھی تھی اور وقفے وقفے سے پانی پیتے ہوئے ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ شیردل کی خیردین کے حوالے سے وہ بے تکلفانہ گفتگو سنتی رہی جو وہ ایک ڈائٹ پیپسی کے کین کو پیتے ہوئے کرتا رہا تھا۔
”اور ہاں خیردین کی ایک نواسی بھی ہے۔” گیدڑ کی جب شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے کے مصداق ایبک شیردل کو بے حد غلط وقت پر وہ ”نواسی” یاد آئی تھی جو اس وقت اس سے تین کرسیوں کے فاصلے پر ٹیبل کے پیڈ پر پڑی کرسی پر بیٹھی گلاس کو اس کی جگہ پر دائرے کی شکل میں ہلکی گردش دیتے ہوئے ایبک شیردل سے” اپنا تعارف” سن رہی تھی۔
”بتارہا تھا مجھے کہ اس کی نواسی گولڈ میڈلسٹ رہی ہے کس میں۔” شیردل نے بات کرتے کرتے ایک لمحے کے لیے رک کر کچھ یاد کیا۔ ”ہاں بورڈ کے کسی ایگزام میں۔”
”سارے ایگزامز میں۔” عکس نے بہت مدھم آواز میں تصحیح کی تھی ،شیردل نے روانی میں غور نہیں کیا۔
”لاہور کے کسی میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔”
”پڑھ لیا۔” تصحیح ایک بار پھر ہوئی۔
شاید علامہ اقبال میڈیکل کالج میں۔”
”کنگ ایڈورڈ میں۔” وہ تیسری تصحیح تھی جس پر بالآخر شیردل نے گلاس کے کناروں پر انگلیاں پھیرتی عکس سے پوچھا۔ ”اوہ تم بھی تو KE سے ہی پڑھی ہو۔” تم یقینا جانتی ہوگی اسے۔” شیردل نے ہمیشہ کی طرح سوال کا جواب آنے سے پہلے ہی اپنا اندازہ لگایا تھا۔
”بہت اچھی طرح۔” عکس مسکرائی تھی۔ شیردل نے اس کی مسکراہٹ پر غور نہیں کیا۔ اس نے ان تین ویٹرز پر بھی غور نہیں کیا جن میں سے دو عکس کے بالکل قریب ٹیبل کے دائیں جانب تھے اور تیسرا عکس کے بائیں جانب… شیردل خود عکس کی دائیں جانب تیسری کرسی پر تھا اور وہ یہی سمجھ رہا تھاکہ وہ ویٹرز شیردل کے ان لوگوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے شیردل کے قریب تھے۔ وہ انگلش میں بات کررہا تھا۔ اردو میں کرتا تو اس کی گفتگو کا موضوع ان ویٹرز کو بھی بھونچکا کردیتا۔ ”عکس باجی” کے ساتھ آئے ہوئے مہمان عکس باجی کو نہیں جانتے تھے یہ بات وہاں کام کرنے والے کسی بھی شخص کو ایسے ہی حیران کردیتی۔
”Now this is amazing ”شیردل کہہ رہا تھا۔ ”کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے تو اس اسپرٹ کے ساتھ کرسکتا ہے اور مجھے حیرانی ہوئی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسی success stories ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں۔” شیردل اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے پیپسی پیتا ہوابڑے اطمینان سے کہتا جارہا تھا۔ کھانا سرو ہونے لگا تھا ۔وہ لوگ کھانا کھانے لگے، گفتگو کا موضوع بدل گیا ۔ خیردین بالکل اس لمحے سیڑھیاں چڑھ کر اس چھوٹے سے ہال نما کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جھجک گیا۔ اسے نیچے پتا چل گیا تھا کہ عکس کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں آئی تھی لیکن اسے یہ پتا نہیں تھا وہ سارے اس کے بیچ میٹس تھے۔ وہ افسروں کے ساتھ تھی اس وقت اور زندگی میں پہلی بار خیردین اپنی چڑیا سے جھجکا تھا۔ جو بھی تھا وہ ایک معمولی دکان دار تھا معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک معمولی شخص …اس نے اپنی چڑیا کو اپنا خون پسینہ دے کر کامیابی کی سیڑھیوں پر چڑ ھا یا تھا اور اب جب وہ وہاں چڑھ گئی تھی تو زندگی میں پہلی بار خیردین کو اس کے سامنے احساس کمتری ہوا تھا۔ وہ اسے ان لوگوں کے درمیان اپنا حوالہ دینے سے جھجکا تھا۔ شاید یہ مناسب نہیں ہو، شاید چڑیا نے ان لوگوں کو اس کے بارے میں نہ بتایا ہو، پتا نہیں وہ چڑیا کے لیے وہاں ندامت اور خفت کا باعث نہ بن جائے۔ اس نے ہال میں جتنے جوش وخروش میں قدم رکھا تھا اسی تیزی سے وہ پیچھے ہٹنے لگا تھا۔ عکس تب تک اسے دیکھ چکی تھی۔ سیڑھیوں سے اوپر آنے والا وہ راستہ اس کے سامنے تھا۔ ایک لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے وہ حیران ہوئی تھی خیردین پیچھے کیوں ہٹا تھا او رپھر جیسے ایک جھماکے کے ساتھ اسے وجہ سمجھ آئی تھی۔ ہاتھ میں پکڑا دوسرا لقمہ اپنی پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
