عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

نسرین کو اندازہ بھی نہ ہوا اور وہ بے اختیار اپنی ماں کو چومنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے سیلاب بہتا جا رہا تھا۔
وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیاہ باہمت پارہی تھی۔ مالکوں کی لعن طن، جھڑکیاں وہ ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے نکال دیتی۔
گزرتے وقت کے ساتھ بوڑھے باپ کا طنطنہ بھی جاتا رہا۔ وہ سارا دن ان کی ایمانداری کے بخار کو جواز بنا کر نسرین اور رجو پر کتے کی طرح بھونکتا۔ بھائیوں کی مار کھانے کی وہ شروع سے عادی تھی، مگر اب تو زن مرید بن کر وہ انہی کے قدموں میں لوٹتے رہتے تھے۔ سوانہیں چنداں پروا نہیں تھی کہ ماں بہن مرتی ہیں یا جی جی کر زندگی کا قرض سود سمیت ادا کر رہی ہیں۔
آج شدت کی گرمی تھی اور شاید اسی وجہ سے ٹھنڈے محلوں کے اندر لوگ بھی زیادہ جلے بھنے بیٹھے تھے۔
شگو کی غیر موجودگی میں اس کا دل بھی نہیں لگ رہا تھا اور اس کے حصے کا بھی تھوڑا بہت کام کرتے اسے شام کے پانچ بج گئے۔ اوپر سے مالکن نے نکلتے نکلتے اسے حکم صادر کیا تھا کہ چھوٹے صاحب کا کمرا بھی صاف کرنا ہے۔
وہ چھوٹی جھاڑن پکڑے کمرے میں داخل ہوئی تو بے اختیار رکنا پڑا کیونکہ اس کی توقع کے برخلاف کمرے میں ایک آدمی(جوان) موجود تھا جو یقینا چھوٹے صاحب ہی تھے۔ اس نے چار ماہ کے عرصے میں اس شخص کو پہلی بار دیکھا تھا۔
’’معاف کرنا صاب ،مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ ہو…‘‘ وہ گھبرا کر وضاحت دینے لگی۔ سامنے بستر پر دراز شخص نے سر تاپا اس کا جائزہ لیا اور پھر بے نیاز انداز میں بولا:
’’ٹھیک ہے اب تم اندر آسکتی ہو۔ وہ کچھ سوچے بغیر میکانکی انداز میں اندر بڑھی اور ریک پر بکھری کتابیں درست کرنے لگی۔
’’تمہارے گھرمیں کوئی کمانے والا نہیں ہے۔‘‘اسے اچنبھا ہوا کہ یہ سوال اسی سے کیا گیا ہے۔
’’نہیں!‘‘ اس نے مڑے بغیر جواب دیا۔
’’اوہ!‘‘ وہ شخص اب بیڈ پر بیٹھ چکا تھا ۔
’’سنو! یہ سائیڈ ٹیبل سے بھی صفائی کرو، دیکھا نہیں کتنے داغ لگ چکے ہیں۔‘‘
’’جی اچھا صاب!‘‘ اس نے حکم کی تعمیل کی۔





اور جھک کر میز پر سے چیزیں اٹھا اٹھا کر کپڑا پھیرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا دوپٹا کندھوں سے پھسل رہا تھا اور ہاتھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی لرزش پیدا ہوگئی کہ وہ اس ناہنجار شخص کی تولتی نظریں اب خود پر محسوس کررہی تھی۔
’’اچھا چلو تمہاری مشکل کا حل نکالتے ہیں۔‘‘ اس نے پرسوچ انداز میں ٹھوڑی کھجائی۔ نسرین نے نا سمجھی سے اسے دیکھا اور جب تک سمجھ آیا وہ کھڑا ہوکر اس کے بالکل قریب آچکا تھا۔ جیل سے اکڑائے گئے بال، بیہودہ سٹائل کی شیو بنوائے، ایک کان میں بالی اور ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا ناخن بڑھائے، فیشن کے طور پر پھٹی ہوئی سیاہ جینز پہنے وہ لڑکا بد مست لوگوں کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا۔
’’دو گھنٹوں کے کتنے پیسے لوگی؟‘‘
نسرین کے دل میں یک دم دھماکے ہونے لگے۔ وہ اس کے بے حد قریب آچکا تھا۔
’’ہ …ہ ہٹو صا… صاب !‘‘ نسرین نے لرزتے ہاتھوں سے اسے دھکیلا۔
’’اوہو کیا ہوگیا۔ ایک بات ہی تو پوچھی ہے۔‘‘ اس کا ہاتھ نسرین کے دوپٹے کی جانب بڑھا، تو اس نے بے اختیار اپنا سر بائیں جانب جھٹکا۔
نسرین کو لگ رہا تھا اس کے دماغ ساری تاریں (نسیں) پھٹ جائیں گی۔
’’عزت راس نہیں تجھے؟‘‘
اب کے اس نے بازو سے پکڑ کر اسے کھینچا۔ اس کے ہاتھ سے جھاڑن چھوٹ کر نیچے گرا، مگر وہ اپنی عزت کو دائو پر نہیں لگنے دے سکتی تھی۔ نسرین نے کچھ لمحوں کا توقف کیا ۔ ماں پر چاقو کے مانند ہوئے اذیت و تکلیف کے سارے وار اس پل اس کے ذہن کے گوشوں میں تازہ ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا، مگر آنکھوں میں چنگاریاں جل رہی تھی جبکہ مقابل اس کی مزاحمت کی کوشش رکتے دیکھ کر سمجھا کہ وہ راضی ہوگئی ہے۔ سو اس نے اپنی گرفت نسرین پر ڈھیلی کردی اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نسرین نے پوری قوت سے ایک تھپڑ اس کی گال پر رسید کیا اور بھاگنے لگی، مگر شاید وہ اس سب کا عادی تھا سو سنبھل کر ایک موٹی گالی اسے دے ڈالی اور پیچھے سے دوپٹے سمیت اس کو اپنی جانب کھینچا۔ وہ بے اختیار لڑھک کر اس کی بانہوں میں آگئی اور قبل اس سے کہ لمحوں میں وہ اس کی عزت کو تار تار کرتا۔ نسرین نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سامنے میز پر سجا بھاری گلدان اس کے سر پر دے مارا اور بھاگ نکلی۔ جاتے جاتے اس کے پائوں پر پڑا اپنا میلا دوپٹا وہ جھپٹنا نہیں بھولی۔
گھر لوٹی تو رجو جو بے چینی سے اس کی منتظر تھی۔ اس کا اجڑا سا حال دیکھ کرمزید پریشان ہوگئی۔
اپنی ماں سے وہ کچھ نہیں چھپا سکتی تھی سو پھولی سانسوں اور کانپتی آواز سے سارا واقعہ بیان کرگئی۔
’’میں اب دوبارہ وہاں نہیں جائوںگی۔‘‘اس کا انداز فیصلہ کن تھا۔
’’پاگل ہے تو؟ وہ غلطیاں نہ کر جو مجھ سے ہوئیں۔ کل کو تیری اولاد کے ساتھ سوہنا رب نہ کرے کچھ ایسا ویسا پیش آیا، تو کیا وہ بھی اسی طرح ہمت ہار دے گی؟ ہر تاریخ دہرائے جانے کے قابل نہیں ہوتی بلکہ ہر تاریخ سے سبق سیکھے جاتے ہیں، عبرت حاصل کی جاتی ہے۔ وہ مشٹنڈا تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، تو اس کے رعب میں نہ آنا۔ اگر وہ مرد ہوتا، تو یوں حرامی کام نہ کرتا، تو جا میری شہزادی۔ اس کا سامنا کرنا پڑے تو گھبرائیں نہ بلکہ اس کو جتا دینا کہ تو کون ہے۔ وہ تجھے پکھی واس ضرور سمجھے پر ذلیل نہیں۔
اور کچھ لمحے قبل ہی کیا گیا نسرین کا فیصلہ مٹی کی ڈھیری ثابت ہوا کہ اس رات ماں کی باتوں نے گویا اس کی روح کو لگے زخم پر پھاہا رکھ دیا تھا اور پھر وہ وہاں گئی تھی۔ پہلے سے زیادہ مضبوط چال لے کر، چوکنی ہوکر، آنکھوں میں مقابل (مرد) کو پیروں کی دھول سمجھنے والے تاثرات لے کر اس نے مالکن کے گیٹ کی گھنٹی بجائی۔