”نانا۔” سیڑھی پر واپس پلٹتے خیردین کے پیروں میں ایک بیڑی پڑی۔ ٹیبل کے گرد بیٹھے وہ سارے مرد یک دم چونکے تھے پھر انہوں نے عکس کی نظروں کے تعاقب میں اس بوڑھے باریش آدمی کو دیکھا جواب آگے بڑھ رہا تھا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایبک شیردل کو بھی کرنٹ لگا تھا۔
”وہ زیر لب بے یقینی سے بڑ بڑایا۔ ایک نظر اس نے عکس کو دیکھا پھر ٹیبل کے پار خیردین کو۔
”میرے نانا اور دکان کے مالک۔” عکس مراد علی نے بے حد روانی اور اعتماد کے ساتھ اپنی کرسی چھوڑتے ہوئے خیردین کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو چند لمحوں کے لیے سکتہ ہوا تھا پھر وہ بیک وقت اپنی اپنی کرسیوں سے احتراماً کھڑے ہوئے تھے۔ وہ تب تک خیردین کے پاس پہنچ چکی تھی اور اس نے جا کر ہمیشہ کی طرح خیردین کا ہاتھ چوم لیا تھا۔ فخر کے بہت سے لمحے آئے تھے اس ننھی سی لڑکی کی وجہ سے اس کی زندگی میں… اور ایسا ہی فخر کا ایک لمحہ وہ بھی تھا خیردین کے لیے۔ وہ اسے اس جگہ پر own کررہی تھی جہاں کا رزق اسے کھلا کھلا کر خیردین نے پالا تھا۔ ان 24 لوگوں کے سامنے جن کے خاندانوں کی سات پشتوں میں کوئی مزدور نہیں رہا تھا اور اگر کبھی رہا تھا تو وہ عکس مراد علی جیسا دل گردہ نہیں رکھتے تھے کہ اس کا اعتراف سب کے سامنے کر پاتے۔
شیردل ایک عجیب سی بے یقینی کی کیفیت میں خیردین کو اپنے بیچ میٹس کے ساتھ متعارف ہوتے دیکھتا رہا پھر بالآخر عکس اور خیردین اس کے سامنے آگئے تھے۔ خیردین کی آنکھوں میں وہی شناسائی جھلکی تھی۔ ایک عجیب سی ٹیس عکس کے دل میں اٹھی تھی وہ اب جانتی تھی خیردین اتنے سالوں سے کس نامعلوم لڑکے کے گن گاتا تھا۔ وہ شیردل کی زبان سے خیردین کی طرف سے کیے جانے والے خاص برتاؤ کے ذکر پر ہی چونک گئی تھی۔ اسے ایک عجیب انداز میںیقین ہوا تھا کہ خیردین جس لڑکے جیسے مرد کو اس کا جیون ساتھی دیکھنے کا خواہش مند تھا وہ ایبک شیردل ہی تھا۔ کیا عجیب دل تھا ان دونوں نانا نواسی کا۔ ایک ہی شخص پر آیا تھا اوروہ بھی اس پر جس کا ساتھ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ خیردین نہیں جانتا تھا وہ خوش گمان تھا، پرامید تھا۔ عکس جانتی تھی وہ خوش گمانیوں کو فریب سمجھتی تھی۔ امید اس جس چیز کی رکھتی تھی جو معجزے سے نہیں کوشش سے ملتی۔ اور وہی وہ ایک لمحہ تھا جب ایبک شیردل یہ جان گیا تھا کہ عکس مراد علی کو زندگی کا ساتھی بنانے کی خواہش اسے چھوڑنی پڑے گی۔ پہلے یہ کام مشکل تھا اب ناممکن تھا۔ اس کا خاندان جس حسب ونسب کا قائل تھا عکس مراد علی اب اس اسکیل پر چند درجے اور نیچے چلی گئی تھی۔
پنجاب کے ایک نامور جاگیر دار خاندان کے سپوت اور انڈین سول سروس کے ممتاز ترین آفیسرز میں سے ایک شیردل علی قلی کے پوتے کی شادی ایک لوہار خاندان سے تعلق رکھنے والے خیردین دال والے کی نواسی سے تو نہیں ہوسکتی تھی۔ شیردل ساری عمر ایجی سن اور پھر ہارورڈ میں پڑھا تھا۔ بنیادی انسانی حقوق میں مساوات کا قائل تھا تب تک جب یہ روشن خیالی اور انسانیت پسندی پاکستان سے باہر دکھانا مقصود ہوتا۔ اپنے ملک اور معاشرے میں آتے ہی وہ تمام خول اور ماسک چڑھانے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ جس کے بغیر اس ملک میں تفریق رکھنا اور شناخت کروانا مشکل ہوتاتھا محبت ایک عظیم اور لافانی جذیہ تھا وہ جذبات میں آکر جان دے سکتا تھا لیکن اپنے خاندان کی اگلی نسل کو اپنے خاندان سے کمتر خاندان کی ماں اور خون دینا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!