’’نسرین تو کل کتنے بجے نکلی تھی۔‘‘ یہاں سے وہ بکھراوا سمیٹ رہی تھی جب کولہے پر ہاتھ رکھے مالکن وہاں نمودار ہوئی۔
’’ساڑھے پانچ بجے جی۔‘‘ دھیمی آواز میں جواب آیا۔
’’اور چھوٹے صاحب کب گئے؟‘‘
’’پتا نہیں جی میں ان سے پہلے نکل گئی تھی۔‘‘ سپاٹ انداز میں اس نے اگلا جواب دیا ۔
’’وہ گلدان کیسے ٹو…‘‘
’’ہاں جی وہ مجھ سے ٹوٹاتھا بیگم سیبہ۔‘‘ دوٹوک، نڈر لہجہ اور بیگم صاحبہ اس کی صاف گوئی پر ششدر رہ گئیں۔
’’آئندہ چھوٹے یا بڑے صاحب گھر پر ہوں تو باورچی خانے سے باہر نکلنے کی قطعاً ضرورت نہیں اور شگو کو بھی سمجھا دینا۔‘‘ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ سنبھل گئی۔
’’یہ میری ہمت ہے جو برداشت کرتی ہوں تم جیسے لوگوں کو ورنہ تم لوگوں کی میل اور بدبو۔ توبہ!‘‘ مالکن نے ازراہِ احتیاط شگو کا نام بھی لیا۔ چہرے پر تحقیرانہ تاثرات تھے کہ وہ معمولی دو ٹکے کی پکھی واسنی کے سامنے خود کو ہلکا نہیں کرسکتی تھی۔
آخر کو ماں تھی۔ اپنے چہیتے بیٹے کی آوارہ عمر کے بے قابو ہوتے شوق سے وہ بخوبی واقف تھی، مگر وہ اس بات پر مطمئن تھی کہ کسی بھی طرح سے بچ بچا ہوگیا۔
نہ بات اچھلی نہ شعلے اُڑے اور نہ ہی کوئی اس کی زد میں آیا۔
رجو نے اپنی عزت کوقربان کیا تھا۔ اس نے اپنی جوانی رول دی کہ اس کی ماں کم ہمت تھی، مگر بے غیرت نہیں تبھی رجو کا غم اسے دیمک کی طرح کھاگیا، مگر اس کی ماں کی دعائیں رد نہ ہوئی تھیں کہ بالآخر اس کی بیٹی کی نسل نے الگ راستہ اپنا کر نئی منزل کو پانے کی جستجو شروع کردی تھی۔ نسرین نے اپنی عصمت کو ہاتھ سے جانے دیا نہ اپنی ماں کی قربانی کو آگ میں جھونکا تھا بلکہ اس نے برحق تدبیروں سے اپنی تقدیر سنوارنے کی جدوجہد کی تو رب کے حضور بھی اس کی کوششیں مستعجاب ہوئیں کہ جو جستجو کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔
آج وہ گھر لوٹی تو بے اختیار رجو کے سینے سے جالگی۔ رجو اس کے چہرے کی طمانیت اور آنکھوں کے نرم تاثر سے ساری کہانی سمجھ گئی۔ رجو کا یقین پختہ ہوچلا تھا کہ وہ دونوں جلد ہی اس جھونپڑی سے نکل کر نارمل انسانوں کے معاشرے میں قدم رکھ سکیں گی کیوں کہ اس کے دیرینہ خواب میں اب اس کی بیٹی بھی اس کی ہم سفر بن چکی تھی کہ اب انہیں محنت، ایمانداری اور عزت کے سِکوں کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا تھا اور وہ دونوں ان سکِوں سے مٹھی بھرے آگے بڑھنے کا خواب لے کر تہذیب یافتہ معاشرے میں قدم رکھنے کے لیے کمر بستہ ہوچکی تھیں کہ یہ جو خواب ہیں یہ …
خواب مرتے نہیں ۔
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں
کہ جو ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں…
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب سقراط ہیں
خواب منصور ہیں
خواب مرتے نہیں !
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!